0
Friday 7 Aug 2015 18:51
قائد شہید انقلابی اور اسلامی اوصاف کے حامل تھے

شہید حسینی کا 4 سالہ دور قیادت امیر المومنین علیہ السلام کے 4 سالہ دور کی طرح تھا، ثاقب اکبر

شہید حسینی کا 4 سالہ دور قیادت امیر المومنین علیہ السلام کے 4 سالہ دور کی طرح تھا، ثاقب اکبر
جناب ثاقب اکبر معروف محقق، مصنف اور دانشور ہیں۔ وہ علمی تحقیقی ادارہ البصیرہ کے چیئرمین اور پاکستان میں مذہبی جماعتوں کے اتحاد ملی یکجہتی کونسل کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل ہیں۔ کونسل کے احیاء میں ان کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ علاوہ ازیں وہ تحریک فیضان اولیاء کے سیکرٹری جنرل بھی ہیں۔ قائد شہید علامہ عارف حسین حسینی کی برسی کے موقع پر اسلام ٹائمز نے ان سے شہید حسینی کی شخصیت، انقلابی جدوجہد اور شہادت کے محرکات و اثرات سے متعلق انٹرویو کیا ہے، جو قارئین کے استفادہ کیلئے پیش خدمت ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: شہید عارف حسین الحسینی کی شہادت کے محرکات کیا تھے۔؟
ثاقب اکبر:
امام خمینیؒ کا انقلاب اسلامی کامیاب ہوا تو یہ عالمی سطح پر عالمی استعمار کے لئے بہت بڑی شکست تھی۔ استعماری قوتوں نے اس انقلاب، اس انقلاب کی پیش رفت اور انقلاب کی فکر کو روکنے کے لئے فیصلہ کیا کہ خطے کے اردگرد کے ممالک میں ایسی شخصیات کو ٹارگٹ کیا جائے جو ممکنہ طور پر اس فکر کی امین ہوسکتی ہیں اور اس فکر کو آگے بڑھانے میں کوئی کردار ادا کرسکتی ہیں۔ اس کے لئے انھوں نے لبنان میں امام موسٰی صدر کو اور راغب حرب کو ٹارگٹ کیا اور بعد میں لبنان ہی میں شہید عباس موسوی کو ٹارگٹ کیا۔ اسی طرح سے بہت سے علماء اور شخصیات کو عراق میں ٹارگٹ کیا۔ خاص طور پر سید باقر الصدر اور ان کی ہمشیرہ محترمہ آمنہ بنت الہدیٰ جو عالمہ اور فاضلہ تھیں، کو ٹارگٹ کیا اور ان کے ملک کے ممتاز سنی علماء کو بھی ٹارگٹ کیا گیا۔ بی بی سی نے کہا تھا کہ پاکستان کے خمینی عارف حسین حسینی ہیں، یہ بی بی سی کی خبر نہ تھی بلکہ یہ ایک پیغام تھا، سب کے لئے تھا، ادھر کے لئے بھی اور ادھر کے لئے بھی۔ شہید حسینی چونکہ انقلابی اور اسلامی اوصاف کے حامل تھے، اس لئے میرا خیال یہ ہے کہ انکی شہادت کو اسی تسلسل میں دیکھنا چاہیئے۔ خطے کے دیگر ممالک کی مذکورہ شخصیات کو سامنے رکھیں، شہید حسینی کی یہی خصوصیات تھیں جو ایسے ہی اثرات ظاہر کر رہی تھیں، جو ان کی شہادت کا باعث بنیں۔ اگر وہ فقط فکر رکھتے ہوتے اور عمل کی دنیا میں اتنے موثر نہ ہوتے، لوگوں کے دلوں کو تسخیر نہ کر پاتے تو بھی کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں تھا، لیکن وہ تو دلوں میں اتر گئے، ان کی فکر بڑی عظیم الشان فکر تھی اور اسی طریقے سے سامنے آگئی۔

خاص طور پر لاہور میں جو قرآن و سنت کانفرنس ہوئی، میں اس کا اسٹیج سیکرٹری تھا، ان کی تقریر سن رہا تھا، وہیں پر مجھے خطرہ ہوا، جب میں نے ان کی تقریر سنی تو میرا احساس تو یہ تھا کہ اب ان کا بچنا مشکل ہے، کیونکہ وہ جس جذبے، جس ولولے کے ساتھ اور جس قدر
روحانیت کے ساتھ اپنی فکر کو جو بہت جامع تھی، غریبوں اور مظلوموں کے لئے ظاہر کر رہے تھے، اس لئے مجھے یہ احساس پیدا ہوا تھا۔ انھوں نے ابتدا ہی یہاں سے کی کہ اللہ نے علماء سے یہ عہد لیا ہے کہ وہ غریبوں کی بھوک اور پیٹ بھرے امراء کی حالت پہ خاموش نہ بیٹھیں، اٹھان ہی ان کی زبردست تھی، امام خمینی جیسے مستضعفین کی حمایت بات کرتے تھے، وہی سب کچھ تھا ان کے لہجے میں، وہ پھر دلوں میں اترتی چل جاتی تھی، چونکہ صداقت پر مبنی تھی۔ حالانکہ وہ ایسی تنظیم کے سربراہ تھے جس کے نام میں قباحتیں موجود تھیں، لیکن ان کی فکر میں کوئی قباحت نہیں تھی۔ وہ ساری چیزیں جو نام کی وجہ سے محدود کرتی تھیں، ان کا عمل، ان کا لفظ اور ان کا چہرہ اس محدودیت کو توڑ دیتا تھا اور ایک آزاد روح والا عظیم انسان جو نبیوں اور اہل بیتؑ کی فکر کا وارث اور امین تھا، معاشرے میں ظاہر ہوتا تھا، یہی وجہ ہے کہ اہل سنت کے ہاں بھی، بڑے بڑے سیاستدانوں کے ہاں بھی وہ مقبول ہوتے چلے گئے۔ میرے جیسا شخص جو انکے ساتھ تھا، یہ سمجھ سکتا تھا تو دشمن تو پہلے ہی پورے خطے میں اپنا کام کر رہا تھا، بالکل نہیں برداشت کرسکتا تھا کہ ایسا شخص باقی رہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ایسے شخص اور ایسے افراد کو مارا نہیں جاسکتا، یہ مر کے امر ہوجاتے ہیں، ان کی روح زیادہ قوی ہوجاتی ہے، اس کا اشراف، تاثر اور تاثیر زیادہ ہوجاتی ہے اور ایسا ہی عارف حسینی کے ساتھ ہوا۔ البتہ ایسے بڑے انسانوں کو ان لوگوں سے بچانے کی ضرورت ہوتی ہے، جن کو مجاور کہا جاتا ہے، یہ مجاور بڑے بڑے انسانوں کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں، جو آزاد روح رکھنے والے لوگ ہوتے ہیں انھیں چاہیے کہ ان مجاوروں کے ہاتھوں ایسی عظیم ہستیوں کو اسیر نہ ہونے دیں۔

اسلام ٹائمز: قائد شہید عارف حسین حسینی کی شہادت کے کیا اثرات مرتب ہوئے۔؟
ثاقب اکبر:
میرے خیال میں اسکے اثرات ابھی تک جاری ہیں، شہید کا خون ایک دائمی سرچشمہ بن جاتا ہے، فوارے کی طرح ابلتا رہتا ہے۔ معاشرے کے اندر اپنی تاثیر رکھتا ہے، یہ وہ شمع ہے جس کو بجھایا نہیں جاسکتا۔ ادھر سے اگر کوئی اس کو ہوا دیتا ہے تو اس کا شعلہ دوسری طرف کو اپنی روشنی سے منور کرتا ہے۔ شہید حسینی چونکہ حقیقی معنی میں شہید ہیں، گواہ ہیں اللہ کی وحدانیت پر، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دیگر انبیاء کی صداقت پر، قرآن کی سچائی اور صداقت پر، مظلوموں کی حمایت کرنیوالوں کی سچائی اور صداقت پر اور یہ گواہی ہے ان ارمانوں کے پاکباز ہونے پر، جو وہ اللہ کے بندوں کے لئے رکھتے ہیں۔ ابھی تک ہم دیکھتے ہیں کہ انکے پیغام اور شہادت کی تاثیر سے روزانہ کئی ہزار نئے
جوان اٹھتے ہیں، ان کے اقوال پڑھتے ہیں تو منقلب ہوتے ہیں۔ جو مشکل ہے وہ میں نے پہلے بیان کر دی ہے۔ ایک اور چیز ہوتی ہے وہ زمان و مکان کی علامتیں، بعض اوقات یہ بھی بڑے عظیم لوگوں کو سمجھنے میں مانع ہوجاتی ہیں۔ جیسے ایک نبی ہے عبرانی بولتا ہے تو وہ فقط عبرانی بولنے والوں کے لئے تو نہیں آیا۔ یا وہ رہا تھا فلسطین میں تو صرف فلسطینیوں کے لئے تو نہ ہوا، وہ رب العالمین سے متصل ہوتے ہیں۔ ان کو ان زمان و مکاں کی ان علامتوں سے ماورا ہو کر سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جیسے وہ خاص لباس پہنتے ہیں بعض وجوہات کی بنا پر یا زمان و مکان کی ضرورت کے مطابق۔ یا اپنے خاندانی یا مکتبی پس منظر کی وجہ سے، لیکن ان کی روح اس سے بڑی ہوتی ہے۔ میرا خیال یہ ہے کہ جوں جوں ہم ان چیزوں پر غالب آتے چلے جائیں گے، یہ عظیم ہستیاں جن میں عارف حسینی بھی شامل ہیں، ان کا پیغام معاشرے میں اپنے اثرات بہتر طور پر مرتب کرتا چلے جائے گا۔ ان کی فکر کے وارثوں کی ذمہ داریاں بڑی زیادہ ہیں، اس اعتبار سے۔

اسلام ٹائمز: شہید حسینی امام خمینی کی فکر کو آگے لیکر بڑھنے والوں میں سے تھے، اسکی منظر کشی کیجیے، اس کام کو کس طرح شہید حسینی نے انجام دیا۔؟
ثاقب اکبر:
ایک تو یہ کہ جب وہ (شہید حسینی) نجف میں تھے تو امام خمینی کی تحریک سے وابستہ ہوگئے، ان کے پیغام کو وہ سمجھ گئے تھے، اسی لئے وہ وہاں نہیں رہ سکے، وہاں سے ان کو نکالا گیا، پھر نجف سے ایران آگئے، وہاں بھی ان کے لئے یہی مشکل ہوگئی۔ میری ان سے ملاقات 1978ء میں ہوئی۔ انقلاب اسلامی سے پہلے ایک ورکشاپ تھی آئی ایس او کے جوانوں کی، میں نے جب انھیں دیکھا، ان کو سنا، تو جب واپس آرہا تھا، میرے ساتھ جو آئی ایس او کے ساتھی تھے، شبیر سبزواری اور دوسرے ساتھی، میں ان سے کہہ رہا تھا کہ کیا اتنا عظیم انسان انھیں پہاڑوں میں رہ جائے گا اور باقی اہل پاکستان ان سے استفادہ نہیں کرسکیں گے۔ اسی وقت میرے دل نے کہا کہ یہ بڑا انسان ہے، اس کی روح بڑی ہے۔ پھر آگے سلسلہ بڑؒھا اور ہم نے شعوری کوشش کی کہ وہ پاکستان کے باقی لوگوں کے قریب آئیں۔ اس کی ایک الگ تاریخ ہے، داستان ہے، پھر اللہ نے موقع دیا ،وہ آئے اس سرزمین پر۔ اپنے چار ساڑھے چار سالوں میں قیادت کی، البتہ یہ چار سال امیرالمومنین علیہ السلام کے چار سالوں کی طر ح تھے۔ شہید حسینی نے عظیم الشان نقش تاریخ پر مرتب کیا۔ دیکھیں کہ امام خمینی کے وجود کے اندر کیا چیزیں تھیں جو ان کی عظمت کا باعث تھیں۔ ایک دین کی گہری بصیرت، دوسرا للہیت ہے۔

اگر کوئی کہے کہ امام خمینی کی سب سے بڑی خوبی کیا ہے تو میں کہوں گا للہیت۔ دین، قرآن اور صاحب قرآن
کی گہری شناسائی، قرآن اور نبی اور آل نبی امام خمینیؒ کے قلب پر اترے ہوئے تھے، ان کے دل ساتھ ساتھ دھڑکتے تھے، اس لئے یہ سب ان کے وجود کا حصہ تھا۔ یعنی قرآن بھی، سنت بھی، دین کی اقدار بھی، معنویت بھی۔ اللہ تعالٰی نے ان کی چشم باطن کھول دی تھی، حقائق جو ہم جیسے عام لوگوں پر منکشف نہیں ہوتے، پردے میں ہوتے ہیں، وہ اللہ تعالٰی نے ان پر کھول دیے تھے، ان کی للہیت کی وجہ سے تھے۔ پھر بندگان خدا کے لئے ان کے دل کا دھڑکنا اور ظلم و استعمار سے نہ ڈرنا، تو یہ ہونا ہی تھا اور پھر انکا پہچاننا اپنے زمانے کو، جیسے ابراہیم علیہ السلام نے اپنے دور کے نمرود کو پہچانا، اس کی ماہیت کو پہچانا، موسٰی علیہ السلام نے فرعون کو پہچانا، جس طرح امام حسین علیہ السلام نے یزید کو پہچانا، امام خمینی نے بھی اپنے دور کے طاغوت کو پہچانا، اللہ کے ساتھ جب روح جڑی ہوتی ہے تو باطل کا انکار اس کا لازمی نتیجہ ہوتا ہے۔ شجاعت بڑی چیز ہے لیکن حقیقی شجاعت پیدا ہوتی ہے، پروردگار کے ساتھ بندے کے مضبوط تعلق اور تعہد سے۔ پھر مظلوموں کے لئے ان کے دل کا تڑپنا، جس طرح بنی اسرائیل کی مظلومیت پر حضرت موسٰی علیہ السلام رنجیدہ تھے، اللہ تعالٰی نے ان کو متوجہ کیا کہ ان کے لئے کچھ کریں۔ وہ پہلے سے اس کے لئے انگیزہ رکھتے ہے۔

گذشتہ واقعات اس کی تائید کرتے ہیں، مدین چلے گئے تو لڑکیوں کو پانی بھرنے نہیں دیا جا رہا تھا، تو ان کے لئے تڑپ اٹھے۔ محروموں اور مظلوموں کے لئے تڑپ اٹھے، تو اسی لئے آواز آئی کہ آپ کو منتخب کر لیا گیا ہے۔ قرآن کی تعلیمات، انبیاء علیہم السلام کی سنت اور سیرت انسان کو جرات مند بناتی ہے۔ خوبیاں اس دور کو بالکل پہچان کر، استعماری قوتوں کے خلاف اور مظلوموں کی حمایت کا پرچم بلند کرنا، یہی خوبیاں شہید حسینی میں موجود تھیں۔ اسی سرچشمہ نور کی کرنوں کی حیثیت رکھتے تھے یہ لوگ۔ جب کوئی بڑا آدمی ظہور کرتا ہے تو اس کے ساتھ ساتھ اس کے قد کاٹھ کے ساتھ ملتے جلتے کچھ ایسے ہی ساتھی اللہ تعالٰی پیدا کرتا ہے، یہ قدرت کے کمالات ہیں۔ ماضی میں بھی دیکھیں تو یہی کچھ نظر آئے گا۔ زمین پر دیکھیں تو جو بہت بڑا پہاڑ ہوگا، تو ساتھ چھوٹے چھوٹے پہاڑ بھی ہوتے ہیں، ایک پوری سیریز ہوتی ہے، پہاڑی سلسلے کی۔ اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں قرآن نے فرمایا کہ محمد رسول الله والذين معه أشداء على الكفار رحماء بينهم۔ محمد اللہ کے رسول ہیں اور انکے جو ساتھی ہیں وہ کفار پر سخت اور آپس میں رحم دل ہیں، ان کے ساتھ ایسے تھے جیسے چاند کے ساتھ ستارے، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیتؑ۔ اس طرح
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بھی دیکھیں۔ امام خمینی کو بھی دیکھیں تو اسی طرح کی بڑی بڑی ہستیاں، شخصیات اس دور میں نظر آئیں گی دنیا کے مختلف گوشوں میں۔ ہمارے محبوب شہید پیارے قائد، وہ آج بھی ہمارے دلوں میں بستے ہیں۔ جن کی یادیں آنسوﺅں کی جھڑی بن جاتی ہیں، انہی میں سے ایک تھے۔

اسلام ٹائمز: شہید حسینی کی شخصیت اور پیغام کی اثر پذیری کس طبقے میں تھی، یا کس طبقے نے انکے پیغام کو سمجھا اور انکا ساتھ دیا۔؟
ثاقب اکبر:
میرا خیال ہے کہ سب بڑے لوگوں کی طرح شہید حسینی کیساتھ بھی جوان ہی زیادہ تھے، جن کو نہ منصب کی فکر، نہ ریاست کی فکر ہوتی ہے، نہ مال کی فکر ہوتی ہے۔ ان کے تازہ تازہ ارمان ہوتے ہیں ،سچائیوں کے ساتھ ان کی کمٹمنٹ ہوتی ہے، وہی انقلابی لوگوں کا پیغام زیادہ قبول کرتے ہیں، بڑی بڑی عمر کے لوگوں میں سے شاز و نادر ہی کوئی نہ کوئی ہوتا ہے۔ جب نبی کریم سے اللہ تعالٰی نے فرمایا: وأنذر عشيرتك الأقربين (اپنے قریبیوں کو متنبہ کیجیے) اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے قریبیوں کے لئے ایک دعوت کا اہتمام کیا۔ اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پوچھا کہ کون میرا ساتھ دے گا تو ایک نوجوان کھڑا ہوگیا، اس نے کہا، میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ساتھ دوں گا۔ اسی طرح عمار یاسر نوجوان تھے، اسی طرح سے ارقم نوجوان تھے جو سترہ اٹھارہ سال کے تھے، ان کے گھر کو نبی کریم نے زیر زمین سرگرمیوں کا مرکز بنایا۔ حالانکہ ان کے خاندان کی اور بنو ہاشم کی آپس میں دوریاں بھی تھیں۔ امام خمینی کے ساتھ بعض بزرگ بھی تھے، لیکن زیادہ تر قوم کے جوان تھے۔ جن کے بارے میں امام خمینی فرماتے ہیں کہ ”من دست ہائے پاسداران را می بوسیم“ اسی طرح امام خمینیؒ فرماتے ہیں اگر ملت نہ بودم ما ہم نہ بود۔ جب امام خمینی سے پوچھا گیا کہ کون آپ کا ساتھ دیں گے تو فرمایا کہ جو ماﺅں کی گود میں ہیں وہ میرا ساتھ دیں گے۔ امام جب یہ کہہ رہے تھے اس کے ٹھیک پندرہ سال بعد انقلاب آیا، وہ بچے جوان ہوگئے تھے۔

یہاں پر پاکستان میں بھی شہید حسینی کے ساتھ ہم دیکھتے ہیں کہ جوانوں نے ہی انکا ساتھ دیا۔ ایک محفل میں میں خود بیٹھا تھا تو نوجوانوں کے جذبات کو دیکھتے ہوئے شہید حسینی نے کہا کہ آپ نوجوانوں کو دیکھ کر میں خود ریچارج ہوجاتا ہوں۔ یہ عجیب خراج تحسین ہے، شہید حسینی کی طرف سے نوجوانوں کے لئے، جو الفاظ ہیں دیکھیں تو ان کا معنی اور مفہوم وہی ہے جو امام خمینی اپنی ملت اور جوانوں کے متعلق کہتے ہیں۔ احادیث میں بھی ایسا ہی ذکر ہے، جوانی اور جوانوں کے متعلق۔ طالوت کے بارے میں دیکھیں، حضرت داود علیہ السلام
نے جب جالوت کو مارا تو وہ بھی نوجوان ہی تھے۔ تاریخ بھری ہوئی ہے کہ بڑے لوگوں کا ساتھ نوجوانوں نے دیا۔ ابراہیم علیہ السلام نے نوجوانی میں وہ کارنامہ انجام دیا جو تاریخ میں رقم ہے، دنیا آج بھی اس پر انگشت بدندان ہے۔ جب سارے بتوں کے سر اڑا دیئے اور کلہاڑا بڑے بت کے کاندھے پر رکھ دیا، یہ ابراہیم علیہ السلام کی جوانی کا عجیب اظہار تھا۔ امام جعفر صادق علیہ السلام کی حدیث بھی ہے کہ نوجوانوں کے دل زیادہ مائل ہوتے ہیں، حق کو قبول کرنے کے لئے، تو اس سلسلے میں میری شہادت یہ ہے کہ علماء بھی شہید حسینی کیساتھ تھے، اس میں کوئی شک نہیں ہے، بہت سارے قابل ذکر علماء تھے۔ بڑی عمر کے بھی بعض لوگ تھے، جنھوں نے پوری جوانمردی کے ساتھ شہید حسینی کا ساتھ دیا، لیکن نوجوانوں کو کیفیتیں ہی اور تھیں، شہید حسینی کو دیکھ کر بے ساختہ کھڑے ہوجانا، آنسو بہہ نکلنا، نوجوانوں سے مل کر شہید حسینی کی بھی یہی حالت ہوجاتی تھی، دونوں طرف ہی یہ کیفیت ہوتی تھی۔۔ اب انھیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر

اسلام ٹائمز: شہید حسینی جس تنظیم کے سربراہ تھے، اسکے نام میں محدوویت کا عنصر تھا، لیکن شہید حسینی کی فکر اور شخصیت نے اس محدودیت کے تاثر کو کم کر دیا، کیسے۔؟
ثاقب اکبر:
میں ایک غمناک جملہ یہاں کہوں گا، بعض لوگ بڑے ناموں کو محدود کر دیتے ہیں۔ اپنی فکر، حرکت اور عمل سے، اپنی روح کے کوتاہ اور چھوٹا ہونے کی وجہ سے اور بعض لوگ چھوٹے ناموں میں روح پیدا کر دیتے ہیں۔ یہ کرامات ہیں، وہ روح اور نفس جس کا اتصال رب العالمین سے ہوتا ہے، یہ اس کی کرامات ہیں، اس کے تصرفات ہیں۔ اصل بات یہی ہے کہ وہ غالب آگئے اپنی عظیم روح کی وجہ سے۔ اللہ کے مظلوم اور محروم بندوں کے ساتھ محبت کیوجہ سے۔ اس روح نے انھیں محدود نہیں ہونے دیا۔ یہ چیزیں انسان کو لامحدود کر دیتی ہیں۔ ایسے لوگوں کے لئے۔۔۔۔ نہیں ہوتے ایسے نام۔ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے نام کی وجہ سے مشکلات پیش آئی ہیں، لیکن شہید عارف حسین حسینی کو کچھ اور موقع مل جاتا تو وہ ان مشکلات پر بھی قابو پا لیتے۔ شہید حسینی کے ساتھیوں کے ساتھ ان کی باتیں ہوتی رہی ہیں۔ وہ قائل تھے کہ اس نام کو بدلنا چاہیے۔ جو ہم نے منشور مرتب کیا تھا، ہمارا راستہ کے نام سے اس کو اگر اٹھا کر دیکھیں تو اس کے اندر کوئی ایسی چیز نہیں ہے ایک سطر، ایک لفظ بھی ایسا نہیں ہے کہ کہا جاسکے کہ اس تنظیم کی محدود فکر اور محدود سوچ کی غمازی کرتا ہے، اس میں ایک چیز بھی ایسی نہیں ہے، تو نام ہی ذرا سا بدلنا تھا، پھر اس کی ممبر شپ کو آہستہ آہستہ کھولنا تھا، اب اگر کوئی بڑا آدمی آئے گا تو یہ بھی ہوجائے گا۔
خبر کا کوڈ : 478392
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش