0
Wednesday 23 Jan 2019 21:17
بندوق کسی مسئلہ کا حل نہیں ہے

ایسا کوئی مسئلہ نہیں جسے مذاکرات کے ذریعےحل نہ کیا جاسکے، پروفیسر بھیم سنگھ

کشمیری عوام آر ایس ایس یا بھاجپا سے وابستہ حکومت کو کبھی قبول نہیں کرینگے
ایسا کوئی مسئلہ نہیں جسے مذاکرات کے ذریعےحل نہ کیا جاسکے، پروفیسر بھیم سنگھ
جموں و کشمیر نیشنل پنتھرس پارٹی کے چیئرمین پروفیسر بھیم سنگھ کا تعلق جموں و کشمیر کے ان ماہرینِ سیاست میں سے ہے، جنہوں نے ہر سطح پر حق گوئی کا سہارا لیکر میدان سیاسیات میں اپنا لوہا منوایا ہے، پروفیسر بھیم سنگھ 44 برسوں سے عرب ممالک کے سیاسی عمل سے وابستہ ہیں، نیشنل انٹگریشن کونسل کے رکن اور ہند عرب یکجہتی کونسل کے چیئرمین پروفیسر بھیم سنگھ نے ملک شام کے سنگین حالات کا قریب سے جائزہ لیا ہے،اسلام ٹائمز کے نمائندے نے پروفیسر بھیم سنگھ کیساتھ ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کرام کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے بھارت اور پاکستان کی سیاسی قیادت کو آپ کیا مشورہ دینا چاہیں گے۔؟
پروفیسر بھیم سنگھ:
بھارت اور پاکستان کی قیادت کو ایک دوسرے پر حملہ یا دیگر اقدامات سے احتراز کرتے ہوئے مل بیٹھ کر تمام مسائل کا حل تلاش کرنا ہوگا۔ میں نے بھارت کے کونے کونے اور پاکستان کے بیشتر علاقوں کا دورہ کیا ہے۔ میں نے ان دونوں ممالک کے عوام کے کلچر، زبان اور یہاں تک کہ  ان کے رویہ میں کوئی فرق نہیں پایا۔ پاکستان کے لوگ بھی اسی طرح پیار و محبت سے پیش آنے والے ہیں، جس طرح کہ بھارت کے لوگ۔ پاکستانی عوام بھی بھائی چارہ اور امن و سلامتی کو پسند کرتے ہیں۔ بھارت اور پاکستان کا یکساں کلچر، تہذیب اور ورثہ ہے اور یہ دونوں ممالک برطانوی حکمرانوں کے جانے تک یعنی 1947ء تک ایک ہی ملک تھے۔ افسوس یہ ہے کہ بھارت اور پاکستان کی قیادت لوگوں کی فلاح و بہبود سے زیادہ طاقت کے مظاہرے میں دلچسپی رکھتی ہے۔ پاکستانی وکلاء برادری، سیاسی جماعتیں اور دانشور حضرات بھارت کے ساتھ مل بیٹھ کر تمام مسائل کا حل نکالنے کی کوشش کریں۔ ہمیں امید ہے کہ مذاکرات سے کوئی نہ کوئی اچھا نتیجہ ضرور ہاتھ آئے گا۔ ہمارا ماننا ہے کہ ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے جسے بات چیت سے حل نہ کیا جاسکے۔

اسلام ٹائمز: نریندر مودی نے مسئلہ کشمیر کے حل کو ہمیشہ نظرانداز کیا ہے، مودی اور انکی حکومت سے کیا کہنا چاہیں گے۔؟
پروفیسر بھیم سنگھ:
دیکھیئے اگر بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی جموں و کشمیر کو بھارت کے ساتھ جذباتی طور پر جوڑ کر رکھنا چاہتے ہیں تو انہیں کشمیری عوام کے مسائل کا حل دھونڈ نکالنا ہوگا۔ نریندر مودی اور بھاجپا حکومت کو چاہیئے کہ وہ جموں و کشمیر کے حالات کا قریب سے جائزہ لیں۔ انہیں دیکھنا ہوگا کہ کشمیر کے ماحول میں یہ تبدیلی کیسے آگئی کہ کشمیر کی بہنیں اور مائیں جنہوں نے تقریباً دو سو سال کی جدوجہد میں کبھی بھی پتھر ہاتھ میں نہیں اٹھائے، وہ کیوں اچانک پتھر ہاتھوں میں اٹھانے پر مجبور ہوگئیں۔ نریندر مودی کو سمجھنا ہوگا کہ یہ کشمیر کے بچے بچے کے دل و دماغ میں بیٹھ گیا ہے کہ وہ آر ایس ایس یا بھاجپا سے وابستہ حکومت کو کبھی قبول نہیں کریں گے۔ مودی کو اس حقیقت کا ادراک کرنا ہوگا کہ کشمیری عوام آخر کیا چاہتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کشمیری عوام پر بھارتی فورسز کی زیادتیوں اور تشدد میں آئے روز اضافہ ہوتا جارہا ہے، اس تشویشناک صورتحال پر آپ کیا کہنا چاہیں گے۔؟
پروفیسر بھیم سنگھ:
میرا ماننا ہے کہ جموں و کشمیر میں تین ماہ کے لئے سیز فائر کیا جائے اور فوج کو سرحدوں پر بھیجا جائے۔ میں دوسری جانب کشمیری نوجوانوں سے بھی اپیل کرتا ہوں کہ بندوق کا راستہ ترک کریں۔ بندوق کسی مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ بندوق سے تو ہٹلر بھی فتح حاصل نہیں کرسکا تھا۔ افسوس کہ بھارت کے رہنماؤں کو کشمیریوں کے حالات کے بارے میں کوئی خبر نہیں ہے۔ کشمیری مسلمانوں نے ہندوستان کے ساتھ الحاق کرنے کے حق میں اور 1947ء سے لے کر آج تک ملک کے لئے قربانیاں پیش کی ہیں، جسے بھارتی حکمران نظرانداز کررہے ہین۔ جموں و کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ نے جو الحاق بھارت کے ساتھ کیا تھا اس کو بھارتی حکومت نے آج تک قبول نہیں کیا ہے۔ کیوں بھارت کا پرچم اور بھارتی آئین بنیادی حقوق کے ساتھ جموں و کشمیر میں نافذ نہیں ہے۔ کیوں ہندوستانی پارلیمنٹ ستر برسوں سے اس معاملہ پر خاموش ہے۔

اسلام ٹائمز: بھارت ایک طرف کشمیر کے بارے میں اٹوٹ انگ کی بات کررہا ہے لیکن دوسرے جانب کشمیری عوام کو بنیادی حقوق سے محروم رکھنے میں مصروف ہے، اس بارے میں آپ کی رای کیا ہے۔؟
پروفیسر بھیم سنگھ:
ہاں یہ سچ ہے کہ جموں و کشمیر کے ہندوستان کے ساتھ الحاق کو 71 برس مکمل ہوچکے ہیں لیکن اس کے باوجود جموں و کشمیر میں نہ تو ہندوستانی آئین نافذ ہے اور نہ ہی کشمیری عوام کو بنیادی حقوق سے نوازا جارہا ہے۔ جموں و کشمیر میں رہنے والے شہری آج بھی ہندوستانی آئین میں دیئے گئے بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ دراصل جموں و کشمیر مسلسل عارضی دفعہ 370 کے ماتحت ہے۔ اس کے علاوہ ’’دفعہ 35‘‘ کے ساتھ ’’اے‘‘ کو جوڑ دیا گیا، جس سے حکومت کو یہ طاقت حاصل ہوگئی ہے کہ وہ کشمیر کے لوگوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کرسکے۔ آپ جانتے ہیں کہ 1978ء میں بھارتی آئین میں ’’پبلک سیفٹی ایکٹ‘‘ کو شامل کردیا گیا، جس سے ضلعی مجسٹریٹ کو یہ طاقت حاصل ہوگئی کہ وہ کسی بھی شخص کو بغیر کسی مقدمہ کے جیل میں ڈال سکتا ہے۔ مجھے خود رکن اسمبلی ہونے کے باوجود جیل میں ڈال دیا گیا کیونکہ میں پونچھ میں جموں و کشمیر کے لوگوں کے لئے انصاف کی فراہمی کے لئے مظاہرہ کررہا تھا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ دو رُخی قابل افسوس ہے۔

اسلام ٹائمز: بھارت کے جیلوں میں کشمیری سیاسی قیدیوں کی حالت زار پر آپ کیا کہنا چاہیں گے۔؟
پروفیسر بھیم سنگھ:
دیکھیئے تمام دنیا جانتی ہے کہ بھارت کے جیلوں میں قیدوبند کی زندگی گزارنے والے کشمیریوں کی حالت زار تشویشناک ہے۔ قانون کا تقاضا ہے کہ جن قیدیوں پر مختلف الزامات لگائے گئے ہیں، اُن کو صفائی کا موقع بھی فراہم ہونا چاہیئے، لیکن ایسا نہیں ہورہا ہے۔ تاریخ پر تاریخ لگانے کے بجائے کشمیری قیدیوں کے وکلاء کو دلائل فراہم کرنے کا موقع دیا جانا چاہیئے تھا، لیکن اس کے برعکس سینکڑوں فرضی گواہوں کی لسٹ تیار کرکے کشمیری قیدیوں کی رہائی میں رُکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں۔ میں پیشے سے ایک وکیل ہوں میرا ماننا ہے کہ وقت پر انصاف فراہم نہ کرنا انسانی حقوق کی سب سے بڑی پامالی ہے اور یہ سراسر غیر منصفانہ اور غیر عادلانہ سیاست پر مبنی ذہنیت ہے۔
خبر کا کوڈ : 773740
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش