0
Monday 31 Dec 2018 15:00
یمن جنگ حل کیطرف جا رہی ہے

شام سے فوجیں نکالنے کا فیصلہ امریکہ کیجانب سے خطے میں اپنی شکست کا اعلان ہے، ثاقب اکبر

شام سے فوجیں نکالنے کا فیصلہ امریکہ کیجانب سے خطے میں اپنی شکست کا اعلان ہے، ثاقب اکبر
جناب ثاقب اکبر چیئرمین البصیرہ ٹرسٹ علمی حلقوں میں جانی پہچانی شخصیت ہیں۔ علم و تحقیق کا میدان ہو، محافل شعر و سخن ہوں یا اہم عالمی معاملات پر مذاکرے، ملکی مسائل پر رائے کا اظہار ہو یا سماجی خدمات، مذہبی علوم پر ریسرچ ہو یا اسکالرز اور طالبان علم کی راہنمائی، کسی بھی شعبہ زندگی میں انکی خدمات اور کوششیں کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ انہوں نے تحصیل علم کے دوران ہی اپنے آپکو ایک سماجی کارکن اور رہنما کے طور پر منوایا۔ بیرون ملک حصول تعلیم کے دوران ہی علمی دنیا میں انکے عمق نظر اور وسعت مطالعہ کا اعتراف کیا جانے لگا۔ اسی دوران انہوں نے محسوس کیا کہ عصر حاضر کے مفکرین اسلام کے افکار کو اہل وطن تک پہنچانا ضروری ہے۔ اس احساس نے انکو ترجمے کیطرف راغب کیا۔ اس کیساتھ ساتھ انہوں نے ایک ایسے ادارے کی بنیاد رکھی، جسکا مقصد مختلف علمی امور پر تحقیق، علمی مصادر و منابع کا ترجمہ اور اشاعت تھی۔ اس مقصد کیلئے انہوں نے محققین اور مترجمین کی تربیت اور تیاری کے سلسلے کا بھی آغاز کیا۔ 1995ء میں پاکستان واپسی کے بعد انہوں نے ایک ریسرچ اکیڈمی کی بنیاد رکھی۔ اس اکیڈمی میں تفسیر قرآن، علوم حدیث، کلام جدید، فقہ، اصول فقہ اور فلسفہ جیسے بنیادی اسلامی علوم کے حوالے سے مختلف کام کئے گئے۔ اسکے علاوہ وہ ملی یکجہتی کونسل میں بھی اہم ذمہ داری پر فائز ہیں۔ اسلام ٹائمز نے ان سے مشرق وسطیٰ اور ملکی صورتحال پر خصوصی انٹرویو کیا ہے، جو پیش خدمت ہے۔ادارہ

اسلام ٹائمز: شام سے اچانک امریکہ کا فوج نکالنے کا اعلان، ایسا کیا ہوا کہ صدر ٹرمپ کو یہ فیصلہ لینا پڑا، جبکہ امریکہ تو کہتا تھا کہ ہم بشار سے استعفیٰ لیکر ہی رہینگے۔؟
ثاقب اکبر:
میرا یہ خیال ہے کہ یہ بہت بڑی کامیابی ہے کہ اتنے سالوں بعد امریکی فوج شام سے ناکامی کے ساتھ نکل رہی ہے، یہ جو خطرہ تھا کہ امریکہ ایک خطے پر قابض رہے گا، وہ سلسلہ ختم ہوگیا ہے۔ دوسرا یہ کہ متحدہ عرب امارات نے پھر سے دمشق میں سفارتخانہ کھول لیا ہے، بحرین نے بھی اعلان کر دیا ہے، سعودیہ عرب نے بھی کہہ دیا ہے کہ ہم بشار الاسد کی حکومت کو تبدیل نہیں کرنا چاہتے۔ ترکی نے کہا تھا کہ ہم کردوں سے مقابلہ کریں گے جو ہمارے لئے خطرہ ہیں، تو جس شہر منبج میں وہ موجود تھے، انہوں نے شامی فوج سے کہا کہ ہم خالی کرتے ہیں اور آپ آئیں، شامی فوج داخل ہوگئی اور ترک فوج دھمکیاں دیتی رہ گئی، بی بی سی نے تو اس پر خبر لگائی ہے کہ ترکی کی دھمکیوں کے باوجود شامی فوج شمالی شہر میں داخل ہوگئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نچلے حصے یعنی جنوب مغرب کی طرف سے جو تھوڑے سے داعشی رہ گئے ہیں، ان کا اور ترکی کا رابطہ ٹوٹ کیا گیا ہے۔

ترکی نے تو یہ کہا تھا کہ ہم داعشیوں کو ختم کرنے کیلئے کارروائی کریں گے، اب تو رابطہ ہی ٹوٹ گیا ہے اور وہ سرحد سے چار سو کلو میٹر کے فاصلے پر ہیں، ماہرین اور امریکہ کے تھنک ٹینکس کہہ رہے ہیں کہ یہ ترکی کیلئے ممکن ہی نہیں کہ یہ وہاں پر کوئی کارروائی کرسکے۔ لہذا شام کا مسئلہ جو ہے، وہ یوں سمجھیں کہ آخری مرحلے میں ہے، یعنی بشار حکومت کی رٹ تقریباً پورے ملک پر بحال ہوگئی ہے، جو مخالف قوتیں تھیں، وہ شکست کھا گئی ہیں، اب تو نئے سرے سے دمشق میں سفارتخانے کھولے جا رہے ہیں۔ اب جب منبج میں شامی فوجیں داخل ہوئی ہیں تو کسی نے اردگان سے سوال کیا کہ آپ تو کہتے تھے کہ ایسا نہیں ہونے دینگے، اس پر ترک صدر نے کہا کہ ہم شام کی تقسیم کے قائل نہیں ہیں۔

اسلام ٹائمز: اس سارے تنازعے میں اسرائیل کیلے کیا میسج ہے۔؟
ثاقب اکبر:
سب کچھ اسرائیل کے تحفظ کیلئے کیا گیا تھا، اب یوں سمجھیں کہ اسرئیل نے اپنے گرد خود دیواریں کھڑی کر دی ہیں، یعنی وہ اسرائیل جو نیل و فرات تک پہنچنا چاہتا تھا، وہ خود اتنا محدود ہوگیا ہے کہ اس نے اپنے مقبوضہ علاقے کے گرد دیواریں کھڑی کر دی ہیں، اسرائیل اس وقت خوف کے عالم میں ہے، اس کے فوجی خوف کی حالت میں باہر نکلتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: امریکی صدر کا اچانک دورہ عراق اور وہاں کی قیادت کا نہ ملنا، کیا پیغام ملا ہے۔؟
ثاقب اکبر:
میرا خیال ہے کہ شام سے نکلنے کے بعد ایک دباو تھا، عراق میں بھی پانچ ہزار کے قریب امریکی فوجی موجود ہیں، شام سے نکلنے کے اعلان کے بعد فوجیوں کے جذبے ماند پڑ گئے تھے، ان کو حوصلہ دینا ضرور سمجھا گیا۔ دوسرا ٹرمپ نے یہ بھی پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ ہم عراق میں موجود ہیں، ہم شام سے صرف پیچھے ہٹے ہیں۔ امریکی صدر کا دورہ اچانک تھا، وہاں پہنچا تو صورتحال بےابرو مندانہ تھی، نہ حکومت عراق کو اس دورہ کا پتہ تھا، نہ ہی اعلیٰ حکام آگاہ تھے۔ یہ اچانک عین الاسد فوجی اڈے پر اترا ہے اور وہیں سے امریکی فوجیوں کے ساتھ سیلفیاں بنوائی ہیں، وہیں سے اس نے وزیراعظم کو پیغام بھیجا کہ آکر مل لیں، لیکن عراقی وزیراعظم نے ملنے سے انکار کر دیا۔ عراق کی تمام سیاسی جماعتوں اور اپوزیشن نے ٹرمپ کے اس رویئے پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔

اسلام ٹائمز: سعودی عرب میں جو وزارتوں کی تبدیلی ہوئی ہے، اسکو کیسے دیکھتے ہیں۔؟
ثاقب اکبر:
میرا خیال ہے کہ سعودی عرب نے ایک سٹپ ڈاون کیا ہے، انہوں نے وزیر خارجہ کو تنزلی کرکے اب مشیر بنا دیا ہے، عادل الجبیر کی تنزلی کا مقصد یہ ہے کہ عالمی برادری کو مسیج دیا گیا ہے کہ جمال خاشقجی کے قتل پر ہم نے کارروائی کی ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی وزارتوں میں تبدیلی سامنے آئی ہے۔ سعودی صحافی کے قتل پر ایک چھوٹی سی قربانی دیکر انہوں نے محمد بن سلمان کو بچا لیا ہے یا اس کے لئے راہ ہموار کر دی ہے۔ جمال کے قتل پر عالمی برادری میں کافی غم و غصہ پایا جاتا تھا۔

اسلام ٹائمز: یمن کا مسئلہ کیا حل کیطرف جا رہا ہے، اس میں سعودی عرب کامیاب ہوا یا ناکام۔؟
ثاقب اکبر:
پہلی دفعہ عالمی سطح پر ہونے والے معاہدے میں جس گروہ کو باغی کہا جاتا تھا، ان کی صنعاء کے اوپر حکمرانی تسلیم کر لی گئی ہے، صنعا کے اوپر تو ان کی ہی حکومت ہے نا، جن سے معاہدہ ہوا ہے۔ ایک طرح سے عالمی برادری نے صنعا کے اوپر انصار اللہ کی حکومت قبول کر لی ہے، کیونکہ یہ تو کہتے تھے کہ ہم نے ان سے بات ہی نہیں کرنی۔ وہ باغی ہیں، وہ بیشر علاقوں میں اب بھی موجود ہیں، اگر اقوام متحدہ نے درست کردار ادا کیا تو الحدیدہ بندرگاہ سے کھانے پینے کی چیزیں یمن کے اندر جا سکیں گی، جس سے وہ سانس لینے کے قابل ہوسکیں گے، افسوس کی بات ہے کہ سعودی عرب معاہدہ ہو جانے کے باوجود بھی دسیوں بار معاہدے کی خلاف ورزی کرچکا ہے، انصار اللہ اس پر احتجاج بھی کرچکی ہے، عالمی برادری کو اس میں مضبوط ارادہ ظاہر کرنا پڑے گا، اگر نہ کیا گیا تو قرارداد کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ امریکی سینیٹرز نے بھی قرارداد منظور کی ہے، جس میں امریکہ کو اپنی فوجی نکالنے اور سعودی عرب سے یمن جنگ میں تعاون نہ کرنے کا کہا گیا ہے۔ اب آپ کہہ سکتے ہیں کہ یمن کا مسئلہ حل طرف جا رہا ہے۔ چار سال تک یہ فتح حاصل نہیں کرسکے۔

اسلام ٹائمز: ملک میں احتساب کے عمل کو کیسے دیکھ رہے ہیں۔؟
ثاقب اکبر:
بہت عرصے بعد پاکستان میں احتساب کے ادارے سنجیدہ کوششیں کر رہے ہیں، کرپٹ لوگوں کا سارا ریکارڈ سامنے آگیا ہے، اس احتسابی عمل میں کوئی ایسا اقدام نہیں کہ اس حکومت نے کیا ہو، یہ سارے کیسز گذشتہ حکومتوں سے چلے آرہے ہیں، ہاں اس حکومت نے یہ ضرور کیا ہے کہ اداروں کو مضبوط کیا ہے اور ان کے پیچھے کھڑی ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ مینڈیٹ ہی احتساب کا لیکر آئے ہیں۔ اب بڑے لوگوں پر ہاتھ ڈالا جا رہا ہے، ایسے چشم کشا حقائق سامنے آئے ہیں، خود پیپلزپارٹی کے اندر بغاوت کا امکان ہے، پی ٹی آئی دعویٰ کر رہی ہے کہ بیس پچیس ارکان ہمارے ساتھ ہیں، سندھ اسمبلی میں تبدیلی کا امکان ہے۔
خبر کا کوڈ : 769491
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش