0
Wednesday 6 Feb 2019 00:57
بحران پیدا کرنیوالے کرپشن سے زیادہ نقصان پہنچا رہے ہیں

پاکستان کے کرپٹ عناصر سنجیدگی سے ہمیں حج دشمن ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں، ولید اقبال

پاکستان کے کرپٹ عناصر سنجیدگی سے ہمیں حج دشمن ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں، ولید اقبال
مصور پاکستان علامہ اقبال کے پوتے ولید اقبال نے ابتدائی تعلیم ایچی سن کالج لاہور سے حاصل کی، 1988ء میں امریکہ سے معاشیات میں گریجوایشن کیا، 1994ء میں یونیورسٹی آف پنجاب لاہور سے ایل ایل بی مکمل کیا اور 1997ء میں ھاورڈ اسکول سے قانون میں ماسٹر مکمل کیا۔ انہوں نے کیمرج سے فلسفے میں بھی ماسٹر کی ڈگری حاصل کی ہے۔ 1997ء سے 2005ء تک انٹرنیشنل لاء فرم Sullivan & Cromwell and Freshfields Bruckhaus Deringer میں کام کرتے رہے۔ وہ نجکاری، انضمام کار، کارپوریٹ اینڈ پروجیکٹ فنانس، مالیاتی ادارے، سرمایہ کاری کی مینجمنٹ، اشتراک کار، توانائی، پیٹرولیم، اثاثہ جاتی مالیات، انفارمیشن ٹیکنالوجی، ٹیلی کیمونیکیشن، سافٹ ویئر ڈیولیپمنٹ اور کارپوریٹ ری اسٹرکچرنگ میں متخصص ہیں۔ 2005ء سے لاہور یونیورسٹی آف میجمنٹ سائنسز کے سلیمان دؤد بزنس اسکول میں بزنس لاء کے استاد ہیں۔ وہ سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن، لاہور اسٹاک ایکسچینج اور پیٹرولیم کے عالمی مذاکرات کاروں کی ایسوسی ایشن کے ممبر ہیں۔ انہوں نے 2013ء میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کی نشست پر الیکشن میں حصہ لیا، دسمبر 2018ء میں پنجاب سے سینیٹ آف پاکستان کے رکن منتخب ہوئے۔ پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنماء کیساتھ اسلام ٹائمز کا انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: حکومت کی نئی حج پالیسی پر سخت اعتراضات ہو رہے ہیں کہ جو صاحب حیثیت ہیں وہ تو حج پہ جا سکتے ہیں، جو پسا ہوا طبقہ ہے وہ کیا کریگا، بالخصوص جو لوگ اس سال بڑی محنت سے حج اخراجات کی رقم جمع کر پائے تھے؟
ولید اقبال:
یہی تو ہم کہہ رہے ہیں کہ جو صاحبِ استطاعت ہے، یہ فریضہ ہے ہی اسی کے ذمہ کہ وہ حج پر لازمی جائے، اب جس کیلئے ممکن نہیں رہا کہ حج کے اخراجات پورے کر سکے تو اس کی نیت کا اجر اس کیلئے ہے، باقی اس کی مجبوری ہے کہ وہ نہیں جا سکتا۔ اب وہ باقی اراکین اسلام جیسے نماز ہے، حج اس پہ اس طرح فرض نہیں رہا۔ دوسری بات یہ ہے جس طرح ایک شخص کی انفرادی استعداد ہے، اسی طرح ایک ملک اور ریاست کی بھی استطاعت ہے، اس تفصیل میں جانے کی سخت ضرورت ہے کہ ملک کے وسائل کا تناسب سامنے رکھا جائے۔ حج کوٹہ اور حج اسکینڈل کا تو سب نے سنا ہوا ہے، اس کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ حج کا بوجھ پہلے پوری قوم پر ڈالا جاتا ہے، پھر اس میں ناجائز طریقے سے رقوم ہتھیائی جاتی ہیں، پیسے خورد برد کیے جاتے ہیں، پھر سیاسی اور سرکاری حج بھی ہوتا ہے، لوگوں کو فیور دی جاتی ہے، مراعات کے طور پر حج پہ بھیجا جاتا ہے، اب اس کے اعداد و شمار دیکھیں گے اور آڈٹ کرینگے تو بہت سارے ایسے حقائق سامنے آئیں گے، یہ جو دعوے کرتے رہے ہیں، انکی حقیقت سامنے آ جائے گی، یہ لوگ حج جیسے مقدس فریضے کو بھی کرپشن بڑھانے کیلئے استعمال کرتے آئے ہیں، کیسا مذاق ہے کہ اتنی سنجیدگی سے آج ہمیں حج دشمن ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
 
اسلام ٹائمز: حج ایک فریضہ ہے، شرعی لحاظ سے لیکن جو غریب اپنے طور پر اخراجات جمع کرتے ہیں، انکی محبت اور عقیدت کو ملحوظ رکھنا ایک مسلمان حکومت کی ذمہ داری نہیں؟
ولید اقبال:
میں اس سے انکار نہیں کر رہا، ہماری پالیسی لوگوں کو حج سے روکنے کیلئے نہیں ہے، میں اس وقت بھی سینیٹ میں موجود تھا، جب یہ پالیسی زیربحث رہی ہے۔ دیکھیں اگر مجموعی طور پر تیس فیصد روپے کی قدر میں کمی ہوئی ہے اور ڈالر مہنگا ہوا ہے، اسکا آدھا یعنی پندرہ فیصد تو پی ٹی آئی کے کھاتے میں ڈال ہی نہیں سکتے۔ پھر حج کے اخراجات ایک قسم کے نہیں ہیں، رہائش، کھانا، ٹرانسپورٹ، سب میں اضافہ ہے، جو 30 فیصد نہیں، بلکہ کسی حصے میں ڈبل اضافہ ہوا ہے، کسی میں ستر فیصد اور کسی میں پچاس فیصد، یہ کہنا آسان ہے، عملی طور پر حقیقت کو سامنے رکھنا پڑے گا۔ کوئی بھی حکومت ہو وہ ایک حد تک ہی آفورڈ کر سکتی ہے، جتنا ہو سکتا ہے، وہ تو ہونا ہی ہے، حج میں صرف حجاج کو دی جانیوالی سبسٹڈی ہی حکومت نے برادشت کرنا ہوتی، باقی اخراجات بھی ہوتے ہیں، جو حکومت کر رہی ہے، ہم مسلمان ہیں، باایمان ہیں، بات کو اتنا بڑھایا جا رہا ہے کہ بہت سارے حقائق مدھم پڑ گئے ہیں، جیسے پی ٹی آئی کی حکومت نے حج پر پابندی لگا دی ہو۔

اسلام ٹائمز:  اگر حج اخراجات کا تعلق سعودیہ سے ہے، لیکن یہ سوال تو باقی ہے کہ پاکستان کے اندر تمام بنیادی ضروریات کو عام آدمی کیلئے پورا کرنا کیوں مشکل بنا دیا گیا ہے، یہ تو آپ کے ہاتھ میں ہے؟
ولید اقبال:
جیسے میں نے ذکر کیا کہ سابق حکمران مختلف بہانوں سے عوام کو بے وقوف بنا کر لوٹتے رہے ہیں، انہوں نے بنیادی ضروریات جیسے تعلیم، صحت اور رہائش کی طرف توجہ ہی نہیں دی۔ انہوں نے باقی میگا پروجیکٹس کی طرح حج کو بھی ایک میگا ایونٹ بنا دیا ہے، اس سے کمائی کرنیکے لیے اسے حکومت کے کھاتے میں ڈال دیا تاکہ زیادہ سے وسائل اپنے ہاتھ میں رکھنے کا جواز موجود رہے۔

اسلام ٹائمز: اپوزیشن کا کہنا ہے کہ حکومت نے آئی ایم ایف کے دباؤ کی وجہ سے سبسٹڈی ختم کی ہے، کیا اس کی وجہ صرف یہی ہے؟
ولید اقبال:
اسکی تمام تفصیل تو ظاہر ہے وزیر خزانہ ہی جانتے ہیں، لیکن اتنا ضرور ہے کہ ہماری حکومت نے آئی ایم ایف سے ملنے والے پیکج کو موخر رکھا ہوا ہے کہ ہم کم سے کم شرائط اور نرم سے نرم ضوابط پہ ان کے پاس جائیں، اسی لیے پہلے دوسرے سارے آپشنز کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ تمام وہ ممالک جن سے تعلقات ہیں، ان سے رجوع کیا گیا ہے۔ اندرونی خسارے اور معیشت کی کمزور پوزیشن کو ساری قومی جانتی ہے، ہم بہتر حکمت عملی کے ساتھ اسے حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ملک کا کوئی بھی ادارہ ایسا نہیں جو ہمیں بہتر حالت میں ملا ہو، اگر گنوانا شروع کریں تو ساری کی ساری بات چیت اسے پہ ختم ہو جائے۔ اگر کسی مرحلے میں آئی ایم ایف کے پاس جانا بھی ہے، تو پہلے اکانومی کو اپنے پاؤں پہ کھڑا کر لیں گے، پھر جانا پڑا تو آئی ایم ایف جائیں گے، میرے پاس اس سلسلے کی ساری تفصیل بس اتنی ہے، اس میں کوئی اور بات نہیں جو ڈھکی چھپی ہو۔

اسلام ٹائمز: قومی اسمبلی میں ماحول بہتر بنانے کی کمیٹی اسپیکر نے بنائی یا تجویز کی، حکومت نے اسے نہ مکمل ہونے دیا نہ چلنے دیا، کیا پارلمان اور کمیٹیز کو غیر موثر رکھنا پی ٹی آئی کی پالیسی ہے؟
ولید اقبال:
پارلیمنٹ میں بحث مباحثہ تو ہونا چاہیے، لیکن مالیاتی پیکج جب اسمبلی میں پیش کیا گیا تو اپوزیشن نے فنانس بل کو خراب کرنیکے لیے سارا شور شرابہ کیا تھا تاکہ ملک کو آگے لیجانے میں پی ٹی آئی جو کوششیں کر رہی ہے، ان میں رخنہ اندازی کی جا سکے۔ حالانکہ اس بل کا مقصد یہ تھا ہی نہیں کہ کوئی ٹیکس لگانا ہے یا کوئی رعایت ختم کرنی ہے۔ اس کا مقصد تھا ہی کاروبار کو بہتر بنانا۔ کاروباری سرگرمیوں کو فروغ دینے کیلئے وہ بل لایا گیا، یہ بل جو رکاوٹیں کاروباری برادری کو ہیں، انہیں ختم کرنیکے لیے ہے۔ وہ صرف اس لیے ہے کہ ہماری پیداوار میں اضافہ ہو، سرمایہ کار کو پاکستان لانے میں آسانی ہو، اقتصادی سرگرمیاں فعال رہیں، اب اس کا پروسس ظاہر ہے یہی ہے کہ پارلیمنٹ میں اس پر بحث ہو، اسی کو اپوزیشن نے سبوتاژ کیا ہے۔ ابھی پاکستان کاروبار میں آسانیوں کے حوالے سے 146 ویں پوزیشن پہ تھا، ہماری کوشش ہے کہ ایک سال میں 100 سے نیچے والے نمبر پہ لے آئیں، پانچ سال میں پاکستان کو کاروباری سرگرمیوں میں آسانی رکھنے والے 50 ملکوں کی فہرست مین لے آئیں۔ اسی طرح اس اصلاحی پیکج کا مدعا یہ ہے کہ سرمایہ کاری اور پیداوار کیساتھ ساتھ برآمدات کو بڑھایا جائے۔

برآمدکندگان کو جو سب سے بڑی شکایت تھی ایف بی آر سے ری فنڈنگ کے متعلق اسکو حل کر رہے ہیں، فرنیچر، فٹ ویئر، ٹیلیریز، کیمکل، پلاسٹک کے مینوفیکچررز کے خام مال میں جو ڈیوٹی ہے، اسے کم سے کم کیا جائے۔ یہ مقصد تھا اس پیکج کا۔ انہوں نے اتنا بگاڑا سارے معاملے کو۔ وزیر خزانہ نے سینیٹ میں جا کر بھی بات کی ہے، یہ فیصلے سارے پارلیمنٹ میں ہونے ہیں، ایسی کوئی بات نہیں، یہ سارا پروسس مکمل ہوگا، سارے کام صحیح طریقے سے چلین گے۔ اب دیکھ لیں سینیٹ میں تو ماحول ٹھیک رہا ہے، اسی طرح پی اے سی میں بھی جو طریقہ کار ہے، اس کے مطابق معاملات چلتے رہیں گے۔ ظاہر سینیٹ اور قومی اسمبلی کے الیکشن کی سائیکل مختلف ہے، تو اپوزیشن کوشش کریگی، ہم بھی کرینگے ماحول ٹھیک رکھیں گے۔ کئی سالوں سے یہی صورتحال ہے کہ حکومت سینیٹ میں اقلیت میں رہتی ہے، اپوزیشن اس کو لیورج کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ اپوزیشن جو واک آوٹ کرتی ہے، نمبرز کا زور دکھانے کیلئے اس کے علاوہ پارلیمنٹ میں کوئی کشیدگی اور خرابی پیدا نہیں ہوتی۔ جہاں تک کمیٹیز کی بات ہے، پہلے پی اے سی کے معاملے پر ہم اڑے ہوئے تھے، ہم کہہ رہے تھے کہ ہم نے ایسا بندہ چیئرمین نہیں بنانا جو نیب زدہ ہے۔

اسوقت ہمارے اوپر سارے لوگ، میڈیا بھی تنقید کر رہا تھا، خبروں، اداریہ، تجزیہ اور ٹاک شوز دیکھ لیں ہر کوئی ہر طرح سے تنقید کر رہا تھا کہ پتہ نہیں پی ٹی آئی کو کیا ہو گیا ہے۔ ہم پہلے یہی کہتے رہے کہ اپوزیشن لیڈر کا پی اے سی کا سربراہ بننا ایک روایت ہے، ایک شخص سے کیا ہوتا ہے، یہ اسکا آئینی حق ہے، اب میں یہ کہتا ہوں کہ ہم نے مان لیا، لچک پیدا کر لی، کیونکہ قانون سازی رکی ہوئی تھی، کمیٹیاں رکی ہوئی تھیں، کمیٹیوں کی تشکیل ہو گئی۔ اب اپوززیشن کے اعتراض کی طرف آ جائیں کہ وہ چاہتے ہیں شیخ رشید صاحب پبلک اکاونٹس کمیٹی کے ممبر نہ بنیں، اب میں یہ کہتا ہوں کہ ایک آدمی سے کیا فرق پڑتا ہے، وہ شیخ رشید ہو، زید ہو یا بکر ہو، کوئی بھی ہو۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، اصل میں کمیٹیوں نے اپنا کام کرنا ہے۔ اب لوگ دیکھ رہے ہیں، میڈیا دیکھ رہا ہے، سوشل میڈیا دیکھ رہا ہے، جو کمیٹی کام نہیں کریگی، یہ عوام کے سامنے آ جائیگا۔ اب انہیں چاہیے کہ قانون سازی میں رکاوٹ نہ ڈالیں، انہوں نے دوبارہ بھی عوام کے پاس جانا ہے، ووٹ مانگنے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اب کوئی رکاوٹ نہیں آئیگی، موقع ملے گا اور یہ قانون سازی کا عمل آگے چلے گا، یہی پارلیمنٹ کا بنیادی کام ہے۔

اسلام ٹائمز: بلاول بھٹو زرداری اٹھارویں ترمیم کے متعلق حکومت پر تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں کہ پی ٹی آئی ترمیم کو تبدیل یا ختم کرنا چاہتی ہے، وزیراعظم اس کی وضاحت کیوں نہیں کر دیتے کہ حکومت اٹھارویں ترمیم کو نہیں چھیڑے گی تاکہ یہ بحث اختتام پذیر ہو جائے؟
ولید اقبال:
جہاں تک میں جانتا ہوں، ایسی کوئی بات نہیں ہے، ہم نے سینیٹ میں بھی کہا ہے کہ یہ کیوں شور مچا رہے ہیں، نہ تو ہم نے کوئی آفیشل اسٹمینٹ دی ہے، نہ ہی یہ معاملہ کابینہ کے اجلاس میں زیربحث آیا ہے، اگر کسی نے کہا بھی ہے تو صرف ذاتی حیثیت میں سیاسی بیانات ہیں، پارٹی کی پالیسی کے طور پر کبھی کوئی چیز سامنے نہیں آئی۔ پارلیمانی پارٹی کی میٹنگ ہوئی ہے، اس میں بھی ایسی کوئی چیز ڈسکس نہیں ہوئی۔ پارلیمانی امور کے وزیر نے بھی ایسی کوئی بات نہیں کی، البتہ سپریم کورٹ کے فیصلوں میں ذکر آ رہا ہے اس بات کا کہ صوبے اپنا کام نہیں کر رہے، ہسپتالوں کو تحویل میں لینے کی بات بھی کی گئی ہے۔ کراچی اور لاہور کے ہسپتالوں کی بات کی گئی ہے۔ سپریم کورٹ نے اس پہ کہا جا رہا ہے کہ قومی اسمبلی میں اٹھارویں ترمیم پر جو بحث ہوئی تھی، وہ لا کر دکھائی جائے، سپریم کورٹ اس قانون سازی کے پیچھے چھپی نیت دیکھنا چاہتی ہے۔ کہ صوبوں کو اختیارات کیوں دیئے گئے، صوبے چونکہ اپنے ذمہ کام ٹھیک طریقے سے کر رہے، صحت دیکھ لیں، تعلیم دیکھ لیں، یہ بات بھی عدلیہ کی طرف سے آ رہی ہے، ہمیں بھی معاملات بہتر بنانے چاہیں، پیپلزپارٹی جو زیادتی کر رہی ہے وہ یہ ہے کہ آئینی معاملات کو سیاسی رنگ دے رہے ہیں، اب بھی جب نیا کیس سامنے آتا ہے یہ عدلیہ کے ذریعے باز پرس کو ایک قانونی دباؤ کا نام دے دیتے ہیں، حکومت کا اس میں بھی کوئی عمل دخل نہیں، یہ بحث جاری رہیگی، جب تک چلتی رہیگی ملک میں بحرانی کیفیت کا ماحول رہیگا، جو اس سے بڑا ظلم ہے، جو انہوں نے کرپشن کی ہے۔

اسلام ٹائمز: ایک معاملہ پارلیمانی نظام کو ختم کر کے صدارتی نظام لانے کا بھی ہے، عمران خان صاحب جو ایوب خان کے دور کی بات بھی کرتے ہیں، کیا وہ واقعی صدارتی نظام لانے کے حامی ہیں؟
ولید اقبال:
ہاں یہ دونوں باتیں انہوں نے کی ہیں، ایک ایوب خان کے دور کی اور دوسری صدارتی نظام کے بارے میں کی ہے۔ ایوب خان کے حوالے سے خان صاحب بات اس لیے کرتے ہیں کہ اسوقت جو بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا جو نام اور مقام تھا، جس طرح کی عزت دوسرے ملکوں میں ملتی تھی، جس طرح امریکہ میں ایوب خان کا استقبال ہوا، وہ اس وقت کو یاد کرتے ہیں کہ پاکستان کے صدر کو امریکی صدر جہاز سے ریسیو کرنے آتا تھا، پاکستان کے ادارے کس طرح کام کر رہے تھے، پی آئی اے سے تربیت لیکر دوسری ائیر لائنز بنائی گئی ہیں، عمران خان یہ مثال دیتے ہیں کہ ملائشیاء اور سنگاپور ہم سے پیچھے تھے، اسکا مطلب یہ نہیں کہ وہ مارشل لاء یا آمریت کی بات کر رہے ہیں یا اسکے حامی ہیں اور انہیں آمریت کا نظام پسند ہے۔ اسی طرح جو وہ صدارتی نظام کی بات کرتے ہیں کہ پارلیمانی نظام میں جو عدد اور اکثریت کیوجہ سے بلیک میلنگ ہوتی ہے، صدارتی نظام میں اسکی گنجائش نہیں ہوتی۔ لیکن وہ لانا نہیں چاہتے، جو اسوقت پریکٹیکل نہیں ہو سکتا۔ اٹھارویں ترمیم ختم بھی ہو جائے تو صرف اس وجہ سے صدارتی نظام نہیں آ سکتا، اس کے لیے جو لوازمات ہیں وہ پی ٹی آئی پورے ہی نہیں کر سکتی۔ پھر سپریم کورٹ نے ہیلتھ کی بات کی ہے، جو اٹھارویں ترمیم سے پہلے ہی کنکرنٹ لسٹ پہ نہیں تھا۔
خبر کا کوڈ : 776163
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش