0
Saturday 20 Aug 2016 17:39
عمران خان سیاسی بلیک میلر ہیں

دہشتگردی کیخلاف جنگ میں قوم فوج کیساتھ ہے، دیدہ و نادیدہ دشمنوں کو بھاگنے نہیں دینگے،میاں عبدالمنان

دہشتگردی کیخلاف جنگ میں قوم فوج کیساتھ ہے، دیدہ و نادیدہ دشمنوں کو بھاگنے نہیں دینگے،میاں عبدالمنان
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور کے چیئرمین، مسلم لیگ نون کے رہنما میاں عبدالمنان این اے 83 فیصل آباد سے دوسری بار منتخب ہونے والے پہلے ایم این اے ہیں۔ اس حلقے سے کوئی امیدوار دوسری بار ایم این اے منتخب نہیں ہوا، وہ 16 سال قبل پہلی بار یہاں سے جیتے تھے۔ سیاسی، انتظامی اور تعمیراتی چیلنجز سے نمٹنے کی صلاحیت سے رکھنے والے، لیگی رہنما کیساتھ اسلام ٹائمز کی گفتگو قارئین کیلئے پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: ایک طرف فوج اور حکومت کے درمیان تناو کی باتیں چل رہی ہیں اور ساتھ جنرل راحیل کی مدت ملازمت میں توسیع کیلئے وزیراعظم انہیں فیلڈ مارشل بنانا چاہتے ہیں، فوج کی پیشہ وارانہ ساکھ اور حکومت کی نیک نامی کیسے باقی رہے گی۔؟
میاں عبدالمنان:
یہ اپوزیشن کی جانب سے حکومتی اقدامات کو دھندلانے کی سازش ہے، عمران خان اپنی باتوں سے فوج کے ادارے کو متنازع بنا رہے ہیں، جنرل راحیل شریف ہم سب کے سپہ سالار ہیں، انہیں متنازع نہیں بنانا چاہئے، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کا رومانس تقریباً ختم ہوگیا ہے، عمران خان یہ تاثر دینے کے بجائے کہ ان کے پیچھے کوئی ہے، فوج کے ادارے کا خیال کریں، ہم نے فوج کے ادارے کو بڑی مشکل سے غیر متنازعہ بنایا ہے، پاکستان میں اس ادارے کی عزت و احترام میں اضافہ ہوا ہے، جنرل راحیل شریف ہم سب کے سپہ سالار ہیں، انہیں متنازع نہیں بنانا چاہئے، عمران خان کو پریس کانفرنسوں میں جنرل راحیل شریف کو فیلڈ مارشل بنانے کی خبر کا ذکر نہیں کرنا چاہئے تھا۔ تحریک انصاف کا یہ موقف غلط ہے کہ عمران خان نے اخبارات میں چھپنے والی خبروں کے حوالے سے کہا کہ جنرل راحیل شریف کو فیلڈ مارشل بننے یا مدت ملازمت میں توسیع دینے کی پیشکش کی جا رہی ہے، ہم نے یہ کبھی نہیں کہا کہ فوج کے لوگ کبھی وردی پہن کر باہر نہیں جاسکتے تھے۔ موجودہ حالات میں جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع ہونے یا نہ ہونے کی بحث مناسب نہیں ہے، حکومت اپنی ذمہ داری سمجھ رہی ہے اور ادا کر رہی ہے۔

اسلام ٹائمز: ایک تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ وزیراعظم فوج کیساتھ ہم آہنگ نہیں ہیں بلکہ بھارت کی پاکستان دشمن سرگرمیوں کو بھی گول مول کر جاتے ہیں، جسکی وجہ سے بھارتی لابی کو شہہ ملتی ہے، حکومت کھل کے اپنا موقف پیش کیوں نہیں کر پا رہی۔؟
میاں عبدالمنان:
نریندر مودی کا بلوچستان کے بار ے میں بیان 14 اگست کو وزیراعظم نواز شریف کے کشمیر پر بیان کا ردعمل ہے، وزیراعظم نواز شریف نے دس سال بعد اقوام متحدہ میں کشمیر کا معاملہ اٹھایا، مودی کے بیان سے بلوچستان میں ہندوستان کی مداخلت ثابت ہوگئی ہے۔ نواز حکومت کا رویہ ہندوستان کے ساتھ معذرت خواہانہ نہیں ہے، بھارتی وزیراعظم کے بیان کا جواب دے دیا گیا ہے، مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ظلم و ستم پر حکومتی بیان اپوزیشن کے شور مچانے پر نہیں آیا، ہماری پالیسی ملکی مفاد کے عین مطابق ہے، ہمسایوں سے دوستی کیلئے اپنے ملک کو داؤ پر نہیں لگایا جاسکتا ہے۔ نریندر مودی کا سنگین بیان پاکستان کی سالمیت کے خلاف ہے، بلوچستان پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے۔ بلوچستان پاکستان کا ایک اہم صوبہ ہے، پاکستان بھارتی خفیہ ایجنسیوں کی سازشوں اور ملک دشمن کارروائیوں کا شکار ہے، کل بھوشن کی گرفتاری ہی بلوچستان میں بھارتی مداخلت کا ثبوت ہے، را کا نیٹ ورک بلوچستان اور کراچی میں دہشت گردی و تخریب کاری میں مصروف رہا ہے، بھارتی وزیراعظم کی بلوچستان سے متعلق باتیں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم پر پردہ ڈالنے کی کوشش ہے۔ مودی کا بلوچستان کے بارے میں بیان بھی عالمی اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔ سارک وزرائے داخلہ میں پاکستان کا پلڑا واضح طور پر بھاری رہا اور اس کا اعتراف امریکا نے بھی کیا جبکہ بھارت کے وزیر داخلہ راج ناتھ کی سارک کانفرنس میں کی جانے والی تقریر پر کسی کی دلچسپی نہیں تھی اور نہ ہی ان کے خطاب کو بین الاقوامی پذیرائی مل سکی۔ امریکا کے بیان میں بھی پاکستانی وزیر داخلہ چوہدری نثار کے مؤقف کی تائید نظر آئی جبکہ راج ناتھ نے سارک کو جنوبی ایشیائی تنظیم برائے تنازعہ بنا دیا۔

اسلام ٹائمز: حکومت پانامہ لیکس اسکینڈل سمیت کسی بھی معاملے پہ تاخیری حربوں سے کام لیتی رہی ہے، اب تو وزیراعظم کیخلاف ریفرنس بھی آگیا ہے، تاریخ میں پہلی بار وزیراعظم کو طلب بھی کیا گیا، یہ نوبت کیوں آئی، جبکہ یہ معاملہ پارلیمنٹ میں حل ہوسکتا تھا۔؟
میاں عبدالمنان:
وزیراعظم پاناما لیکس پر پارلیمنٹ میں جواب دے چکے ہیں، آرٹیکل 62/63 پر الیکشن کمیشن کے بجائے اسپیکر کے پاس جانا چاہئے تھا، عمران خان پارلیمنٹ میں آنے سے کیوں ڈرتے ہیں، ملک لوٹنے والوں کو سیاست سے الگ ہونا چاہئے، عمران خان بھی ہمارے ریفرنس پر قومی اسمبلی میں آکر جواب دیں۔ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کا رومانس تقریباً ختم ہوگیا ہے، عمران خان نے سڑکوں پر اکٹھے نکلنے کے بجائے سولو فلائٹ لی، اسپیکر کے پاس ریفرنس پی ٹی آئی اور پی پی کوا کٹھے دائر کرنا تھا، وزیراعظم نواز شریف جو بات کرتے ہیں، وہ پارٹی پالیسی ہے۔ پاناما لیکس پر مسلم لیگ (ن) کی حکومت کسی دباؤ میں نہیں۔ ہم صرف مسائل کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں۔ جمہوریت کے استحکام کے لئے اداروں کو مضبوط کرنا ضروری ہے، پارلیمنٹ عوام کی خواہشات کی ترجمان ہے، دھرنے کے دوران پارلیمنٹ پر حملہ کیا گیا اور اس دوران پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا گیا اور تمام سیاسی جماعتوں نے پارلیمنٹ کی بالادستی کا اعادہ کیا، ہم اب بھی اس پہ قائم ہیں۔ پبلک اکاؤنٹس کی انکوائری کمیٹی کے اجلاس کے موقع پر میں نے کہا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نواز شریف سے پہلے میرا مقابلہ کریں، اگر میں ہار گیا تو سیاست چھوڑ دونگا، بصورت دیگر عمران خان کو سیاست چھوڑنا ہوگی۔ ہمارے قائد نواز شریف کے احتساب کی باتیں کرنے والے سن لیں کہ ملک میں اگر احتساب کرنا ہے، تو پھر سب کا بلا امتیاز احتساب ہونا چاہیے، صرف میاں نواز شریف کا احتساب کرنے کی کسی صورت اجازت نہیں دیں گے۔ ہم سیاست میں عزت کیلئے آئے ہیں مگر یہاں آکر پتہ چلتا ہے کہ ہم ہی سب سے بڑے گنہگار ہیں۔

نیب مجھے اور شیخ رشید کو گرفتار کرے، جو اپنے اثاثے درست ثابت کرلے اس کو چھوڑ دے۔ آج ملک میں احتساب کی باتیں وہ لوگ کر رہے ہیں جن کو اپنے باپ کا بھی پتہ نہیں ہوتا ہے۔ عمران خان سیاسی بلیک میلر ہیں، جو آئے دن دھرنا دینے کا تماشہ کرتے رہتے ہیں، جس کا نون لیگ پر کوئی اثر نہیں۔ عمران خان کی بدقسمتی ہے کہ ان کی بلیک میلنگ چلتی نہیں ہے۔ پانامہ لیکس پر حکومت کے خلاف تحریک چلانے والوں نے تو 11 مئی سے ہی تحریک چلا رکھی ہے۔ عمران خان تو الیکشن کمیشن کے اراکین سے بھی استعفٰی مانگتے رہے اور ایک دن دھرنا دیا، نیب کے خلاف بھی دھرنا دے کر دیکھ لیا، انہیں کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ عمران خان دھرنوں سے ملکی معیشت کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں، ان کے گذشتہ دھرنے سے بھی ملکی معیشت کو اربوں روپے کا نقصان ہوچکا ہے۔ اپوزیشن جماعتیں حقیقی احتساب نہیں چاہتیں، عمران حکومت گرانا چاہتے ہیں، اپوزیشن صرف وزیراعظم کے لئے قانون بنانا چاہتی ہے اور کسی کے لئے نہیں، اپوزیشن کو مل بیٹھ کر سب لوگوں کے احتساب کے لئے قانون بنانے کی دعوت دیتے ہیں۔ اپوزیشن صرف پانامہ لیکس تحقیقات کے لئے ضابطہ کار بنانا چاہتی ہے، مگر پانامہ پیپرز میں وزیراعظم نواز شریف کا نام نہیں ہے، یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ اپوزیشن جماعتیں حقیقی احتساب نہیں کرنا چاہتیں، وہ پانامہ لیکس پر صرف سیاست چمکا رہی ہیں۔ الیکشن کمیشن میں ریفرنس سے حکومت کی سیاسی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کے درمیان بات چیت بالکل ختم ہونا بہت مشکل ہے، ہم جانتے ہیں کہ پیپلز پارٹی حکومت کیخلاف کچھ جلسے کرے گی، مگر عمران خان کے ساتھ اکٹھے جلسے نہیں کرے گی۔ حکومت کا ایجنڈا ملک کی ترقی کا ایجنڈا ہے، یہ لوگ چاہتے ہیں کہ دہشت گردی کا ملک سے خاتمہ نہ ہو لیکن شور شرابا کرنے والے کامیاب نہیں ہوسکیں گے اور پاکستان ترقی کی منازل طے کرتا رہے گا۔

اسلام ٹائمز: حکومت کو ہر طرف سے دباو کا سامنا ہے، ان حالات میں پیپلز پارٹی جیسی حزب اختلاف کی جماعت کیخلاف وزیر داخلہ کی بیان بازی سے حکومت سیاسی نقصان سے کیسے بچے گی، کیا یہ سلسلہ یونہی جاری رہے گا۔؟
میاں عبدالمنان:
قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے ٹیلی ویژن پر بیٹھ کر وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے زیر کنٹرول وزارت داخلہ پر تنقید کرکے درحقیقت گذشتہ تین سال میں بطور قائد حزب اختلاف اپنی ناکامیوں اور کمزوریوں پر پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش کی ہے، قوم بخوبی جانتی ہے کہ 5 جون 2013ء کو جب پاکستان کا اقتدار قائد وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے حوالے کیا گیا تو اس وقت پاکستان کے پاس آئی ایم ایف کے قرضے کی قسط ادا کرنے کے لئے وسائل نہ تھے، ملک دہشت گردی میں اس قدر ڈوب گیا تھا کہ صرف کراچی میں روزانہ متعدد لوگ ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوتے تھے اور روزانہ کی بنیاد پر دھماکے ہوا کرتے تھے۔ لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 18 گھنٹے سے کم نہیں تھا۔ پاکستان آج دنیا میں تیزی سے معاشی ترقی کرنے والے ممالک کی صف میں کھڑا ہوچکا ہے، یہ سب وہی فرق ہے، جن کے لئے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان ایک سال کی کارکردگی دکھانے کا وعدہ کیا تھا، سابقہ دور میں کرپشن اس حد تک تھی کہ پیپلزپارٹی نے مبینہ طور پر حاجیوں تک کو نہیں چھوڑا، یہی وجہ ہے کہ آج ان کا ایک سابق وفاقی وزیر سلاخوں کے پیچھے ہے۔ جو پیپلزپارٹی وفاقی وزیر داخلہ کے تین سوالوں کا جواب نہیں دے سکے، اسے بے جا تنقید کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔

اسلام ٹائمز: عالم اسلام کی صورتحال اور دنیا میں اسلام کی بدنامی کے سبب مسلمان مشکلات کا شکار ہیں، اس مشکل سے عالم اسلام کیسے نکل سکتا ہے، یا یہ ممکن ہی نہیں کہ اسکا کوئی حل نکالا جاسکے۔؟
میاں عبدالمنان:
عالم اسلام دنیا میں 80 فیصد دھماکوں کے پیچھے کوئی مسلمان نکل آتا ہے، مسلمان دہشتگردی سے خود کو علیحدہ کرکے پیش نہیں کر پا رہے ہیں، وجوہات کچھ بھی ہوں، مسلم دنیا میں القاعدہ اور داعش جیسی تنظیموں کیلئے کسی حد تک ہمدردی نظر آتی ہے، مسلم دنیا اسلام کا صحیح امیج اجاگر کرنے کیلئے بین الاقوامی تحریک شروع کرے۔ مسلم دنیا میں جہادی طرز کا اسلام پھیلا تو یورپ اور امریکہ میں بھی جمہوری آزادیوں کا دائرہ سکڑ گیا، سوشل میڈیا کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان سے باہر رہنے والے پاکستانی جہادی نکتہ نظر سے قریب ہوگئے ہیں، مسلمانوں کو قتل عام اور عدم رواداری والا تاثر ختم کرکے رب العالمین اور رحمت اللعالمین نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امن و سلامتی والی اسپرٹ کو واپس لانا ہوگا، مسلمانوں کو اسلام کی اصل روح کو پہچانتے ہوئے شر کا راستہ اختیار نہیں کرنا چاہئے، مسلمانوں اور مغرب میں شدت پسند عناصر سامنے آرہے ہیں، لیکن دونوں جگہ ہی ایسے لوگ اکثریت میں نہیں ہیں، یہ لوگ اقلیت میں ہیں، مگر افسوس کی بات ہے کہ انہیں توجہ ملتی ہے، دونوں طرف کے شدت پسند عناصر ایک دوسرے کے کام کو آسان بنا رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: اگست کا مہینہ یوم آزادی اور آزادی کی یاد منانے کے دن ہیں، حکمران جماعت کا دعویٰ ہے کہ آپ قائد اعظم کے وارث ہیں، بانی پاکستان کے چھوڑے ہوئے راستے کو سامنے رکھ کر یہ کہا جاسکتا کہ حکومت کی کارکردگی اطمینان بخش ہے۔؟
میاں عبد المنان:
پاکستان جس طرح ہمارے بزرگوں نے حاصل کیا اور اس کے لئے جتنی قربانیاں دیں، یہ اس کا ہی ثمر ہے کہ آج ہم یہاں آزاد فضا میں اکٹھا رہ رہے ہیں اور جشن آزادی منا رہے ہیں۔ اللہ کے بعد یہ قائداعظم ؒ کا احسان ہے۔ انکے چھوڑے ہوئے اصول ہمارے لئے رہنما ہیں، قائداعظم کوئٹہ میں جب بیمار ہوئے تو ایک نرس جس نے ان کی بہت خدمت کی، بعدازاں اس نے قائد سے درخواست کی کہ اس کا سارا خاندان لاہور میں ہے، لہٰذا اس کا تبادلہ لاہور میں کروا دیا جائے۔ بانی پاکستان نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ یہ میرا نہیں بلکہ محکمہ صحت کا کام ہے۔ قائد اعظمؒ کی زندگی ہمارے لئے نمونہ ہے، اگر ہم ان کے اصولوں کی روشنی میں کام کریں گے تو ملک مزید ترقی کرے گا۔ اپوزیشن کو بھی چاہیے کہ وہ عدلیہ اور فوج کو حکومت کیساتھ مل کر کام کرنے دیں، اختلاف کو سیاسی طریقہ کار کیساتھ حل کریں۔ اس وقت پاکستان خاص طور پر صوبہ پنجاب ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ بعض لوگ، وزیراعلٰی پنجاب کے کارناموں کو سراہنے کے بجائے ان پر بلاوجہ تنقید کرتے ہیں، میں میاں شہباز شریف سے کہتا ہوں کہ وہ ان کی پرواہ کئے بغیر اپنے مشن کو جاری رکھیں۔ پاکستان کے لئے ہمارے آباؤ اجداد نے بہت سی قربانیاں دیں اور شہداء کے خون کا ایک ایک قطرہ ہم پر قرض ہے، شہداء کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد حکومت سرکاری وسائل سے محروم تھی، قلم و پنسل تک برائے نام تھے اور یوں محسوس ہوتا تھا کہ یہ وطن کبھی اپنے پاؤں پر کھڑا نہ ہوسکے گا، لیکن اس ہمت شکن وقت میں پاکستانی قوم نے کسی نہ کسی طرح سامان جمع کرکے کام شروع کر دیا۔

ہم جشن آزادی کے موقع پر سانحہ کوئٹہ کے شہداء کو بھولے نہیں ہیں، سانحہ کوئٹہ پر پوری قوم دکھی اور غمزدہ خاندانوں کے ساتھ ہے، شہداء کے خون کا ایک ایک قطرہ ہم پر قرض ہے، ان کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔ ہمیں پاکستان کو ترقی یافتہ، خوشحال اور مستحکم بنانا ہے لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ ہمارے دلوں میں قیام پاکستان کے حوالے سے کوئی ابہام نہ ہو۔ قائداعظم کی تقاریر اور گفتگو میں حکمت کے موتی پنہاں ہیں اور ہم بابائے قوم کے نکات کو 5 نکات میں سمیٹ سکتے ہیں، وہ نکات مساوات، اخوت، مذہبی اور لسانی امتیازات سے پاک معاشرے کی تشکیل، بنیادی حقوق کا تحفظ اور قانون کی حکمرانی ہیں، اللہ کے فضل سے آج پاکستان کے تمام ادارے اس نکتے پر متفق ہیں کہ ملکی کی ترقی اور خوشحالی کا راز جمہوریت میں پوشیدہ ہے، ملکی ترقی کے لئے سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ملکی اقتصادی ترقی کے لئے مل کر قومی ایجنڈے پر کام کرنا ہوگا، نوجوانوں کو جوش و خروش ملی جذبے میں بدلنا ہوگا اور قوم کی بیٹیوں کو بھی ملکی ترقی کے لئے آگے آنا ہوگا۔ ہماری تاریخ کہ یہ سنہرے نقوش مشعل راہ بھی ہیں اور یہ بھی واضح کرتے ہیں کہ 14 اگست 1947ء کو یہ تحریک ختم نہیں ہوئی بلکہ اگلے مرحلے میں داخل ہوگئی، جس میں ہمیں نئے حالات اور نئے چیلنجز کا سامنا کرنا اور جن سے نمٹنے کے لئے تحریک پاکستان جیسے جذبے سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔

اسلام ٹائمز: جشن آزادی اور اسکی خوشی منانے کی بجائے پاکستان کو بھیانک دہشتگردی کا سامنا ہے، اس عفریت پہ کیسے قابو جا سکتا ہے، بنیادی کردار کون ادا کریگا۔؟
میاں عبدالمنان:
پاکستان نے جہاں بے شمار کامیابیاں حاصل کی ہیں، ان میں سے ایک کامیابی آزاد میڈیا ہے۔ تیسری دنیا بالعموم اور اسلامی دنیا بالخصوص میں شاید ہی کہیں اتنا آزاد میڈیا ہو جتنا پاکستان میں ہے۔ سانحہ کوئٹہ کی وجہ سے ہم جشن آزادی سوگوار انداز میں منا رہے ہیں۔ سانحہ کوئٹہ سے یہ واضح ہوا ہے کہ دہشت گردی کا زخمی سانپ پھنکار رہا ہے۔ اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی ہے اور دہشت گردی سے متعلق مسائل پر وزیراعلٰی، وزیراعظم، آرمی چیف اور اسٹیبلشمنٹ کو بھی تشویش ہے۔ اب ایک ٹاسک فورس بنی ہے، جس کا مقصد نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کرانا ہے۔ میرے نزدیک نیشنل ایکشن پلان اور ٹاسک فورس کا اس وقت تک فائدہ نہیں ہوگا، جب تک ہم قائد اعظم کے افکار کی روشنی میں پاکستان کی اصل سوچ کو فروغ نہیں دیں گے۔ میاں نواز شریف صرف ملک کے وزیراعظم ہی نہیں بلکہ رول ماڈل بھی ہیں، انہوں نے ملک کو یقیناً ترقی سے ہمکنار کیا ہے اور وہ اس چیز سے بھی پوری طرح آگاہ ہیں کہ صرف حکومت ہی نہیں بلکہ تمام سٹیک ہولڈرز کو ساتھ لے کر چلنا پڑے گا اور نفرت کی سوچ کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ لیڈر شپ اس کی اہل ہے، بشرطیکہ سیاسی وِل میں مزید اضافہ کیا جائے، جس کے لئے اپوزیشن سمیت تمام طبقات کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قوم مسلح افواج کے شانہ بشانہ ہے، دیدہ و نادیدہ دشمنوں کو بھاگنے نہیں دیں گے، آپریشن ضرب عضب کے حوصلہ افزا نتائج سامنے آرہے ہیں، یقین ہے کہ آخری کاری ضرب لگا کر ملک سے دہشت گردوں کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ کر دیں گے۔ موجودہ دور میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ضرب عضب شروع کیا گیا، فوجی عدالتوں کے لئے 21 ویں آئینی ترمیم بھی حکومت ہی کا کارنامہ ہے، دہشت گردی کے خاتمے میں یہ اقدامات موثر ثابت ہوئے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 561513
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش