1
0
Thursday 3 Nov 2016 11:06
عمران خان جسمانی صحت دکھا رہے ہیں، حکومت کرنے کیلئے جسمانی نہیں ذہنی صلاحیت ضروری ہوتی ہے

کوئی عمران سے پوچھے کہ یہ یوم تشکر کس بات کا، انکی جیت ہوئی نہ بات مانی گئی، میاں طاہر پرویز

پرویز خٹک کی اسلام آباد پر چڑھائی کیلئے لاؤ لشکر کے ہمراہ پیش قدمی بغاوت کے زمرے میں آتی ہے
کوئی عمران سے پوچھے کہ یہ یوم تشکر کس بات کا، انکی جیت ہوئی نہ بات مانی گئی، میاں طاہر پرویز
پاکستان مسلم لیگ نون یوتھ ونگ فیصل آباد کے رہنما اور رکن صوبائی اسمبلی پنجاب میاں طاہر پرویز تجارت پیشہ ہیں اور مقامی طور پر اپنی ہی پارٹی کے صوبائی وزیر قانون کے مخالف دھڑے میں سرگرم شمار ہوتے ہیں۔ لاک ڈاون اسلام آباد مہم کو ناکام بنانے کیلئے پنجاب حکومت کی طرف سے پکڑ دھکڑ اور خیبرپختونخوا کے وزیراعلٰی کے قافلے کو پولیس کے ذریعے سختی سے روکنے کے اقدامات کے باوجود اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے جلسے اور مستقبل کے سیاسی منظرنامے سے متعلق اسلام ٹائمز کیساتھ انکی گفتگو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: احتجاج ہر پاکستانی کا آئینی حق ہے، سیاسی مخالفین کو روکنے کیلئے سارا پاکستان بند کر دیا گیا، قانون کا احترام حکومت کیلئے لازم نہیں۔؟
میاں طاہر پرویز:
حکومت تو صرف قانون توڑنے والوں کے خلاف کارروائی کرتی ہے اور ہم نے ہمیشہ یہی کیا ہے، دوسری طرف پی ٹی آئی نے قانون توڑنے کی انتہاء کرکے خود کو جمہوریت کے خلاف سازشوں کا علمبردار بنا دیا ہے۔ آئندہ بھی حکومت اپنی رٹ ہر صورت برقرار رکھے گی۔ عمران خان اپنی ہٹ دھرمی اور انا کی خاطر پاکستان کے امن اور سلامتی کو داؤ پر لگا رہے ہیں، جسے کسی صورت بھی برداشت نہیں کیا جائے گا۔ عمران خان اقتدار کی ہوس میں عوام کو سڑکوں پر لا کر منتخب عوامی حکومت کو غیر مستحکم اور جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کی سازش کر رہے ہیں۔ نون لیگی قیادت اور کارکن جمہوریت اور وفاق کے خلاف کسی بھی سطح پر کوئی سازش کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ انہوں نے اعلان کیا تھا کہ سب کچھ بند کریں گے۔ زندگی رواں رکھنا حکومت کی ذمہ داری ہے، یہ کوئی جنگل نہیں، ریاست ہے، قانون ہے، ہر شہری کے حقوق کی حفاظت حکومت کی ذمہ داری ہے، یہ درست نہیں کہ کچھ لوگ اگر اپنا آئینی حق استعمال کرتے ہیں تو باقی سارا ملک اپنے گھروں میں بند ہو جائے، نہ سکول کھلیں، نہ ہسپتال، نہ دفتر، نہ کاروبار، نہ بازار، نہ ائیرپورٹ، نہ ٹرانسپورٹ۔ یہ جمہوریت کی روح کے بھی منافی ہے اور دنیا کا کوئی قانون اسکی اجازت نہیں دیتا۔ اگر یہ پرامن لوگ ہوتے تو عدالت کے حکم کے مطابق مخصوص جگہ پہ جلسہ کرتے اور دھرنا دیتے، لیکن انہوں نے بلاجواز تشدد بھڑکایا، ہر طرف افراتفری کا ماحول بنایا، حکومت کو مجبور ہونا پڑا کہ قانون کی عملداری کو یقینی بنائے۔

اسلام ٹائمز: وزیراعلٰی کے پی کے تو صرف بنی گالا جانا چاہتے تھے، انکا کہنا ہے کہ میں نے کوئی قانون نہیں توڑا، پھر بھی مجھے نہ صرف روکا گیا بلکہ پنجاب پولیس نے شیلنگ کی، دوسرے صوبے کے سربراہ کو پروٹوکول دینا پنجاب حکومت کے فرائض میں نہیں۔؟
میاں طاہر پرویز:
عوام کی طرف سے مسترد کئے جانے کے بعد پی ٹی آئی کی قیادت ذہنی مریض بن چکی ہے۔ وزیراعلٰی خیبر پختونخوا پرویز خٹک کی اسلام آباد پر چڑھائی کیلئے لاؤ لشکر کے ہمراہ پیش قدمی بغاوت کے زمرے میں آتی ہے۔ مسلم لیگ نون انتشار کی سیاست کرنیوالے سیاستدانوں سے نمٹنے کا سلیقہ جانتی ہے اور کسی بھی صورت میں وطن عزیز میں انتشار پھیلانے اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کا امن برباد کرنے کی اجازت نہیں دے سکتی۔ پرامن دھرنے کا راگ آلاپنے والے پی ٹی آئی کے قائدین بتائیں کہ اُن کے وزیر کی گاڑی سے برآمد ہونیوالا خود کار اسلحہ، آنسو گیس گن اور تشدد کرنیوالے الیکٹرک آلات کو کیا معنی دیا جا سکتا ہے۔ چوہدری نثار کی بہترین حکمت عملی کی وجہ سے ملک انتشار سے بچ گیا ہے، خوف کی وجہ سے عمران خان نے گھر میں خود ساختہ نظر بندی اختیار کرکے اپنے کارکنوں کو امتحان میں ڈالا۔ پاکستان کی تاریخ میں مختلف ادوار میں احتجاج ہوتے رہے، مگر احتجاج کے نام پر فساد اور ایک صوبائی حکومت کی وفاق پر یلغار پہلی دفعہ ہو رہی تھی، پوری دنیا میں یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ پاکستان میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ عمران خان جسمانی صحت دکھا رہے ہیں، حکومت کرنے کے لئے جسمانی نہیں ذہنی صلاحیت ضروری ہوتی ہے۔ احتجاج کے نام پر فساد اور احتجاج کے نام پر یلغار کی اجازت نہیں دیں گے، یہ پاکستان کے وقار کا معاملہ ہے، عمران خان احتجاج کے نام پر فاشزم پھیلا رہے ہیں۔ ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔ وزیر اعلی خیبر پختونخوا اور بانی ایم کیو ایم کی تقرر کا تقابل کیا جائے دونوں میں کیا فر ق ہے۔؟

اسلام ٹائمز: ہر طرف رکاوٹوں اور گرفتاریوں کے باوجود پی ٹی آئی کے رہنماوں کی بڑی تعداد بنی گالا پہنچ گئی تھی، اتنے سخت حالات میں بھی تحریک انصاف سخت جان واقع ہوئی ہے۔؟
میاں طاہر پرویز:
اسکا مطلب یہ ہے کہ نواز شریف کی کامیاب حکمتِ عملی نے دھرنا پارٹی کو بنی گالہ میں ہی دفن کر دیا۔ عوام نے دیکھ لیا کہ عمران خان کے ساتھ صرف برگر پارٹی ہے، جو صرف سوشل میڈیا پر ہی گالی گلوچ کرسکتی ہے، سڑکوں کی سیاست ان کے بس کا روگ نہیں۔ یہ تو پی ٹی آئی کے نام نہاد قائدین کے لئے شرم کا مقام ہے کہ وہ اپنے علاقوں سے نکل کر اسلام آباد میں چھپ کے بیٹھ گئے، اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کے لیڈرز نظریاتی نہیں، کم از کم اپنے کارکنوں کے ساتھ مخلص نہیں، یہ لوگ صرف ڈرائنگ روم کے سیاست دان ہے۔ شیخ رشید سے عبرت حاصل کرنی چاہیے، سب کو، وہ اکیلے کمیٹی چوک میں عمران خان کو بلاتے رہے لیکن وہاں کوئی نہیں آیا، اگر شیخ رشید کو کسی نے کچھ نہیں کہا تو عمران خان کو کسی کیوں کچھ کہنا تھا۔ جو کچھ صوابی انٹرچینج پہ نظر آیا، اسکا پتہ اگلے الیکشن میں چلے گا، پختون دوبارہ پی ٹی آئی کو ووٹ نہیں دیں گے۔ نیازی صاحب چور دروازے سے حصول اقتدار کیلئے جو کوشیش کر رہے ہیں، وہ کبھی بھی کامیابی سے دوچار نہیں ہوں گی۔ نیازی صاحب اپنی احتجاجی سیاست کے ذریعے پاکستان کی قسمت کھوٹی کرنا چاہتے ہیں، لیکن پاکستان کے 20 کروڑ عوام عمران خان کے مذموم مقاصد کی راہ میں روکاوٹ بن گئے ہیں۔

ترقی و خوشحالی کا عمل روکنے والے ملک و قوم کے دشمن ہیں۔ موجودہ حالات میں ملک انتشار کی سیاست کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ 2016ء میں 2013ء کے مقابلے میں معیشت مضبوط ہوئی ہے اور ہو رہی ہے۔ زر مبادلہ کے ذخائر میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ جی ڈی پی کی شرح میں بہتری آئی ہے۔ صنعتوں کو بلاتعطل بجلی کی فراہمی کو یقینی بنایا گیا اور صنعتوں کیلئے لوڈشیڈنگ نہیں ہے۔ آنے والے جنرل الیکشن کا انتظار کریں۔ اسلام آباد میں عمران کے دھرنے سے نجات ملنے پر لوگ اظہار تشکر منا کر گھروں کو چلے گئے ہیں۔ عمران خان دھرنے، جلسے اور جلوسوں میں نون لیگ کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا کرکے وزیراعظم کی سیٹ پر بیٹھنا چاہتے ہیں لیکن یہ ان کا خواب کبھی پورا نہیں ہوگا۔ لوڈشیڈنگ اور مہنگائی جیسے عفریت پر قابو پانا حکومت کی بڑی کامیابی ہے، جو لوگ جمہوریت کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں وہ ناکام ہوں گے، نون لیگ آئندہ الیکشن میں بھی بھرپور کامیابی حاصل کرے گی۔ 10 لاکھ افراد کے ساتھ اسلام آباد سیل کرنے کا دعویٰ کرنے والے عمران خان بے نقاب ہوگئے ہیں۔ عوامی حمایت اور سونامی کا انہوں نے جو ماسک پہنا ہوا تھا وہ اتر گیا ہے، پانامہ لیکس پر عمران خان توپ کا لائسنس مانگ کر پستول کا لائسنس لے کر چلے گئے ہیں۔

اسلام ٹائمز: اتنے بڑے لاک ڈاون اور پھر کریک ڈاون کی نوبت کیوں آئی، احتساب نہیں ہوا، کسی ادارے نے کچھ نہیں کیا، اداروں کو فعال بنانا تو حکومت کی ذمہ داری ہے، اپوزیشن پر اسکی ذمہ داری کیسے ڈالی جا سکتی ہے۔؟
میاں طاہر پرویز:
ادارے فعال ہیں، پاکستان کا سب سے بڑا ادارہ تو سپریم کورٹ ہے۔ اب تحریک انصاف سپریم کورٹ کے فیصلے کا احترام کرتے ہوئے پانامہ لیکس کی کارروائی کا انتظار کرے، عمران خان اپنے اردگرد لوگوں کا پہلے احتساب کریں جو ہر دور میں وزارتوں میں رہے۔ وزیراعظم نے تو پہلے دن ہی کہہ دیا تھا کہ سپریم کورٹ کمیشن بنائے، ہم احتساب کے لئے پیش ہوں گے۔ سپریم کورٹ نے وہی کہا جو حکومت چار ماہ سے کہہ رہی تھی، ملک میں انتشار پھیلانے والوں کو آئندہ بھی شرمندگی اٹھانا پڑے گی۔ وہ وقت دور نہیں جب قوم وقت ضائع کرنے پر عمران خان سے حساب مانگے گی۔ عمران خان کی مقبولیت آئے دن کم ہوتی جا رہی ہے، آئندہ انتخابات میں تحریک انصاف کو عوام مسترد کر دیں گے۔ عوام نے عمران خان کی دھرنا اور احتجاج کی سیاست کو مسترد کر دیا ہے اور سپر یم کورٹ کے فیصلے سے قوم آج سرخرو ہوئی ہے، کیونکہ عدالت نے نواز شر یف پر عوامی اعتماد کے ووٹ کی لاج رکھ لی گئی ہے۔ حکومت سپریم کورٹ کے فیصلے کو نہ صرف تسلیم بلکہ اس پر مکمل عمل بھی کرے گی اور ہم سمجھتے ہیں کہ ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی کا بھی تقاضا ہے کہ عدالتی فیصلوں کو تسلیم کیا جائے، عمران خان کو بھی ایسا کرنا چاہیے۔ ہم پہلے دن سے کہہ رہے ہیں کہ پانامہ لیکس کا مسئلہ سڑکوں اور دھرنوں سے نہیں سپریم کورٹ میں حل ہوگا، اس لئے وزیراعظم نواز شریف پانامہ لیکس کی تحقیقات کیلئے سپریم کورٹ کو خط بھی لکھ چکے ہیں۔ پانامہ لیکس کی تحقیقات کے معاملے پر عمران خان جوڈیشل کمیشن کا فیصلہ بھی تسلیم نہیں کریں گے، نون لیگ کی حکومت پانامہ لیکس پر سپریم کورٹ کے فیصلے کو نہ صرف قبول بلکہ اس پر مکمل عمل بھی کریگی۔

اسلام ٹائمز: عمران خان نے سپریم کورٹ کیجانب سے احتساب کمیشن کے قیام کے اعلان پر خوشی کا اظہار کیا اور احتجاج کو یوم تشکر میں بدل دیا، حکومت یہ ماننے کو کیوں تیار نہیں، کیا پی ٹی آئی کا موقف درست ثابت نہیں ہوتا کہ جان بوجھ کر تاخیری حربے استعمال کئے گئے ہیں۔؟
میاں طاہر پرویز:
یہ عمران خان کا ایک اور یوٹرن ہے، نہ پہلے انکا مقصد احتساب تھا نہ اب ہے، وہ صرف احتساب کا نام استعمال کر رہے ہیں، انہوں نے دھرنے کو اپنی ساکھ بچانے کے لئے استعمال کیا ہے، لوگ ان کی کال پر نہیں نکلے، سڑکوں پر یوٹرن کے بورڈ ہٹا کر عمران خان کی تصویر لگا دی جائے، ان سے بڑا کوئی یوٹرن نہیں ہوسکتا، عمران خان میں کوئی سیاسی بلوغت ہے اور نہ ہی وہ سیاست سیکھنے کیلئے تیار ہیں، عمران خان 3 سالوں سے سڑکوں پر ہیں، اب ہمیں کام کرنے دیں، عمران خان کی احتجاج کی سیاست صرف احتجاج ہے، ملک میں سیاسی عدم استحکام پھیلانے والوں نے ملک میں آئین و قانون پر عمل کی بجائے سڑکوں پر احتجاج کو ترجیح دی، یوم تشکر دھرنے کی موت کے بعد اس کا قل تھا، عمران خان کو ملک میں ترقی کی راہ میں مزید رکاوٹ نہیں ڈالنی چاہیے بلکہ ملک میں سی پیک منصوبوں سمیت دیگر منصوبوں کو مکمل کرنے دیں کیونکہ احتجاجی سیاست ملک اور قوم کے مفاد میں نہیں۔ عمران خان کے پش اپس سے نوجوان متاثر ہوسکتے ہیں، سیاست دان نہیں، عمران خان نے جیل میں راتیں گزارنے سے بچنے کیلئے پہلے ہی ہار مان لی۔ عمران خان کو اب سمجھ جانا چاہیئے کہ یہ کرکٹ نہیں سیاست ہے، سیاست میں کھلاڑیوں کی ضرورت نہیں ہوتی، پش اپس سے شاید نوجوان متاثر ہوتے ہوں گے، مگر جمہوری طور طریقے رکھنے والے اور سیاست دان نہیں۔ عمران خان وکٹری اسٹینڈ پر پہنچے نہیں اور یوم تشکر منایا جا رہا ہے، کوئی عمران سے پوچھے کہ یہ یوم تشکر کس بات کا، جب ان کی نہ جیت ہوئی نہ بات مانی گئی، ایک رات جیل جانا عمران خان سے برداشت نہیں ہوسکتا تھا، احتساب کیلئے اسمبلی کا فورم استعمال کیا جائے۔ اسلام آباد میں احتجاج کے معاملے پر عمران خان وکٹری سٹینڈ پر نہیں پہنچ سکے  اور آج توعمران خان نے معاملہ ہی اس طرح کر دیا ہے جیسا کہ وہ پانامالیکس پر جواب ہی مانگنا چھوڑ دیا ہے۔ عمران کی جیب میں کھوٹے سکے ہیں، پی ٹی آئی کی قیادت لوگوں کو گھروں سے نہیں نکال سکی، بلکہ پاکستان کے عوام نے بلوا روکنے کے لئے حکومت کی جانب سے کئے گئے اقدامات کی تائید کی اور تشدد کی سیاست کرنے والوں کو رسوائی ہوئی ہے۔
خبر کا کوڈ : 580598
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
عمران کا یوم تشکر واقعاً اس کے احتجاج کی رسم قل خوانی تهی، درست کہا پرویز طاهر صاحب نے۔
ہماری پیشکش