0
Friday 23 Dec 2016 18:14
مولانا حماد فاروق پر حملہ ڈی آئی خان کو بدامنی کی دلدل میں دھکیلنے کی سازش ہے

انقلاب اسلامی ایران کے دشمن اگلے 100سال تک بھی اپنے عزائم میں کامیاب نہیں ہوسکتے، علامہ محمد رمضان توقیر

دنیا داعش کے ظلم و بربریت سے آگاہ ہونیکے باوجود حلب میں انکی شکست پر کیوں تلملا رہی ہے
انقلاب اسلامی ایران کے دشمن اگلے 100سال تک بھی اپنے عزائم میں کامیاب نہیں ہوسکتے، علامہ محمد رمضان توقیر
علامہ محمد رمضان توقیر شیعہ علماء کونسل کے مرکزی نائب صدر ہیں، ایک جانی پہچانی شخصیت ہیں جو کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ سابق مشیر وزیراعلٰی خیبر پختونخوا اور حال ایس یو سی کے مرکزی نائب صدر ہیں۔ انکا بنیادی تعلق ڈیرہ اسماعیل خان سے ہے، وہ انقلاب اسلامی ایران کے وقوع پذیر ہونے کے بعد قم المقدس تشریف لے گئے اور وہاں 6 سال تک تعلیم حاصل کی، زمانہ طالب علمی میں ہی ملت کی تحریکی سرگرمیوں میں شمولیت اختیار کرنا شروع کر دی، قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی کے دور میں تحریک کی ضلعی صدارت سے باقاعدہ خدمات کا آغاز کیا، اسکے بعد تحریک کی صوبائی نائب صدارت اور پھر 1993ء میں صوبائی صدارت کی ذمہ داریاں ان کو سونپی گئیں، 4 سال بعد تحریک کے مرکزی رہنماء کی حیثیت سے فرائض سرانجام دیئے اور پھر صوبائی سربراہ کی حیثیت سے ذمہ داریاں سنبھال لیں، خیبر پختونخوا میں مخصوص حالات کے باوجود یہاں اتحاد بین المسلمین کو فروغ دینے میں انکا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، وہ دینی جماعتوں کے غیر فعال اتحاد متحدہ مجلس عمل کے رہنما بھی رہے، وہ نرم مزاج اور حالات حاضرہ پر گہری نظر رکھنے والی شخصیت ہیں۔ اسلام ٹائمز نے علامہ محمد رمضان توقیر سے ایک انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: ڈیرہ میں کچھ عرصہ امن رہنے کے بعد گذشتہ دنوں مولانا حماد فاروق پر جان لیوا حملہ ہوا ہے، آپ اس بارے کیا کہتے ہیں۔؟
علامہ رمضان توقیر:
حافظ حماد اللہ فاروق کا شمار شہر کی ان چنیدہ شخصیات میں ہوتا ہے، جو پائیدار قیام امن کیلئے کوشاں ہیں۔ ان پر اور ان کے بیٹے پر جاں لیوا حملہ ایک سوچی سمجھی سازش اور شہر کو بدامنی کے دلدل میں دھکیلنے کی ایک کوشش ہے۔ یہ کوئی فرقہ وارانہ مسئلہ نہیں ہے، جس کا اظہار بذات خود مولانا حماد فاروق اور انتظامی افسران نے بھی کیا ہے۔ اس حملے میں وہی عناصر ملوث ہیں جو شہر کے امن کے دشمن ہیں، جو اہل تشیع، اہل سنت کے مشترکہ دشمن ہیں۔ گرچہ ان سازشی عناصر نے اپنے تئیں شہر میں بدامنی پھیلانے کی کوشش کی ہے، مگر انہیں اپنے مذموم عزائم میں ناکامی ہوئی ہے۔ انتظامیہ کو چاہیئے کہ فی الفور حملہ آوروں کو گرفتار کرکے کیفر کردار تک پہنچائے۔ انہیں بے نقاب کرے۔ شکر الحمد کہ مولانا حماد فاروق اور ان کا بیٹا اس حملے میں محفوظ رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: ہفتہ وحدت کے دوران اس مذموم کارروائی سے کیا وحدت کی کوششوں کو کوئی نقصان پہنچا۔؟
علامہ رمضان توقیر:
بلاشبہ حملہ آوروں نے شہر میں اہلسنت، اہل تشیع کے مابین وحدت کو نشانہ بنانے کی کوشش کی ہے، مگر شکر الحمد کہ انہیں اپنے عزائم میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان ویسے بھی امن و امان کے حوالے سے انتہائی حساس شہر سمجھا جاتا ہے، جبکہ محرم، صفر، ربیع الاول میں یہ حساسیت مزید بڑھ جاتی ہے، اب ربیع الاول کے مہینے میں ہفتہ وحدت کے دوران لازمی طور پر وحدت کو ہی نشانہ بنانا کی کوشش کی گئی ہے۔ ان شاء اللہ تعالٰی ڈی آئی خان کے تمام مسالک کے عوام ملکر مٹھی بھر دہشت گردوں کے عزائم ناکام بنائیں گے اور ہمیشہ ہی وحدت کی لڑی میں پروئے رہیں گے۔

اسلام ٹائمز: ممکنہ طور پر کس گروہ کی کارستانی ہوسکتی ہے، کوئی شناخت۔؟
علامہ رمضان توقیر:
ممکنہ طور وہی لوگ، وہی عناصر، وہی گروہ ملوث ہوں گے، جنہوں نے اہل تشیع کا بھی خون بہایا اور اہلسنت کو بھی نشانہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جو نفرت کی آگ پہ اپنے مفادات کی روٹیاں سینکتے ہیں۔ میرے خیال میں مولانا حماد فاروق حملے کا ایک مقصد ڈیرہ میں اہل تشیع کی مزید قتل و غارت کا جواز تراشنا بھی ہے۔

اسلام تائمز: اس حملے کے بعد انتظامیہ کیجانب سے اہل تشیع کے گھروں پر چھاپے، گرفتاریاں اور اہل تشیع اکابرین کو سکیورٹی ایڈوائس کا جاری کرنا، کیا حملے کو فرقہ وارانہ رنگ دینا نہیں۔؟
علامہ رمضان توقیر:
پولیس نے واقعہ کے بعد بعض اہل تشیع گھروں پر چھاپے مار کر چند لڑکوں کو گرفتار کیا ہے، جبکہ ظفرآباد کالونی و دیگر علاقوں میں بھی چھاپوں میں گرفتاریاں عمل میں آئی ہیں۔ ابتدائی تحقیقات کے بعد زیادہ تر افراد کو رہا کر دیا گیا ہے۔ ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر نے اپنے بیان میں بھی کہا ہے کہ تیسری قوت ڈیرہ کے حالات خراب کرنا چاہتی ہے۔ شیعہ سنی مسئلہ نہیں ہے۔ جہاں تک اہل تشیع اکابرین کو جاری سکیورٹی ایڈوائس کا تعلق ہے تو وہ اکثر و بیشتر چنیدہ افراد کو جاری کی جاتی ہے، جب جب حالات نازک ہوتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: ماضی میں ڈی آئی خان کے اندر عوامی مقامات پر انقلاب اسلامی اور ہفتہ وحدت کے عناوین سے پروگرام کئے جاتے تھے۔ اب ایسا نہیں ہے، کیا وجہ ہے۔؟
علامہ رمضان توقیر:
اس حوالے سے پروگرام تو ابھی بھی ہوتے ہیں مگر ان میں عالمی شخصیات کی شرکت کی اجازت حکومت اور ملکی حالات نہیں دیتے۔ جب حالات بہتر ہوں گے تو ان شاء اللہ یہ سلسلے پھر سے جاری ہوں گے۔

اسلام ٹائمز: حلب کی فتح کے بعد میڈیا بالخصوص سوشل میڈیا تصویر کا ایک ہی رخ پیش کر رہا ہے، اسکی کیا وجہ ہے۔؟
علامہ رمضان توقیر:
حلب میں شام کی سرکاری افواج کی فتح کے خلاف اسرائیل میں یہودیوں نے مظاہرے کئے جبکہ شام و حلب کے لوگوں نے اپنی افواج سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے باقاعدہ جشن منایا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شام کے عوام خود کچھ اور جبکہ باہر کے عوام اور حکام کچھ اور چاہتے تھے۔ سوشل میڈیا میں جتنا منفی پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے تو اس کا انتہائی مدلل اور متناسب جواب بھی آرہا ہے۔ بات بھی حقیقت ہے کہ پوری دنیا داعش اور دیگر دہشت گرد گروہوں کے ظلم و بربریت سے آگاہ ہے، داعش کے ظلم و انسانیت سوز اقدامات کے باوجود حلب میں ان کی شکست پر دنیا کیوں تلملا رہی ہے۔؟ المیہ یہ ہے کہ جب دہشت گرد وہاں تباہی مچا رہے تھے تو آج واویلا کرنے والے اس وقت مکمل خاموش تھے۔ جب حلب سمیت دیگر علاقوں سے یہ قبضہ واپس لیا جا رہا ہے تو اس کے خلاف شور مچایا جا رہا ہے۔ میں اس بارے زیادہ تو نہیں مگر اتنا ضرور کہوں گا کہ پاکستان میں وہی لوگ شور مچانے میں پیش پیش ہیں، جو ماضی میں دہشت گردی کی توجیہات پیش کرتے اور دہشت گردوں کے انسانیت سوز جرائم کا دفاع کرنے کی کوشش کرتے تھے۔

علاوہ ازیں یہ حقیقت بھی اپنی جگہ ہے کہ حلب کے فاتحین سے متعلق پروپیگنڈے کا پول بھی اب کھل چکا ہے۔ ایک ظلم تو یہ کہ جب وہاں دہشت گرد ظلم کی داستانیں رقم کر رہے تھے تو اس پر خاموشی، پھر جب ظالموں کے چنگل سے وہاں کے شہریوں کو چھڑایا گیا تو اس پر احتجاج اور اس سے بڑھ کر ظلم یہ کہ اسی ملک کی سرکاری افواج کو بدنام کرنے کیلئے جھوٹا پروپیگنڈا بھی شدت سے جاری ہے۔ اب تو جعلی فوٹیج بنانے والا وہ گروہ بھی پکڑا گیا ہے کہ جو فوج کو بدنام کرنے کیلئے ظلم پر مبنی وڈیوز بناکر سوشل میڈیا پر پھیلا رہا تھا، تاکہ دیگر ممالک میں شہریوں کو مشتعل کرکے فتنہ و فساد پھیلایا جاسکے۔ حلب ،شام کا علاقہ ہے، جس کا کنٹرول شام کی سرکاری افواج نے دہشت گردوں سے واپس لیا ہے۔ اس پر شام کے عوام خوش ہیں، کیونکہ پاکستان کے عوام کی طرح شام کے عوام بھی اپنی فوج سے محبت کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب شام کے عوام خوش ہیں تو باہر کے لوگوں کو کیا تکلیف ہے کہ وہ اس پر سیخ پا ہو رہے ہیں۔؟ اور کیا یہ طرزعمل دہشتگردی و شدت پسندی کی حوصلہ افزائی پر مبنی نہیں۔؟

اسلام ٹائمز: شام و عراق میں داعش سمیت دیگر دہشتگردوں کی شکست کا کارنامہ کس ملک یا شخصیت کا سمجھتے ہیں۔؟
علامہ رمضان توقیر:
جنرل قاسم سلیمانی

اسلام ٹائمز: انقلاب اسلامی ایران کیخلاف دنیا کی بڑی طاقتیں طویل عرصے سے سرگرم ہیں، ان طاقتوں کی کامیابی کے کتنے فیصد امکانات موجود ہیں۔؟
علامہ محمد رمضان توقیر:
اگلے سو سال تک تو کوئی آثار نہیں ہیں کہ انقلاب اسلامی کے دشمنوں کو نظام انقلاب کیخلاف اپنے مکروہ نظام میں کامیابی حاصل ہو۔ دنیا بھر کے مظلوم و محروم عوام میں اپنے حقوق کیلئے جو بیداری کی لہر موجود ہے، وہ انقلاب اسلامی کا ہی ثمر ہے۔ انقلاب کے دشمنوں کو جب اوائل انقلاب میں کوئی کامیابی نہیں ملی تو کیسے ممکن ہے کہ آج کامیاب ہوں، جب انقلاب اسلامی ایک سایہ دار درخت کی صورت نہ صرف ایران بلکہ دیگر اقوام و ممالک کو بھی سامراجی عزائم سے سایہ عطف فراہم کر رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: کوٹلی امام حسین (ع) کی زمین قابضین سے واگزار کرانا اور اسکی پرانی حیثیت کی بحالی شہریوں کا دیرینہ مسئلہ ہے، اسکا حل کیسے ممکن ہے۔؟
علامہ محمد رمضان توقیر:
اس حوالے سے متعدد کوششیں ہوچکی ہیں، مگر آپسی اختلافات کسی بھی کوشش کو ثمر آور نہیں ہونے دیتے۔ وکلا کی کمیٹیاں بھی تشکیل دی جا چکی ہیں، مگر بات ایک خاص پوائنٹ سے آگے نہیں بڑھ پاتی۔ اب موجودہ زمین بھی ہم نے سخت کوششوں سے تحویل میں لی ہے، اس پر بھی بعض اوقات اپنے ہی لوگ اعتراض کر جاتے ہیں۔ میرے نزدیک اس مسئلہ کا بہترین حل یہی ہے کہ مالی طور پر مستحکم پڑھے لکھے افراد پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کی جائے، جسے تمام حقوق حاصل ہوں۔ وہ کمیٹی کوٹلی کی زمین کو واگزار کرانے اور اس کی پرانی حیثیت کی بحالی کیلئے کوششیں کرے۔ گذشتہ روز بھی اوقاف ایڈمنسٹریٹر نے ڈی آئی خان کا دورہ کیا تو ڈی سی نے باہمی مذاکرات کا اہتمام کیا۔ ہم سے جب موقف لیا تو ہم نے بتایا کہ اوقاف پہلے یہ بتائے کہ امام حسین (ع) کے نام سے کوٹلی کی زمین اوقاف کے نام پر کیسے انتقال ہوئی۔ دوسرا ڈی آئی خان میں محرم الحرام کا ہمارا سب سے بڑا مذہبی اجتماع یہیں منعقد ہوتا ہے۔ ہمارا اکلوتا قبرستان یہی ہے، ہماری چیز اوقاف ہم سے چھین کر ہمیں اس سے محروم کر رہا ہے۔ بہرحال محکمہ اوقاف کا مطالبہ ہے کہ موجودہ قبرستان کی حدبندی کرکے وہ ہمیں دے اور باقی زمین ہڑپ کرے۔ اگر مستحکم افراد پر مشتمل اہل تشیع کی نمائندہ کمیٹی مشترکہ اور متفقہ طور پر حکمت عملی اختیار کرے تو یہ مسئلہ قابل حل ہے۔
خبر کا کوڈ : 593942
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش