0
Saturday 1 Jan 2011 17:43

دہشتگردی اور ٹارگٹ کلنگ کے خاتمے کیلئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں اعلیٰ سطحی کمیشن تشکیل دیا جائے،علامہ ساجد نقوی

دہشتگردی اور ٹارگٹ کلنگ کے خاتمے کیلئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں  اعلیٰ سطحی کمیشن تشکیل دیا جائے،علامہ ساجد نقوی
اسلامی تحریک پاکستان کے سربراہ علامہ سید ساجد نقوی سے اسلام ٹائمز نے ملکی اور بین الاقوامی صورتحال پر انٹرویو کیا ہے جو معزز قارین کیلئے پیش خدمت ہے۔ 
 
اسلام ٹائمز: علامہ صاحب یہ بتائیں کہ موجود ملکی صورتحال کو آپ کس نگاہ سے دیکھتے ہیں، جوڑ ،ٹور کی سیاست اور سیاسی جماعتوں کے ایک دوسرے سے رابطے اور وزیراعظم کو ہٹانے کی باتیں، کیا آپ کو لگتا ہے کہ موجودہ سیٹ اپ خطرے میں ہے اور حالات مڈٹرم الیکشن کی جانب جا رہے ہیں؟ علامہ ساجد نقوی: پاکستان میں جس انداز کی سیاست رائج ہے جہاں پر ذاتی مفاد کو ترجیح دی جاتی ہو،وہاں پر اس طرح کی صورتحال کا سامنے آنا فطری عمل ہے۔ البتہ میرے خیال میں فی الحال کوئی مڈٹرم الیکشن کا خطرہ موجود نہیں اور نہ ہی وزیر اعظم کو ہٹایا جا سکتا ہے۔ کچھ سیاسی جماعتیں ہیں جو آپس میں رابطے میں لگی ہوئی ہیں۔ بس ملک میں ایک شور برپا ہے ۔یہ سب کچھ ،کچھ قوتوں کے اشارے پر ہو رہا ہے کہ ملک میں افراتفری رہے۔
اسلام ٹائمز: علامہ صاحب ایم ایم اے کی بحالی کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں کیونکہ آپ خود بھی اُس کا حصہ ہیں اس حوالے سے مسلسل کئی میٹنگز بھی ہو چکی ہیں لیکن کوئی بحالی کے آثار نظر نہیں آ رہے؟
علامہ ساجد نقوی: جی اس میں جماعت اسلامی کا موقف ہے کہ ایم ایم اے کی بحالی سے پہلے اس کی عدم فعالیت کا جائزہ لینا چاہیے اور اس کے اسباب کو سامنے لایا جانا چاہیے اور یہ دیکھا جائے کہ اس کی عدم فعالیت کا ذمہ دار کون ہے۔ تاہم ابھی تک اس نکتے پر میٹنگ نہیں ہوئی کہ اس کا ذمہ دار کون ہے اور عدم فعالیت کے اسباب کیا ہیں۔جماعتیں اسی سیاسی رسہ کشی میں مصروف ہیں،اس لیے فی الحال بحالی کی طرف کوئی قدم نہیں بڑھا۔
اسلام ٹائمز: علامہ صاحب تحریک تحفظ ناموس رسالت کا آپ بھی حصہ ہیں اور اس حوالے سے کئی میٹنگز بھی ہوچکی ہیں اور کل ملک بھر میں شٹر ڈاون ہڑتال بھی تھی۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ تحریک 70کی دہائی کی طرف جا رہی ہے کیونکہ 1978ء میں شروع ہونے والی” بھٹو ہٹاو تحریک“ بعد میں نظام مصطفی میں تبدیل ہو گئی۔کہیں کچھ لوگ اس دفعہ بھی اس سے کوئی فائدہ تو نہیں اٹھانا چاہ رہے؟؟
علامہ ساجد نقوی: جی ہاں بعض لوگوں کے خدشات موجود ہیں البتہ میرا نہیں خیال کہ ایسا ہو۔ شائد کچھ لوگ آگے چل کر فائدہ اٹھا بھی سکتے ہیں۔اس حوالے سے حکومت اپنی پوزیشن واضح کر چکی ہے کہ وہ اس قانون میں کوئی ترمیم نہیں کر رہی۔ اصل میں بعض ایسے اقدامات ہوئے کہ کچھ حکومتی لوگوں نے کہا کہ بعض کی سزا معاف کر دی جائے اور بعض کو جیل سے رہا کرایا جائے تو وہ بھی فی الحال روک چکے ہیں۔
اسلام ٹائمز: علامہ صاحب کیا آپ نہیں سمجھتے کہ اس قانون سے سب سے زیادہ شیعہ افراد ہی متاثر ہورے ہیں۔ جہاں کوئی بھی مسئلہ ہوتا ہے وہاں دوسرے لوگ شیعہ افراد پر توہین رسالت کے برچے کٹوا دیتے ہیں اور اس کی کئی مثالیں آپ کے سامنے موجود ہیں۔؟
علامہ ساجد نقوی: اس قانون سے متاثر صرف شیعہ ہی نہیں ہیں، اس میں سنی اور عیسائی بھی شامل ہیں۔ کچھ لو گ ذاتی عناد کی بنیاد پر اور کچھ دوسروں کو جذبات دلا کر اس طرح کے کیسز بنا دیتے ہیں۔
اسلام ٹائمز: علامہ صاحب کیا آپ نہیں سمجھتے کہ اس قانون کے عملدآمد میں نقاص ہیں،جنہیں دور ہونا چاہیے تاکہ کوئی بے گناہ اس قانون کی زد میں نہ آسکے اور مذہبی جماعتوں کو اس میں اپنا کوئی رول ادا کرنا چاہیے؟
علامہ ساجد نقوی: جی ہاں اس حوالے سے ہم نے میٹنگ میں تجویز دی تھی کہ جہاں کہیں بھی  اس طرح کا کوئی واقعہ رونما ہو اس کا جائزہ لینا چاہیے اور مذہبی جماعتیں ملکر اس پر اپنی سفارشات مرتب کریں تاکہ اس قانون کا صحیح اطلاق ہو سکے۔
اسلام ٹائمز:حالیہ دنوں میں ایران کے شہر چابہار میں خودکش دھماکہ ہوا اور جنداللہ نے اس واقعہ کو قبول کر لیا۔ اس سے پہلے بھی جنداللہ کئی واقعات میں ملوث ہے۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اگر یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا تو اس سے پاک ایران تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں دوسرا یہ کہ حکومت پاکستان کو اس پر کیا اقدامات کرنے چاہیں؟
علامہ ساجد نقوی: اس حوالے سے ایران بہتر بتا سکتا ہے کہ تعلقات متاثر ہونگے یا نہیں۔ التبہ دونوں ممالک کو جوائنٹ انوسٹیگیشن ٹیم بنانی چاہیے جو ان واقعات کی تحقیقات کریں اور اپنی سفارشات مرتب کریں اور تحقیقات کے بعد جو بھی اس کے علل و اسباب سامنے آئیں اور جو لوگ اس میں مہرے بن کر استعمال ہو رہے ہیں ان کیخلاف فوری کارروائی کرنی چاہیے۔
اسلام ٹائمز: پاراچنار کی صورتحال آپ کے سامنے ہے،ٹل پارا چنار روڈ گذشتہ چار سالوں سے بند ہے، اس پر آپ کی جانب سے کیا اقدامات ہوئے ہیں؟
علاہ ساجد نقوی: اس مسئلے کے حل کیلئے ہم نے تمام متعلقہ حکام سے ملاقاتیں کیں، یاداشتیں پیش کیں، جو ہوسکتا تھا وہ کیا، لیکن کوئی نتائج برآمد نہ ہو سکے۔ میرے خیال میں حکومت اس حوالے سے بے بس ہے ۔ کچھ خاص منصوبے کے تحت اس علاقے کو ناگوار صورتحال میں رکھا جا رہا ہے، کچھ طاقتیں ایسی ہیں جو اس علاقے کو اسی طرح رکھنا چاہتی ہیں اور اُن کے کچھ خاص مقاصد ہیں۔ اس ملک کے باسی اپنے ہی ملک سے کٹے ہوئے ہیں،جو ملک کے دوسرے شہروں کا رخ کریں تو موت کے منہ میں جانے کے مترادف اور گھروں کو واپس جائیں تو بھی جان کو خطرہ رہتا ہے اور آپ کے سامنے ہے کہ کئی معصوم لوگ لقمہ اجل بن چکے ہیں۔
اسلام ٹائمز: علامہ صاحب اگر پارا چنار کی صورتحال اسی طرح برقرار رہتی ہے تو پھر آپ کی حکمت عملی ہو گی۔؟
علامہ ساجد نقوی: اگرچہ کہ حکومت بے بس ہے لیکن پھر بھی ہم اُن پر دباو ڈالیں گے کہ وہ اس مسئلے کا حل ڈھونڈیں اور اس ناخوشگوار صورتحال کو ختم کرائیں۔
اسلام ٹائمز: جولائی 2009ء میں آپ نے اسلام آباد میں ایک اجتماع میں اعلان کیا تھا کہ اگر ان مسائل کو ختم نہ کیا گیا تو ہم ایک بڑا اجتماع کریں گے۔ اس حوالے سے ابھی تک کوئی پیشرفت سامنے نہیں آئی۔؟
علامہ ساجد نقوی: جی وہ ہمارے ذہن ہے،جب حالات سازگار ہونگے تو ضرور اجتماع کریں گے،تاہم اجتماع وہ ہونے چاہیں جس کے کچھ نتائج بھی برآمد ہوں۔اس حوالے سے دیگر لوگ بھی اپنے اپنے کاز کیلئے بڑے بڑے اجتماع کرچکے ہیں جنکے کوئی نتائج برآمد نہیں ہوئے۔ البتہ حکومت پر پریشر ڈالنے کیلئے اجتماع ہونے چاہیں، میڈیا اور دیگر ذرائع کے ذریعے اپنی آواز پہنچانی چاہیے۔
اسلام ٹائمز: علامہ صاحب اتحاد بین المسلمین کے حوالے سے آپ کرادر نظر آتا ہے اور مختلف مذہبی جماعتوں کے درمیان اکثر بیشتر موجود بھی ہوتے ہیں لیکن اتحاد بین المومینین کے حوالے سے کچھ خاص دیکھنے میں نہیں آ رہا۔ کچھ ملی تنظیموں کی جانب سے آپ کو اجتماع میں شرکت کی دعوت دی گئی لیکن ان پروگراموں میں آپ شریک نہیں تھے۔ اس حوالے سے کیا کہیں گے۔؟
علامہ ساجد نقوی: ہم اتحاد بین المومینین کے حوالے ہمیشہ کام کرتے ہیں اور اس کی باقاعدہ تاکید بھی کرتے ہیں کہ کوئی منفی کام نہ ہو،جس سے مومینین کے درمیان دوریاں بڑھیں۔ البتہ جہاں تک اختلاف کی بات ہے تو وہ ہر جگہ موجود ہیں، آپ نیچے ماتمی سنگت اور انجمنوں تک چلے جائیں تو آپ کو اختلاف ملے گا۔ البتہ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ان اختلافات کو آگے نہ بڑھنے دیں۔ جہاں تک اجتماعات میں شرکت کا تعلق ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ آیا اس تاریخ کو کوئی اور پروگرام تو نہیں ہے اور اگر دونوں پروگراموں کی تاریخیں آپس میں ٹکرا رہی ہوں تو پھر اس میں دیکھا جاتا ہے کہ کیا مفید ہے اور ترجیح کے لحاظ کس پروگرام شرکت میں کرنی چاہیے۔
اسلام ٹائمز: علامہ صاحب کراچی، کوئٹہ، ہنگو اور خاص کر بلوچستان کی صورتحال آپ کے سامنے ہے جہاں آئے روز کوئی نہ کوئی شیعہ ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہو رہا ہے۔ اس حوالے سے آپ کوئٹہ بھی گئے ہیں اور مختلف حکومتی شخصیات سے ملاقاتیں بھی کیں تو اس کو آپ کس تناظر میں دیکھتے ہیں۔؟
علامہ ساجد نقوی:مجموعی طور پر بلوچستان کی صورتحال تشویشناک ہے۔ بعض عناصر بلوچستان کے حالات خراب کرنے میں پیش پیش ہیں۔ اس میں غیر ملکی عناصر کا زیادہ ہاتھ ہے۔ ان حالات سے نبرد آزما ہونے کیلئے حکومت کو چاہیے کہ وہ بلوچستان کے تمام سیاسی، مذہبی اور سماجی شخصیات سے تجاویز لے اور جو حل سامنے آئے اس پر عمل کرے۔ بدقسمتی سے آغاز حقوق بلوچستان پر بھی کوئی عمل نہیں ہوسکا،جس کی وجہ سے وہاں پر احساس محرومی بڑھتا جا رہا ہے۔ دہشتگردی اور ٹارگٹ کلنگ کو ختم کرنے کے حوالے سے پہلے بھی تجاویز دے چکے ہیں کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطحی کمیشن تشکیل دیا جائے جو دہشت گردی کے عوامل اور اس کے انسداد کے طریقہ کار کا آئین و قانون کی روشنی میں ماہرین اور اعلیٰ سطح کے افسران پر مشتمل سیل کی سفارشات کی روشنی میں دہشتگردوں کا قلع قمع کرنے کیلئے عملی اقدامات کئے جائیں۔ہر واقعہ کی تحقیقات غیر جانبدار اور اچھی شہرت رکھنے والے افسران سے کرائی جائے۔چالان مکمل ہونے کے بعد دہشتگردوں کو عدالتوں کے ذریعہ فوری اور کڑی سزا دلوانے کا اہتمام کیا جائے۔

خبر کا کوڈ : 48753
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش