0
Sunday 29 Aug 2021 23:17

کرم میں ہونیوالے تازہ کشت و خون کی اصل ذمہ داری مقامی انتظامیہ پر عائد ہوتی ہے، علامہ عابد الحسینی

کرم میں ہونیوالے تازہ کشت و خون کی اصل ذمہ داری مقامی انتظامیہ پر عائد ہوتی ہے، علامہ عابد الحسینی
علامہ سید عابد حسین الحسینی کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ وہ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ اور اسکے بعد تحریک جعفریہ میں صوبائی صدر اور سینیئر نائب صدر کے عہدوں پر فائز رہنے کے علاوہ ایک طویل مدت تک تحریک کی سپریم کونسل اور آئی ایس او کی مجلس نظارت کے رکن بھی رہے۔ 1997ء میں پاکستان کے ایوان بالا (سینیٹ) کے رکن منتخب ہوئے، جبکہ آج کل علاقائی سطح پر تین مدارس دینیہ کی نظارت کے علاوہ تحریک حسینی کے سرپرست اعلٰی کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے کرم میں طوری قبائل کے مابین ہونے والی تازہ جھڑپ اور دیگر اہم ایشوز پر انکے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا ہے، جسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: علامہ صاحب! کرم میں شاملات کے معاملے پر تازہ جھڑپ، جس میں کافی جانی نقصان ہوا ہے، اس میں طوری بنگش اقوام، مرکز اور تحریک کا کیا کردار ہے۔؟َ
علامہ سید عابد الحسینی:
 پورے کرم میں جہاں کہیں کوئی تنازعہ ہو، تحریک کے رہنما فوری طور پر پہنچ جاتے ہیں۔ تحریک کے اراکین اور رہنماؤں سے میں نے معلومات کیں۔ انکا کہنا ہے کہ فریقین کے مابین پشتو روایات کے مطابق ایک فیصلہ ہوا تھا۔ جس پر ان میں سے ایک فریق کو تحفظات تھے۔ جس نے انجمن حسینیہ سے رابطہ کیا تھا۔ جبکہ تحریک حسینی کے ساتھ کسی نے بھی رابطہ نہیں کیا۔ اور یہ بھی خیال رہے کہ روزانہ درجنوں مقدمات تحریک کے پاس آتے ہیں۔ چنانچہ انہیں کسی خاص ایشو کا از خود کوئی علم نہیں ہوتا۔ جب تک متعلقہ فریق خود تحریک کے ساتھ رابطہ نہیں کرتا۔ اور جب انہوں نے انجمن حسینیہ کے ساتھ رابطہ کیا۔ تو میرے علم کے مطابق انجمن حسینیہ نے بھی معاملے کو اپنے تئیں پرامن طریقے سے حل کرنے کی کوششیں کیں۔ مگر فریقین کی ہٹ دھرمی مخل تھی۔ تاہم بندہ قومی اداروں خصوصا تحریک حسینی کے اراکین کو کسی صورت میں بری الزمہ نہیں سمجھ رہا۔ انہیں چاہئے کہ جہاں کہیں کوئی مسئلہ ہو، فوری طور پر پہنچ جایا کریں۔ 

اسلام ٹائمز: کرم میں زمینوں اور دیگر قسم کے تنازعات اکثر شیعہ سنی فریقین کے مابین ہوتے ہیں؟ یہ انوکھا واقعہ نہیں ہے؟ جو خود طوری قبائل کے مابین واقع ہوا۔  
علامہ سید عابد الحسینی:
یہ کوئی انوکھا واقع نہیں۔ کرم بلکہ تمام قبائل میں ایسے واقعات اکثر ہوتے رہتے ہیں۔ ہم تو بہت پہلے کہہ چکے ہیں کہ کرم میں شیعوں اور اہل سنت کے مابین مسائل مذھب کی بنیاد پر نہیں ہوتے۔ بلکہ زمینوں اور دیگر سوشل معاملات کے بنا پر ہیں۔ جو نہ فقط سنی شیعہ کے مابین بلکہ خود شیعوں کے مابین اور سنیوں کے مابین بھی ہوا کرتے ہیں۔ چنانچہ اس سے پہلے شیعہ قبائل حمزہ خیل مستوخیل، بدامہ کے بڈیخیل اور مانہ سادات نیز سنی قبائل میں سے منگل اور مقبل، علی شیر زئی اور ماسوزئی۔ ماسوزئی اور پاڑہ چمکنی وغیرہ کے مابین بھی سالوں سے تنازعات چلے آرہے ہیں۔ جسکی بنیادی وجہ حکومت کی ہٹ دھرمی اور عدم دلچسپی ہے۔ بلکہ یوں سمجھئے کہ حکومت چاہتی ہی یہی ہے کہ قبائل آپس میں ٹکرا کر ایک دوسرے کو کمزور اور ختم کریں۔ 


اسلام ٹائمز: معاملے کو سلجھانے یا تصادم سے بچنے کیلئے انتظامیہ کیجانب سے کوئی کوشش کی گئی تھی؟؟
علامہ سید عابد الحسینی:
یہی واویلا تو ہم سالوں سے کر رہے ہیں کہ کرم میں جائیداد کے تمام تنازعات کا حل حکومت کے پاس موجود ہے۔ اگر وہ سرکاری ریکارڈ کی روشنی میں فوری اقدام کرے تو کوئی مسئلہ، مسئلہ ہی ںہیں رہے گا۔ مگر حالت یہ ہے کہ انتظامیہ جان بوجھ کر آنکھیں چراتی ہے۔ معاملات میں اس وقت تک مداخلت نہیں کرتی، جب تک وہ اپنا معاملہ خود طے نہیں کرتے، جبکہ ان کا فیصلہ تو جذبات اور عصبیت پر مبنی ہوتا ہے، جو کہ خطرناک ہوتا ہے۔ چنانچہ اس مسئلہ کی تمام تر ذمہ داری میرے خیال میں مقامی انتظامیہ پر عائد ہوتی ہے، جس میں قیمتی جانیں ضائع ہوگئیں۔

اسلام ٹائمز: حکومت کو کسی نے بروقت واقعے کی اطلاع دی تھی۔؟
علامہ سید عابد الحسینی:
ایک تو یہ سوال ہی غلط ہے، ہر جگہ ان کے نمائندے یعنی محرر وغیرہ موجود ہوتے ہیں۔ سب سے پہلے اطلاع انہی کو مل جاتی ہے۔ بالفرض اگر انہیں اطلاع نہیں ملی تو یہ ان کی ناکامی ہے۔ ایسی صورت میں یا انہیں اپنے عہدے سے استعفیٰ دینا چاہیئے۔ اگر متعلقہ بابو نے غفلت سے کام لیتے ہوئے بروقت کارروائی نہیں کی یا بروقت اطلاع نہیں دی ہے تو ایسی صورت میں اسے سزا ملنی چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: علمائے کرام کا بھی فرض تو بنتا ہے کہ وہ ایسے معاملات میں بروقت مداخلت کرکے شرعی فیصلہ صادر فرما کر معاملات کو سلجھائیں۔؟
علامہ سید عابد الحسینی:
ہاں یہ بات ٹھیک ہے، تاہم مسئلہ کچھ یوں ہے کہ عوام کی اپنی دلچسپی پر بھی منحصر ہے۔ اگر وہ خود یہ فیصلہ کریں کہ معاملے کا شرعی حل نکالیں اور علماء کے پاس اپنا مسئلہ لے آئیں۔ مگر قبائل کا مزاج کچھ اس طرح ہوتا ہے کہ جہاں انہیں فائدہ ہو، وہیں پر جاتے ہیں۔ ضلعی نظام سے پہلے جرگے وغیرہ ہوتے تھے۔ اب بھی جرگے موجود ہیں۔ تاہم عدالت کا نظام آچکا ہے۔ چنانچہ اکثر لوگ جائیداد کے علاوہ دیگر مسائل جیسے ذاتی دشمنی، نکاح و طلاق وغیرہ میں عدالت کی طرف رجوع کرتے ہیں، جبکہ عدالتوں میں مسائل حل ہونے میں سالہا سال لگتے ہیں۔ لاکھوں خرچ ہو جاتے ہیں، پھر بھی حل نہیں نکل آتا۔

اگر کہیں عدالت فیصلہ کر بھی دیتی ہے تو قبائل اسے تسلیم کرنے کی بجائے، اعلیٰ عدالت میں اپیل کرکے آگے لے جاتے ہیں۔ جہاں مزید وقت اور پیسہ لگ جاتا ہے۔ اسی پر بھی بس نہیں کیا جاتا بلکہ اگر وہاں سے کوئی فیصلہ سامنے آتا ہے تو پھر اس کے بعد مقامی جرگے دوبارہ شروع ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ یہ ایک المیہ ہے۔ تاہم جائیداد کے مسائل کا حل محکمہ مال کے پاس ہوتا ہے۔ جسے تحصیلدار، اے سی اور ڈی سی ہی ڈیل کرتے ہیں۔ چنانچہ اگر وہ کاغذات مال کی روشنی میں فوری اقدام کریں تو کوئی مسئلہ مسئلہ نہیں رہے گا۔

اسلام ٹائمز: قومی مسائل کے حل نیز کرپشن کیخلاف آپکی تحریک کہاں تک پہنچی ہے۔؟ 
علامہ سید عابد الحسینی:
میری بیماری نیز کچھ دیگر اندرونی مسائل کی وجہ سے تحریک میں کچھ عرصہ تک تساہل پیدا ہوگیا تھا، تاہم روکی نہیں بلکہ اب دوبارہ ہمارے دورہ جات شروع ہوچکے ہیں۔ گاؤں گاؤں جا کر لوگوں میں شعور بیدار کیا جا رہا ہے۔ پوری تیاری کے بعد ہم باقاعدہ ایجیٹیشن شروع کریں گے۔ اس کے بعد مناسب فیصلہ کیا جائے گا۔
خبر کا کوڈ : 951054
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش