1
0
Sunday 19 Apr 2015 04:51
یمن ایشو پر پاکستان غیر جانبدار رہے

یمن جنگ کا طول یا پھیلاؤ سعودی عرب اور خلیجی ملکوں کے مفاد میں نہیں ہے، اکرم ذکی

یمن کے کچھ علاقے اب بھی سعودی عرب کے پاس ہیں
یمن جنگ کا طول یا پھیلاؤ سعودی عرب اور خلیجی ملکوں کے مفاد میں نہیں ہے، اکرم ذکی
سینیٹر (ر) محمد اکرم ذکی پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ایک بہت بڑا کردار ہیں۔ ملکی تاریخ میں اب تک دو شخصیات کو فارن سیکرٹری جنرل ہونے کا اعزاز حاصل ہوا ہے جن میں ایک اکرم ذکی صاحب ہیں۔ انہوں نے چین، امریکہ، نائیجریا اور فلپائن کے علاوہ دنیا کے متعدد ممالک میں پاکستان کے سفیر کی حیثیت سے نمایاں خدمات سرانجام دی ہیں۔ ان کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ ان سے تربیت پانے والے وزارت خارجہ کے کئی افسران نے قابلیت کے بل بوتے پر اعلٰی ترین عہدوں پر رسائی حاصل کی۔ سابق سینیٹر اکرم ذکی 1991ء سے 1993ء تک وزارت خارجہ کے سیکرٹری جنرل کے عہدے پر فائز رہے جو کہ وزیر مملکت کے برابر شمار کیا گیا۔ 1997ء سے 1999ء تک سینیٹ کی خارجہ کمیٹی کے چیئرمین اور نیشنل ایجوکیشن کمیشن کے وائس چیئرمین رہے ہیں۔ سابق سینیٹر اکرم ذکی انجمن فروغ تعلیم کے بانی صدر بھی ہیں۔ ان کو پاکستان یورپ فرینڈ شپ ایسوسی ایشن کے بانی صدر ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔ صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں انہوں نے پاکستان انٹرنیشنل ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کی بنیاد رکھی۔ آج بھی پاکستان کی خارجہ پالیسی اور اہم فیصلوں میں ان کی رائے کو معتبر سمجھا جاتا ہے۔ اسلام ٹائمز نے اپنے قارئین کے لئے اکرم ذکی صاحب سے یمن پر سعودی عرب کے حالیہ حملے کے حوالے سے ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا جو کہ پیش خدمت ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: اسلامی دنیا کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کی کیا نوعیت ہے۔؟
اکرم ذکی:
ایک مضبوط فوجی قوت اور جوہری طاقت ہونے کے باوجود پاکستان نے ہمیشہ دوسرے اسلامی ممالک سے اتحاد اور دوستی کی بنیاد پر تعلقات کو فروغ دیا ہے۔ اسلامی دنیا میں پاکستان کا کردار کسی ملک کے خلاف کبھی جارحیت پر مبنی نہیں رہا، بلکہ ہمیشہ ہی مسلم ملکوں سے تعلقات کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ ان ممالک کے درمیان پائے جانے والے تنازعات کو بھی خوش اسلوبی سے حل کرنے میں انتہائی اہم کردار ادا کرتا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک جانب پاکستان کے عمان، سعودی عرب، عرب امارات، کویت، بحرین، قطر کے ساتھ دفاعی تعاون کے معاہدے موجود ہیں، تو دوسری جانب ایران، ترکی، وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ بھی انتہائی قریبی تعلقات ہیں۔ خلیجی ممالک بشمول سعودی عرب کے ساتھ دیرینہ اور گہرے مراسم کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ نہ صرف لاکھوں کی تعداد میں پاکستانی افرادی قوت ان ممالک میں موجود ہے، بلکہ پاکستان نے ان ممالک کی ترقی و استحکام کیلئے کلیدی کردار بھی ادا کیا ہے۔ ان ممالک میں بینکنگ، آئی ٹی، فضائی سروس، زراعت، انتظامی و سکیورٹی اداروں کی تشکیل، عسکری تربیت، انٹیلی جنس تربیت سمیت ہر میدان میں پاکستان نے ایک بھائی کا کردار ادا کیا ہے۔ اسلامک جمہوریہ پاکستان، اسلامک جمہوریہ ایران اور برادر ملک ترکی کے درمیان 1985ء سے اقتصادی تعاون کی تنظیم کے ذریعے مختلف شعبوں میں تعاون جاری ہے۔ جس کا صدر دفتر تہران میں ہے۔ 1992ء میں سوویت یونین سے الگ ہونے والی اسلامی ریاستوں اور افغانستان کو بھی اس تنظیم میں شامل کر لیا گیا اور وسیع پیمانے
پر ان کے درمیان تعاون ہے۔ پاکستان خلیجی ریاستوں میں بھی استحکام چاہتا ہے اور شمالی افریقہ کی مسلم ریاستوں کی آزادی کیلئے بھی پاکستان کا کلیدی کردار رہا ہے۔ فلسطین کے معاملے پر پاکستان آج بھی اپنے بانی قائداعظم کی پالیسی پر گامزن ہے، اور اس نے اسرائیل کو نہ ہی تسلیم کیا اور نہ ہی اس سے تعلقات قائم کئے، یہ الگ بات ہے کہ بعض عرب ممالک اپنے اصولی موقف سے ہٹ کر اسرائیل سے تعلقات قائم کرچکے ہیں اور ان تعلقات کو فروغ بھی دے رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: یمن کے حالیہ واقعات کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔؟
اکرم ذکی:
یمن ایک طویل تاریخ کا حامل عرب دنیا کا شائد وہ واحد ملک ہے، جس نے جمہوریت کی جانب قدم بڑھانے کی کوشش کی ہے۔ بھرپور جنگی، قبائلی اور اسلامی تاریخ کا امین ہونے کے ساتھ ساتھ یمن کو اصحاب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سرزمین ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔ حضرت اویس قرنی، حضرت عمار بن یاسر، حضرت مقداد سمیت کئی اصحاب رسول (ص) کا تعلق یمن سے تھا۔ تاریخ میں یمن کا ذکر 1200 قبل مسیح میں بھی ملتا ہے۔ یہاں کے قبائل کی تاریخ پاک افغان سرحدوں پر بسنے والے قبائل سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔ قبائلی رسم و رواج اور روایات میں بندھے یہاں کے باشندے ہتھیار کو اپنی شان اور خنجر کو اپنا زیور سمجھتے ہیں۔ انتہائی نامساعد اور قلیل وسائل کے باوجود یہاں کے قبائل نے کسی جارح طاقت کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے۔ اپنی جنگجویانہ سرشت کے باعث یمن کے قبائل زیادہ تر مصروف جنگ ہی رہے۔ رومنز بھی یمن پر حملہ آور ہوئے تھے، مگر بڑی مشکلوں سے جانیں بچا کر واپس نکلے تھے۔ سلطنت عثمانیہ جب اپنے بام عروج پر تھی تو سولہویں صدی میں اس نے یہ علاقہ فتح کیا، مگر ان کے خلاف بغاوت رہی اور رومنز کی طرح ان کے بھی کئی بڑے جرنیل مارے گئے، یہاں تک کہ ان کو بھی بالآخر یہاں سے جانا پڑا۔

2011ء میں تیونس، مصر سے جو عرب سپرنگ اٹھی تو اس نے لامحالہ یمن کو بھی متاثر کیا۔ ملک میں غربت، بیروزگاری، پسماندگی کے خلاف قبائلی عوام سڑکوں پر نکلنے لگے۔ حکومت کے خلاف جاری ان مظاہروں میں زیدیہ (شیعہ) اور اہلسنت دونوں ہی شریک تھے۔ علی عبداللہ صالح کو چونکہ سعودی عرب کی سرپرستی حاصل تھی۔ اس لیے ان مظاہرین کے خلاف طاقت کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ جس میں تقریباً دو ہزار افراد قتل ہوئے۔ سات ہزار کے قریب افراد کو جیلوں میں ڈالا گیا۔ طاقت کے استعمال کے باوجود عوام ثابت قدم رہے، جس کے نتیجے میں علی عبداللہ صالح کو اقتدار سے محروم ہونا پڑا۔ صالح کے بعد اسی کے نائب منصور ہادی کو تین سال کیلئے نگران صدر مقرر کیا گیا۔ سیاسی طور پر غیر مستحکم یمن میں القاعدہ کو جگہ بنانے کا زیادہ موقع ملا۔ منصور ہادی کی حکومت کے خلاف بھی عوامی احتجاج جاری رہا۔ صدر منصور مستعفی ہوکر پہلے عدن گیا۔ جہاں اس نے اعلان کیا کہ وہ استعفٰی واپس لیتا ہے اور اس کے بعد سعودی عرب چلا گیا۔ اگلے ہی روز ریاض میں جی سی سی کا اجلاس بلاکر یمن پر حملے کی تجویز پیش کی گئی۔ جس کے بعد واشنگٹن میں مقیم سعودی عرب کے سفیر نے اپنی
پریس کانفرنس میں منصور ہادی کی درخواست پر یمن پہ حملوں کا اعلان کر دیا۔ اگلے دن سعودی عرب اور عرب اتحادیوں نے یمن پر حملے شروع کئے۔ جس میں اب تک ہزاروں افراد اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔ جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔

اسلام ٹائمز: یمن پر سعودی عرب کے حملے کی بنیادی وجودہات کیا ہوسکتی ہیں۔؟

اکرم ذکی: بیسویں صدی میں نجدی خاندان کو خوب ترقی و شہرت ملی۔ 1902ء میں ابن سعود نے نجد کے صدر مقام ریاض پر قبضہ کرلیا۔ جس کے بعد کچھ ہی عرصے میں اس نے باقی نجد بھی فتح کر لیا۔ 1913ء میں خلیج فارس کے ساحلی صوبے الحساء پر جو کہ سلطنت عثمانیہ کے زیر اثر تھا، اس پر قبضہ کیا۔ اس دوران یورپ میں پہلی جنگ عظیم شروع ہوئی۔ جس کے دوران ابن سعود نے برطانیہ سے تعلقات قائم کئے اور ترکوں کے خلاف کارروائیاں شروع کر دیں۔ حجاز میں شریف حسین آف مکہ کی حکومت تھی۔ برطانیہ کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینے کے علاوہ جنگ عظیم کے بعد ابن سعود نے حجاز پر بھی حملہ کرکے قبضہ کرلیا، اور 1926ء میں اپنی بادشاہت کا اعلان کیا۔ بادشاہت کے اعلان کے بعد ابن سعود کی جانب سے فتوحات کا سلسلہ جاری رہا اور بالآخر 1932ء میں سلطنت سعودی عربیہ کا اعلان کر دیا۔ اس دوران مزید پیش قدمی کرتے ہوئے یمن کے کئی علاقے عسیر، نجران، جازان وغیرہ اپنی سلطنت میں شامل کرلئے۔ سعودی عرب اور یمن کے درمیان جنگ جاری رہی، جس کا نتیجہ 1934ء میں طائف معاہدے کی صورت میں سامنے آیا۔ اس معاہدے کی انتہائی اہم بات یہ تھی کہ پہلی مرتبہ سعودی عرب اور یمن کے درمیان سرحد کے تعین کیلئے اتفاق رائے پایا گیا۔ یمن کے جو علاقے سعودی عرب کے پاس تھے، ان پر بھی یمن کا حق تسلیم کیا گیا اور یمنیوں کو سعودی عرب میں داخل ہونے اور کام کرنے کی اجازت دی گئی۔ یہ تیل کے پیداواری علاقے بھی ہیں۔ آخر کار 2000ء میں 1934ء کے معاہدے کی دوبارہ تصدیق ہوئی اور سرحد کا تعین کرلیا گیا۔ یمن کے ساحل بھی اسٹریٹیجک پوائنٹ آف ویو سے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ جس کے باعث یمن میں سعودی عرب اپنی مرضی کی حکومت قائم رکھنا چاہتا ہے۔ یمن کے کچھ علاقے اب بھی سعودی عرب کے پاس ہیں۔

اسلام ٹائمز: یمن کے ساحل اسٹریٹیجک اہمیت کے حامل ہیں، وضاحت سے بیان فرمائیں۔؟
اکرم ذکی:
یمن کے مغربی کنارے پر واقع تنگ بحری راستہ باب المندب انتہائی اہمیت رکھتا ہے، اور مشرق وسطٰی سے نکلنے والا تیل اپنی منزل یورپ کے لئے پہلے آبنائے ہرمز (جو ایران اور عمان کے درمیان واقع ہے) سے ہوتا ہوا، اسی تنگ بحری راستے پر پہنچتا ہے اور پھر اگلے مرحلے پر نہر سویز سے نکل کر یورپ کی طرف جاتا ہے۔ اس تنگ بحری راستے سے سالانہ 20،000 بحری جہاز گزرتے ہیں۔ یعنی یورپ سے افریقہ تک کا مختصر ترین ٹرانزٹ پوائنٹ ہے۔ بحیرہ قلزم اور بحرہند کو جوڑنے والی مصرف ترین آبی گزرگاہ کی اہمیت کا اندازہ یوں بھی لگایا جاسکتا ہے، کہ یہ یورپ اور افریقہ کے درمیان مختصر ترین تجاری راستہ ہے۔ بحیرہ احمر میں ایک جانب مصر، سوڈان، اریٹیریا اور جبوتی ہیں، جبکہ دوسری جانب سعودی عرب اور یمن واقع ہیں۔ بحیرہ
احمر میں کچھ جزائر بھی ہیں۔ 1995ء میں اریٹیریا آزاد ہوا تو جزیروں کے تنازعہ پر یمن اور اریٹیریا کی آپس میں لڑائی ہوگئی۔ اسی طرح یمن کے کچھ جزائر ایسے بھی تھے، جس پر سعودی عرب کے ساتھ جھگڑا تھا، اور ان جزیروں پر بھی یمن کے حق کو زیادہ تسلیم کیا گیا۔ باب المندب ایشیاء اور افریقہ کے درمیان بھی آبی گزر گاہ ہے۔ سعودی عرب کو اس مقام پر سب سے بڑی مشکل یہ درپیش ہے کہ جن سمندروں سے اس کے ساحل ملتے ہیں۔ ان کی اصلی آبی گزرگاہیں دوسرے ممالک کے کنٹرول میں ہیں۔

اسلام ٹائمز: آپکی نظر میں یمن کے حالیہ قضیئے میں پاکستان کا کیا کردار ہونا چاہیے۔؟
اکرم ذکی:
عرب اتحاد کی جانب سے جب یمن پر حملوں کا اعلان کیا گیا تو اس موقع پر ان تمام ممالک کے جھنڈے موجود تھے۔ جو اس جنگ میں شریک تھے۔ ان جھنڈوں میں پاکستان کا پرچم بھی شامل تھا۔ بین الاقوامی میڈیا نے اس پرچم کو نہ صرف فوکس کیا، بلکہ یہ خبر بھی جاری کر دی کہ حملہ آور فضائی دستوں میں پاکستان کے طیارے بھی شامل ہیں۔ جس کی بعد میں پاکستان نے تردید کی۔ دوسری جانب سعودی عرب کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ پاکستان اس جنگ میں ان کا اتحادی ہے۔ جس کا سب سے خطرناک نتیجہ یہ برآمد ہوا، کہ یمن میں مقیم پاکستانیوں کی زندگیاں خطرے سے دوچار ہوگئیں اور انہیں یمن سے فوری طور پر انخلاء کرنا پڑا۔ عالمی میڈیا کے اعلان کے باوجود یمن میں مقیم پاکستانیوں کو حوثیوں نے کوئی نقصان نہیں پہنچایا۔ جس کا برملا اظہار یمن سے آنے والے پاکستانیوں نے بھی کیا۔ یمن کی جنگ میں پاکستان کی فوجی شرکت کا مطالبہ سامنے آنے کے بعد مختلف سیاسی جماعتوں کا ردعمل بھی سامنے آیا، اور بلآخر ایک قرارداد منظور ہوئی۔ جس میں سعودی عرب کے تحفظ کیلئے اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کا اعادہ کیا گیا، اور یمن کی جنگ میں غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ کیا گیا۔ پاکستان کا یہ فیصلہ انتہائی اصولی اور سفارتی قواعد و ضوابط کے عین مطابق تھا۔ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل چالیس میں بھی واضح طور پر درج ہے کہ پاکستان اسلامی دنیا کے ممالک کے ساتھ اتحاد کی بنیاد پر دوستانہ اور بردارانہ تعلقات قائم رکھے۔ ان میں اگر کوئی اختلافات پیدا ہوں تو ان کو پر امن طریقے سے حل کرنے کو ترجیح دے۔ اس کے علاوہ پاکستانی افواج ضرب عضب میں مصروف ہیں۔ ملک کے اندر دہشت گردی اور دہشت گردوں کا خاتمہ ہمارے لئے ایک چیلنج ہے۔ بقاء کی اس جنگ کو ہمارے لئے جیتنا انتہائی ضروری ہے۔

دوسری جانب ہندوستان ہماری مشرقی سرحدوں پر جارحانہ کارروائیوں میں مصروف ہے۔ یہی ہندوستان ہماری مغربی سرحد کو بھی غیر محفوظ بنانے کیلئے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے۔ بلوچستان اور کراچی میں ہونے والی تخریب کاری میں اس کے ملوث ہونے کے واضح شواہد موجود ہیں۔ ہمارے ملک کے حالات اس امر کے ہرگز متحمل نہیں کہ ہم یمن کی جنگ میں فریق بنیں۔ ہم اسلامی دنیا کی اکلوتی جوہری طاقت ہیں۔ ہماری جوہری طاقت کے اوپر تمام بڑی طاقتیں نظریں جمائے بیٹھی ہیں۔ ہمیں کوئی بھی ایسا اقدام لینے سے اجتناب کرنا
ہوگا، کہ جس کے باعث یہ طاقتیں ہمیں غیر ذمہ دار جوہری طاقت سمجھیں۔ یمن کی جنگ کے بارے میں عمان سعودی عرب کے اتحاد کا حصہ نہیں ہے۔ ایران اور ترکی نے بھی مسئلہ کے پرامن حل کی ضرورت پر زور دیا ہے اور جنگ بندی کی تجویز پیش کی ہے۔ عرب ملک عراق کے وزیراعظم نے بھی اس جنگ کی مخالفت کی ہے۔ جنگیں کبھی مسائل کا حل ثابت نہیں ہوتیں۔ عرب ممالک نے مشترکہ عرب فورس کے قیام کا اعلان بھی کیا ہے۔ پاکستان عرب ملک نہیں ہے، جس کی وجہ سے وہ اس فورس کا حصہ نہیں بن سکتا۔ یمن پر حملے سے قبل ریاض میں جی سی سی کی کانفرنس بلائی گئی۔ اگر او آئی سی کی کانفرنس بلائی جاتی تو اس میں پاکستان بھی شامل ہوتا اور اسلامک فورس کا قیام عمل میں آتا تو پاکستان اس میں ضرور شریک ہوتا۔

اسلام ٹائمز: یمن مسئلہ پر پاکستان نے غیر جانبدار رہنے کا اعلان کیا، جسکے جواب میں انتہائی سخت ردعمل سامنے آیا، سفارتی سطح پر اسکی کتنی گنجائش موجود ہے۔؟
اکرم ذکی:
پارلیمنٹ کی متفقہ قرارداد سامنے آنے کے بعد برادر دوست ممالک کی جانب سے جو ردعمل سامنے آیا، یقینی طور پر اس سے پاکستان کے عوام کے جذبات کو ٹھیس پہنچی، اور سفارتی اصولوں کے بھی منافی تھا۔ یمن کی جنگ میں غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ یوں بھی ضروری تھا کہ بیرونی قوتیں اس جنگ کو فرقہ وارانہ ثابت کرنے پر کمربستہ ہیں۔ پاکستان میں دونوں مسالک موجود ہیں اور دونوں کے درمیان افہام و تفہیم و بھائی چارے کی فضا پائی جاتی ہے۔ لہذا یمن کے مسئلہ میں کسی بھی ایک فریق کی حمایت ہمارے لئے داخلی مسائل کو بھی جنم دے سکتی تھی۔ ویسے بھی جب ہمارے اوپر حملے ہوئے تھے تو کس کس ملک نے ہمارے دفاع کیلئے کتنی فوج بھیجی تھی۔ کس کس ملک نے جنگوں میں ہماری کتنی مدد کی تھی۔ بھارت کے ساتھ ہونے والی جنگوں میں جن ملکوں نے ہماری مدد کی۔ ہم اس مدد کے شکر گزار ہیں اور ان تمام ممالک کا احترام کرتے ہیں۔ پاکستان پہلے بھی امن کے قیام کے لئے کردار ادا کرتا رہا ہے اور آئندہ بھی کرتا رہے گا۔

اسلام ٹائمز: ملک کے اندر تحفظ حرمین شریفین مہم جاری ہے، کیا حرمین شریفین خطرے میں ہیں۔؟
اکرم ذکی:
وطن عزیز کے اندر چند دینی جماعتوں کی جانب سے تحفظ حرمین شریفین کے نام پر ریلیاں، سیمینارز، کانفرنسز شروع ہیں اور کچھ بیرونی وظیفہ خوروں نے اسے شیعہ سنی جنگ قرار دینے کے لئے اپنی ایڑی چوٹی کا زور صرف کر دیا ہے، تو کہیں سے سعودی عرب کی سلامتی کو درپیش خطرات کا ذکر خیر جاری ہوا۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ یمن کے مسئلہ پر غیر جانبدار رہنے کی زیادہ ضرورت یوں بھی ہے کیونکہ یمن سعودی عرب کے مقابلے میں ایک کمزور اور غریب ملک ہے۔ اس جنگ میں سعودی عرب کی سلامتی یا حرمین شریفین کو کوئی خطرہ لاحق نہیں بلکہ یمن پر حملہ دوسرے عرب ممالک کی طرف سے ہوا ہے۔

اسلام ٹائمز: اس جنگ میں کس کو کتنا فائدہ اور کتنا نقصان ہوگا۔؟
اکرم ذکی:
یمن پر سعودی عرب اور اتحادیوں کے حملے میں یمنی عوام کی ہلاکتیں ہزاروں تک پہنچ چکی ہیں۔ جن میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔ خوراک اور ادویات کی قلت ہے۔ عالمی
انسانی حقوق کے اداروں نے اپنی رپورٹس میں یہاں کے مسائل کی نشاندہی بھی کی ہے اور جنگ بندی کی سفارش کی ہے۔ اس کے علاوہ یمن پر عرب حملوں کا دوسرا بڑا نقصان داعش اور القاعدہ کے منظم ہونے کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ فضائی حملوں کے نتیجے میں داعش کے دہشتگردوں نے یمن کی دو جیلیں توڑ کر ان میں قید اپنے سینکڑوں ساتھی آزاد کرا لئے ہیں۔ یمن کا صوبہ حضرموت داعش کے کنٹرول میں آچکا ہے۔ یہ وہی داعش ہے، جو حرمین شریفین سے متعلق اپنے مذموم عزائم کا اظہار کرچکی ہے۔ اسی داعش کے خلاف عراق اور شام میں ایران اور اس کے زیر اثر ملیشیا لڑ رہے ہیں۔ یمن کے اندر یہی داعش حوثیوں پر حملے کر رہی ہے۔ یمن پر سعودی حملوں کے نتیجے میں اگر داعش، القاعدہ وغیرہ زیادہ منظم ہوتے ہیں۔ تو سوچنے کی بات یہ ہے کہ سعودی عرب کے لئے سنگین خطرہ کون ثابت ہوگا، وہ حوثی جو یمن کی کل آبادی کا چالیس فیصد ہیں اور پاور شیئرنگ کی بنیاد پر حکومت میں حصہ چاہتے ہیں یا وہ داعش جو عراق، شام میں تباہی کی مثالیں رقم کرنے کے ساتھ ساتھ حرمین شریفین اور سعودی حکومت سے متعلق اپنے خطرناک ارادے ظاہر کرچکی ہے۔

اسلام ٹائمز: مسئلہ کا حل کیا ہے۔؟
اکرم ذکی:
یمن کے مسئلہ کا پرامن حل سب کے مفاد میں ہے۔ 2011ء میں جس طرح کا معاہدہ کرکے حوثیوں کو شریک اقتدار کیا گیا، اب بھی اسی طرز کے معاہدے کی ضرورت ہے۔ چالیس فیصد آبادی کو شریک اقتدار کئے بغیر امن نہیں لایا جاسکتا۔ اگر امن نہیں آیا تو جنگ پورے خطے میں پھیل جائے گی۔ اس جنگ کا پھیلاؤ یا طول سعودی عرب سمیت دیگر خلیجی ممالک کے مفاد میں بھی نہیں ہے۔ پاور شیئرنگ کی ایسی کونسل بنائی جائے، جس میں سب کی نمائندگی موجود ہو۔ یمن میں بھی امن کا یہی راستہ ہے اور افغانستان میں امن کا یہی راستہ ہے۔ طاقت کے بل بوتے پر کوئی مسئلہ حل نہیں ہوسکتا، کوئی مقصد حاصل نہیں ہوسکتا۔ تاریخ نے ایک عجیب سبق دیا ہے کہ امریکہ دوسری جنگ عظیم کے بعد جتنی بھی جنگوں میں گیا ہے، کسی ایک میں بھی اپنا مقصد حاصل نہیں کرسکا، اسے کامیابی نہیں ملی۔ ویتنام ، عراق، افغانستان کی مثالیں دنیا کے سامنے ہیں۔ برادر دوست ملک سعودی عرب کو امریکی جنگوں کے نتائج ملحوظ خاطر رکھنے چاہیں۔ پاکستان نے بھی امریکی ناکامیوں کو سامنے رکھتے ہوئے یمن کے معاملے میں غیر جانبدار رہنے کا مستحسن فیصلہ کیا ہے۔

اسلام ٹائمز: (آخری سوال) حال ہی میں ایران کا چھ بڑی طاقتوں کے ساتھ معاہدہ ہوا ہے، پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہونگے۔؟
اکرم ذکی:
ترقی اور استحکام کے لئے پائیدار امن کا قیام ناگزیر ہوتا ہے۔ ایران کا چھ بڑی طاقتوں کے ساتھ حالیہ جوہری معاہدہ امن کی جانب نہایت مثبت پیش رفت ہے۔ ایران نے ایک لحاظ سے قربانی دی ہے کہ امن کی خاطر وہ دس سال کے لئے اپنا جوہری پروگرام منجمد کرنے پر رضامند ہوا ہے۔ اس معاہدے کے تحت ایران پر عائد اقتصادی پابندیاں بھی اٹھ جائیں گی۔ پابندیوں کے خاتمے سے ہمارے لئے ایران سے بجلی اور گیس کا حصول آسان ہوجائے گا، جو کہ ہماری بنیادی ضرورت بھی ہے۔
خبر کا کوڈ : 455323
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ahsan shah
United Kingdom
So nice interview Zaki sb
ہماری پیشکش