0
Wednesday 19 Jul 2017 15:21
سی پیک سے منسلک کسی بھی پروجیکٹ کو خفیہ نہیں رکھا گیا

گوادر بندرگاہ ایران اور دیگر وسط ایشائی ریاستوں سے روابط کے فروغ میں کلیدی کردار ادا کریگی، دوستین خان جمالدینی

گوادر کو اسوقت ایران بجلی مہیا کر رہا ہے
گوادر بندرگاہ ایران اور دیگر وسط ایشائی ریاستوں سے روابط کے فروغ میں کلیدی کردار ادا کریگی، دوستین خان جمالدینی
دوستین خان جمالدینی چیئرمین گوادر پورٹ اتھارٹی ہیں۔ انہوں نے 1990ء میں بلوچستان پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کرکے اپنے سرکاری کیرئیر کا آغاز کیا۔ وہ بلوچستان میں سیکرٹری فنانس، سیکرٹری انرجی، سیکرٹری برائے مذہبی امور، مشترکہ سربراہ اقتصادیات اور وزارت منصوبہ بندی و ترقی کے چیف بھی رہے ہیں۔ حکومت کیجانب سے 2013ء میں‌ انہیں چیئرمین گوادر پورٹ اتھارٹی تعینات کیا گیا۔ دوستین خان جمالدینی سے سی پیک منصوبے اور گوادر بندرگاہ کی فعالیت کے حوالے سے ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے ایک مختصر انٹرویو کیا، جو قارئین کیلئے پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: گوادر آج بھی ایک پسماندہ قصبے کی مانند شہر ہے، جبکہ اسے بنانیکے بلند و بانگ دعوے کئے گئے۔؟
دوستین خان جمالدینی:
گوادر ایک بستی بسانے کا کام نہیں بلکہ ایک ابھرتا ہوا نیا شہر اور نیا منصوبہ ہے۔ ایک چیز کا ہونا ضروری ہے، وہ یہ کہ ہماری پالیسیوں میں تسلسل ہو۔ اسلام آباد کے علاوہ پاکستان کا کوئی دوسرا شہر پلاننگ کیساتھ نہیں بنایا گیا، لیکن گوادر وہ دوسرا شہر ہوگا، جسے بنایا جائے گا۔ سی پیک کی تعمیر پندرہ سالوں یعنی 2030ء تک مکمل ہوگی۔

اسلام ٹائمز: آنیوالے دنوں میں گوادر پورٹ دنیا کی دیگر بین الاقوامی پورٹس دبئی اور سنگاپور وغیرہ سے کیسے مقابلہ کر پائیگی۔؟
دوستین خان جمالدینی:
سب سے پہلی چیز تو یہ ہے کہ ہم کسی سے مقابلہ نہیں کر رہے۔ ہم گوادر پورٹ کو اسکے اپنے میرٹ پر ترقی دے رہے ہیں۔ اسکی ضرورت یہ ہے کہ سی پیک کے تحت جو نیا روٹ کھلے گا، نئی راہداری کھلے گی، اسکے ذریعہ چین کے سلک روڈ اور میری ٹائم سلک روڈ سے منسلک ہوگی۔ جو پاکستان کو ایشیاء، افریقا اور یورپ کی تجارتی منڈی سے جوڑنے کا ایک ذریعہ ہوگی۔ اسکے لئے ہم نے ہانگ کانگ اور سنگاپور کی پورٹ سٹیز کو بینچ مارک کیا ہے۔

اسلام ٹائمز: گوادر میں تو آج بھی ترقیاتی کام نہ ہونیکے برابر ہیں، تو کیا حکومتی بیانات اور عملی اقدامات میں آپ فرق محسوس کرتے ہیں۔؟
دوستین خان جمالدینی:
اسوقت گوادر پورٹ سٹی کا ماسٹر پلان تیار کیا جا رہا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ اس سال کے آخر تک یہ منصوبہ مکمل ہوگا۔ اسکی تکمیل ہونے تک ہم نے دیگر کاموں کو وہاں پر روکا ہوا ہے۔ گوادر بندرگاہ کو ہم گوادر شہر کیساتھ اس منصوبے میں منسلک کرینگے اور جیسے ہی ماسٹر پلان تیار ہو جائے گا، شہر کے تمام مسائل کو حل کرنے کیلئے عملی اقدامات اٹھائے جائینگے۔

اسلام ٹائمز: گوادر کی عام آبادی کہتی ہے کہ صرف سڑکوں کی تعمیر سے انہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔ آپ اس دعوے کو کس طرح دیکھتے ہیں۔؟
دوستین خان جمالدینی:
ہم نے گذشتہ تین سالوں میں گوادر میں اسکولز، کالجز، ہسپتال، ٹیکنیکل ٹریننگ سینٹرز سمیت دیگر منصوبوں کی تکمیل کو ممکن بنایا ہے۔ اسی طرح بجلی کے منصوبوں پر بھی کام تیزی سے جاری ہے۔ لہذا میں نہیں سمجھتا کہ اس منصوبے سے انہیں کوئی فائدہ نہیں ہوگا بلکہ سی پیک کے ذریعے سب سے زیادہ فائدہ گوادر اور بلوچستان کے لوگوں کو ہی ہوگا۔

اسلام ٹائمز: گوادر میں بجلی کے بحران کو کب ختم کیا جائیگا۔؟
دوستین خان جمالدینی:
چین کیساتھ مختلف منصوبوں پر کام ہونا ہے، ان منصوبوں میں سب سے پہلے گوادر شہر کیلئے خصوصاً تین سو میگا واٹ بجلی کی پیداوار ہے۔ اس وقت گوادر میں بجلی ایران سے آ رہی ہے، لیکن آنے والے دنوں میں مکران کے علاوہ کیچ، پنجگور اور گوادر ڈسٹرکٹ کو بجلی مہیا کرنے کیلئے تین سو میگاواٹ کے منصوبے پر کام ہوگا۔

اسلام ٹائمز: گوادر میں ماہی گیروں کے تحفظات کو کیسے حل کیا جائیگا۔؟
دوستین خان جمالدینی:
ماہی گیروں کیلئے ہم نے ایک دوسرا علاقہ مختص کیا ہے۔ اسی گوادر منصوبے کے تحت دو فشنگ ہاربرز کی تعمیر عمل میں لائی گئی ہے۔ جس سے گوادر کے مقامی ماہی گیروں کو بے انتہا فائدہ پہنچے گا۔

اسلام ٹائمز: کیا آنیوالے دنوں میں گوادر پورٹ کا کراچی کی قاسم پورٹ سے موازنہ کیا جاسکتا ہے۔؟
دوستین خان جمالدینی:
ان دونوں بندرگاہوں میں فرق ہے۔ جب قاسم پورٹ بنا تو اسکے الگ اہداف تھے، جبکہ گوادر کے اپنے الگ اہداف ہیں۔ اس وقت پاکستان کی 60 فیصد درآمدات و برآمدات کراچی پورٹ اور 35 فیصد قاسم پورٹ کے ذریعے ہوتی ہیں۔ اب چونکہ گوادر چین کے علاقے کاشغر کیساتھ منسلک ہوگا، اسی وجہ سے وسطٰی ایشیاء، افغانستان، ایران سمیت دیگر یورپی ممالک کیساتھ ہمارا کام ہوگا، جسکی وجہ سے گوادر پاکستان کی دیگر پورٹس سے مختلف ہوگی۔

اسلام ٹائمز: جب سے یہ پروجیکٹ شروع ہوا ہے، تب سے کتنے بحری جہاز گوادر میں لنگر انداز ہوئے ہیں۔؟
دوستین خان جمالدینی:
اب تک 170 کے قریب جہاز یہاں پر آئے ہیں۔ رواں سال تک ہم گوادر میں صرف درآمدات لیتے تھے۔ حکومت پاکستان یوریا یا گندم وغیرہ گوادر پورٹ کے ذریعے درآمد کرتی ہے، لیکن گذشتہ کچھ عرصے سے ہم نے گوادر سے برآمدات کا عمل بھی شروع کر دیا ہے، لیکن چونکہ گوادر کی اپنی معیشیت بہت چھوٹی ہے اور ملک کے دیگر حصوں سے اب تک مکمل طور پر منسلک نہیں ہوا، اسی وجہ سے مکمل طور پر یہ بندرگاہ اب تک فعال نہیں ہو پائی، لیکن 2018ء کے آخر تک ہم گوادر کو ملک کے دیگر حصوں سے منسلک کر دینگے۔

اسلام ٹائمز: کیا گوادر کی فعالیت کا اصل مسئلہ بلوچستان میں امن و امان کی مجموعی صورتحال کیوجہ سے ممکن نہیں ہو پایا ہے یا آپکے بقول زمینی راستوں کا فعال نہ ہونا اسکے آپریشنل ہونے میں زیادہ رکاوٹ ہے۔؟
دوستین خان جمالدینی:
جب آپ اسے معاشی نگاہ سے تجزیہ کرتے ہیں تو سیاست روز مرہ زندگی کا حصہ ہوتی ہے، لیکن اگر تکنیکی نگاہ سے دیکھا جائے تو ہم دیگر عوامل کو بھی خاطر میں لاتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: سی پیک منصوبے کے تحت جتنے ترقیاتی منصوبے صوبہ پنجاب میں لگائے جا رہے ہیں، اتنی صوبہ بلوچستان پر توجہ نہیں دی جا رہی، اسکی کیا وجہ ہے۔؟
دوستین خان جمالدینی:
اس سے پہلے کوئٹہ سے گوادر جانے کیلئے آپکو دو دن لگتے تھے۔ سی پیک کی بدولت سہراب سے گوادر تک 650 کلو میٹر سڑک اڑھائی سال میں بنائی گئی ہے۔ آج آپ کوئٹہ سے گوادر آٹھ گھنٹے میں جاسکتے ہیں، تو کیا یہ بلوچستان کی عوام کیلئے ایک بڑی تبدیلی نہیں۔؟ اسی طرح آنے والے دنوں میں ہر لحاظ سے سی پیک کے ذریعے سب سے پہلا فائدہ بلوچستان کا ہی ہوگا۔

اسلام ٹائمز: کیا چین سی پیک کے ذریعے پاکستان کیلئے مستقبل میں ایسٹ انڈیا کمپنی تو ثابت نہیں ہوگا۔؟
دوستین خان جمالدینی:
چین ہمارا سب سے بااعتماد دوست ہے۔ اس نے پاکستان کا ہاتھ اس وقت پکڑا، جب کوئی ہمیں 100 ڈالر بھی دینے کو تیار نہیں تھا۔ آج پاکستان میں پچاس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرکے رائے عامہ کو وہ اپنے خلاف نہیں کرنا چاہتا۔ چین اگر پاکستان میں اپنی فیکڑیاں لا رہا ہے تو اسکی اصل وجہ یہ ہے کہ چین میں لیبر کی قیمت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اسی وجہ سے انکی فیکٹریاں آنے سے یہاں بیروزگاری میں کمی آئے گی۔ اس منصوبے کے تحت 75 فیصد سرمایہ کاری نجی کمپنیوں کے ذریعے ہو رہی ہے، جبکہ 11 سے 12 ارب ڈالر جو قرضہ لیا جا رہا ہے، وہ ہمیں 20 سے 25 سالوں میں واپس کرنا ہوگا۔ جس پر سود کی شرح دو سے تین فیصد ہے، جو کہ تقریباً ایک مفت پیسہ ہے۔ ہمیں اپنی ایسی ذہنیت بدلنی ہوگی، جس میں ہم ہر مثبت چیز کے پیچھے سازش کو ڈھونڈتے ہیں۔ دشمن کا کام تو یہی ہے کہ پاکستان کو ترقی سے روکا جائے، لیکن یہ ہماری قوم کے ہر فرد پر ایک ذمہ داری عائد ہوتی ہیں کہ ملکی معیشیت کو بہتر بنانے والے اس عظیم منصوبے میں کسی قسم کا شک اپنے ذہن میں نہ آنے دے۔

اسلام ٹائمز: اگر سی پیک منصوبے کی تفصیلات شروع میں عوام کو بتائی جاتیں تو آج سازشی عناصر عوام کے ذہنوں میں اسطرح کے خرافات ڈالنے میں کامیاب نہیں ہوتے۔؟
دوستین خان جمالدینی:
کوئی بھی ایک پروجیکٹ ایسا نہیں ہے کہ جسے خفیہ طور پر منظور کیا گیا ہو۔ بجلی کے جتنے بھی منصوبے ہیں، انہیں نیپرا طے کرتی ہے۔ نیپرا جب کوئی ٹیرف منظور کرتی ہے تو اسکے لئے عام سماعت ہوتی ہے۔ نیپرا حکومت پاکستان کا نہیں، بلکہ ایک آزاد ریگولیٹری ادارہ ہے۔ لہذا جیسے ہی سی پیک کے تمام منصوبوں کے پلان کی تشکیل ہوئی، اسی وقت پوری پاکستانی عوام کے درمیان اسے لایا گیا۔ اگر پاکستان میں سیاسی استحکام رہتا ہے اور پالیسیوں کو دوبارہ واپس نہیں لیا جاتا تو یہ یقینی طور پر پاکستان کے مستقبل کا تعین کرے گی۔

اسلام ٹائمز: سی پیک منصوبے سے ہمسایہ ممالک کیساتھ روابط پر کیا اثرات مرتب ہونگے۔؟
دوستین خان جمالدینی:
چین اور پاکستان کے وسط ایشائی ریاستوں، ایران اور دیگر ممالک سے روابط کے فروغ میں گوادر بندرگاہ کا ایک کلیدی کردار ہے۔ یہ علاقے توانائی کے ذخائر سے مالا مال ہیں۔ اس طرح مستقبل میں توانائی کے شعبے میں تعاون کو فروغ حاصل ہوسکے گا۔ گوادر بندرگاہ پر اس وقت کئی ترقیاتی منصوبے جاری ہیں اور جلد ہی آزاد تجارتی زون کے قیام کو عملی شکل دے دی جائے گی۔

اسلام ٹائمز: گوادر میں انٹرنیشنل ائیرپورٹ کی تعمیر کا کام کہاں تک پہنچا ہے۔؟
دوستین خان جمالدینی:
گوادر میں ہوائی اڈے کی تعمیر سے گوادر کو چین اور پاکستان کے بڑے شہروں سے ملانے میں مدد ملے گی۔ جس سے تجارتی سرگرمیوں کو فروغ ملے گا۔ اس بڑے منصوبے پر چینی کمپنی کام کر رہی ہے، جو آئندہ چند مہینوں میں مکمل ہو جائے گا اور امید کی جاسکتی ہے کہ 2018ء تک ائیرپورٹ کی تعمیر کا کام بھی مکمل ہو جائے گا۔ گوادر بندرگاہ، گوادر ہوائی اڈے اور آزاد تجارتی زون کو آپس میں ملانے کے لئے ایک انیس کلو میٹر طویل شاہراہ کی تعمیر کا کام رواں برس ستمبر یا اکتوبر میں شروع کر دیا جائے گا۔
خبر کا کوڈ : 654538
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش