0
Wednesday 5 Sep 2018 22:07
غیروں کے بہکاوے میں آنیوالے بلوچ بھائی ہتھیار پھینک کر بلوچستان کے ترقی میں ہمارا ساتھ دیں

سی پیک کو ناکام بنانے کیلئے امریکہ انڈیا اور افغانستان کے ذریعے بلوچستان میں مداخلت کر رہا ہے، نوابزادہ گہرام بگٹی

جنوب مشرقی ایشیاء میں صوبہ بلوچستان بدعنوانی میں پہلے نمبر پر ہے
سی پیک کو ناکام بنانے کیلئے امریکہ انڈیا اور افغانستان کے ذریعے بلوچستان میں مداخلت کر رہا ہے، نوابزادہ گہرام بگٹی
نوابزادہ گہرام بگٹی جمہوری وطن پارٹی کے رہنماء اور نومنتخب رکن بلوچستان اسمبلی ہیں۔ وہ شہید نواب اکبر خان بگٹی کے پوتے اور مرحوم طلال اکبر خان بگٹی کے صاحبزادے ہیں۔ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم کوئٹہ سے حاصل کی اور بلوچستان یونیورسٹی سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ 2018ء کے عام انتخابات میں حلقہ پی بی 10 ڈیرہ بگٹی سے عام انتخابات میں حصہ لیا اور بلوچستان اسمبلی کی نشست جیتنے میں کامیاب ہوئے۔ لمبے عرصے کے بعد جمہوری وطن پارٹی کی سیاست میں واپسی، ڈیرہ بگٹی کے مسائل اور بلوچستان کی سیاست سمیت دیگر نکات سے متعلق ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے انکا ایک مختصر انٹرویو کیا، جو قارئین کیلئے پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: کیا ڈیرہ بگٹی سے آپ کا اور شاہ زین بگٹی کا منتخب ہونا کوئی غیر متوقع تبدیلی نہیں۔؟
نوابزادہ گہرام بگٹی:
وقت تو کسی کے لئے نہیں رکتا۔ آپ کا کہنا ہے کہ یہ ایک تبدیلی تھی، لیکن اس تبدیلی کو غیر متوقع کہنا درست نہیں۔ تبدیلی کبھی بھی غیر متوقع نہیں‌ ہوتی، بلکہ یہ وقت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر کوئی بھی تبدیلی اپنے ساتھ بہتری لاتی ہے، تو یہ خوش آئند بات ہے۔

اسلام ٹائمز: نواب اکبر بگٹی صاحب جب زندہ تھے تو جمہوری وطن پارٹی کافی مضبوط تھی۔ اگرچہ ان انتخابات میں آپ اور شاہ زین بگٹی کامیاب ہوئے ہیں، لیکن باقی حلقوں سے آپکی جماعت نے قابل ذکر کارکردگی نہیں دکھائی۔؟
نوابزادہ گہرام بگٹی:
میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں۔ ایک گاڑی کو اگر آپ دس بارہ سال بند کرکے کھڑی کر دیں تو کیا اتنے لمبے عرصے کے بعد دوبارہ اس گاڑی کو ایک سلف میں سٹارٹ کر سکتے ہیں۔؟ دس بارہ سالوں سے جمہوری وطن پارٹی سیاست سے دور تھی۔ 2013ء کے انتخابات میں بھی ہم ڈیرہ بگٹی پہنچ نہیں سکے۔ اب سالوں بعد جبکہ ہم میدان میں آئے ہیں تو معاملات آہستہ آہستہ بہتری کی جانب گامزن ہونگے۔

اسلام ٹائمز: عوام کو اس تبدیلی سے کیا فوائد حاصل ہونگے۔؟
نوابزادہ گہرام بگٹی:
تبدیلی تو صرف بلوچستان میں ہی نہیں بلکہ پورے ملک میں تحریک اںصاف کے نعرے سے آئی ہوئی ہے۔ ہمارے ہاں عوام کو ماضی میں دھوکہ دینے کی متعدد مثالیں ملتی ہیں۔ عوام تبدیلی کی سوچ کو لئے ووٹ دینے گھروں سے باہر نکلتے ہیں۔ اگر لیڈر ڈیلور نہیں کر پائے تو پھر جھاڑو سے مار کر سیاستدانوں کا صفایا کر دیا جائے گا۔ انتخابات ایک جمہوری عمل ہے، جس میں عوام نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے ہمیں بھاری اکثریت سے مینڈیٹ دیا۔ جو لیڈر اس مرتبہ ہار گئے ہیں، یقیناً ان کی ناکامی کی اصل وجہ ڈیلور نہ کرنا ہے۔ اگر آج ہم نے اپنے دور حکومت میں کام نہیں کیا، تو آئندہ انتخابات میں عوام ہمیں بھی مسترد کر دے گی۔

اسلام ٹائمز: حالیہ انتخابات میں ملک بھر کی سیاسی جماعتوں‌ نے دھاندلی ہونیکے الزامات لگائے۔ اس حوالے سے آپکا کیا موقف ہے۔؟
نوابزادہ گہرام بگٹی:
پرامن احتجاج کرنا ہر شہری کا بنیادی حق ہے، لیکن اس مرتبہ دھاندلی سے متعلق الزامات صرف شور شرابے کی حد تک ہیں، کیونکہ آج تک دھاندلی کا الزام لگانے والوں نے کوئی ثبوت پیش نہیں کیا۔ ذاتی طور پر اگر پورے پاکستان کی گارنٹی آپ کو نہ دیں سکوں، تو کم از کم ڈیرہ بگٹی کی گارنٹی تو دے سکتا ہوں کہ میرے حلقے میں کسی قسم کی کوئی دھاندلی نہیں ہوئی۔ ڈیرہ بگٹی کے عوام نے اس مرتبہ کھل کر اپنے حق رائے دہی کا بھرپور استعمال کیا۔

اسلام ٹائمز: کیا ڈیرہ بگٹی سے نقل مکانی کرنیوالے آئی ڈی پیز واپس آباد ہوچکے ہیں۔؟
نوابزادہ گہرام بگٹی:
ابھی تک مسئلے میں کوئی خاص پیشرفت نہیں ہو پائی ہے، لیکن ہمارے پارلیمنٹ میں آنے کا مقصد ہی یہی ہے کہ ہم ڈیرہ بگٹی کے عوام کو ریلیف دے سکیں۔ ہماری پوری کوشش ہوگی کہ حکومتی وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے ڈیرہ بگٹی کے عوام کو دوبارہ ان کے آبائی علاقوں میں‌ آباد کریں۔ اس حوالے سے اب تک کوئی خاص منصوبہ بندی نہیں کی گئی، ہم صوبائی اور مرکزی حکومت کیساتھ گفت و شنید کرکے اس مسئلے کو حل کرنے کی بھرپور کوشش کریں گے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان کی نئی حکومت کیا ملک کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی لاسکے گی۔؟
نوابزادہ گہرام بگٹی:
صوبہ بلوچستان کی صورتحال پاکستان کی خارجہ پالیسی سے بہت زیادہ متاثر ہوتی ہے۔ پاکستان کو کوشش کرنی چاہیئے کہ اپنے تمام ہمسایہ ممالک کیساتھ اچھے تعلقات استوار رکھے، تاکہ ملک میں بے جاء بیرونی مداخلت کو روکا جاسکے۔ اس حوالے سے ماضی کی حکومتیں ناکام رہی ہیں، اب دیکھتے ہیں کہ مستقبل میں موجودہ حکومت اس حوالے سے کتنا پیشرفت کر پاتی ہے۔

اسلام ٹائمز: بلوچستان میں بھارت سمیت دیگر ممالک کی مداخلت سے متعلق کیا کہیں گے۔؟
نوابزادہ گہرام بگٹی:
ہم چین کیساتھ اپنی دوستی مضبوط کر رہے ہیں۔ امریکہ سمیت جو بھی اس دوستی سے ناخوش ہوگا، وہ ہمارے لئے رکاوٹیں پیدا کرنے کی کوششیں کرے گا۔ امریکہ بھی انڈیا اور افغانستان کے ذریعے بلوچستان میں مداخلت کر رہا ہے۔ سی پیک کی وجہ سے بلوچستان اس وقت دشمن کی نگاہوں میں ہے۔ سی پیک بلوچستان سمیت پورے پاکستان کیلئے اس وقت لائف لائن کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہم نے پاکستانی عوام کو ترقی و خوشحالی دینی ہوگی۔ سی پیک کے ذریعے معاشی و تجارتی سرگرمیوں کو فروغ دینا ہوگا۔ گوادر کو خریدنے میں سب سے بڑا کردار شہید نواب اکبر خان بگٹی کا تھا۔ اگر وہ نہ ہوتے تو شاید ہی گوادر آج پاکستان کو حصہ ہوتا۔ بلوچستان کے لوگوں نے بہت سے محرومیاں دیکھی ہیں، لیکن اب انہیں‌ ترقی چاہیئے۔ سی پیک منصوبے میں بلوچوں کو ان کے جائز حقوق ملنے چاہیں۔ ترقی صرف سڑکیں بنانے سے نہیں آتی، بلکہ عوام کو دیگر بنیادی سہولیات کی فراہمی بھی ضروری ہوتی ہے۔

اسلام ٹائمز: بلوچستان میں نوجوان انتہا پسندی کیجانب کیوں مائل ہو رہے ہیں۔؟
نوابزادہ گہرام بگٹی:
آج کی دنیا اکیسویں صدی کی دنیا ہے۔ اگر کسی بھی ملک کی ریاست اپنے شہریوں کو جائز حقوق فراہم نہ کرسکے، تو بیرونی طاقتیں انہیں اپنے مفادات کیلئے استعمال کرتی ہیں۔ بلوچستان میں آج نوجوانوں کو بیروزگاری کا سامنا ہے، اگر ایک شخص کے پاس ایک وقت کی روٹی بھی نہ ہو، تو اسے کوئی بھی غلط راستے پر ڈال سکتا ہے۔ جو پالیسیاں ماضی میں بنائی گئیں، ان میں نوجوانوں کیلئے کوئی پروگرام شامل نہیں تھا۔ یہاں پر کسی قسم کے کارخانے یا فنی تربیت کے مراکز موجود نہیں، جس کی بدولت نوجوان اپنا مستقبل بہتر بنا سکیں۔ اس صوبے میں بے انتہا کرپشن کی گئی ہے، یہاں تک کہ تعلیمی اداروں میں بھی گھوسٹ اساتذہ بھرتی کئے گئے ہیں۔ اسی تمام تر صورتحال کی وجہ سے ہمارے معاشرے کا قیمتی اثاثہ دہشتگردی اور دیگر سنگین جرائم کی جانب مائل ہو رہا ہے۔ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے نوجوانوں کو سہارا دے۔ ایک سال قبل ایک عالمی جریدے میں رپورٹ آئی کہ ساوتھ ایسٹ ایشیاء میں سب سے زیادہ کرپشن بلوچستان میں‌ ہوتی ہے، جو کہ انتہائی افسوسناک ہے۔ بلوچستان ملک کا سب سے زیادہ امیر صوبہ ہے اور سب سے زیادہ غربت بھی اسے صوبے میں پائی جاتی ہے۔ یہاں بے پناہ وسائل تو موجود ہیں، لیکن انہیں استعمال میں نہیں‌ لایا جاتا۔

اسلام ٹائمز: بلوچستان میں مسلح کارروائیوں میں ملوث گروہوں سے متعلق آپکا کیا موقف ہے۔؟
نوابزادہ گہرام بگٹی:
ہم نے ماضی کی غلطیاں اور تلخیوں کو بلا کر مخالفین سمیت ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والوں کو پاکستان اور ڈیرہ بگٹی سمیت بلوچستان کے وسیع تر مفاد تعمیر و ترقی اور امن کی بحالی کے لئے ساتھ لے کر چلنا ہے۔ اس لئے ہتھیار اٹھانے والے بھائیوں سے ملک اور قوم کے مفاد کے لئے ہماری گزارش ہے کہ وہ ہتھیار پھینک کر ہمارا ساتھ دیں، کیونکہ نفرتوں سے صرف تباہی و بربادی پھیلتی ہے۔ ہمارا اور پارٹی کا ایجنڈا صرف پاکستان، ملک اور قوم کی ترقی پر منحصر ہے۔ غیروں کے بہکاوے میں ہتھیار اٹھانے والے بھائی ہتھیار پھینک کر بلوچستان اور پاکستان کی ترقی میں ہمارا ساتھ دیں۔ یہ ملک بہت خوبصورت اور پیار کرنے والا ملک ہے۔ پاکستانی عوام تمام تلخیوں کو بھلا کر انہیں گلے لگانے کو تیار ہیں۔

اسلام ٹائمز: ڈیرہ بگٹی میں ترقیاتی منصوبوں میں‌ سب سے پہلے آپکی ترجیح کیا ہوگی۔؟
نوابزادہ گہرام بگٹی:
ڈیرہ بگٹی کو کمرشل زون بنانے کے لئے ایمانداری سے کام کریں گے اور ان کے منصوبے میں سب سے اہم راجن پور ٹو بختیار آباد اور کوئٹہ روڈ ہے، جو کہ براستہ ڈیرہ بگٹی اور لہڑی، سبی اور پھر کوئٹہ پہنچے گی۔ اس طرح یہ علاقہ بذریعہ مواصلات قومی دھارے میں شامل ہو جائے گا اور اسی شاہراہ کی بدولت نہ صرف ڈیرہ بگٹی یا بلوچستان بلکہ ہمارا پورا ملک ایک نئی ترقی کی عروج کو پہنچے گا، کیونکہ یہ راستہ انڈس ہائی وے ٹو کوئٹہ کے مقابلے میں بھی بہت ہی قریب تر ہوگا۔ اس کے علاوہ وہ یہاں پاکستان کے سرمایہ کار دوستوں سے بھی رابطے میں ہیں، جو یہاں مختلف سیکٹر میں سرمایہ کاری کرنے کو تیار ہیں۔

اسلام ٹائمز: بلوچستان اسمبلی میں حلف اٹھانے کے بعد اپنی پہلے تقریر میں آپ نے ڈیرہ بگٹی میں ایک بھی لیڈی گائنا کالوجسٹ ڈاکٹر کی عدم موجودگی کی شکایت کی۔ ایسے ماحول میں کسطرح لوگوں کی ناراضگیاں‌ دور کی جاسکتی ہیں۔؟
نوابزادہ گہرام بگٹی:
ڈیرہ بگٹی کا علاقہ ساڑھے نو ہزار سکوائر کلو میٹر ایریئے پر محیط ہے، لیکن یہاں پر ایک بھی لیڈی ڈاکٹر یا گائنا کالوجسٹ موجود نہیں۔ ڈیرہ بگٹی میں ہر ہفتے میں ایک موت واقع ہوتی ہے، محض اس وجہ سے کہ بروقت طبی امداد نہیں ملتی۔ یہاں صحت کے مراکز اگر ہیں تو عملہ اور ادویات موجود نہیں ہوتی۔ حالیہ مثال یہ ہے کہ مستونگ دھماکے کے زخمیوں کو کہاں لے کر گئے۔؟ اتنی دور سے انہیں کوئٹہ لایا گیا۔ یہی صورتحال پورے بلوچستان کی ہے۔ اگر مستونگ میں ہسپتال قائم ہوتا اور ڈاکٹرز و ادویات کی قلت نہ ہوتی، تو بہت سارے زخمیوں کی جان اسی وقت بچائی جاسکتی تھی۔ ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتالوں میں سہولیات کا فقدان ہے اور عوام حادثات و واقعات کی صورت میں مریضوں اور زخمیوں کو سندھ یا پنجاب لے جانے پر مجبور ہیں۔ اسی طرح تعلیم کا شعبہ بھی زبوں حالی کا شکار ہے۔

اسلام ٹائمز: صوبوں کو اٹھارویں ترمیم کے بعد کافی اختیارات مل گئے ہیں تو کیا اب بھی ابتر صورتحال کی ذمہ دار صوبائی حکومت نہیں۔؟
نوابزادہ گہرام بگٹی:
یہاں تو صورتحال یہ ہے کہ جو صوبہ سب سے زیادہ غربت میں مبتلا ہے، اس کے سب سے زیادہ فنڈز لیپس ہوکر واپس چلے جاتے ہیں۔ ہم ہر سال اربوں روپے اپنی نالائقی کی وجہ سے واپس کر رہے ہیں۔ بجٹ سے پہلے ہمیں اپنا سارا ہوم ورک کو مکمل کرکے جون سے پہلے پہلے بجٹ بنا دینا چاہیئے۔ بلوچستان میں مسائل کے انبار لگے ہوئے ہیں، لیکن فنڈز کو واپس کرکے ہم یہی تاثر دے رہے ہیں کہ اس صوبے میں‌ کوئی مسئلہ ہے ہی نہیں۔ ایک مہینے میں سروے کیا جائے، پی سی ون بنایا جائے، ٹینڈر کئے جائیں، ٹھیکیدار سے بہتر کام کروائے جائیں اور مانیٹرنگ کی جائے۔ اگر حکومت اور ایڈمنسٹریشن کا حصہ ہوتے ہوئے بھی آپ یہ کام نہیں کر پاتے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ ایک انتہائی نااہل اور غیر سنجیدہ ہیں۔

اسلام ٹائمز: سابقہ حکومت دہشتگردی کے مسئلے پر قابو پانے میں کس حد تک کامیاب رہی۔؟
نوابزادہ گہرام بگٹی:
کہاں قابو پایا ہے۔؟ قابو پاتے تو مستونگ یا پشاور میں واقعات رونما نہ ہوتے۔ مایوسی کفر ہے اور ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہیئے، لیکن ہمیں یہ بات سمجھنی ہوگی کہ دہشتگردی کو مکمل ختم کرنے کیلئے ابھی ہمیں مزید اقدامات اٹھانے ہونگے۔ پاکستان میں ایک طرح کی دہشتگردی نہیں، بلکہ مختلف مائنڈ سیٹ ہیں اور ہمیں ہر بیماری کا الگ طریقے سے علاج کرنا ہوگا۔ بلوچستان کے مسئلے کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہاں مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کیا جاسکتا ہے، یہ میں نہیں بلکہ تاریخ کہہ رہی ہے۔ برطانیہ اور آئرلینڈ میں کتنی بڑی جنگ چل رہی تھی، لیکن آخر میں دونوں میز پر آگئے۔ جو لوگ آئین پاکستان کو مانتے ہیں، انہیں ایک موقع دینا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: آپ نے مرکز میں تحریک اںصاف کی حمایت کا اعلان کیا ہے تو کیا بلوچستان میں بھی اسی جماعت کا ساتھ نبھائین گے۔؟
نوابزادہ گہرام بگٹی:
جمہوری وطن پارٹی مرکز میں تحریک انصاف اور صوبے میں بلوچستان عوامی پارٹی کی اتحادی ہے اور صدارتی ووٹ بھی تحریک انصاف کے امیدوار عارف علوی کو دیا، کیونکہ پارٹی کے مرکزی صدر نے تحریک انصاف کو زبان دی تھی کہ وہ صدارتی انتخابات میں مکمل تعاون کرینگے۔ میں نے بھی وہی کیا جو پارٹی صدر نے کہا۔ ہم زبان کے پکے لوگ ہیں، جس کو زبان دیتے ہیں، مرتے دم تک اس کا ساتھ نبھاتے ہیں۔ متحدہ مجلس عمل کے صدر مولانا فضل الرحمان سے تعلقات اپنی جگہ، مگر جس کے اتحادی ہیں، ان کو ہم نے ووٹ دیا۔ ڈیرہ بگٹی اور صوبے کے دیگر مسائل پر اتحادیوں کیساتھ ملکر آئندہ کا لائحہ عمل طے کرینگے۔ ہم اصولوں کی سیاست پر یقین رکھتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 748327
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش