1
Sunday 8 Dec 2019 23:22

آل سعود رژیم بدترین صورتحال کا شکار

آل سعود رژیم بدترین صورتحال کا شکار
تحریر: سید رحیم نعمتی

یمن حکومت کے ترجمان ضیف اللہ شامی نے ہفتے کے دن صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا: "دنیا میں ایک مضحکہ خیز چیز ہے جس کا نام الجبیر ہے اور وہ گذشتہ پانچ برس کے دوران یمن کے ہیروز کے ہاتھوں سعودی عرب کی ٹوٹی ہوئی ہڈیوں کو جوڑنے کی کوشش کر رہا ہے۔" یہ بیان درحقیقت یمن حکومت کی جانب سے چند دن پہلے سعودی عرب کے مشیر امور خارجہ عادل الجبیر کے اس موقف کا شدید ردعمل ہے جس میں انہوں نے روم میں "میڈیٹرینین بحث و مباحثہ" نامی اجلاس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ یمن میں جنگ بندی ممکن ہے۔ انہوں نے مزید کہا: "حوثیوں سمیت تمام یمنی گروہ یمن کے مستقبل میں کردار کے حامل ہیں۔" عادل الجبیر نے ایسے انداز میں یہ بات کی گویا سعودی عرب نے حوثیوں کو بہت مراعات دے دی ہوں۔ یہی امر یمن حکام کی جانب سے شدید ردعمل کا باعث بنا ہے کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ خطے میں جو بدترین صورتحال کا شکار ہے وہ آل سعود رژیم ہے نہ یمن۔ خطے میں سعودی عرب کو درپیش چیلنجز میں سے ایک قطر سے اس کے تعلقات ہیں۔
 
سعودی عرب نے جنوری 2017ء میں قطر سے تمام تعلقات منقطع کر کے اس کے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد کر دیں اور اپنے اتحادی ممالک کو بھی اپنی پیروی کرنے کو کہا۔ یوں متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصر نے بھی قطر سے تعلقات منقطع کر دیے اور ان ممالک نے تعلقات کی بحالی کیلئے قطر کے سامنے 13 شرطیں رکھ دیں۔ یہ شرطیں الجزیرہ نیوز چینل بند کرنے، تہران سے تمام تعلقات ختم کر دینے اور قطر میں ترکی کے فوجی اڈوں کے خاتمے پر مشتمل تھیں۔ سعودی عرب اور اس کے ہمنوا ممالک نے قطر کے ساتھ اپنی سرحدیں بھی سیل کر دیں اور تمام پروازیں بند کر دینے کے ساتھ ساتھ تجارتی پابندیاں بھی لگا دیں۔ سعودی عرب اور اس کے اتحادی عرب ممالک کے یہ اقدامات ابتدا میں قطر کیلئے کچھ مشکلات کا باعث بنے۔ مثال کے طور پر کھانے پینے کی اشیاء پر مشتمل قطر کی درآمدات کا 40 فیصد حصہ سعودی عرب کے راستے آتا تھا۔
 
اس مشکل وقت میں ایران نے قطر کا ساتھ دیا اور ایران کے ساتھ فضائی رابطے کے باعث قطر اپنی اس مشکل پر قابو پانے میں کامیاب ہو گیا۔ اب سعودی عرب اور قطر دونوں جانب سے اس دو سالہ بحران کے حل کے اشارے دیے جا رہے ہیں۔ اس بات کی تصدیق عادل الجبیر نے بھی کی ہے جبکہ قطر کے وزیر خارجہ محمد بن عبدالرحمان آل ثانی نے بھی روم کے حالیہ اجلاس میں سعودی عرب سے مذاکرات اور دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بحالی میں پیش رفت کے حصول کی خبر دی ہے۔ دونوں ممالک میں تعلقات کی بحالی کے اشارے ایک ماہ پہلے ملنے شروع ہو گئے تھے جب سعودی اتحاد میں شامل عرب ممالک کی فٹبال ٹیموں نے قطر میں منعقد ہونے والے ٹورنامنٹ میں شرکت کی۔ اس کے بعد اعلان کیا گیا کہ خلیج تعاون کونسل کا اجلاس ابوظہبی سے ریاض منتقل کر دیا گیا ہے۔ خلیج تعاون کونسل کا گذشتہ اجلاس بھی ریاض میں منعقد ہوا تھا اور امیر کویت کو اس میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی لیکن شیخ تمیم بن حمد آل ثانی اس میں شریک نہ ہوئے اور اپنی جگہ محمد بن عبدالرحمان آل ثانی وزیر خارجہ کو بھیج دیا۔
 
اب یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس ماہ ریاض میں منعقد ہونے والے خلیج تعاون کونسل کے اجلاس میں قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد آل ثانی کی شرکت کا زمینہ فراہم ہو چکا ہے اور دو سال بعد سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک کے ساتھ قطر کے تعلقات بحال ہونے والے ہیں۔ یہ تعلقات ایسے وقت بحال ہو رہے ہیں جب نہ تو قطر نے سعودی عرب کی 13 شرائط میں سے کوئی ایک شرط قبول کی ہے اور نہ ہی سعودی عرب کو کسی قسم کی کوئی مراعات دی ہیں۔ لہذا سعودی عرب اپنے گذشتہ موقف سے پسپائی کرنے پر مجبور ہو چکا ہے۔ بالکل ایسی ہی صورتحال یمن اور سعودی عرب کے درمیان جاری جنگ میں ہے۔ سعودی حکام ابتدا سے حوثیوں کو باغی قرار دے کر ان کیلئے حکومت میں کسی حق کے قائل نہ تھے لیکن اب وہ یمن کے سیاسی مستقبل میں حوثیوں کے کردار کو تسلیم کرتے نظر آتے ہیں۔ عادل الجبیر نے روم میں اپنے حالیہ بیان میں حتی اپنا یہ مطالبہ بھی نہیں دہرایا کہ حوثی باغی ہتھیار پھینک دیں۔ دوسری طرف ایسے شواہد موجود ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ سعودی عرب نے شام سے متعلق اپنے موقف میں بھی نرمی اختیار کی ہے۔ اس کی ایک مثال جمعہ کے روز ریاض میں صحافیوں کی یونین کے اجلاس میں شام میں صحافیوں کی یونین کے سربراہ موسی عبدالنور کی شرکت ہے۔
 
خبر کا کوڈ : 831558
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش