1
0
Sunday 8 May 2011 15:25
امریکہ پاک ایران تعلقات میں خلیج پیدا کرنا چاہتا ہے

ابیٹ آباد آپریشن کا مقصد آئی ایس آئی کو دنیا کی نگاہ میں ذلیل کرنا ہے، جنرل حمید گل

ابیٹ آباد آپریشن کا مقصد آئی ایس آئی کو دنیا کی نگاہ میں ذلیل کرنا ہے، جنرل حمید گل
آئی ایس آئی کے سابق سربراہ ریٹائرڈ جنرل حمید گل کا نام ملک کے ممتاز محققین اور سیاسی نشیب و فراز پر گہری نظر رکھنے والے بلند پایہ دفاعی و سیاسی تجزیہ نگاروں میں ہوتا ہے، قومی اور بین الاقوامی سیاست پر ان کے بے لاگ اور جاندار تبصرے انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں، اسلام ٹائمز نے ابیٹ آباد آپریشن میں اسامہ بن لادن کے جاں بحق ہونے، دفاعی اداروں کی مبینہ غفلت، اور قومی سلامتی پر اٹھنے والے سوالات پر مشتمل اہم انٹرویو کیا ہے، جو قارئین کی دلچسپی کیلئے پیش خدمت ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: جنرل صاحب، ابیٹ آباد میں امریکی آپریشن، متضاد بیانات، ابھی تک جتنی بھی معلومات آئیں ہیں وہ سی آئی اے اور غیرملکی میڈیا کی جانب سے آئی ہیں، قوم حقائق جاننا چاہتی ہے، کیا ہوا، وہاں اسامہ تھا، نہیں تھا، ہماری ایجنسیوں اور دفاع پر مامور ادارے کہاں سو گئے تھے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات کے لئے ہر ذہن پریشان ہے، ایک عجیب قسم کا ہیجان پیدا ہو گیا ہے، اس ساری صورتحال کو آپ کیسے دیکھتے ہیں؟
جنرل ریٹائرڈ حمید گل:
میرا خیال ہے کہ یہ ایک ڈرامہ، جھوٹ اور فریب پر مبنی کہانی ہے، جس کا مقصد پاکستان کی دنیا بھر میں سبکی کرنا ہے، ایک سازش تیار کی گئی جس کا مقصد عوام اور فوج کے درمیان بداعتمادی پیدا کرنا اور آئی ایس آئی کو دنیا کی نگاہ میں ذلیل کرنا ہے۔ جولائی سے امریکہ نے افغانستان سے نکلنا ہے جس کیلئے راستے ہموار کئے جا رہے ہیں، ایک بہانے سے جنگ ختم کی جا رہی ہے۔ پاکستان کی بھی ضرورت ہے کہ جنگ ختم ہو اور امریکہ خطے سے نکلے اور امریکہ کی بھی ضرورت ہے کہ اس جنگ سے جان چھڑائے۔ ہالی وڈ اور بالی وڈ فلموں کی طرح امریکہ نے اس خطے میں داخل ہونے اور یہاں کے وسائل پر قبضہ کرنے کیلئے سکرپٹنگ کی، جس کا مقصد اس خطے کے اسلامی ممالک میں قائم حکومتوں کو ختم کر کے یہاں کے وسائل پر قبضہ کرنا تھا، اب اُسی سکرپٹ کے تحت اوباما ایڈمنسٹریشن نے الیکشن کمپین کو کامیاب بنانے کیلئے یہ سارا ڈراما رچایا ہے۔

اسلام ٹائمز: جنرل صاحب، بعض دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی مدد کے بغیر یہ آپریشن کامیاب نہیں ہو سکتا تھا جبکہ بعض کی رائے ہے کہ پاکستان میں مذکورہ کارروائی ہماری حکومت کی اہلیت اور دفاعی اداروں کی مستعدی پر سوالیہ نشان ہے، آپ کیا کہیں گے۔؟
جنرل ریٹائرڈ حمید گل:
کہیں نہ کہیں آئی ایس آئی اور سی آئی اے کے درمیان آپس میں اندرسٹندنگ تھی، لکین اس کارروائی میں امریکیوں نے انہیں اطلاع نہیں دی اور خود سے ہی ساری کارروائی کر ڈالی، جہاں تک اسامہ کی ہلاکت کا تعلق ہے، میں اس کو نہیں مانتا کہ اسامہ اس کارروائی میں مرا ہے یا اٹھا کر لے گئے ہوں، میری معلومات کے مطابق اسامہ بہت عرصہ پہلے طبعی موت مرا تھا۔ اصل بات یہ ہے کہ امریکیوں کا افغانستان سے رخصتی کا وقت آ گیا ہے۔ ابھی اس بحث میں الجھیں کہ کیا ہوا، کیسے ہوا، کیوں ہوا، ان تمام باتوں کو چھوڑیں اور آگے کی سوچیں کہ ہم نے کیا کرنا ہے، لکیر کو پیٹنے سے کوئی فائدہ نہیں، امریکہ افغانستان سے جاتے جاتے بہت گند پیدا کرے گا، جس کیلئے ضروری ہے کہ ہم سوچیں کہ ہم نے اس گند سے کیسے بچنا ہے اور وہاں کس انداز میں اقتدار کی منتقلی ہو، ہمارا مقصد وہی ہے جو افغانیوں کی امنگیں ہیں۔ اس ساری صورتحال میں ہمیں دیکھنا ہو گا کہ یہ کام کیسے سرانجام پائے، کہیں ایسا نہ ہو کہ ایران اور ہمارے درمیان کوئی خلیج پیدا ہو، کیونکہ ایران کے بھی افغانستان میں مفادات ہیں اور ہمارے بھی ہیں، تو ضرورت اس امر کی ہے کہ سمجھداری، حکمت اور آپس میں اعتماد کی فضاء کو بحال رکھتے ہوئے آگے بڑھیں۔

اسلام ٹائمز: جنرل صاحب، آپ کیا سمجتھے ہیں کہ ابیٹ آباد آپریشن میں ہماری فوج اور سی آئی اے میں کوئی انڈرسٹنڈنگ موجود تھی۔؟
جنرل ریٹائرڈ حمید گل:
ایک نکتہ تک انڈرسٹندگ تھی کہ یہاں جو بھی موجود ہے کارروائی ہو گی، کیونکہ پاکستان بھی چاہتا ہے کہ امریکہ یہاں سے چلا جائے اس کیلئے ان کے درمیان کچھ میکانیزم ضرور تھا، تاہم اس واقع میں امریکہ نے ازخود یہ کارروائی کر ڈالی، ایک سازش کے تحت ابیٹ آباد آپریشن کے ذریعے آئی ایس آئی کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی اور دنیا اب آئی ایس آئی پر جھپٹ پڑی ہے اور پہلی مرتبہ آئی ایس آئی دفاعی پوزیشن پر چلی گئی ہے، ان کو ہوش کے ناخن لینے چاہیں کہ غصے میں آ کر اپنا ہی گلا نہیں نوچا کرتے۔

اسلام ٹائمز: جنرل صاحب، ان سارے مسائل سے چھٹکارے کیلئے کیا ہماری سیاسی قیادت یہ اہلیت رکھتی ہے،؟ کیا ہمارے سیاسی نظام می سکت ہے کہ وہ اس بحران پر قابو پاسکیں، کیونکہ قوم آرمی جرنیلوں اور سیاسی قیادت کو آزما کر تھک چکی ہے۔؟
جنرل ریٹائرڈ حمید گل:
پورے کا پورا جمہوری نظام مغرب کا شاخسانہ ہے، اب یہ نظام سارے کا سارا تحلیل ہوتا نظر آ رہا ہے، اس نظام کی ہر چیز تحلیل ہوتی نظر آ رہی ہے، اس لئے ہمیں ایک نئے نظام کی ضرورت ہے۔ البتہ وہ نیا نظام تو نہیں ہو گا کیونکہ وہ نظام ہماری رگوں میں رچا بسا ہوا ہے اور پاکستان کی تخلیق کا مقصد بھی یہی نظام تھا، وہ نظام کیسے آئے، اس کی تشریح کون کرے، اس کو واضح کون کرے، اس کے بارے میں عدالتیں آئین میں موجود اللہ کی حاکمیت سے متعلق اس کی تشریح کر سکتی ہیں کہ اللہ کی حکمرانی سے کیا مراد ہے، وہ نظام مساوات اور عدل و انصاف، ملک میں رہنے والوں کو مساوی حقوق پر مبنی نظام ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک معیشت کے نظام کی داغ بیل ڈالنا ہے جو دنیا میں رائج نظام سے ہٹ کر ہو، کیونکہ کیمونیزم اور کیپیٹلزم اب ناکام ہو چکے ہیں۔

اسلام ٹائمز: جنرل صاحب، لوگ حقائق جاننا چاہتے ہیں، مایوسی بڑھ رہی ہے، اگر یہ کہا جائے کہ اکہتر والی صورتحال ہے تو بےجا نہ ہو گا، ایسی صورتحال میں قیادت کو کیا کرنا چاہیے۔؟
جنرل حمید گل:
میرا خیال ہے کہ جہاں پریشانی اور ہنگامے ہیں اور مایوسی کا عالم بڑھ رہا ہے وہیں امکانات بھی روشن ہو رہے ہیں، اب ہماری قیادت پر منحصر ہے کہ وہ کس طرح اس کو لیکر چلتے ہیں اور سول سوسائی کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ ملک میں موجودہ نظام میں اتنی وسعت نہیں ہے کہ ہم معاملات اور مسائل سے نمٹ سکیں، اس میں وہ سکت ہی نہیں کہ یہ عام لوگوں کو فوائد دے سکے اور پسے ہوئے طبقے کو اس کے جائز حقوق دلا سکے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہمیں ایک نیا طریقہ اختیار کرنا پڑے گا وہ انتخابی سیاست سے ہٹ کر انقلابی سیاست پر منتج ہو گا، لیکن یہ ضروری نہیں کہ اس میں خون ریزی ہو اور قتل عام ہو۔ میں سمجھتا ہوں کہ نرم انقلاب لایا جاسکتا ہے اس پر میں نے کئی مقالے بھی لکھے ہیں کئی سیمینارز میں گفتگو بھی کی ہے، ملک میں رائج موجودہ نظام سے توقع رکھنا کہ یہ نئے آنے والے نظام اور خوبیوں کو سمیٹ سکے اور خامیوں کو دور کرسکے ممکن نہیں، کیونکہ انتخابی نظام ہو یا فرقہ واریت،دونوں کا کام قوم کو تقسیم کرنا ہے۔ انتخاب اور فساد دونوں ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے، اگر ہم انتخاب کریں گے تو جو فساد کا منظر پیش کیا جا رہا ہے وہ بہت بھیانک ہے اس میں ہم گردن تک ڈوب چکے ہیں۔

اسلام ٹائمز: جنرل صاحب، وہ انقلابی سیاست اور نظام کی تبدیلی جس کی بات آپ کر رہے ہیں وہ کیسے رونما ہوگا، اُس کی قیادت کون کرے گے۔؟
جنرل ریٹائرد حمید گل:
نظام کی تبدیلی کیلئے نوجوانوں کو کام کرنا ہو گا، آگے آنا ہو گا، بصیرت اور عقلمندی کے ساتھ لوگوں کو اپنے ساتھ ملانا ہو گا۔ عرب دنیا میں تو نوجوان بیدار نظر آتے ہیں اور ہو چکے ہیں، البتہ وہ جمہوریت کی جانب سفر کر رہے ہیں اور اس کو آزمانا چاہ رہے ہیں جبکہ ہم اس کو پچھلی کئی دہائیوں سے آزما چکے ہیں اب مزید اسکو آزمایا نہیں سکتا، ہمارے لیئے مغربی جمہورت ٹھیک نہیں ہے، ہمارے لئے اسلامی جمہوری نظام ہی بہتر ہو گا، وہ نظام جو آنحضرت ص نے متعارف کرایا، وہ حکومتی اصول جو قران سے براہ راست برآمد ہوتے ہیں، اُن کو رول ماڈل بنانا ہو گا، اگر اس کام پر ہم متحد ہو جائیں تو کوئی مشکل نہیں، ہم ان سیاسی جماعتوں سے آزادی حاصل کر سکیں، وہ لوگ جنہوں نے قومی غیرت کو بیچ دیا، جن کے بنک بیلنس دوسرے ملکوں میں ہیں، وہ ملک و قوم کو اُن کی امنگوں اور آرزؤوں کے مطابق ملک کو نہیں چلا سکتے۔ اب اس کو کون متعین کرے گا، کون لیڈر شپ کرے گا، رہنمائی کون کرے گا یہ ایک سوال ہے، میں یہاں اس بات کا بھی ذکر کروں کہ شروع شروع میں انقلاب کی کوئی قیادت نہیں ہوتی، لوگ موجودہ قیادت سے بیزار ہوتے ہیں۔

اُن کی اپنی امنگیں ہوا کرتی ہیں، وہ تبدیلی لانا چاہتے ہیں اور پھر سڑکوں پر نکل آتے ہیں، اُن کا ہر قدم قوم کو جنجھڑنے میں صرف ہوتا ہے، ایسے میں قیادت بھی سامنے آ جاتی، جب قوم معاشرے میں تبدیلی لانا چاہتی ہو اور اللہ کے نظام کی خاطر نکل پڑے تو پھر خدا بھی قیادت فراہم کر دیتا ہے۔ جب مخلص لوگ متحد ہو جائیں اور وہ اپنے اختلافات بھلا دیں تو پھر سب چیزیں ممکنات میں سے ہو جاتی ہیں۔ ہمارے نوجوان، دانشور حضرات اور میڈیا اس قابل ہو چکے ہیں کہ لوگوں کو متحد اور اکٹھا کیا جاسکے۔ دشمن لوگوں کو تقسیم کرنے پر گامزن ہے، اس لئے ایک لائحہ عمل سامنے لائیں، تبدیلی کیلئے کوشش یہ ہونی چاہیے کہ لوگوں کو مختصر ایجنڈے پر اکٹھا کیا جائے، ماضی کو بھول جائیں، یہ ایک دور تھا گزر گیا، اب امریکہ بھی چلا جائے گا، امریکہ جولائی سے افغانستان سے جانا شروع کر دے گا۔ لیکن یاد رکھیں یہ ایک بڑا واقعہ ہو گا، یہ لوگ جب بھی کہیں سے جاتے ہیں تو وہاں کیلئے مسائل ہی چھوڑ کر جاتے ہیں، اس واقعہ کے پس منظر میں اپنے آپ کو تیار کرنا ہو گا، نئی صبح ہونے کو ہے، فجر کی نماز ہونے والی ہے، البتہ ایک شخص نے اذان دینی ہے، اگر دیکھیں کہ وہ کوئی ایک نظر نہیں آ رہا تو پھر ملکر اذان دینا ہو گی۔

اسلام ٹائمز: جنرل صاحب، آپ نے کہا کہ امریکہ جولائی میں جانے والا ہے اور جاتے جاتے گند چھوڑ کر چلا جائے گا، اس گند سے آپ کی کیا مراد ہے۔؟
جنرل ریٹائرد حمید گل:
امریکہ ہمیں آپس میں لڑائے گا، الجھائے گا، خانہ جنگی پیدا ہو گی، جیسے روس نے جاتے جاتے کیا، جب وہ افغانستان سے چلا گیا اور امریکہ بھی دُم دبا کے بھاگ گیا، اس وقت کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ اس وقت افغانستان میں انتقال اقتدار اہم مسئلہ بن گیا، ابھی بھی وہ نئی حکومت ایسی ہی قائم کرنا چاہیں گے جو امریکہ اور بھارت کے مفاد کیلئے ہراول دستہ ہو۔ امریکیوں نے وہی پالیسی پاکستان کیلئے تیار کی ہوئی ہے۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ برطانیہ اس خطے سے گیا تو کشمیر کا مسئلہ چھوڑ کر چلا گیا، جس کی وجہ سے ہم آج تک مسائل کا شکار ہیں، لہذا اس چیز کو درک کریں کہ یہ لوگ جب افغانستان سے جائیں گے تو اس طرح کے کئی مسائل چھوڑیں گے، جن سے قوم الجھتی جائے گی اور امت اسلامیہ کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا، یہ چیزیں ہیں جن پر ہمیں سوچنا ہوگا۔
صحافی : نادر عباس بلوچ
خبر کا کوڈ : 70554
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
میر کیاسادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں ۔۔۔۔تبصرہ آپ کریں
ہماری پیشکش