0
Wednesday 21 Jun 2017 05:25
ریاض کانفرنس کے بعد یوم القدس کی اہمیت، افادیت میں اضافہ ہوگیا ہے

کوٹلی امام حسین (ع) کے مسئلہ پر 120 کنال اراضی مشروط طور پر قبول کرلینی چاہیئے، علامہ رمضان توقیر

امریکہ عالم اسلام کی وحدت اور برطانیہ تشیع کی وحدت کو نشانہ بنائے ہوئے ہے
کوٹلی امام حسین (ع) کے مسئلہ پر 120 کنال اراضی مشروط طور پر قبول کرلینی چاہیئے، علامہ رمضان توقیر
علامہ محمد رمضان توقیر ایک جانی پہچانی شخصیت ہیں، جو کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ سابق مشیر وزیراعلٰی خیبر پختونخوا اور حال شیعہ علماء کونسل پاکستان کے مرکزی نائب صدر ہیں۔ انکا بنیادی تعلق ڈیرہ اسماعیل خان سے ہے، وہ انقلاب اسلامی ایران کے وقوع پذیر ہونیکے بعد قم المقدس تشریف لے گئے اور وہاں 6 سال تک تعلیم حاصل کی، زمانہ طالب علمی میں ہی ملت کی تحریکی سرگرمیوں میں شمولیت اختیار کرنا شروع کر دی، قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی کے دور میں تحریک کی ضلعی صدارت سے باقاعدہ خدمات کا آغاز کیا، اسکے بعد تحریک کی صوبائی نائب صدارت اور پھر 1993ء میں صوبائی صدارت کی ذمہ داریاں انکو سونپی گئیں، 4 سال بعد تحریک کے مرکزی رہنما کی حیثیت سے فرائض سرانجام دیئے اور پھر صوبائی سربراہ کی حیثیت سے ذمہ داریاں سنبھال لیں، خیبر پختونخوا میں مخصوص حالات کے باوجود یہاں اتحاد بین المسلمین کو فروغ دینے میں انکا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، وہ دینی جماعتوں کے غیر فعال اتحاد متحدہ مجلس عمل کے رہنما بھی رہے، وہ نرم مزاج اور حالات حاضرہ پر گہری نظر رکھنے والی شخصیت ہیں۔ اسلام ٹائمز نے علامہ محمد رمضان توقیر سے ایک انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: کوٹلی امام حسین (ع) کا مسئلہ گھمبیر صورت اختیار کرتا جا رہا ہے، تین سو کنال سے زائد وقف امام حسین (ع) اراضی میں سے فقط 120 کنال اراضی پی ٹی آئی حکومت دینے پر رضامند ہے، اس بارے میں آپکا کیا موقف ہے۔؟
علامہ محمد رمضان توقیر:
بات یہ ہے کہ جذباتی مطالبات اور زمینی حقائق میں جو فرق ہے، دانش مندی کا تقاضہ یہ ہے کہ اس فرق کو ملحوظ رکھا جائے۔ تین سو کنال سے زائد اراضی کاغذوں میں وقف کوٹلی امام حسین (ع) تھی۔ جس کی قانونی حیثیت تبدیل کر دی گئی، مگر یہ بھی تو حقیقت ہے کہ اس تین سو کنال سے زائد اراضی میں سے ابھی فارغ کتنی پڑی ہوئی ہے۔ پچھلی طرف پوری ایک بستی آباد ہوچکی ہے۔ کیا حکومت اس بستی کو بلڈوز کرے گی۔؟ سڑک کی دوسری جانب کتنے عرصے سے دکانیں اور دیگر تعمیرات ہوچکی ہیں۔ کتنے کنال سڑک میں آچکی ہے۔؟ تو ان زمینی حقائق کو ملحوظ رکھنا لازم ہے کہ کتنے کنال اراضی فارغ ہے۔ اس میں سے کتنے کنال اراضی ہمارے یعنی اہل تشیع کی دسترس میں ہے۔ پی ٹی آئی حکومت یعنی صوبائی وزیر مال علی امین خان کے ساتھ اس بارے میں ہونے والے مذاکرات میں گرچہ میں خود شریک نہیں تھا۔ تاہم صوبائی وزیر مال کی جانب سے یہ آفر دی گئی کہ ایک سو بیس کنال اراضی دینی مقاصد کیلئے وقف رکھی جائے گی۔ جس کیلئے تین کروڑ روپے کی ادائیگی بھی صوبائی حکومت کی جانب سے کی جائے گی۔ اس آفر پر جب ہمارے آپس میں مذاکرات ہوئے تو میں نے یہ مشورہ دیا کہ مذاکرات کے عمل کو جاری رکھا جائے۔ بجائے اس آفر کو کلی طور پر مسترد کرنے کے اسے مشروط طور پر قبول کیا جائے۔ شرط یہ رکھی جائے کہ مدرسہ، قبرستان، جنازہ گاہ، بہشت شہداء اور میدان کربلا کو چھوڑ کر ہمیں ایک سو بیس کنال اراضی دی جائے، کیونکہ یہ نہ صرف پہلے سے ہی قومی تصرف میں ہے بلکہ استعمال ہوچکی ہے۔ مقصد یہ ہے تھا کہ ایک سو بیس کنال اراضی ہمیں پوری کرکے دی جائے، جو ہمارے قومی تصرف میں نہیں ہے۔ تو میرے خیال میں جتنی بھی خالی اراضی موجود ہے، وہ پوری کی پوری بھی پیمائش کرلی جائے تو بھی ایک سو بیس کنال نہیں ہوسکتی، تو مشروط طور پر ایک سو بیس کنال کی آفر ہمیں قبول کرنی چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: کوٹلی امام حسین (ع) کے حوالے سے بنیادی مطالبہ تو یہ تھا کہ اس کی پرانی حیثیت کو بحال کیا جائے یعنی مکمل تین سو ستائیس کنال اور دس مرلے اراضی واپس بنام وقف امام حسین (ع) کی جائے، اس بنیادی مطالبے پر گروہ بندی کیوں ہوچکی ہے۔؟
علامہ محمد رمضان توقیر:
ہم اس مطالبے کی تائید و حمایت کرتے ہیں، ایسا ہونا چاہیئے۔ جہاں تک گروہ بندی کا سوال ہے تو اس کی وجہ یہ مطالبہ نہیں بلکہ مشاورت اور روابط کا فقدان ہے۔ جب کوئی شخص مشاورت کے بنا اپنے طور پر کوئی بھی اقدام لیتا ہے تو پھر اسے یہ بھی توقع نہیں کرنی چاہیئے کہ دوسرے آکر اس کا ساتھ دیں گے۔ کوٹلی امام حسین (ع) کی اراضی کی پرانی حیثیت میں بحالی کے مطالبے کیساتھ طویل عرصے سے احتجاجی کیمپ لگا ہوا ہے۔ ہم نے بھی اس کیمپ کی حمایت کی ہے، مگر اس کیمپ سے انتظامیہ کو منفی پیغام اس لئے جا رہا ہے کیونکہ اس میں عوامی شرکت نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے انتظامیہ پر کوئی اثر نہیں ہو رہا۔

اسلام ٹائمز: کوٹلی امام حسین (ع) میں تشیع کی مستقل نمائندگی آپکی نگرانی میں مدرسے کی صورت میں موجود ہے، تو جب کوٹلی امام حسین (ع) کی زمین پر ناجائز قابضین پاؤں پھیلا رہے تھے تو اسوقت مدرسے کیجانب سے کوئی ردعمل سامنے کیوں نہیں آیا۔؟
علامہ محمد رمضان توقیر:
ہم نے طالبات کے مدرسے، یا کالج کے قیام کے وقت انتظامیہ سے ٹکر لی۔ جیلیں بھی دیکھیں اور اپنے قوت بازو پر یہ تعمیرات کیں۔ یہاں تک کہ ان کی تعمیرات کی قانونی حیثیت بھی تسلیم کرائی۔ اب اوقاف کے نقشوں میں بھی ہمارے مدرسے اور دیگر تعمیرات کو سبز لائن کے ساتھ نمایاں کیا گیا ہے۔ باہمی مشاورت کیساتھ کوٹلی امام کی تمام اراضی کو قومی تصرف میں لیا جاسکتا تھا، مگر آپسی اختلافات کے باعث ایسا نہیں ہوسکا۔ جہاں تک ناجائز قابضین کے خلاف ایکشن لینے کی بات ہے تو یہاں مدرسے کے پیچھے ایک شخص نے مکان تعمیر کرنے کی کوشش کی تھی تو پہلے انتظامیہ کے ذریعے رکوایا تھا، جب دوبارہ تعمیر کرنے کی کوشش کی تو میں نے خود اپنے ہاتھوں سے اسے دھکا دیا تھا۔ ابھی چند روز پہلے اسی جگہ ایک مرتبہ پھر وہی قبیح کوشش دہرائی گئی، جسے احتجاجی کیمپ کے لوگوں نے جاکر گرایا۔ جہاں تک پچھلی بستی کی بات ہے تو وہ بہت پہلے کی تعمیرات ہیں۔

اسلام ٹائمز: مسئلہ کا حل کیا ہے کہ جسکے ذریعے کوٹلی امام حسین (ع) کی اراضی دوبارہ پرانی حیثیت میں بحال ہوکر قومی تصرف میں آئے۔؟
علامہ محمد رمضان توقیر:
آپسی تعلقات، باہمی مشاورت اور مذاکرات کے ذریعے ہی اس مسئلہ کا حل ممکن ہے۔

اسلام ٹائمز: یوم القدس کے حوالے سے ڈی آئی خان میں آپکی جماعت کے زیراہتمام عوامی اجتماعات و مظاہروں کا کیا پروگرام ترتیب دیا گیا ہے۔؟
علامہ محمد رمضان توقیر:
امریکی سربراہی میں ریاض کانفرنس کے بعد یوم القدس کی اہمیت، افادیت میں مزید اضافہ ہوگیا ہے، جس کے بعد ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر مسلمان امریکہ اسرائیل کیخلاف اور آزادی فلسطین، آزادی قدس سے اظہار یک جہتی کیلئے ہونے والے مظاہروں میں اپنی شرکت کو یقنی بنائے۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں شیعہ علماء کونسل کے زیراہتمام نماز جمعہ کے بعد کوٹلی امام حسین (ع) سے القدس ریلی برآمد ہوگی۔ جس میں مدارس کے طلاب و اساتذہ سمیت اہلیان شہر شریک ہوں گے۔ یہ ریلی سرکلر روڈ پر جاکر احتجاجی مظاہرے میں تبدیل ہوجائیگی اور سرکلر روڈ پر ہی تقاریر اور قرارداد پیش ہوگی۔ علاوہ ازیں مورخہ 21 جون کو نیشنل کلب میں القدس سیمینار کا انعقاد کیا جا رہا ہے، جس میں صوبائی وزیر مال سردار علی امین خان اور ضلع ناظم عزیز اللہ خان مہمان خصوصی ہوں گے۔ اس سیمینار میں دیگر مکاتب کے علماء کرام اور مشائخ سمیت میڈیا سے تعلق رکھنے والی شخصیات اور معززین شہر شریک ہوں گے۔ مقصد یوم القدس کا پیغام پہنچانا ہے۔

اسلام ٹائمز: ڈی آئی خان میں یوم القدس کے اجتماعات میں عوامی شرکت کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا سمجھتے ہیں کہ عوامی شعور کی بیداری پہ قابل ذکر کام ہوا ہے۔؟
علامہ محمد رمضان توقیر:
نہیں اسے قابل اطمینان ہرگز قرار نہیں دیا جاسکتا مگر ہر علاقے، شہر کے لوگوں کا بھی اپنا ایک مخصوص مزاج ہوتا ہے۔ یہاں کے لوگوں کا مزاج ایسا ہے۔ معیار سے ساقط، عامیانہ گفتگو کرنے والوں کی واہ واہ کی جائے گی۔ اگر ایک درس اخلاق رکھ لیں، چاہے اس میں کتنے ہی معروف علماء کرام مدعو کیوں نہ ہوں، گنتی کے چند افراد اس درس اخلاق میں شریک ہوں گے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ کچھ یہ مسئلہ، کچھ اپنی کمزوریاں کچھ دشمن کی سازشیں، تو ان سب نے ملکر ایسا ماحول بنا دیا ہے کہ بات سے اور فیصلے سے پہلے ہی عوامی سطح پر مختلف شخصیات کے خلاف مخصوص فضا بنا دی جاتی ہے۔ تو اس فضا میں جتنی بھی کوشش کی جائے، ان شخصیات کی گفتگو اور پیغام کا وہ اثر نہیں رہتا۔ علاوہ ازیں عالمی سازش کے تحت معاشرے میں علماء کی تضحیک کا رجحان فروغ پا رہا ہے، بالخصوص تشیع علماء کی اور اس ٹولے میں اپنے زیادہ متحرک ہیں۔

اسلام ٹائمز: ابھی جس عالمی سازش کا آپ نے ذکر کیا، اسکا سرخیل کون ہے اور سازش کیا ہے۔؟
علامہ محمد رمضان توقیر:
دنیا میں جتنا پیارا نظریہ اور عقیدہ ہمارے پاس ہے، ایسا کسی کے پاس نہیں ہے اور عصر حاضر میں یہ نظریہ، عقیدہ اتنا پراثر ہے کہ پوری دنیا کو اپنے دامن میں سمو سکتا ہے۔ نظریہ ولایت فقیہ کہ ایران سے رہبر معظم ایک جملہ ارشاد فرمائیں اور پاکستان یا نائیجیریا یا کسی اور ملک کے دور افتادہ گاؤں میں موجود شخص دل سے اس ارشاد پہ لبیک کہے، تو یہ نظریہ بذات خود ایک ناقابل تسخیر قوت کا مظہر ہے۔ اب اس نظریئے کو مسخر کرنا تو عالمی استعمار کے اختیار میں ہے نہیں تو اس کا توڑ وہ لوگوں کو اس نظریئے سے گمراہ کرکے کرنے پر کمربستہ ہے۔ بفرمان امام خمینی شیطان بزرگ (امریکہ) عالم اسلام کو فرقہ واریت کے نام پر پارہ پارہ کرنے میں مصروف ہے، جبکہ برطانیہ تشیع کی وحدت کو نشانہ بنائے ہوئے ہے اور نت نئے فتنے ابھار رہا ہے، تشیع کے خلاف اس عالمی سازش کا ایک اہم حصہ تشیع علماء کی تضحیک اور معاشرے میں ان کی تذلیل ہے۔ چنانچہ اسی عالمی سازش کے آلہ کار ہر جگہ پر علماء حقہ کو اپنے مذموم ایجنڈے کا نشانہ بنائے ہوئے ہیں اور ان کی تذلیل کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ چاہے وہ ڈی آئی خان ہو، پاکستان یا کوئی اور مقام۔

اسلام ٹائمز: ڈی آئی خان میں کل کتنے تشیع نوجوان لاپتہ ہیں اور انکی بازیابی کیلئے آپکی جماعت نے کیا زحمت کی ہے۔؟
علامہ محمد رمضان توقیر:
کل آٹھ نوجوان لاپتہ ہیں۔ اس سلسلے میں ہم نے اپنی سی کوششیں کی ہیں، تاہم ہمارا ان نوجوانوں یا ان لوگوں سے کوئی رابطہ نہیں ہو پایا کہ جنہوں نے ان نوجوانوں کو لاپتہ کیا ہے۔ ان کے خانوادوں کے غم میں ہم بھی برابر کے شریک ہیں۔
خبر کا کوڈ : 647613
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش