0
Friday 24 Apr 2015 03:18
عوامی یا قانونی حکومتوں کے حوالے سے سعودی عرب کا دہرا معیار ہے

سعودی حکمرانوں کا اصل مسئلہ اپنے اقتدار کو محفوظ رکھنا ہے، ارشاد محمود

عرب ممالک کے عوام بھی جمہوری آزادی کے خواہشمند ہیں
سعودی حکمرانوں کا اصل مسئلہ اپنے اقتدار کو محفوظ رکھنا ہے، ارشاد محمود
معروف تجزیہ نگار اور کالم نویس ارشاد محمود کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ ارشاد محمود سنٹر فار پیس ڈیویلپمنٹ اینڈ ری فامز کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ہیں۔ عالمی معاملات کے ساتھ ساتھ پاکستان کے داخلی معاملات اور سیاست پر بھی ان کی گہری نگاہ ہے۔ وہ ایک طویل عرصے تک روزنامہ دنیا، ڈیلی دی نیوز اور گریٹر کشمیر (سری نگر) میں باقاعدگی سے لکھتے رہے۔ سول سوسائٹی کے انتہائی متحرک ممبر ہونے کے علاوہ کشمیری سیاست اور پاک بھارت تعلقات پر تحقیقی مقالے رقم کرچکے ہیں۔ روزنامہ آج کل اور اردو نیوز جدہ سے باقاعدہ منسلک ہیں۔ ان کے تحقیقی آرٹیکلز انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز، ریسرچ جرنل پالیسی پرسپکٹیو، دہلی پالیسی گروپ، نیلسن منڈیلا سنٹر فار پیس، کانسیلیشن ری سورسز، ہنری سٹیمسن سنٹر واشنگٹن نے بھی شائع کئے ہیں۔ ارشاد محمود بنیادی طور پر کشمیر سے تعلق رکھتے ہیں۔ سعودی عرب کی جانب سے یمن پر مسلط کردہ جنگ اور اس کے ممکنہ اثرات کے موضوع پر اسلام ٹائمز نے ان سے ایک مختصر انٹرویو کا اہتمام کیا ہے۔ جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: سعودی عرب نے یمن پر چڑھائی کی، مگر تاحال کوئی ایک بھی ایسی دلیل پیش نہیں کرسکا، جو اس حملے کا قابل قبول جواز بن سکے، آپ اس جنگ کی کیا وجوہات دیکھتے ہیں۔؟
ارشاد محمود:
سعودی عرب کو بیک وقت کئی طرح کے مسائل کا سامنا ہے۔ وہاں کے حکمرانوں کا بنیادی مسئلہ اپنے اقتدار کو محفوظ رکھنا اور اپنی اہمیت ماضی کی طرح قائم رکھنا ہے۔ حالیہ چند برسوں میں عالمی سطح پر ایسی کئی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں، جس کی بنیاد پر وہ مستقبل کے حوالے سے فکر مند ہیں۔ اول یہ کہ عرب سپرنگ کے بعد خطے کے کئی ممالک میں حکومتیں تبدیل ہوئی ہیں، عرب ممالک کے عوام بھی جمہوری آزادی کے خواہشمند ہیں، چنانچہ عرب حکمران اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لئے یہ ضروری خیال کرتے ہیں کہ جہاں بھی آزادی یا حقوق کی تحریک اٹھے، اسے طاقت کے زور پر کچل دیا جائے۔ یمن سعودی عرب کے پڑوس میں واقع ہے۔ لامحالہ وہاں عوامی طاقت حکومت کی تبدیلی کا باعث بنتی ہے تو اس کے اثرات سعودی عرب پر بھی مرتب ہوں گے۔ چنانچہ ایک وجہ یہ ہے کہ سعودی عرب اپنے ہمسائیہ میں کوئی عوامی یا جمہوری حکومت کا قیام لامحالہ اپنی بادشاہت کے لئے خطرہ سمجھتا ہے۔ دوسری بڑی وجہ ایران ہے۔ ایران نے ہر طرح کی معاشی، اقتصادی سخت ترین پابندیوں کے باوجود اپنے اثرورسوخ میں اضافہ کیا ہے۔ جب تک امریکہ و دیگر مغربی طاقتیں مکمل طور پر ایران کی مخالفت میں تھیں، تو عرب حکمران کسی حد تک مطمئن تھے، مگر ایران کے حالیہ جوہری معاہدے کے بعد صورت حال تبدیل ہوئی۔ مغربی بلاک سے ایران کی دشمنی میں کمی کو بھی عرب حکمران خطرہ گردانتے ہیں، چنانچہ اپنی جگہ یہ بھی ایک وجہ ہے (میں اس کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا)۔ اس کے علاوہ امریکہ شیل توانائی کے باعث تیل کے حوالے سے اب خود کفیل ہوگیا ہے۔ اب اس کا انحصار سعودی عرب پر نہیں رہا۔ ایک جانب امریکہ کی سعودی عرب سے ضرورت پوری ہوچکی ہے، دوسری جانب ایران کے ساتھ جوہری معاہدے میں پیش رفت ہوئی ہے۔ چنانچہ ان عوامل کی بناء پر سعودی عرب نے یمن پہ چڑھائی کی، مقصد عوامی جمہوری تحریکوں کو کچلنے کی پالیسی، ایران کے خلاف ایک اتحاد کی تشکیل اور خطے میں اثرورسوخ بڑھانے کی ایک کوشش تھی۔ اس کے سوا اور کچھ نہیں۔

اسلام ٹائمز: سعودی عرب نے یمن پر حملے کی وجہ وہاں کی قانونی اور عوامی حکومت کی بحالی بتائی تھی،کیا یہ وجہ بھی ہوسکتی ہے۔؟
ارشاد محمود:
سعودی عرب جیسے ملک کے ساتھ عوامی، قانونی، جمہوری حکومت کی بحالی جیسے مقاصد جچتے نہیں ہیں، کیونکہ وہاں کی اپنی حکومت کوئی عوامی یا جمہوری حکومت نہیں ہے، چنانچہ یہ کوئی وجہ نہیں ہے۔ ویسے بھی یمن کا صدر منصور ہادی تو مستعفی ہوکر یمن سے گیا تھا، اور اس کی مدت صدارت بھی ختم ہوچکی تھی۔ اس کے علاوہ یمن میں تو قانونی حکومت کی بحالی مقصد بیان کی گئی، مگر آپ مصر کو دیکھیں، وہاں پر کیا ہوا۔ میری ذاتی رائے میں صدر مرسی کی حکومت کوئی آئیڈیل حکومت نہیں تھی، مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ عوامی حکومت تھے، جمہوری طریقے سے بھاری عوامی مینڈیڈیٹ سے وجود میں آئی تھی، مگر اس حکومت کے ساتھ کیا ہوا۔ صدر مرسی کے حامیوں پر جنرل سیسی کی فوج نے ٹینک چڑھا دیئے۔ ابھی تک انہیں پھانسیوں پر لٹکایا جا رہا ہے۔ مصر میں قانونی، عوامی، جمہوری حکومت کو ختم کرنے والے ڈکٹیٹر کو سعودی عرب نے اربوں کی امداد فراہم کی۔ عوامی یا قانونی حکومتوں کے حوالے سے سعودی عرب کا دہرا معیار ہے۔ صرف مصر میں ہی نہیں، شام کی حکومت کے خلاف باغیوں کی بھی سعودی عرب نے مدد کی۔

اسلام ٹائمز: یمن پر حملے کی ایک وجہ سعودی عرب کی سلامتی اور حرمین شریفین کو خطرہ بھی بیان کی گئی، کیا واقعی سعودی عرب کو خطرہ ہے۔؟
ارشاد محمود:
جی نہیں ایسی کوئی بات نہیں۔ پاکستان کی افواج ملک کے اندر دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کر رہی ہیں۔ طالبان نے پاکستان کے اندر مساجد، چرچز، عبادت گاہوں، امام بارگاہوں، جی ایچ کیو، نیول بیس، ائیربیس، ائیر پورٹس، ہسپتال، مارکیٹ، بازار، گلی کوچے، صدر، وزیراعظم، وزراء پر کتنے حملے کئے۔ اتنی تباہی پھیلانے کے باوجود بھی طالبان پاکستان کے لئے کبھی بھی ایسا خطرہ نہیں بنے کہ یہ خدشات پیدا ہوجائیں کہ خدانخواستہ یہاں طالبان کی حکومت قائم ہوجائے گی۔ تو سوچنے کی بات ہے کہ حوثی قبائل سعودی عرب کی سلامتی کے لئے یا حرمین شریفین کے لئے کیسے کوئی خطرہ بن سکتے ہیں۔ حوثی قبائل یمن میں ہیں، انہوں نے سعودی عرب کے خلاف کوئی کارروائی بھی نہیں کی۔ اس کے باوجود بھی ان پر یہ الزام ہے۔ اب تک کی صورت حال میں سعودی عرب کی سلامتی یا خودمختاری کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان میں موجود مذہبی جماعتوں نے جن میں اکثریت کالعدم جماعتوں کی ہے، نے حرمین کی حفاظت کیلئے یمن جانے کا اعلان کیا، کیا اس سے داخلی معاملات پر اثر پڑے گا۔؟
ارشاد محمود:
احمد لدھیانوی، حافظ سعید و دیگر جماعتیں بار بار باغیوں کے خلاف کارروائی کا اعلان کرتے ہیں، اور پاک فوج پر دباؤ ڈالتے ہیں کہ وہ یمن میں جاکر ’’باغیوں‘‘ کے خلاف ایکشن لے۔ مجھے حیرت اس بات پر ہے وہ تمام مذہبی جماعتیں جو اپنے ملک میں ہمیشہ طالبان کی حمایت میں کھڑی رہیں، اور ہمیشہ ان باغیوں کی حامی رہیں جو پاکستان کی سلامتی پر حملے کرتے رہے، وہی جماعتیں پاکستانی فوج سے مطالبہ کرتی ہیں کہ وہ یمن میں جاکر وہاں کے باغیوں سے لڑے۔ میں تو کہتا ہوں جو اعلان کرنے والے ہیں، انہیں خود جانا چاہییے۔ پاک فوج کو بھیجنے کا کیوں مطالبہ کرتے ہیں۔ یہ وہی فوج ہے جو ملک کے اندر دہشتگردوں سے لڑ رہی ہے۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ جو مذہبی جماعتیں سعودی عرب کی حمایت میں بڑھ چڑ ھ کر بول رہی ہیں۔ ان کی زبان پہ کبھی پاکستان کے متعلق وہ الفاظ و عزائم سننے کو نہیں ملے، جو سعودی عرب سے متعلق سننے کو ملتے ہیں۔ میں تو یہی سمجھتا ہوں کہ پاکستان اپنے وسیع تر مفادات کو اور اپنی پوزیشن کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کرے۔ مذہبی جماعتوں اور ان کے مطالبات کو زیادہ اہمیت نہ دے، اگر ان کو اہمیت دی تو یہ پھر سر پر سوار ہوجائیں گے، پہلے کی طرح۔ حکومت کو بھی ملک کے داخلی معاملات ملحوظ خاطر رکھنے چاہیں۔

اسلام ٹائمز: سعودی عرب کیجانب سے حرمین کی حفاظت کا مقصد بیان کیا گیا، اور پاکستان سے فوجی کمک کا مطالبہ کیا گیا، کیا اس سے یہ سمجھ لینا چاہیئے کہ سعودی عرب حرمین کی حفاظت کرنے سے قاصر ہے۔؟
ارشاد محمود:
دیکھیں جمہوریت آہستہ آہستہ مضبوط ہوتی ہے، ایک ارتقائی عمل ہے، آہستہ آہستہ سیاسی پختگی دیکھنے میں آرہی ہے۔ ہمارے یہاں وہ پرانی سیاست نہیں رہی کہ جھنڈے لہرا دو، شور مچا دو اور حکومت یا سیاسی جماعتوں پر دباؤ بڑھا کر مطالبات منوا لو۔ اس چیز کا احساس عرب ممالک کو بھی ہوچکا ہے۔ ہمارے اپنے ملک میں اتنے چیلنجز ہیں کہ جن سے ہمہ وقت نبرد آزما ہیں۔ ہمارے کروڑوں بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ سکیورٹی کے مسائل الگ ہیں۔ معاشی سماجی، معاشرتی مسائل اپنی جگہ ہیں۔ چنانچہ یمن میں فوجی ٹروپس بھیجنے کا فیصلہ اتنا سادہ نہیں ہے۔ ہر شخص جانتا ہے کہ حملہ یمن پر ہوا ہے۔ حرمین کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے۔ دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان پر سعودی عرب کا بہت زیادہ دباؤ ہے۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور حکمرانوں کا بڑا گہرا ربط ہے۔ چنانچہ پاکستان نے بہت اچھی پالیسی اختیار کی۔ پارلیمنٹ سے قرارداد منظور کرلی۔ ایران کے ساتھ بھی بات کی۔ یمن کے لوگوں کو بھی مذاکرات کے لیے میز پر لانے کی کوشش کی، جو گروپس وہاں آپس میں لڑ رہے ہیں، ان کے درمیان بھی مذاکرات کے لئے راستہ نکالنے پر غور کیا۔ پاکستان کی کچھ فوج سعودی عرب میں پہلے بھی موجود ہے۔ اگر محدود پیمانے پر مزید فوج گئی بھی سہی تو اس کا فوکس مکہ اور مدینہ اور کے اس پاس پاس ہی ہوگا۔ یہ امر خارج از امکان ہے کہ فوجی ٹروپس یمن جائیں اور وہاں جاکر لڑنا شروع کر دیں۔

اسلام ٹائمز: مشترکہ عرب فوج کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے، مگر یہ اتحاد اسرائیل کیخلاف وجود میں نہیں آتا، کیوں۔؟
ارشاد محمود:
سعودی عرب کی جانب سے جاری یہ جنگ اسرائیل کے خلاف ہوتی تو ہمارے لئے بھی فیصلہ کرنا آسان ہوتا اور پاکستان کی عوام، حکومت اور فوج بھی شائد ایک صفحہ پر موجود ہوتے۔ مگر موجودہ صورتحال بالکل مختلف ہے۔ جس کی وجہ سے فیصلے کرنے میں انتہائی مشکلات درپیش ہیں۔ اسرائیل ایران کا دشمن ہے۔ اس سے دشمنی اور اقتصادی پابندیوں کے باوجود ایران نے اپنے آپ کو مضبوط ملک بنایا ہے۔

اسلام ٹائمز: ایران کے حالیہ جوہری معاہدے کے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہونگے۔؟
ارشاد محمود:
مغرب کے ساتھ تعلقات بہتر ہونے کے بعد ایران دنیا کے نقشے پر طاقتور ملک کے طور پر ابھرے گا۔ اس کے پاس تیل ہے، نیوکلیئر ٹیکنالوجی میں آگے ہے۔ فنی مہارت کے علاوہ، تعلیم و دیگر عوامل ایران کی ترقی کا باعث بنیں گے۔ ایران نے انتہائی اچھا فیصلہ کیا ہے۔ پاکستان کی لیڈر شپ اس فیصلے سے اگر فائدہ اٹھائے اور پابندیوں میں نرمی کے بعد ہماری ترجیحات پائپ لائن کو مکمل کرنا ہونی چاہیں۔ ہم ایران سے بجلی لے سکتے ہیں۔ ایران ہمارا پڑوسی ملک ہے۔ جس کے ساتھ دوطرفہ تعاون دونوں ملکوں کی ترقی پر وسیع ثمرات مرتب کرے گا۔ اگر محل وقوع کے حساب سے دیکھا جائے تو پاکستان ایران اور ترکی اپنے درمیان راستوں کو کھول سکتے ہیں، اور اگر یہ تینوں ممالک آپس میں زیادہ تعاون کی طرف مائل ہوں تو عرب ممالک میں جو شیعہ سنی کی تفریق کی جا رہی ہے۔ اس کو بھی ختم کرنے میں مدد ملے گی۔ ایران اگر شیعہ اکثریتی ملک ہے تو ترکی اور پاکستان سنی اکثریتی ملک ہیں۔ میرے خیال میں ان ممالک کے درمیان بہتر تعلقات وسیع تر ثمرات کے حامل ہیں۔

اسلام ٹائمز: کشمیر کافی عرصے کے بعد دوبارہ ہیڈ لائنز میں ہے، کیا وجہ ہے۔؟
ارشاد محمود:
کشمیر میں جب سے نئی حکومت آئی ہے۔ بی جے پی نے اپنا دباؤ اس پر بہت زیادہ رکھا ہوا ہے۔ مرکزی حکومت کی کوشش ہے کہ وہاں حریت یا آزادی پسندوں کو سیاسی آزادی نہ دی جائے۔ سید علی گیلانی جو دہلی میں تھے، کافی عرصے بعد واپس آئے تو ان کا بہت شاندار استقبال ہوا۔ وہاں موجود لوگوں نے پاکستانی پرچم بھی لہرائے۔ اس سے پہلے تہراڑ میں سے ایک نوجوان لڑکے کو پولیس نے گولی ماری تھی۔ جس کے باعث وہاں احتجاج تھا۔ علی گیلانی صاحب کو بھی جیل میں ڈال دیا گیا۔ جس کے باعث احتجاج زیادہ ہوگیا۔ احتجاجی ہڑتالوں کے دوران بڈگام میں تین جوانوں کو گولیاں مار کے شہید کر دیا گیا۔ جس کے باعث بڑی مدت کے بعد کشمیر میں بہت بڑے جلسے ہوئے ہیں۔ وہاں کے جلسے پاکستان کے سیاسی جلسوں کی نسبت بہت بڑے ہوتے ہیں۔ بڑی تعداد میں لوگوں کا نکلنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ لوگوں میں خود ارادیت کا جذبہ ہے۔ پنڈتوں کی واپسی کے حوالے سے مسئلہ یہ درپیش ہے کہ ماضی میں پنڈت وہاں کی سوسائٹی کا لازمی جزو سمجھتے جاتے تھے۔ نوے کی دھائی میں حالات کے باعث یہ پنڈت وہاں سے نکل گئے تھے اور مختلف علاقوں میں مقیم ہوگئے تھے۔ انھوں نے اپنا رشتہ کشمیر سے نہیں توڑا تھا۔ وہ اب واپس آنا چاہتے ہیں۔ کشیریوں کو اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ ان کا موقف یہ ہے کہ پہلے کی طرح پنڈت مکس آبادی کا حصہ بن کر رہیں۔ مشکل یہ درپیش ہے کہ بھارتی سرکار پنڈتوں کے لئے ایک الگ سے باقاعدہ حصہ بنانا چاہتی تھی۔ اگر دہلی میں کوئی یہ کہے کہ وہ مسلمانوں کے لئے الگ سے بستی بسانا چاہتا ہے، تو کیا بھارتی حکومت مان جائے گی۔ بھارتی حکومت کشمیر میں نیا اسرائیل بنانا چاہتی ہے۔
خبر کا کوڈ : 456261
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش