0
Tuesday 19 Feb 2019 23:10

سعودی عرب کھل کر بھارت کیخلاف پاکستان کا ساتھ نہیں دیگا، ڈاکٹر فرید پراچہ

سعودی عرب کھل کر بھارت کیخلاف پاکستان کا ساتھ نہیں دیگا، ڈاکٹر فرید پراچہ
نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان ڈاکٹر فرید احمد پراچہ 1950ء کو سرگودھا میں پیدا ہوئے۔ والد محترم جماعت اسلامی کے صف اول کے رہنما اور جمعیت اتحاد العلماء پاکستان کے مرکزی صدر تھے۔ سرگودھا سے دینی تعلیم حاصل کی اور ادیب عربی اور عالم عربی کے امتحانات بھی لاہور بورڈ سے پاس کیے، پنجاب یونیورسٹی سے 1975ء میں ایل ایل بی اور 1976ء میں علوم اسلامیہ میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ جامعہ پنجاب سے ہی پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کی۔ زمانہ طالب علمی میں جمعیت طلبہ عربیہ اور اسلامی جمعیت طلبہ میں فعال کردار ادا کیا۔ جماعت اسلامی میں شمولیت کے بعد 1990ء میں لاہور سے ممبر پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے۔ آمریتوں کیخلاف احتجاج پر 16 مرتبہ پابند سلاسل رہے۔ علماء اکیڈمی منصورہ سمیت متعدد تعلیمی اداروں کے سربراہ بھی ہیں، ورلڈ اسمبلی آف مسلم یوتھ سعودی عرب کے ممبر کی حیثیت سے بھی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ مختلف کتابوں کے مصنف ہیں، انہوں نے سید مودودیؒ کے سیاسی افکار کے عنوان سے پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا۔ 3 ہزار سے زائد ٹی وی ٹاک شوز میں شرکت کی ہے، 2002ء میں متحدہ مجلس عمل کی طرف سے لاہور کے حلقہ این اے 121 سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ پلوامہ حملے بعد پاک بھارت تناؤ، کشمیر کی صورتحال اور وزیراعظم کیطرف سے بھارت کو دیئے گئے ردعمل سے متعلق اسلام ٹائمز کیساتھ انکا انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: پلوامہ حملے کے معاملے پر وزیراعظم کے خطاب کو پاکستان کے جواب کے طور پر کس طرح دیکھتے ہیں۔؟
ڈاکٹر فرید پراچہ:
عمران خان نے پلوامہ کے واقعہ پر جو ردعمل دیا ہے، یہ کافی تاخیر سے دیا ہے، یہ بیان بھی نہایت مختصر تھا، تفصیل سے بات کرنیکی ضرورت ہے۔ اہم چیز تھی کہ یہ واقعہ بھارتی سکیورٹی انتظامیہ کی ناکامی ہے، پلوامہ کے علاقے میں ہی آزادی کی تحریک شدت سے جاری ہے، کیونکہ برہان وانی کا تعلق بھی اسی علاقے سے ہے، یہ بھی دنیا کو بتانے کی ضرورت ہے کہ ایسے واقعات بھارتی انٹیلی جنس کی بھی سخت ناکامی ہے، صرف یہ کہنا کافی نہیں کہ اس کا تعلق بھارتی الیکشن سے ہے، بلکہ پاکستان کو یہ موقف سامنے رکھنا چاہیئے تھا کہ یہ تحریک آزادی پاکستان کے قیام سے پہلے کی جاری ہے، جو کشمیر کی آزادی تک جاری رہے گی۔ یہ بات بھی سیدھی کرنی چاہیئے کہ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے، صرف یہ کہنا کہ جنگ شروع ہوگئی تو اللہ بہتر جانتا ہے کہ کہاں تک جائے گی، صاف صاف کہنا چاہیئے کہ ہم ایٹمی پاور ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا بھارت پاکستان کیطرف سے مذاکرات کی آفر کو سنجیدگی سے لے گا، کیا یہ کافی ہے۔؟
ڈاکٹر فرید پراچہ:
یہ آفر بھی پہلے ہی روز کرنا چاہیئے تھی، جائنٹ انویسٹی گیشن اور تحقیقات کی آفر تو ہوچکی ہے، اب تو دنیا یہ کہہ رہی ہے کہ افغان طالبان کو پاکستان جس طرح مذاکرات پہ آمادہ کرنے میں کامیاب ہوا ہے، لیکن کشمیر کی صورتحال افغانستان سے مختلف ہے، دونوں ایشوز پہ یو این او کی قراردادوں کی پوزیشن بھی مختلف ہے، کشمیر کی حمایت میں اور افغانستان کیلئے قراردادیں دہشت گردی کیلئے ہیں، بھارتی آئین اور ریاست جموں و کشمیر کیلئے الگ الگ آئین ہے، پاکستان کا کیس مضبوط ہے، کشمیر ایک مقبوضہ اور متنازعہ علاقہ ہے، یہ دنیا کو ضرور بتایا جانا چاہیئے، ڈائیلاگ کی بات ٹھیک ہے، لیکن پاکستان کو دنیا میں کشمیر کا وکیل سمجھا جاتا ہے، آج اگر ان نکات پہ تفصیل سے بات کرتے تو دنیا میں ہماری آواز آسانی سے پہنچ جاتی۔ اسوقت دنیا میں انسانی حقوق کی بات ہوتی ہے، نیلسن منڈیلا رہائی کے بعد اسی لیے صدر بن گئے، ڈاکٹر عاشو حسین 36 سالوں سے انڈیا کی جیلوں میں ہیں، کبھی پاکستانی حکام نے انکا نام نہیں لیا، پوری ریاست کو جیل بنا دیا گیا ہے، یہ بات پوری دنیا میں سنی جائے گی، عمران خان نے عجیب بیان دیا ہے، کشمیر کے مسئلے کو دو تین منٹ میں ہی فارغ کر دیا۔

اسلام ٹائمز: عمران خان نے بھارتی دھمکی کے جواب میں جو ردعمل دیا ہے، وہ موثر ہے۔؟
ڈاکٹر فرید پراچہ:
جنگی صورتحال جب درپیش ہوتی ہے، تو ایسا رسپانس اچھا ہے، کہ ہم فوری طور پر جواب دینگے۔ لیکن ہم نے کتنی سفارت کاری کی ہے، کتنی کوشش کی ہے، کیا صرف حملے کی دھمکیوں کے بعد بات ہونی چاہیئے، حکومت کو مصلحت چھوڑ کر اٹھنا چاہیئے، اقوام متحدہ مصلحت اور منافقت کا شکار ہے، ہم نے اور مسلم امہ نے اچھا کردار ادا نہیں کیا۔ انڈیا کو جواب دینے کے علاوہ دنیا کو بتانا ہوگا کہ کشمیر میں ریپ کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں، لاکھوں لوگ شہید ہو رہے ہیں، انڈیا بات چیت کیلئے تیار نہیں، پاکستان کو اپنا موقف زیادہ جاندار انداز میں انڈیا کی بجائے دنیا کے سامنے پیش کرنیکی حکمت عملی اپنانی چاہیئے، بھارت میں انتخابات مکمل ہونے سے پہلے کوئی بھی مثبت جواب آنا ممکن نہیں۔

کشمیر کا معاملہ بہت واضح ہے، بھارت کا ناجائز موقف ہے، پاکستان کو ناکامی نہیں ہوسکتی، دیر ہوسکتی ہے، بدقسمتی سے ہماری خارجہ پالیسی اور سکیورٹی ایشوز پر اداروں اور شخصیات کے درمیان سیاست کی جاتی ہے، حالانکہ پاکستانی عوام، فوج اور کشمیری مسلمانوں کا ایک ہی موقف ہے۔ داخلی سیاست کا شکار نہیں بنانا چاہیئے، بات چیت کے لیے نواز شریف نے بات کی تو عمران خان نے مودی کا یار کہہ کے اس کی اہمیت کم کر دی، آج کشمیر کمیٹی کا سربراہ تک نہیں ہے، چوہدری فواد نے مشاہد حسین کیساتھ کتنا عجیب و غریب مکالمہ کیا، سب سے نکھٹو آدمی کو کشمیر کی وزارت دے دیتے ہیں۔ یہ سیاسی تعصبات کی وجہ سے پہلے ہی دن حکومت نے آل پارٹیز کانفرنس نہیں بلائی، بھارت کو سمجھنا چاہیئے کہ معاملات کو گھمبیر بنائیں گے تو امریکہ اور انڈیا کے ہاتھ سے کام نکل جائیگا۔

اسلام ٹائمز: کیا سعودی ولی عہد بھارت کو پاکستان کیساتھ مذاکرات اور کشیدگی کم کرنے میں کردار ادا کرسکتے ہیں۔؟
ڈاکٹر فرید پراچہ:
محمد بن سلمان کوشش کرسکتے ہیں، سعودی عرب سے مشترکہ اعلامیے میں بھی مسئلہ کشمیر کا ذکر تھا۔ لیکن بھارت ایسا نہیں کریگا، کلبھوشن کیس کی سماعت ہو رہی ہے، انکے خلاف ثبوت ہیں، بھارت کا کیس کمزور ہے، پلوامہ کیس کو اس دباؤ کو دبانے کیلئے استعمال کرنیکی کوشش کی جا رہی ہے، پاکستان پر جارحیت کا الزام لگایا جا رہا ہے، بھارت مظلوم بن رہا ہے، تاریخ میں حالانکہ کشمیر میں مظالم اور جارحیت ہو رہی ہے، وہ کبھی نہیں ہوئی، ٹرمپ کی بات بھی اسوقت بھارت نہیں مانے گا، پاکستان کو یہ بات مدنظر رکھنی چاہیئے، دہشت گردی بھارت کروا رہا ہے پاکستان میں، حکومت اپوزیشن کو اس مسئلے پہ ساتھ ملا کر محتاط اور کارگر پالیسی بنانی چاہیئے۔ بھارت سعودی عرب کو بھی قائل کرنیکی کوشش کریگا کہ پاکستان پلوامہ سمیت مختلف واقعات میں ملوث ہے، سعودی عرب کھل کر پاکستان کا ساتھ نہیں دیگا، نہ ہی بھارت کی مذمت کریگا، وہ تو کشمیر کی آزادی کی بھی حمایت نہیں کر رہے، بلکہ ڈپلومیسی کا راستہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا پاکستان کے موقف کو جسطرح وزیراعظم نے پیش کیا ہے، بھارت قبول نہ بھی کرے تو اسے دنیا میں پذیرائی مل جائیگی۔؟
ڈاکٹر فرید پراچہ:
بھارت کی طرف سے دھمکیوں پہ امریکہ سے ضرور احتجاج ہونا چاہیئے، امریکہ نے بھارتی موقف کی حمایت کیوں کی، ہم نے امریکہ کے کہنے پہ افغان طالبان کو میز پہ بٹھایا ہے، برطانوی اور امریکی موقف سے پاکستان دنیا میں بدنام ہو رہا ہے۔ پاکستان کو موقف ہمیشہ سے اصولی طور پر درست ہوتا ہے، لیکن دنیا میں پہنچانے کیلئے کوشش نہیں کی جاتی۔ پاکستان کو پریشرائز کیا جاتا ہے، ہمیں صرف مودی کی طبیعت اور مزاج کی وجہ سے تعصب اور نفرت کی بات ہی نہیں کرنی چاہیئے، اسوقت تو بھارتی میڈیا اور سیاستدان بھی پاکستان کو ہولناک طاقت کے طور پر دنیا کو دکھا رہے ہیں۔ ٹھیک ہے، ہمارا سچ ہے لیکن دنیا کے سامنے پیش کرنے کیلئے الگ تقاضے ہیں، پوری قوم نے تو یکجہتی دکھا دی ہے۔

اپنا میڈیا دیکھیں، ابھی تو ہمارا میڈیا اپنی ہی قوم تک سچ نہیں پہنچا پا رہا، پوری دنیا کے سامنے کیسے حقائق پہنچا سکتا ہے، پوری قوم، میڈیا اور اداروں کا ایک پیج پہ رہنا ضروری ہے۔ انڈیا نے ہمیشہ ہمسایہ ممالک کو عدم استحکام کا شکار کرنے کی کوشش کی، پڑوسی ممالک میں جاسوس بھیجے اور دہشت گردی کروائی۔ ہم دہشت گردی سے متاثرہ ہونے کے باوجود جنگ لڑ رہے ہیں، انڈیا کی ناجائز مداخلت اور دہشت گردی سے ہزاروں پاکستانی شہید ہوئے ہیں۔ دنیا کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ پلوامہ حملہ شہریوں پر نہیں قابض بھارتی فوج پر ہوا۔ عالمی برادری کو کشمیری عوام پر مظالم نظر نہیں آرہے۔ اقوام متحدہ نے مسئلہ کشمیر پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے، پاکستانی قوم دہشت گردی پر یقین نہیں رکھتی۔ پاکستان نے آزاد کشمیر میں ہمیشہ عالمی مبصرین کو خوش آمدید کہا۔ بھارتی حکومت مبصرین کو مقبوضہ کشمیر جانے کی اجازت نہیں دیتی۔

اسلام ٹائمز: پاکستان کیجانب سے ہر دفعہ تحقیقات میں تعاون کی پیشکش کی جاتی ہے، لیکن بھارت اسے قبول نہیں کرتا، کیا یہ درست پالیسی ہے۔؟
ڈاکٹر فرید پراچہ:
پاکستان کی طرف سے تحقیقات کا ایک قانونی پہلو بھی ہے، پاکستان ہمیشہ دہشت گردی میں ملوث ہونے سے پہلے بھی انکار کرتا رہا ہے، یہ موقف سکیورٹی کونسل میں بھی پیش کرسکتا ہے، اپنی سرزمین کو کسی کیخلاف استعمال نہیں ہونے دینگے، نہ ہی پاکستان ان کارروائیوں میں ملوث ہے، یہ موقف درست ہے۔ ایک ذمہ دار ریاست کے طور پر ہمارا امیج بن رہا ہے، لیکن کشمیری مسلمانوں کی جدوجہد کو بھارت کی طرف سے جو دہشت گردی کا رنگ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے، اس میں ہمیں خاص لائحہ عمل بنا کر پوری طرح اس پر عمل کرتے رہنا چاہیئے، یہ شاید اسوقت کی سب سے اہم ضرورت ہے، بھارت اگر بار بار دہشت گردی کا ذکر کرتا ہے تو پاکستان کو ہر دفعہ کشمیر کی آزادی کی جدوجہد کیلئے یہ وضاحت کر دینی چاہیئے، میرے خیال میں ہم بعض دفعہ اس بھارتی چال کا شکار بن جاتے ہیں اور مذاکرات کی بات کرتے ہیں تو ساتھ دہشت گردی کو بھی ایجنڈے کا حصہ بنانے کی بات بھی کر دیتے ہیں۔

اس سے سیاسی اور قانونی لحاظ سے کشمیری حریت پسندوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ صرف ہنگامی حالات اور بھارتی دھمکیوں کا انتظار کرنے کی بجائے کشمیر پالیسی میں تسلسل برقرار رکھیں۔ بھارت کو بحیثیت مملکت ایک جارح اور دہشت گرد ریاست کے طور پر دنیا کو دکھانے میں کوئی مشکل نہیں ہے، کیونکہ اس کا ثبوت پاکستان کے پاس ہے، وہ ہے کلبھوشن، جو ذاتی طور پر پاکستان میں نیٹ ورک بنا کر دہشت گردی نہیں کر رہا تھا، بلکہ سرکاری عہدیدار ہونے کی حیثیت سے یہ سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے تھا۔ پھر کشمیر میں جو بربریت ہو رہی ہے، وہ بھارتی فوج کر رہی ہے، کشمیر پر قبضہ بھی کسی فرد نے نہیں، بلکہ بھارتی ریاست نے کیا ہوا ہے، انڈیا کا کنڈکٹ کسی بھی لحاظ سے معتبر نہیں۔ پاکستان میں افغانستان کے راستے بھی مداخلت کے ثبوت موجود ہیں۔ اس کے باوجود پاکستان اخلاقی طور پر بہتر پوزیشن میں ہے، کیونکہ ہم نے ہمیشہ بھارتی جاسوس کو قانونی چارہ جوئی کا حق دیا ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا کلبھوشن کیس میں بھارت عالمی توجہ حاصل کرکے اپنے مقصد سے قریب ہو پائیگا۔؟
ڈاکٹر فرید پراچہ:
عالمی عدالت میں جا کر بھارت کا قونصلر کی رسائی پہ زیادہ زور تھا، حالانکہ اس سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا، بھارت پاکستان کیساتھ معاہدے کا جو دعویٰ کر رہا ہے، وہ دیہاتیوں اور مچھیروں کے متعلق ہے، سکیورٹی ایشوز جب ہوتے ہیں تو اس معاہدے کا اطلاق نہیں ہوتا۔ اسی طرح یہ جرم صرف جاسوسی کا ہی نہیں بلکہ دہشت گردی اور قتل و غارت کا ہے، ان لوگوں کو دوران جنگ بغیر عدالتی کارروائی کے بھی مارا جا سکتا ہے، لیکن پاکستان نے پھر بھی اس کی فیملی کو اس سے ملنے دیا، ساری قانونی کارروائی مکمل کی۔

اسلام ٹائمز: دہشتگردی کے الزامات، اس سے پہلے پاکستان کے اندر سے بھی کہا جاتا رہا ہے کہ ہمیں اپنا گھر ٹھیک کرنیکی ضرورت ہے، اس پروپیگنڈہ کا کیا جواب ہونا چاہیئے۔؟
ڈاکٹر فرید پراچہ:
یہ جو بھارت دہشت گردی کے الزامات لگاتا ہے، وہ سب میں جھوٹا ثابت ہو رہا ہے۔ اب دنیا بھی یہ آسانی سے مان رہی ہے، بھارتی پروپیگنڈہ کی قلعی کھل گئی ہے، پاکستان کو کشمیری حریت پسندوں کی حمایت میں دو قدم آگے جانا چاہیئے، صرف بھارت کو یہ کہنا کہ آپ ایک قدم آگے آئیں، ہم دو قدم اور آگے بڑھائیں گے۔ بھارت یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ پاکستان کے ساتھ جنگ کرنا آسان نہیں، جنگ مسئلوں کا حل بھی نہیں۔ جنگ میں کسی کا بھی فائدہ نہیں ہے، جنگ تو احمقانہ ہے، دہشت گردی بھی احمقوں کا کھیل ہے۔ اسوقت جو بھارت نے دہشت گردی کا الزام لگایا ہے، یہ کوئی بھی سوجھ بوجھ رکھنے والا ملک نہیں کہہ سکتا۔

جب پاکستان میں اتنی بڑی سرمایہ کاری آرہی ہے تو اس دوران پاکستان اتنی بڑی بے وقوفی نہیں کرسکتا کہ وہ کسی بھی پڑوسی ملک میں ایسی کارروائی کی سرپرستی کرے، کیونکہ اگر استحکام ہوگا تو کوئی ملک پاکستان میں سرمایہ کاری کریگا۔ اسی لیے سعودی وزیر خارجہ نے بھی پاکستان کو مذاکرات کا مشورہ دیا ہے۔ لیکن کشمیری عوام اور نوجوانوں کو افغانستان میں امریکی شکست اور مذاکرات کی وجہ سے نیا حوصلہ ملا ہے، یہ بھی ممکن ہے کہ حریت پسند یہ سوچ رہے ہوں کہ بھارت کیخلاف کارروائیوں سے یہ تاثر دیا جائے کہ بھارت اس قابل نہیں کہ یہاں کوئی ملک آکر سرمایہ کاری کرے، لیکن پاکستان نے کبھی ایسا نہیں کہا، نہ کیا، بلکہ بھارت نے ہمیشہ سی پیک کو سبوتاژ کرنیکی کوشش کی ہے۔
خبر کا کوڈ : 778910
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش