0
Friday 12 Aug 2016 17:39
امریکہ کیلئے پاکستان 100ارب ڈالر کا نقصان برداشت کر چکا ہے

نون لیگ کی حکومت نے سعودی عرب کے حکمرانوں کے احسانات کا بدلہ چکانے کیلئے ایران کو نظرانداز کیا، اعجاز چودھری

ایران کے سعودی عرب سے یا سعودی عرب کے ایران سے اختلافات ہونگے لیکن پاکستان کو ان میں فریق نہیں بننا چاہیے
نون لیگ کی حکومت نے سعودی عرب کے حکمرانوں کے احسانات کا بدلہ چکانے کیلئے ایران کو نظرانداز کیا، اعجاز چودھری
اعجاز چودھری پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما ہیں، 15 ستمبر 1956ء کو لاہور میں پیدا ہوئے، آرائیں سب کاسٹ کمبوہ برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ لاہور کے ڈپٹی میئر بھی رہ چکے ہیں۔ اعجاز چودھری نے سیاسی کیریئر کا آغاز جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے کیا۔ 35 سال تک جماعت کے پلیٹ فارم سے سیاست کرتے رہے۔ 2007ء میں عمران خان کی خصوصی دعوت پر جماعت اسلامی چھوڑ کر تحریک انصاف میں شامل ہوگئے۔ 2013ء سے 2015ء تک تحریک انصاف پنجاب کے صدر رہ چکے ہیں، آج کل عمران خان کے سیاسی مشیر ہیں۔ وہ جماعت اسلامی کے بانی رہنما اور پہلے امیر میاں طفیل محمد کے داما بھی ہیں۔ اعجاز چودھری پیشہ کے لحاظ سے انجینئر اور "کسان کیئر پرائیویٹ لمٹیڈ" کمپنی کے مالک بھی ہیں۔ اسلام ٹائمز نے لاہور میں ان سے ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال پر گفتگو کی، جو قارئین کیلئے پیش کی جا رہی ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: تحریک انصاف نے حکومت کیخلاف "تحریک احتساب" شروع کر دی ہے، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس بار پی ٹی آئی اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائے گی۔؟
اعجاز چودھری:
ساری صورتحال میں اگر ہم ملک کی دیگر جماعتوں کی بات کریں تو مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ پیپلز پارٹی حسب عادت اس وقت ڈبل گیم کھیل رہی ہے اور وہ اس انتظار میں ہے کہ پیپلز پارٹی سندھ میں اس وقت جن مشکلات کا شکار ہے اور جن مقدمات کو وہ ختم کرنا چاہتی ہے، اس میں اگر وزیراعظم کی جانب سے ان کیساتھ کوئی مثبت ڈیل ہوتی ہے تو وہ کسی بھی وقت اپنا وزن حکومت کے پلڑے میں ڈال سکتی ہے۔ لیکن پیپلز پارٹی میں ایک طبقہ پنجاب کا بھی ہے، جو وزیراعظم کیخلاف اپنی ہر محفل میں زہر اگلتا رہتا ہے اور حکومت کیخلاف ایک بھرپور تحریک چلانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ پیپلز پارٹی پنجاب کے سینیئر لوگ اس وقت نواز حکومت کو برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں، اس کے برعکس سندھ میں پیپلز پارٹی کی قیادت اس وقت سودے بازی میں سرگرداں ہے۔ ان تمام معاملات کو اگر ہم سامنے رکھتے ہیں تو چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی جانب سے اگست میں حکومت مخالف تحریک میں پی پی پی کا کردار غیر یقینی دکھائی دیتا ہے، کیونکہ پی پی پی اگر تحریک انصاف کی تحریک میں شامل ہو بھی جائے تو نہیں معلوم کہ وہ کتنا عرصہ اس تحریک کا حصہ رہے۔ حکومت کی جانب سے بنائی گئی میٹرو بس، اورنج ٹرین اور ناقص پلوں کی بھرمار بھی عوام کا پیٹ بھرنے میں ناکافی رہی۔ کیونکہ پیٹ تو تب بھرے نا جب عوام کو کچھ دیا گیا ہو۔ یہاں تو عوام سے لے کر اپنا ہی پیٹ بھرا جا رہا ہے۔ حکومت کی جانب سے بنائے گئے یہ منصوبے صرف اپنے ٹھیکیداروں اور بزنس مین دوستوں کو نوازنے کا ذریعہ ہیں۔ ان لوگوں کو یہ معلوم ہی نہیں کہ یہ بیڈ گورننس کس طرح گڈگورننس میں تبدیل ہوگی۔ کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ ان میں سیاسی و معاشی فیصلے کرنے کی سکت ہی نہیں۔

اسلام ٹائمز: پیپلز پارٹی کراچی میں رینجرز کے اختیارات کے حوالے سے معاملے کو لٹکا رہی ہے، کیا اس سے شرپسند عناصر کو سپورٹ کرنا تو مقصود نہیں۔؟
اعجاز چودھری:
کراچی میں بدامنی کے حالیہ واقعات کو دیکھ کر یہی کہا جا سکتا ہے کہ دہشتگرد عناصر ادھر ادھر چھپے ہوئے تھے اور اب یہ پھر سے اکٹھے ہو کر ریاستی اداروں کو چیلنج کر رہے ہیں۔ کراچی میں کچھ عرصہ قبل حالات کی بہتری کی وجہ سے ہم سب خوش ہو کر کچھ حد تک آرام سے بیٹھ گئے تھے۔ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ پولیس اور رینجرز چھوٹی موٹی کارروائی تو کرتے مگر بڑے دہشتگردوں کے بارے میں یہی خیال کیا جاتا تھا کہ یا تو وہ ختم ہوگئے ہیں یا پھر وہ کہیں بھاگ گئے ہیں۔ اسی آرام و سکون کے وقفے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ گروہ دوبارہ متحرک ہوگئے اور انہوں نے ابتدائی کارروائیاں بھی کچھ اس انداز میں کیں کہ پورا ملک ہی ہل کر رہ گیا۔ مجھے کچھ ایسا بھی لگا ہے کہ ان دہشتگردوں نے ہماری ہنستی کھیلتی عوام، سوئی ہوئی حکومت اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں کو ایک پیغام دیا ہے کہ ہمارے پاس اب بھی بہت قوت ہے اور یہ کہ وہ اپنی مرضی سے عام شہری تو کیا چیف جسٹس کے بیٹے کو بھی اغوا کرسکتے ہیں اور دن دہاڑے کسی بھی مقبول شخصیت کو لالو کھیت کے بھرے بازار میں قتل کرسکتے ہیں۔ ہم بحیثیت قوم دہشتگردوں کے اس پیغام کو سمجھنے کی کوشش تو کرسکتے ہیں مگر وہ اسباب تلاش کرنے سے قاصر ہیں، جس کی وجہ سے یہ چند مٹھی بھر دہشتگرد ہمارے معصوم لوگوں کو خون میں نہلا کر چلے جاتے ہیں اور ویسے بھی دیکھا جائے تو ایک طویل عرصے سے کسی بڑے دہشتگرد کی گرفتاری یا ہلاکت کی اطلاع نہیں ملی تھی۔ چھوٹے موٹے دہشتگرد یا بھتہ وصول کرنیوالے پکڑے جاتے تھے یا پھر پولیس مقابلے میں ہلاک ہو جاتے تھے۔

اب میں نے جو دیکھا اور سمجھا اس میں یہ بات قابل غور ہے کہ اگر رینجرز کسی سیاسی جماعت کے بندے کو پکڑتی تھی تو متعلقہ سیاسی جماعت خوب شور مچاتی اور مسلسل مداخلت سے قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی کارروائی کمزور ہو جاتی یا متاثر ہوتی تھی۔ یہ کراچی کا سب سے بڑا المیہ ہے کہ یہاں کوئی سیاسی یا مذہبی قیادت دہشتگردی کے خاتمے کیلئے قانون نافذ کرنیوالے اداروں کیساتھ مکمل تعاون نہیں کرتی۔ یعنی ہر سیاسی مذہبی جماعت کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اپنے اپنے مخالفین کے بندوں کو پکڑوا دیا جائے، مگر جہاں اپنا بندہ پکڑا جائے تو اس کا ہر لحاظ سے دفاع کیا جائے۔ چاہے اس میں شہر قائد کے عوام کا جینا محال کر رکھا ہو۔ میں یہ کہنے میں عار محسوس نہیں کرتا کہ اہلیان کراچی نے ابھی تک یہ تصور ہی نہیں کیا کہ کراچی کو بلا تمیز تحفظ فراہم کیا جا رہا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اس شہر میں بسنے والے عوام کا کوئی نہیں سوچتا، ہر تنظیم اپنے ممبران اور ہمدردوں کا دفاع کرتی ہے مگر سیاست وہ عوام کے دم پر کرتی ہے۔ اور بیچارا پاکستان تو ایسا ملک ہے جہاں انصاف دینے والے خود انصاف کے طلبگار ہوتے ہیں۔ چیف جسٹس کے بیٹے کا اغوا کوئی چھوٹی بات نہیں تھی، میں سمجھتا ہوں کہ ایسے مجرموں کو فوری طور پر فوجی عدالتوں کے ذریعے سزائیں ملنی چاہیں، کیونکہ اس وقت ملک کے ججز کے سروں پر پہلے ہی خوف کی تلوار لٹک رہی ہے۔ اس قدر بڑے بڑے انکشافات ان مجرموں سے سننے کو ملتے ہیں اور جن کے نام لئے جاتے ہیں، وہ اسمبلیوں اور پارلیمنٹیرین ہونے کی وجہ سے آزاد پھر رہے ہیں اور عام انسانوں کو چھاپوں کے ذریعے گھروں میں سیڑھیاں لگا کر پکڑا جا رہا ہوتا ہے۔ یہ سب کیا ہے۔ کیوں قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی کوششوں کو خاک میں ملایا جا رہا ہے۔ کیا یہ سیاسی مداخلت نہیں ہے۔؟

اسلام ٹائمز: تحریک آزادی کشمیر میں ایک نیا تحرک پیدا ہوا، کیا آپ کشمیر کے حوالے سے حکومت کی پالیسی سے مطمئن ہیں۔؟
اعجاز چودھری:
بھارت تو مسئلہ کشمیر پر بات تک کرنے کو تیار نہیں، ایسے میں ہمیں اقوام متحدہ اور او آئی سی کو درخواستیں دینی چاہیں، تاکہ یہ مسئلہ ایک بار پھر عالمی ایجنڈے پر ابھر کر سامنے آئے، مگر ہم نے دیکھا ہے کہ بھارت کے ظلم و ستم پر پاکستانی حکام کی جانب سے ان واقعات پر ایک مذمتی بیان جاری کیا گیا، مگر میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس وقت ایک مذمتی بیان کافی نہیں، پاکستان کو یہ معاملہ عالمی سطح پر خصوصاً اقوام متحدہ میں اٹھانا چاہیے۔ جو اس سے قبل بھی پاکستان کی مختلف حکومتیں کرتی رہی ہیں۔ جس کے کوئی خاطر خواہ نتائج تو نہ مل سکے مگر امن کے نام پر ایک کوشش ضرور ہوئی۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان انسانی حقوق کے علمبرداروں کو کبھی کشمیر کی ماؤں بہنوں کی آہ و بقا سنائی نہیں دیتی۔ اس وقت میرا مشورہ تو یہ ہوگا کہ پاکستان کے وزیراعظم اب جبکہ وطن واپس آچکے ہیں، اب یقیناً ان کو پاکستان سمیت کشمیر میں ہونیوالے معاملات کا علم ہوچکا ہوگا، انہیں فوری طور پر ایک عدد خط عالمی رہنماؤں کو بھیجنا چاہیے۔ جس میں واضح کیا جائے کہ وہ لیڈران کشمیر میں ہونیوالے حالیہ جبر و تشدد کو رکوائیں۔ مگر فی الحال تو مجھے یہی لگتا ہے کہ پاکستان کی موجودہ حکومت صرف بیان جاری کرنے سے آگے نہ بڑھ سکے گی، کیوں انہیں کشمیر سے زیادہ اپنی حکومت کی فکر ہے۔ جو مسلسل 3 سال سے عوام کیساتھ ہونیوالی زیادتیوں کی وجہ سے سخت مشکل میں گرفتار ہے اور پھر اس عمل سے نواز مودی دوستی بھی متاثر ہونے کا خدشہ پیدا ہوسکتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورتحال بھی ہمارے حکمرانوں کے ضمیر کو نہ جگا سکی تو یقیناً یہ حکمران کشمیریوں پر پڑنے والی کسی بھی مشکل کا حل نہیں نکال سکیں گے۔

اسلام ٹائمز: تو کیا آپکے خیال میں میاں نواز شریف مودی کی دوستی کو کشمیر سے زیادہ اہمیت دے رہے ہیں۔؟
اعجاز چودھری:
وزیراعظم کی مودی کیساتھ دوستی اگر کشمیر سے بڑھ کر ہے تو اس کا جواب بھی حکمرانوں کو اب دے دینا چاہیے۔ وگرنہ اس خاموشی کا مقصد بھی اس قوم کو معلوم ہو ہی جائے گا کہ حکمرانوں کا جھکاؤ کس جانب زیادہ ہے۔ صرف ایک امریکہ کیلئے پاکستان ایک سو ارب ڈالر کا نقصان برداشت کرچکا ہے اور آج یہی امریکہ بھارت کی محبت اور پاکستان پر الزامات لگانے میں سب سے آگے دکھائی دیتا ہے۔ پاکستان کی حکومتوں کی یہ بدقسمتی رہی ہے کہ وہ اپنے اور پرائے کی پہچان کرنے میں بہت دیر کر دیتی ہیں۔ ان حکومتوں کو اپنے وقتی مفادات اس قدر عزیز ہوتے ہیں کہ وہ کسی بھی نفع و نقصان کو اپنی ذمہ داری نہیں سمجھتے، صرف اپنا اقتدار بچانا ہی ان کا اصل مقصد رہا ہے۔ مانا کہ یہ وقت ان معاملات پر سیاست کرنے کا نہیں ہے، مگر کیا یہ ممکن نہیں کہ تمام اپوزیشن جماعتیں اور حکومت اس معاملے پر ایک پلیٹ فارم پر کھڑی ہو جائیں اور وہ تمام امیدیں جو کشمیر کے عوام پاکستان سے لگا بیٹھے ہیں، ان امیدوں کو پورا کرنے کی بھرپور کوشش کی جائے۔

اسلام ٹائمز: کے پی کے میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ جاری ہے، ایم ڈبلیو ایم کی قیادت نے عمران خان کو اس حوالے سے اپنے موقف سے آگاہ بھی کیا، اسکے باوجود تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے خاطر خواہ اقدامات نہیں کئے۔؟
اعجاز چودھری:
ایسی بات نہیں، کے پی کے میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں کافی کمی ہوئی ہے، پولیس کو آزاد کر دیا گیا ہے، پولیس کے سسٹم میں کوئی سیاسی مداخلت نہیں، جبکہ پنجاب میں اس کے برعکس صورت حال ہے۔ پنجاب میں پولیس حکومت کی آلہ کار کے طور پر کام کر رہی ہے جبکہ کے پی کے میں پولیس فورس مکمل آزاد ہے۔ اس لئے جب عمران خان نے ایم ڈبلیو ایم کی قیادت سے ملاقات کی تو انہیں بریفنگ دی گئی، جس پر عمران خان نے کے پی کے پولیس کو خصوصی ہدایات جاری کر دی ہیں، اب صوبہ کے پی کے میں دہشتگردی کے واقعات کافی حد تک کنٹرول ہوچکے ہیں اور مزید بھی کام ہو رہا ہے۔ تحریک انصاف فرقہ واریت پر یقین نہیں رکھتی، ہم تمام مکاتب فکر کو ساتھ لے کر چل رہے ہیں اور ان شاء اللہ کے پی کے کو امن کا گہوارہ بنائیں گے۔ نون لیگ والے تنقید تو کرتے ہیں کہ کے پی کے میں تحریک انصاف نے کیا کیا ہے، تو ہم باتیں نہیں کام کر رہے ہیں۔ کے پی کے میں آنیوالی تبدیلی جلد ہی نظر آجائے گی۔

اسلام ٹائمز: پاکستان اور ایران کے تعلقات اسوقت سرد مہری کا شکار ہیں، آپ انکا مستقبل کیا دیکھ رہے ہیں۔؟
اعجاز چودھری:
ایران ہمارا فطری دوست ہے، جس طرح چین اور سعودی عرب ہمارے فطری دوست ہیں، اسی طرح ایران بھی ہزار اختلافات کے باوجودہ ہمارا دوست ملک ہے، ایران کیساتھ ہمارے ثقافتی، مذہبی اور سماجی تعلقات ہیں، ایران میں مقامات مقدسہ پاکستان کے اہل تشیع کیلئے اہمیت رکھتے ہیں، پاک ایران تعلقات جیسے بھی ہوں، پاکستانی شیعہ مقامات مقدسہ کی زیارت کیلئے جاتے رہیں گے، اس سے دونوں ممالک کے عوامی رابطے ہیں، یہ رابطے بیرونی سازشوں سے ختم نہیں ہوسکتے۔ البتہ جو پاک ایران تعلقات میں سرد مہری آئی ہے، وہ حکومت کی ناکام خارجہ پالیسی ہے۔ نون لیگ کی حکومت نے سعودی عرب کے حکمرانوں کے احسانات کا بدلہ چکانے کیلئے ایران کو نظر انداز کیا، جس کا بھارت نے فائدہ اٹھایا، حکومت کے ان اقدامات سے ممکن ہے کہ شریف برادران کو کوئی فائدہ ہوا ہو تو ہوا ہو، پاکستان کو نقصان ہی ہوا ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ
خدا ہی ملا نہ وصال صنم
کے مصداق شریف برادران نے سعودی عرب کو بھی ناراض کر لیا ہے اور ایران بھی کچھا کچھا ہے۔ اس صورتحال میں پاکستان کی ذمہ داری یہ بنتی ہے کہ وہ ایران اور سعودی عرب کیلئے ایک جیسی پالیسی رکھے۔ کیونکہ پاکستان اسلام کا قلعہ ہے، ہمارے لئے تمام مسلم ممالک برابر ہیں، ایران کے سعودی عرب سے یا سعودی عرب کے ایران سے اختلافات ہوں گے لیکن پاکستان کو ان میں فریق نہیں بننا چاہیے، ہم نے سعودی عرب کی حمایت کرکے جہاں ایران کو ناراض کیا وہاں سعودی عرب کو بھی خوش نہیں کرسکے، جس وجہ سے وہ بھی کچھ ناراض ہے اور ہماری اس ناکام خارجہ پالیسی کا بھارت نے فائدہ اٹھایا اور آج مودی سعودی عرب اور ایران دونوں کا دوست بن چکا ہے۔
خبر کا کوڈ : 559848
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش