0
Sunday 22 Jun 2014 00:45

آپریشن ضرب عضب کی کامیابی کیلئے ملک بھر میں دہشتگردوں کیخلاف کاروائی کرنا ہو گی، سردار محمد اسلم بزنجو

آپریشن ضرب عضب کی کامیابی کیلئے ملک بھر میں دہشتگردوں کیخلاف کاروائی کرنا ہو گی، سردار محمد اسلم بزنجو

سردار محمد اسلم بزنجو صوبہ بلوچستان کے محکمہ زراعت کے وزیر ہیں۔ آپ بزنجو ہاؤس خضدار میں پیدا ہوئے۔ گذشتہ انتخابات میں خضدار کے حلقہ پی بی 34 سے رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے۔ آپ نے گذشتہ انتخابات میں بحیثیت آزاد امیدوار حصہ لیا۔ صوبہ بلوچستان کے حکومتی معاملات، صوبے میں امن و امان کی صورتحال اور سیاسی تاریخ کے حوالے سے ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے نہایت مختصر انٹرویو کیا، جو قارئین کے لئے پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: حکومت میں آنے کے بعد امن و امان میں بہتری کے سلسلے میں کس حد تک پیشرفت ہو پائی ہے۔؟
سردار محمد اسلم بزنجو: جب ہم نے حکومت سنبھالی تو بنیادی طور پر حکومت کو تین قسم کے جرائم کا سامنا تھا۔ جن میں بلوچ مسلح تنظیموں کی آزادی کی جنگ، مذہب کے نام پر دہشتگردی اور بلوچستان کی شاہراہوں‌ پر ڈاکوؤں کی سرگرمیاں تھی۔ لہذٰا ہم نے ان تینوں جرائم کیلئے تین مختلف لائحہ عمل اختیار کئے۔ اب مختلف شاہراہوں پر جو عناصر امن و امان کا مسئلہ پیدا کر رہے تھے تو ہم نے ان پر کافی حد تک قابو پا لیا ہے۔ دوسرا مذہب کے نام پر جو دہشتگردی کی جا رہی تھی، ہم نے اس پر بھی کافی حد تک قابو پانے کی کوشش کی ہے۔ چند ایک واقعات ضرور ہوئے ہیں، لیکن مجموعی طور پر کوئٹہ میں اگر ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کو لے لیں، تو اس میں کافی حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ تیسرے نمبر پر بلوچ مسلح تنظمیوں کا معاملہ ہے، جسے اے پی سی میں وزیراعلٰی بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو تمام تر اختیارات دے دیئے گئے ہیں اور ہماری خواہش بھی ہے کہ خصوصاً بلوچوں کے مسائل کو مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے۔

اسلام ٹائمز: بلوچ مسلح تنظیموں‌ میں سے اب تک کسی گروہ سے بات چیت ہو پائی ہے۔؟
سردار محمد اسلم بزنجو: دیکھئے میں مذاکرات کے اس معاملے کو میڈیا میں بیان نہیں کرنا چاہتا کیونکہ ہمیں خدشہ ہیں کہ مذاکرات جیسے حساس معاملے پر میڈیا میں بات کو پھیلا کر بنے، بنائے کھیل کو خراب نہ کر دیں۔

اسلام ٹائمز: مذہبی دہشتگردی کا مسئلہ کب حل ہو گا۔؟
سردار محمد اسلم بزنجو: کوئٹہ ہمارا درمیان کا شہر ہے۔ یہاں سے جب مستونگ جائینگے تو وہاں‌ سے تین راستے نکلتے ہیں۔ ان راستوں میں سے ایک تفتان کی طرف جاتا ہے۔ اس سے قبل مستونگ میں بلوچوں کے مسخ شدہ لاشیں پھینکی جاتی تھی لیکن اب یہ معاملہ کافی حد تک بہتر ہو چکا ہے۔ دوسری جانب سب سے اہم مسئلہ وہاں پر موجود لشکر جھنگوی جیسے دہشتگردوں سے ہے۔ بنیادی طور پر صوبے میں کسی بھی قسم کی فرقہ واریت وجود نہیں رکھتی۔ یہ تمام مسئلے پنجاب کے آئے ہوئے دہشتگردوں کی وجہ سے ہیں۔ مستونگ کافی بڑا علاقہ ہے۔ اسکے علاوہ افغانستان کے ساتھ بھی ہمارا بارڈر کھلا ہوا ہے لیکن اصل مسئلہ وفاق کیساتھ ہے۔ جب تک وفاقی سطح پر ان دہشتگردوں کیخلاف کاروائی نہیں‌ کی جاتی تب تک یہ مسائل یونہی رہیں گے۔ 9/11 واقعہ کے بعد امریکہ کی سرزمین پر پہلی جنگ لڑی گئی۔ اب اس کو لپیٹنے میں وقت لگے گا۔ مدرسے کی سیاست ہمارے ملک اور صوبے میں آ گئی تھی۔ بانی پاکستان نے خود کہا تھا کہ پاکستان میں مکمل مذہبی آزادی حاصل ہوگی۔ تاہم چند عناصر نے اپنے ذاتی مفادات کی وجہ سے یہاں پر فرقہ واریت کی آگ لگانے میں کوئی کسر نہیں اٹھائی۔

اسلام ٹائمز: آپریشن ضرب عضب کے شروع ہونے کے بعد کیا بلوچستان میں بھی دہشتگردوں کیخلاف کاروائی ہوگی۔؟
سردار محمد اسلم بزنجو: طالبان کیساتھ اگر مسائل بات چیت سے حل ہو جاتے تو بہتر تھے لیکن اب جبکہ ریاست نے فیصلہ کرلیا ہے کہ شمالی وزیرستان میں دہشتگردوں کیخلاف کاروائی کرینگے تو ملک میں اسکا دائرہ پھیلانا ہوگا۔ اصل مسئلہ شمالی وزیرستان نہیں بلکہ پورے ملک کے شہروں میں پناہ لینے والے دہشتگردوں سے ہیں۔ ریاست کی اصل جنگ تو پاکستان بھر کے چھوٹے بڑے شہروں میں آباد دہشتگردوں کیخلاف ہوگی۔ اور اس آپریشن کی کامیابی اسی میں ہے کہ ریاست پورے ملک میں انکے خلاف کاروائی کرے۔

اسلام ٹائمز: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ریاستی ادارے اب صوبے میں صوبائی حکومت کی اجازت کے بغیر مداخلت نہیں کرتے۔؟
سردار محمد اسلم بزنجو: اگر آپ تمام ریاستی اداروں کی بات کریں تو ایسا ممکن ہی نہیں۔ مختلف ادارے صوبائی حکومت کے ماتحت ہیں جبکہ بعض ادارے وفاقی حکومت کے ماتحت۔ اس سے قبل ڈیتھ اسکواڈ کے نام سے پرائیوٹ مسلح تنظیمیں بنائی گئی تھی لیکن اب ان تنظیموں میں کافی حد تک کمی واقع ہو گئی ہے۔ لہذٰا ہم کہہ سکتے ہیں کہ صوبائی حکومت کے معاملات میں اب زیادہ مداخلت نہیں ہوتی۔

اسلام ٹائمز: موجودہ حکومت اور سابقہ حکومتوں میں کیا واضح فرق ہے۔؟
سردار محمد اسلم بزنجو: بلوچستان جو سرحدی اعتبار سے افغانستان اور ایران کے پڑوس میں واقع ہے۔ اسکی اپنی منفرد تاریخی حیثیت ہمیشہ برقرار رہی ہے۔ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ بلوچستان برصغیر کا حصہ کبھی نہیں تھا۔ ایک علاقہ آزاد اور دوسرا سرداری نظام کے ماتحت، جہاں‌ دوسروں کی دخل اندازی نہیں تھی۔ اب بھی ایسا ہی ہیں۔ دوسرا علاقہ 1876ء میں افغانستان سے چھینا گیا تھا۔ شروع میں بلوچستان کا لفظ بھی انہی علاقوں کیلئے استعمال ہوا تھا۔ برٹش بلوچستان میں انگریزوں نے اپنے مفادات اور ضروریات کیلئے ریلوے لائن بچھائی۔ سڑکیں تعمیر کیں۔ کول مائنز، ایری گیش سسٹم، اسکول، ہسپتال جن جن علاقوں میں جو ضروریات تھی باہم پہنچائی۔ برٹش بلوچستان "گریٹ گیم" کا حصہ تھا۔ انگریزوں نے پہلی مرتبہ مستقل بارڈر کا تعین کیا۔ اس دور میں تعلیم کی یہ حالت تھی کہ کوئٹہ میں صرف سنڈیمن ہائی اسکول قائم تھا جبکہ خانوزئی اور گلستان اسکول 1911ء میں‌ تعمیر ہوئے۔ بلوچستان کے بعض علاقے تاریخی اعتبار سے افغانستان کے زیرانتظام تھے۔ یہاں گذشتہ دو ہزار سالوں سے برادر ہمسایہ اقوام کے طور پر بلوچ اور پشتون آباد ہیں۔ یہاں مذہبی فرقہ پرستی کبھی نہیں رہی اور نہ ہی بلوچ پشتون اقوام میں مذہب کی بنیاد پر رشتے قائم ہوئے۔ ون یونٹ کے ٹوٹنے کے بعد ریاست قلات اور برٹش بلوچستان پر مشتمل موجودہ صوبہ بلوچستان بنانے کی وجہ سے بلوچ اور پشتون برادر اقوام میں کچھ سیاسی اور انتظامی اختلافات پیدا ہوئے۔ جو صرف بجٹ اور ترقیاتی منصوبوں، سرکاری ملازمتوں تک محدود ہیں۔ ون یونٹ کے خاتمے، صوبائی حیثیت کی بحالی، جمہوریت کے قیام کیلئے تمام اقوام نے جدوجہد اور قربانیاں دیں۔ ہر سیاستدان کا اپنا حلقہ انتخاب ہوا کرتا ہے۔ اسے اپنے حلقے کے مسائل کو حل کرنے کی طرف توجہ دینی چاہیئے۔

ون یونٹ کے دور میں کمشنر ہوا کرتا تھا بجٹ بھی کم، مگر وہ بھی مکمل خرچ نہیں ہو پاتا تھا۔ سرپلس کرکے فنڈز واپس بھجوا دیئے جاتے تھے۔ امن و امان برقرار رکھنا علاقے کے سردار یا قبائلی شخصیت کی ذمہ داری تھی۔ جنہیں‌ حکومت سرکاری فنڈز سے رقوم فراہم کرتی۔ خان عبدالصمد اچکزئی نے پہلی مرتبہ یہ معاملہ اس وقت کے الیکشن کمیشن کے سامنے اٹھایا تھا کہ سرکاری ملازمین انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتے۔ لیکن بعد میں ان کے اس موقف کو بعض سیاسی حلقوں میں پذیرائی بھی ملی تھی۔ تقسیم برصغیر سے قبل دو جماعتیں تھی۔ انجمن وطن اور جمعیت علماء ہند دونوں تقسیم ہند کے خلاف تھیں۔ ان کی سیاسی جدوجہد تاریخی لحاظ سے مسلم لیگ سے پہلے کی ہے۔ ون یونٹ دور کی زیادتیوں‌ اور ناانصافیوں‌ کی وجہ سے کارکنوں‌ کی بڑی تعداد کا جھکاؤ دائیں بازو کی جانب ہو گیا تھا۔ سیاسی طور پر بلوچستان کے لوگ پنجاب، سندھ اور پختونخوا سے قبل ہندوستان کی سیاست میں بھرپور حصہ لیتے رہے۔ 1930ء میں نواب مگسی نے آل بلوچستان کانفرنس بلائی تھی اور انجمن وطن کو بھی شرکت کیلئے مدعو کیا گیا تھا۔ خان عبدالصمد اچکزئی نے اس کانفرنس کی صدارت کی تھی۔ جنہوں نے صوبے کے عوام کے سیاسی و معاشی حقوق کیلئے 1925ء میں بھرپور سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا۔ اور انکا بنیادی نقطہ یہ تھا کہ متحدہ ہندوستان کے دیگر صوبوں یا علاقوں کو جو قانونی حیثیت و اختیارات اس وقت حاصل تھے۔ وہ اس صوبے کے عوام کو بھی دینے چاہئیں۔ لہذا ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ پہلی مرتبہ پشتون اور بلوچ کے عوامی نمائندوں نے حکومت سنبھالی ہے، جوکہ ترقی کی جانب اہم قدم ہے۔

خبر کا کوڈ : 394159
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش