0
Monday 29 Oct 2018 19:51
ہم نے 5 سال کی حکومت میں تمام وعدے پورے کرتے ہوئے تبدیلی لا کر دکھائی

پی ٹی آئی کو صرف پی ٹی آئی ہی شکست دے سکتی ہے, اشتیاق ارمڑ

مخالفین کو اپنی حیثیت و قوت کا اندازہ آنیوالے بلدیاتی انتخابات میں بخوبی ہو جائیگا
پی ٹی آئی کو صرف پی ٹی آئی ہی شکست دے سکتی ہے, اشتیاق ارمڑ
1996ء میں جب عمران خان اپنی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھ رہے تھے تو پشاور سے گنتی کے جو دو چار لوگ اس میں شریک تھے، ان میں سید محمد اشتیاق ارمڑ بھی شامل تھے، جنکو آج سب اشتیاق ارمڑ کے نام سے جانتے ہیں۔ انکا شمار پاکستان تحریک انصاف کے بانی اور نظریاتی کارکنوں میں ہوتا ہے۔ جب طالبعلم تھے تو پختون اسٹوڈنٹ فیڈریشن کے سرگرم رہنما تھے۔ تاہم عملی سیاست میں آئے تو پی ٹی آئی کا حصہ بن گئے۔ 2013ء کے انتخاب میں اشتیاق ارمڑ خیبر پختونخوا اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے، جسکے بعد انہیں صوبائی کابینہ میں مشیر کی حیثیت سے شامل کر لیا گیا۔ بلین ٹریز منصوبے کی کامیاب تکمیل کے بعد ترقی دیکر انکو صوبائی وزیر بنا دیا گیا۔ 2018ء کے انتخابات کے وقت انکا حلقہ تقسیم ہوگیا اور انکے حصے میں نسبتاََ نیا حلقہ آیا۔ اسکے باوجود انہوں نے الیکشن میں کامیابی حاصل کرلی اور ایک بار پھر صوبائی وزیر برائے ماحولیات و جنگلات مقرر کئے گئے۔ اسلام ٹائمز کے نمائندے نے ان سے خصوصی گفتگو کی، جو قارئین کے پیشِ خدمت ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: خیبر پختونخوا جیسے صوبے میں دوسری بار پی ٹی آئی کا حکومت کرنا کیسے ممکن ہوا۔؟
اشتیاق ارمڑ:
اس کا سارا کریڈٹ ہماری سابق صوبائی حکومت کو جاتا ہے، کیونکہ ہم نے 5 سال کی حکومت میں تمام وعدے پورے کرتے ہوئے تبدیلی لا کر دکھائی، ہم نے سب سے پہلے صوبے میں قیام امن کا خواب شرمندہ تعبیر کیا۔ آپ سب گواہ ہیں کہ ہماری حکومت سے پہلے صوبے میں حالات کیسے خراب تھے۔ دہشت گردی کی لہر سے جنازے، حُجرے، جرگے حتٰی کہ مساجد اور امام بارگاہ تک محفوظ نہیں تھے۔ ہماری حکومت نے مسلسل عملی اقدامات اور فورسز کے تعاون سے صوبے میں امن بحال کرکے دکھایا۔ اسی طرح ہم سے پہلے کرپشن کا دور دورہ تھا، نوکریاں بکتی تھیں، ٹھیکوں میں کمیشن لینا عام تھا، پورا صوبہ کرپشن کا گڑھ بن چکا تھا۔ ہم نے پانچ سال کی محنت سے کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ دیا، 50 ہزار سے زائد اساتذہ بھرتی ہوئے، تمام بھرتیاں مکمل طور پر میرٹ پر کی گئی تھیں، کیونکہ ہم نے عملاََ میرٹ کا بول بالا کیا۔

پولیس کو مکمل طور پر غیر سیاسی کر دیا گیا۔ صحت کے شعبے میں بھی مثالی اقدامات کئے، ہزاروں ڈاکٹروں کی بھرتی سے ان کی کمی پوری کر دی گئی اور پھر ہم نے پوری دنیا کا منفرد بلین ٹرین منصوبہ کامیابی کے ساتھ مکمل کیا، جس سے تقریباََ 5 لاکھ لوگوں کو روزگار ملا، گویا ہم نے ادارے مضبوط کئے اور معاملات میں شفافیت لائے۔ اس کا کریڈٹ سابق وزیراعلٰی پرویز خٹک کو بھی جاتا ہے، جنہوں نے مخلوط حکومت ہونے کے باوجود معاملات کامیابی کے ساتھ چلائے اور ریکارڈ قانون سازی کی۔ رائٹ ٹو انفارمیشن سے لیکر وسل بلوور جیسے قوانین ہماری حکومت کے کارنامے تھے، اس وجہ سے صوبے کے لوگوں میں بیداری پیدا ہوئی۔ انہوں نے اپنی آنکھوں سے خود واضح تبدیلی دیکھی تھی، جس کا فائدہ ہماری جماعت کو انتخابات میں ملا اور یوں ایک نئی تاریخ رقم ہوگئی۔

اسلام ٹائمز: وہ سب تو ٹھیک ہے مگر صوبائی حکومت کا بڑا منصوبہ بی آر ٹی ابھی تک مکمل نہیں ہوسکا، جس نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔؟
اشتیاق ارمڑ:
(ہنستے ہوئے) میں آپ کا اشارہ سمجھ گیا، بی آر ٹی کے حوالہ سے بعض حقائق کا سامنے آنا بہت ضروری ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ حکومت نے بہت تاخیر سے منصوبہ شروع کیا، حالانکہ حقیقت کچھ اور تھی۔ شروع میں ہمارا منصوبہ ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ شہر سے حیات آباد تک سڑک کی تعمیر کا تھا، چونکہ زمین ریلوے کی تھی، اس لئے وفاقی حکومت سے بات کرتا تھی، ہم نے بات شروع کی، مگر دوسری طرف سے تاخیری حربے اختیار کئے جاتے رہے اور 3 سال ضائع کرانے کے بعد وفاقی حکومت نے زمین کی فراہمی سے صاف انکار کر دیا، یوں مسلم لیگ (ن) نے 2013ء کی انتخابی شکست کا بدلہ لیتے ہوئے پشاور کے لوگوں کو جدید سفری سہولیات کی فراہمی میں رکاوٹ ڈالنے کا فیصلہ کر لیا، جس کے بعد ہم نے مجبور دوسرا روٹ اختیار کیا اور یوں منصوبہ بندی میں کافی تاخیر ہوگئی۔

تاہم اس منصوبے سے دیگر کئی اہم امور بھی مکمل ہوسکے، گیس پائپ لائن کی توسیع ہوئی، جی ٹی روڈ اور یونیورسٹی روڈ پر نکاسی آب کا عشروں پرانا مسئلہ حل ہوا، سڑکیں کھل گئیں، جہاں تک ڈیڈ لائن کا تعلق ہے تو یہ کوئی ایشو ہی نہیں، اصل چیز معیار کے مطابق کام کرنا ہے اور ہم اس پر یقین رکھتے ہیں، ہم یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ہم سے غلطیاں ہوئی ہونگی، جب کوئی گھر کا نقشہ بناتا ہے تو اس میں بھی کئی بار تبدیلیاں کرتا ہے، یہ تو بہت بڑا منصوبہ تھا، جس میں وقتاََ فوقتاََ ترامیم سے تاخیر ہوئی، مگر مجموعی طور پر اس منصوبے کی تکمیل سے پشاور کا حلیہ ہی بدل جائے گا۔

اسلام ٹائمز: پشاور شہر نے پی ٹی آئی کو مینڈیٹ دیا مگر اسکے باوجود شہر کے دیرینہ مسائل کے حل کیلئے سنجیدہ اقدامات نظر نہ آسکے، پشاور کو کیوں نظر انداز کیا جا رہا ہے۔؟
اشتیاق ارمڑ:
 ہماری ترجیحات میں اگر پشاور نہ ہوتا تو دوسری بار مینڈیٹ نہ دیا جاتا، پشاور کا اصل المیہ یہ ہے کہ مختلف وجوہات کی بنا پر اس کی آبادی میں انتہائی تیزی کے ساتھ اضافہ ہوا ہے، اس لئے مسائل بھی تیزی سے بڑھے ہیں۔ شہری مسائل حل کرنے کیلئے ہم نے نہ صرف ڈبلیو ایس ایس پی بنائی بلکہ اس کو خود مختاری بھی دے رہے ہیں۔ شہر کے مسائل کے حل کیلئے شہریوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، کیونکہ بہت سے مسائل شہری شعور نہ ہونے کی وجہ سے جنم لیتے ہیں۔ پانی کو بے دردی کے ساتھ ضائع کیا جا رہا ہے، اس کی روک تھام میں سب کو کردار ادا کرنا ہوگا، کوڑا ٹھکانے لگانے کیلئے ڈمپنگ گراؤنڈ بنا رہے ہیں، جس میں ری سائیکلنگ کا بھی انتظام ہوگا، اسی طرح کوڑے سے بجلی پیدا کرنے کیلئے بیرونی کمپنیوں کے ساتھ بات چیت جاری ہے۔ شہر کو صاف رکھنے کیلئے شہر کے اندر کچے بس اور ٹرک سٹینڈ بنانے پر پابندی لگائی جا رہی ہے۔

اسلام ٹائمز: پشاور میں مسلسل دوسری صوبائی نشست بھی پی ٹی آئی کے ہاتھ سے نکل گئی، اس حوالے سے کچھ بتائیں۔؟
اشتیاق ارمڑ:
 سچی بات تو یہ ہے کہ پی ٹی آئی کو صرف پی ٹی آئی ہی شکست دے سکتی ہے۔ اگر پی کے 71 کی بات کریں تو اے این پی کا جیتنے والا امیدوار ہمارا ہی باغی بندہ تھا، اسی طرح ناراض کارکنوں نے بھی کھڑے ہو کر ہزاروں ووٹ ضائع کرا دیئے، گویا ہمیں اپنوں نے ہی ہرایا، غیروں میں ابھی اتنا دم نہیں ہے کہ پی ٹی آئی کو شکست دے سکیں۔ دوسری طرف ہم یہ اعتراف بھی کرتے ہیں کہ ہماری انتخابی حکمت عملی ناقص تھی، خود گورنر شاہ فرمان بھی اس غلطی کا اعتراف کرچکے ہیں۔ اس لئے اب پارٹی میں حکومتی اور جماعتی عہدے الگ الگ کرنے کیلئے بات ہو رہی ہے، تاہم یہ بات ضرور کہنا چاہوں گا کہ پی ٹی آئی اب بھی صوبے کی سب سے مقبول جماعت ہے، مخالفین کو اپنی حیثیت و قوت کا اندازہ آنے والے بلدیاتی انتخابات میں بخوبی ہو جائے گا۔

اسلام ٹائمز: ملک بھر کیطرح خیبر پختونخوا میں بھی ماحولیاتی آلودگی کا جن قابو میں نہیں آرہا، کچھ ماضی میں بھی اس حوالے سے غفلت کا مظاہرہ کیا گیا، آپکی حکومت کیا ارادہ رکھتی ہے۔؟
اشتیاق ارمڑ:
سچ تو یہ ہے کہ ہماری حکومت سے پہلے اس حوالے سے سابق حکومتوں نے حد درجہ غفلت کا مظاہرہ کیا، جس کا ثبوت یہ ہے کہ نہ کوئی پالیسی تھی، نہ ہی کوئی حکمت عملی مرتب کی جاسکی تھی، کوئی قانون سازی نہیں ہوئی تھی کہ ماحولیاتی مسائل سے آخر کیسے عہدہ برآ ہوا جاسکے۔ ہم نہ صرف پالیسی لائے ہیں بلکہ اب تیزی سے اس کو نافذ بھی کر رہے ہیں۔ عملدرآمد کیلئے اضلاع کی سطح پر کمیٹیاں بنیں گی، پشاور کی کمیٹی کی سربراہی خود وزیر ماحولیات کریں گے، میں یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ پشاور سمیت صوبہ بھر میں ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے، پانی کی قلت کے پیش نظر سروس اسٹیشنوں کیلئے رولز بنانے کیساتھ ساتھ پلاسٹک شاپنگ بیگز کے خلاف صوبہ گیر مہم بھی شروع کی جائے گی۔ سرویس اسٹیشنوں پر پانی کا بے تحاشہ استعمال روکنے کیلئے میٹروں کی تنصیب سمیت پانی فلٹر کرکے استعمال کرنے کیلئے بھی تجاویز تیار کی جا رہی ہیں۔ اس سلسلے میں سروس اسٹیشن مالکان کے ساتھ مشاورت بھی کی جائے گی۔

اسی طرح شہری علاقوں میں قائم کرش مشینوں کو باہر نکالنے کیلئے بھی لائحہ عمل وضع کیا جا رہا ہے، نہروں میں گرنے والے نکاسی آب کے تمام تالے بھی بند کرکے سیوریج کا نیا نظام لایا جائے گا۔ پلاسٹک شاپنگ بیگز کے خلاف بھرپور مہم دوبارہ شروع کرنے سے پہلے تیار کرنے اور فروخت کرنے والوں کو آخری مہلت دی جائے گی۔ ماضی میں تو غفلت کی گئی، مگر اب ہسپتالوں کے فضلے کو مناسب طریقے سے ٹھکانے لگانے کو ممکن بنایا جائے گا۔ ماحولیاتی مسائل پر قابو پانے اور پلاسٹک شاپنگ بیگز کے خلاف مہم چلانے کیلئے خصوصی کمیٹی بنائی گئی ہے، جس میں وزیر ماحولیات کے علاوہ سیکرٹری ماحولیات، سیکرٹری بلدیات، سی سی پی او پشاور اور ڈی سی پشاور بھی شامل ہونگے۔ صوبائی حکومت ماحولیاتی مسائل سے نمٹنے کیلئے ہنگامی بنیادوں پراقدامات کرے گی، تمام سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیکر حکمت عملی ترتیب دی جائے گی، اپنی نسلوں کو صاف ستھرا ماحول دینے کی ذمہ داری ہم سب کی ہے، اسی طرح ہم نے دریائے سوات کو صاف کرنے کی مہم شروع کر دی ہے اور کالام کے تمام ہوٹلوں کو نوٹسز جاری کرکے گندہ اور استعمال شدہ پانی دریائے سوات میں گرانے سے منع کر دیا ہے۔ اسی طرح اینٹوں کے بھٹوں کی آلودگی پر قابو پانے کیلئے زگ زیگ ٹیکنالوجی کو متعارف کرا رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کہا جا رہا ہے کہ بلین ٹریز کے تحت یوکلپٹس لگائے گئے پودے اب اکھاڑے جا رہے ہیں، اس میں کہاں تک صداقت ہے۔؟
اشتیاق ارمڑ:
یوکلپٹس کے حوالے سے اس غلطی کا ازالہ ضروری ہے کہ یہ پانی کا دشمن ہے، نئی تحقیق کے مطابق یہ پودا پانی کیلئے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اس کی جڑیں 20 فٹ سے زیادہ گہری نہیں جاتی۔ اس لئے زیرِ زمین پانی کیسے چوس سکتی ہیں۔ یہ پودے ہم سیم و تھور والے علاقوں میں لگا رہے ہیں، جس کے کافی مثبت نتائج بھی سامنے آئے ہیں۔ اسی طرح ملیریا کے علاج کیلئے بھی اس سے کافی مدد لی جا سکتی ہے یہ ماحول دوست پودا ہے، ساتھ ہی سورس آف انکم بھی ہے۔
خبر کا کوڈ : 758401
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش