0
Sunday 15 Oct 2017 17:07

مسلم نوجوانوں کی بے خواب آنکھوں میں ویرانی ہمارے مستقبل کیلئے بڑا خطرہ ہے، شمیم طارق

مسلم نوجوانوں کی بے خواب آنکھوں میں ویرانی ہمارے مستقبل کیلئے بڑا خطرہ ہے، شمیم طارق
شمیم طارق کا تعلق بھارتی شہر ممبئی سے ہے۔ تنقید و تحقیق، ادب، شاعری و صحافت کے میدان میں آپ اپنی مثال آپ ہیں، شمیم طارق حالاتِ حاضرہ پر بھی گہرہ نظر رکھنے والے کالم نگار ہیں۔ آپ تاریخ کے عروج و زوال سے بھی خاصی واقفیت رکھتے ہیں۔ شمیم طارق مذہبی ہیں اور مذہبی منافرت پھیلانے والوں سے بیزار بھی۔ مسلم تعلیمی ادارہ انجمن اسلام سے بھی آپ وابستہ ہیں۔ بھارتی مسلمانوں کے حالت زار پر اکثر آپ کے مظامین شائع ہوتے رہتے ہیں۔ شمیم طارق کی متعدد کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں، جن میں ’’غالب اور ہماری تحریک آزادی‘‘ بہت اہمیت کی حامل کتاب ہے۔ بھارت اور عالمی سطح پر مسلمانوں کو درپیش مسائل کے حوالے سے اسلام ٹائمز نے شمیم طارق سے ایک تفصیلی انٹرویو کا اہتمام کیا جو قارئین کرام کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ بھارت کے مسلمانوں کے مسائل کے حل میں مسلمانوں کا موجودہ طرز عمل معاون ثابت ہوتا ہے۔؟
شمیم طارق:
بالکل نہیں! مسلمانوں کے مسائل میں ہمارے سماجی، اقتصادی، ثقافتی معاملات بھی شامل ہیں اور مذہبی اور عائلی معاملات بھی۔ مسلمانوں نے سماجی، اقتصادی اور ثقافتی معاملات میں شاید ہی کسی نے دلچسپی لی ہو۔ عائلی اور مذہبی معاملات میں جو ہورہا ہے اس کا نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ بابری مسجد کے سلسلے میں دوسروں کو تو چھوڑیئے مسلم پرسنل لاء بورڈ کے نائب صدر بھی جو بول رہے ہیں وہ آر ایس ایس اور سنگھ پریوار کی زبان ہے۔ طلاق ثلاثہ کے بارے میں سپریم کورٹ کے جج حضرات نے جو فیصلہ سنایا اس میں اگرچہ اختلاف ہے مگر وہ فیصلہ ان آراء سے بہتر ہے جو مسلم پرسنل لاء بورڈ کے بعض ممبران ظاہر کرتے رہے ہیں۔ کئی ایسے لوگ بھی مسلم پرسنل لاء بورڈ کے اجلاس میں، اسٹیج پر، میٹنگوں میں دیکھے جاتے رہے ہیں جو شریعت پر حملہ کرنے والوں کے لئے دعائے خیر اور دعائے مغفرت کرتے رہے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ملت دو طبقوں میں بٹتی جارہی ہے۔ ایک شریعت بچاؤ کے نام پر کچھ اور کررہا ہے دوسرا ’’دنیا حاصل کرو‘‘ میں لگا ہوا ہے۔ دونوں صورتوں میں نقصان مسلمانوں کا ہی ہورہا ہے۔ مسلمانوں کے اجتماعات، اپنا کردار اور اپنی مقصدیت کھوتے جارہے ہیں۔ مسلم ادارے وہ ذہن و کردار پیدا کرنے میں ناکام ہیں جو ایک مخلوط معاشرہ میں رہنے کے لئے ضروری ہے۔ اپنی شخصیت کو مسلط کرنے والے دوسروں کو کام بھی نہیں کرنے دیتے۔ مسلمانوں کو یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ جو دوسروں کی میت پر نہیں روتے اْن کی میت بے گور و کفن پڑی رہتی ہے۔

اسلام ٹائمز: حکومت اور حکومتی ادارے جو کام کررہے ہیں، کیا اس پر اعتماد کیا جاسکتا ہے۔؟
شمیم طارق:
حکومت کا کام قانون بنانا اور نافذ کرنا ہے۔ آج ہمارا معاملہ یہ ہے کہ قانون ہی نہیں انسانی رشتے اور فطرت کے بنائے ہوئے اصولوں کو بھی پامال کیا جارہا ہے۔ اس لئے ہر معاملے میں حکومت کی طرف دیکھنا مسئلے کا حل نہیں ہے۔ ہمیں غیر حکومتی سطح پر بھی ہر شب کو سحر کرنے کی طرف توجہ دینی چاہئے۔

اسلام ٹائمز: بھارتی مسلمانوں کے لئے پیشرفت اور کامرانی کی کیا صورت ہوسکتی ہے۔؟
شمیم طارق:
مسلمانوں میں اس وقت جو چھوٹی بڑی جماعتیں سرگرم ہیں ان میں ایک تو وہ جماعتیں ہیں جو ایک آواز پر ایک لاکھ یا پچاس ہزار کا مجمع اکٹھا کرلیتی ہیں مگریہ مجمع بصیرت اور ضابطہ کی پابندی کرنے والوں سے عاری ہوتا ہے۔ یہ مسائل کو سمجھتے نہیں مگر جلسے جلوس میں اس لئے جمع ہوجاتے ہیں کہ وہ جلسہ یا جلوس کسی خاص شخص یا جماعت جن سے اْن کو عقیدت ہوتی ہے کے کہنے پر منظم کیا گیا ہوتا ہے۔ ایسے مجمعے بابری مسجد کے تحفظ کے لئے منعقد کئے جاتے رہے اور بابری مسجد شہید کردی گئی، ایسے مجمعے شریعت کے تحفظ کے نام پر منعقد کئے جاتے رہے مگر سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ سنادیا۔ اس قسم کے جلسے جلوس اور کسی مسلم قائدین نے ان علاقوں میں بھی فسادات کے لئے راہ ہموار کردی جہاں 1947ء میں بھی فسادات نہیں ہوئے تھے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ چند مولوی نما وضع قطع کے لوگ اسی لئے ٹی وی پر بلائے جاتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کو رسوا کریں۔ شاید اس کے لئے ان کو پیسے بھی ملتے ہونگے۔ ایک دوسرا گروہ وہ ہے جو علماء پر ہی نہیں مذہب و شریعت پر بھی حملہ کرتا ہے اس کو طلاق ثلاثہ پر ہی نہیں قربانی اور ختنہ سے بھی بیر ہے۔ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ حمید دلوائی ختم ہوگیا غلط سمجھتے ہیں۔ حمید دلوائی شخص مرگیا ذہنیت زندہ ہے۔ اس کی ذریت زندہ ہے۔ آر ایس ایس ہی نہیں سیکولر پارٹیاں ان کی پرورش کرتی رہی ہیں، کانگریس سے ان کو ٹکٹ دلوانے کے لئے مولوی نما ٹولہ ہوائی جہاز سے دہلی کا سفر کرتا ہے۔ آر ایس ایس کا راشٹریہ مسلم منچ قرآن و سنت کی تعلیمات کو آر ایس ایس کے ایجنڈے کے تابع کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ قربانی کے خلاف منظم سازش ہورہی ہے۔ کمیونسٹوں کی کئی جماعتیں ہیں، کچھ نے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ ’’میرے اسلام کو قصۂ ماضی سمجھو‘‘ اور کچھ مجازؔ کے اس شعر پر عمل پیرا ہیں کہ ’’کفر و الحاد سے نفرت ہے مجھے اور مذہب سے بھی بیزار ہوں میں‘‘ کچھ جماعتیں (زیادہ صحیح یہ ہے کہ ان کو ٹولہ کہیں) اپنے عمل سے یہ ثابت کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں کہ ’’پیسہ دو حمایت کروالو‘‘ اور ’’روپیہ دو تعاون لے لو‘‘ کچھ نوجوان بھیج دے الٰہی کوئی محمود اور خلافت یا نیشنلزم جیسے روایتی اور حکومت و عوام میں غلط فہمی پیدا کرنے والے نعرے لگانے میں مصروف ہیں۔ عمومی حیثیت میں ملت میں اکثریت ان کی ہے جو اپنی ذات اور اپنی ضرورت کے علاوہ کچھ نہیں دیکھتے۔ وقت کا تقاضا یہ ہے کہ نظم و ضبط کے ساتھ اجتماعی شعورکو بھی عام کیا جائے۔ شرعی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ظلم، جبر، بدعنوانی اور اقرباء پروری کے خلاف جدوجہد کا حصہ بنا جائے۔

اسلام ٹائمز: انسانی حقوق، آزادی نسواں، فرقہ وارانہ یکجہتی کے نام پر آج کل کئی اہم اشخاص اور جماعتیں سرگرم ہیں، کیا یہ حقیقت ہے یا دھوکہ بازی۔؟
شمیم طارق:
اس میں کافی فراڈ بھی ہے۔ ان کے یہ نعرے فیشن کا درجہ رکھتے ہیں۔ یہ انسانی حقوق اور انسانی فرائض کے توازن کو نہیں سمجھتے۔ یہ آزادی اور آوارگی کے فرق سے ناواقف ہیں۔ ان کو یہ بھی نہیں معلوم کہ فرقے ہی نہیں ہوں گے تو فرقہ وارانہ یکجہتی کہاں سے پیدا ہوگی۔؟ فرقہ وارانہ یکجہتی یہ نہیں ہے کہ مذہب کو ہی چھوڑ دیا جائے۔ فرقہ وارانہ یکجہتی یہ ہے کہ مذہب کے نام پر جبر نہ کیا جائے۔ کسی کو اپنا مذہب چھوڑنے اور دوسرے کا مذہب قبول کرنے پر مجبور نہ کیا جائے۔ میں آزادئ نسواں اور انسانی حقوق کو بہرحال باقی رکھنے کا حامی ہوں مگر آزادی اور آوارگی میں فرق کرتا ہو اورازدواجی تعلق کے لئے رفاقت کو ضروری سمجھتا ہوں، رقابت کا جذبہ آزادئ نسواں کا ضامن نہیں ہوسکتا۔

اسلام ٹائمز: تبلیغ کی صحیح روش کیا ہے اور تبلیغ کسے کہتے ہیں۔؟
شمیم طارق:
تبلیغ کرنا یا نیکی کا حکم کرنا اور بدی سے روکنا جبر نہیں ہے۔ تبلیغ اپنی اصلاح سے شروع ہوتی اور دوسروں کو اصلاح کی طرف راغب کرتی ہے۔ تبلیغ کا مطلب جبر یا لالچ سے کسی کا مذہب تبدیل کرنا نہیں ہے۔ یہ بھی غلط فہمی ہے کہ تبلیغ صرف مذہبی لوگ یا جماعتیں کرتی ہیں۔ تبلیغ کا سہارا مذہب دشمن بھی لیتے ہیں کسی سیاسی نظریے کو مذہب کا درجہ دینے والے بھی تبلیغ کا ہی سہارا لیتے ہیں اور ان کی تبلیغ میں لالچ اور خوف کو حربے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

اسلام ٹائمز: آج ہندوستانی مسلمانوں کا سب بڑا مسئلہ کیا ہے۔؟
شمیم طارق:
بے خبری و بے عملی۔ وہ طرح طرح کے مسائل میں گھرے ہوئے ہیں مگر نہیں جانتے کہ مسائل حل کیسے ہونگے۔ وہ مافیا کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ گلیمر والوں سے امید لگاتے ہیں۔ خیال وخواب یا اشتعال کی حالت میں رہتے ہیں۔ انھیں کوئی چیز اگر نہیں بھاتی تو وہ سنجیدہ اور معقول گفتگو ہے۔ آج مسلمانوں کا المیہ یہ ہے کہ ان کی اکثریت کو نہ تو دین کی فہم ہے اور نہ دنیا کی۔ سیاست اور مذہب دونوں کو شو مین کے حوالے سے دیکھا جا رہا ہے، یہ طرز عمل خود مذہب کے خلاف ہے۔ مسلمان یہ طے کرنے میں ناکام ہیں کہ ایک مخلوط معاشرے میں اپنی شناخت کو برقرار رکھتے ہوئے قومی تحریکوں مثلاً بے روزگاری، بدعنوانی، فرقہ واریت کے خلاف تحریکوں میں کس طرح اپنا کردار ادا کریں۔ مسلم خواتین کے خلاف کونسا ایجنڈہ پیش کریں جو دین و شریعت کے خلاف نہ ہو اور آج کے تقاضوں کو بھی پورا کرے۔

اسلام ٹائمز: کیا بھارتی مسلمانوں کی دینی تنظیمیں انکے منشور و دستور کے مطابق قوم کی تقدیر بدلنے کی کوئی کوشش نہیں کر رہے ہیں۔؟
شمیم طارق:
ان کا دستور دعویٰ ہوسکتا ہے حقیقت نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کچھ تنظیمیں اور جماعتیں یہ نہیں جانتیں کہ کھانے، پہننے اور ہم بستری کرنے کے علاوہ بھی انسان کی ضرورتیں ہیں۔ دینی جماعتیں یہ نہیں سمجھتیں کہ بھوکے شخص سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ اللہ کی عبادت میں انہماک کا مظاہرہ کرے گا۔ انسان ہو یا ملت ترقی تب کرتی ہے جب وہ مادی، روحانی اور سیاسی قوت سے آراستہ ہوں اور ان میں توازن قائم رکھنا جانتی ہوں۔ یہ توازن نہیں رہ گیا ہے۔ دولت مند افراد کی اولاد اور غریب لوگوں کی اولاد کی زندگی اور طرز فکر میں بہت زیادہ فرق ہے۔ دونوں ایک دوسرے کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ایک خاموش کشمکش ہے جو اکثر ظاہر ہوجاتی ہے۔ انڈر ولڈ دونوں سے اپنا کام نکالتا ہے۔ شاعروں اور ادیبوں نے خود کو تفریح کا سامان بنا دیا ہے۔ وہ سخن شناس عوام کی داد اور صاحب حیثیت لوگوں کی عطا سے محروم ہونے کے خوف سے اپنا ضمیر تک بیچ دینے کے لئے تیار ہیں۔ یہ المیہ نہیں تو کیا ہے کہ مسلمانوں کے معاشرے میں مخبر اور دلال قسم کے لوگوں کو جو رسوخ اور خوشحالی حاصل ہے وہ غیر فلمی ادیبوں اور شاعروں کو حاصل نہیں ہے۔ ہم میں بلیک میلر ہیں، صحافی گوری لنکیش اور رام چندر چھترپتی نہیں ہیں۔

اسلام ٹائمز: بھارت کے نوجوانوں کے لئے آپ کا کیا مشورہ ہے۔؟
شمیم طارق:
قانون سے واقفیت، قانون کا احترام، خود میں قانونی لڑائی لڑنے کی سکت پیدا کریں۔ مسلم نوجوانوں کو جو علماء سے سیکھنا ہے وہ سیکھیں جو دانشوروں اور سماجی علوم کے ماہرین سے سیکھ سکتے ہیں اْن سے سیکھیں۔ مل جل کر رہنا اور تعمیری خطوط پر کام کرنا سیکھیں۔ مسلم نوجوانوں کی بے خواب آنکھوں میں ویرانی ہمارے مستقبل کے لئے بڑا خطرہ ہے۔ آزادی، مساوات، بدعنوانی کے خاتمہ کے لئے جو لڑائی ہے یا ملک کی تعمیر کے لئے جو جدوجہد ہے اس میں سب کو شریک ہونا چاہئے۔ ہمیں تمام اہل وطن کو خاص طور پر رام چندر چھترپتی اور گوری لنکیش جیسوں کو آواز دینا چاہئے کہ اپنا مذہب اور عقیدہ چھوڑو مت، ہمارا عقیدہ یا مذہب چھیڑو مت۔ باقی کاموں میں مل جل کر کام کرو۔
خبر کا کوڈ : 676754
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش