0
Sunday 30 Jan 2022 04:07

مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی رہنماء عارف الجانی کا خصوصی انٹرویو

مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی رہنماء عارف الجانی کا خصوصی انٹرویو
عارف حسین الجانی کا بنیادی تعلق گلگت بلتستان سے ہے، وہ اسوقت قائداعظم یونیورسٹی سے ایم فل کر رہے ہیں، ماضی میں امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن سے منسلک رہے اور دو مرتبہ آئی ایس او پاکستان کے مرکزی صدر کی حیثیت سے ذمہ داریاں ادا کرچکے ہیں۔ چند روز قبل انہیں مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی مرکزی کابینہ میں شامل کیا گیا اور معاون مرکزی سیکرٹری تنظیم سازی کی ذمہ داری تفویض کی گئی۔ عارف الجانی حالات حاضرہ پر اچھی نظر رکھتے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے یمن کی سنگین ہوتی صورتحال کے تناظر میں انکے ساتھ ایک اہم انٹرویو کا اہتمام کیا، وہ قارئین کے پیش خدمت ہے۔ادارہ

اسلام ٹائمز: سب سے پہلے بتائیے گا کہ یمن پر سعودی عرب اور اسکے اتحادی ممالک کی افواج کی یلغار کے بنیادی مقاصد آخر ہیں کیا۔؟
عارف الجانی:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ سب سے پہلے تو آپ اور آپ کے ادارے کا شکریہ کہ آپ نے اس حساس مسئلہ پر اپنی رائے کا اظہار کرنے کا موقع فراہم کیا۔ اگر یمن کی موجودہ صورتحال کو دیکھا جائے تو یمن پر حملہ کیلئے سعودی عرب کی سربراہی میں ایک اتحاد قائم کیا گیا، اس اتحاد کی اصل چھتری امریکہ، اسرائیل اور برطانیہ ہیں، اس کے علاوہ خلیج اور مشرق وسطیٰ میں ان کے غلام ممالک گذشتہ سات سالوں سے یمن میں ظلم و بربریت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ جب ہم یمن مسئلہ کا مختلف زاویوں سے تجزیہ کرتے ہیں تو ان کا بنیادی مقصد یہی سمجھ آتا ہے کہ بلاشبہ یہ خطہ بہت اہمیت کا حامل ہے، لہذا وہ قوتیں اس خطہ کو جنگ و جدل میں مصروف رکھنا چاہتی ہیں۔ کیونکہ یہاں بہت زیادہ قدرتی وسائل موجود ہیں، ان کے پاس سمندر ہے، ان کے پاس تیل ہے، ان کے پاس معدنیات ہیں، ان کے پاس گیس ہے۔ اس کے علاوہ اسلام کے حوالے سے بھی وہ آمادہ ترین سرزمین ہے اور تاریخ اسلام کے حوالے سے بھی ان کی اپنی اہمیت ہے، اس کے علاوہ انقلاب امام زمانہ (عج) کے عنوان سے بھی روایات و احادیث کی روشنی میں اس خطہ کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔

تو ظاہر بات ہے کہ عالمی استعمار کبھی نہیں چاہے گا کہ یہ خطہ مستحکم ہو، امن ہو اور یہ خطہ ترقی کرے۔ اگر یہ خطہ ڈویلپ ہو جائے گا تو یہاں لوگوں کو آگے بڑھنے کے مواقع فراہم ہوں گے، انہیں پرامن ماحول میسر ہوگا۔ یمن کے اندر موجود امریکہ و سعودی مخالف لوگ یمن کو ایک آزاد ملک دیکھنا چاہتے ہیں، لہذا امریکہ کبھی نہیں چاہے گا کہ وہاں ایک خود مختار حکومت قائم ہو، امریکہ چاہتا ہے کہ اس خطہ کے تمام وسائل پر وہ قابض ہو، اس لئے اس خطہ کو غیر مستحکم رکھنا چاہتا ہے۔ اس پٹی کے اندر سب سے بڑی مشکل یہی ہے کہ یو اے ای، قطر اور سعودیہ کی شکل میں موجود امریکی غلام ممالک موجود ہیں۔ امریکہ ان کے ذریعے اس خطہ میں سعودی اجارہ داری قائم کروانا چاہتا ہے، لیکن یہ بری طرح ناکام ہوچکے ہیں، یہ عراق سے ذلیل ہوکر نکلے ہیں، یہ شام میں اپنے مقاصد میں ناکام ہوئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یمنیوں نے نہتے ہونے کے باوجود سات سال تک ان شیطانی لشکروں کیساتھ مقابلہ کیا ہے اور انہیں ذلیل و رسوا کیا ہے، آپ دیکھیں گے کہ اس جنگ کا اختتام بھی یمن کی فتح کی صورت میں ہوگا۔

اسلام ٹائمز: یمن میں انسانی حقوق کی بدترین پائمالی پر مسلم دنیا اور اقوام متحدہ کی مجرمانہ خاموشی پر کیا کہیں گے۔؟
عارف الجانی:
یمن کی مکمل آبادی 3 کروڑ ہے، اقوام متحدہ کی رپورٹ ہے کہ وہاں اڑھائی کروڑ لوگ انسانی المیہ کا شکار ہیں، لوگوں کے پاس خوراک نہیں ہے، پانی نہیں ہے، لوگ زندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم ہیں۔ درحقیقت وہاں انسانیت کی توہین ہو رہی ہے، اس وقت یمن کی یہ صورتحال ہے کہ اقوام متحدہ نے بھی اس حالیہ حملہ کی مذمت کی ہے۔ آپ ان ممالک سے انسانی حقوق کی توقع کرتے ہیں جو انسانیت کے قاتل ہیں۔؟ یہ ممالک تو درندہ صفت ہیں، جنہوں نے عراق، افغانستان، شام، لیبیا، کس ملک کو انہوں نے تباہ و برباد نہیں کیا؟ آپ ان کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو ہمیشہ سے انسانیت کے دشمن رہے ہیں، لیکن بدقسمتی سے ان دشمنوں کے ساتھ امت مسلمہ کی بعض ایسی خائن ریاستیں کھڑی ہیں، جنہوں نے ہمیشہ ان اسلام دشمن طاقتوں کیساتھ ملکر اسلام کی پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے، ان خائن ممالک نے فلسطین ایشو کو نقصان پہنچایا، کشمیر کو نقصان پہنچایا۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اس ظلم پر کیوں خاموش ہے؟ جنرل اسمبلی نے آج تک کیوں کوئی ایکشن نہیں لیا؟ بنیادی طور پر یہ سارے ادارے ایک ہیں، بس ان کے نام مختلف ہیں، یہ سب انسانیت کے قاتل ہیں، ان سے ہمیں کبھی بھی خیر کی توقع نہیں رکھنی چاہیئے۔ مسلم ممالک کو خود اپنے اندر سرخ لکیر کھینچنے کی ضرورت ہے کہ کونسے ممالک کو ہم مسلم کہیں۔ کیونکہ مسلمانوں کو سب سے زیادہ نقصان تو انہی سعودیوں نے پہنچایا ہے، انہی یو اے ای والوں نے پہنچایا ہے۔ اس کے علاوہ ترکی کا بھی ایک منافقانہ کردار آپ کو دیکھنے کو ملتا ہے۔ میں تو یہی کہوں گا کہ اقوام متحدہ اور خود مسلم ممالک کی یمن کے مسئلہ پر مجرمانہ خاموشی قابل مذمت ہے، اس اہم مسئلہ پر انہوں نے خاموش بیٹھ کر اصلاً ظالموں کی حمایت کی ہے۔

اسلام ٹائمز: یو اے ای پر حوثیوں کے حملے سے کیا ثابت ہوتا ہے کہ انکی دفاعی طاقت اور استقامت سعودی اتحادی کے مقابلہ کیلئے بہت مضبوط اور کسی بھی ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔؟
عارف الجانی:
امریکہ کی حمایت سے یہ سعودی اتحاد جو بنا تھا، انہوں نے یمن کے حوالے سے غلط اندازہ لگایا تھا، وہ سمجھ رہے تھے کہ یہ ایک ہفتے کی گیم ہے، ہم وہاں جائیں گے، ان کو ماریں گے یا ڈرائیں گے اور اپنے اہداف کو حاصل کرلیں گے، لیکن ان کو معلوم نہیں تھا کہ دنیا میں ایسے بہادر اور شجاع لوگ بھی ہیں، جو صرف اللہ کی طاقت کو ہی سپر پاور سمجھتے ہیں۔ یمن سے کچھ ایسے باغیرت اور حریت پسند لوگ نکلے جو واقعاً یمن سے محبت کرتے تھے، وہ چاہتے تھے کہ یمن کو استعماری طاقتوں کی نجاست سے پاک کیا جائے، وہ یمن کو یمنیوں کی خواہش کے مطابق چلانا چاہتے تھے۔ جب حوثیوں نے قیام کیا تو سات سال گزرنے کے باوجود وہ کچھ نہ بگاڑ سکے، ان کے ہاتھ سے پورا یمن نکل گیا ہے، اس وقت ستر فیصد سے زائد یمن حوثیوں کے ہاتھ میں ہے۔ یو اے ای پر جو حالیہ حملہ کیا گیا ہے، وہ حوثیوں نے دنیا کو پیغام دیا ہے کہ اگر آپ ظلم نہیں روکو گے تو ہمیں بدلہ لینا بھی آتا ہے، ہمارے پاس بھی ایسی ٹیکنالوجی ہے۔ انہوں نے یہ حملہ کرکے الٹی میٹم دیا ہے کہ اب آپ کے اسٹریٹیجک اثاثے ہمارے نشانہ پر ہیں، اگر ابھی بھی یہ جنگ نہ رکی تو بلاشبہ یمنی اپنے دفاع کا حق رکھتے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ یہ حوثیوں کی طرف سے ایک بہت بڑا الٹی میٹم ہے۔

اسلام ٹائمز: امارات ائیرپورٹ پر حملہ پر پاکستان کی مذمت اور بیگناہ یمنیوں کے قتل عام پر خاموشی، کیا دہرا معیار نہیں۔؟
عارف الجانی:
پاکستان کو اس مسئلہ پر ایک واضح کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے، پاکستان مسلم دنیا کی پہلی ایٹمی طاقت ہے اور دنیا میں اپنا ایک مقام رکھتا ہے، یمن کے مسئلہ پر پاکستان کو غیر جانبدارانہ رول ادا کرنا چاہیئے تھا کہ یہ مسئلہ کسی حل کی جانب جاتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ حکومت پاکستان نے سعودی ریالوں کو دیکھا ہے، بے گناہ مسلمانوں کے قتل عام کو نہیں دیکھا۔ پاکستان نے اس حوالے سے بیان دیکر یمن کے مظلوم عوام کیساتھ زیادتی کی ہے، وزیراعظم پاکستان کو مظلوم یمنی عوام کیساتھ اس خیانت پر معافی مانگنی چاہیئے، ہمارا یہی مطالبہ ہوگا کہ پاکستان کو آج بھی مشرق وسطیٰ میں جاری ان مسائل کو حل کرنے کیلئے اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے۔ یہ جو مسلمان آپس میں لڑ رہے ہیں، اس سے اسلام کا نقصان ہو رہا ہے، اس سے دشمن فائدہ اٹھا رہا ہے، لہذا میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کو ماضی کی غلطیوں کو چھوڑ کر ایک نئے عزم اور ایک نئی حکمت عملی کے ساتھ امت مسلمہ کو یکجا کرنے کی خاطر قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے پاس یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ سعودی عرب اور یو اے ای جیسے ممالک کی ان زیادتیوں پر رول پلے کرسکتا ہے۔

اسلام ٹائمز: یمن مسئلہ کا آپ کیا مستقبل دیکھ رہے ہیں۔؟
عارف الجانی:
دیکھیں، یمن کا مسئلہ اس وقت بہت حساس نوعیت کا ہوچکا ہے، اب دونوں فریقین بہت بڑا نقصان اٹھا سکتے ہیں، مسلم امہ اس حوالے سے مداخلت کرے، اگر اس مسئلہ کو کسی حل کی جانب نہیں لیکر جائیں گے تو اس خطہ کو بہت بڑا نقصان ہوسکتا ہے۔ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ جس کے پاس کھونے کیلئے کچھ نہیں ہوتا تو وہ زیادہ طاقتور ہوتا ہے اور جس کے پاس سب کچھ ہوتا ہے، وہ کھونے کے ڈر سے کنفیوز رہتا ہے، یمن کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ یمن نے اپنا سب کچھ داو پر لگا دیا ہے، انہوں نے اپنے خطہ کے دفاع کیلئے، اپنے اقدار کی حفاظت کیلئے اور اپنے ملک سے سامراج کی بے دخلی کیلئے سب کچھ داو پر لگایا ہوا ہے، اب یمنیوں کے پاس کھونے کیلئے کچھ نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت یمنیوں کو برتری حاصل ہے، اب حالیہ یو اے ای کے ائیر پورٹ پر حملہ کے بعد یو اے ای اور سعودی عرب کو بھی سمجھ آگیا ہے کہ حوثی انہیں کس قدر نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

اب سعودی عرب کے پاس نہ وہ طاقت ہے اور نہ ہی یو اے ای کے پاس وہ طاقت ہے کہ وہ مزید اس جنگ کو جاری رکھ سکیں۔ اگر یہ جنگ مزید جاری رہے گی تو مجھے لگ رہا ہے کہ ان بادشاہوں کی سلطنتیں تباہ ہوں گی اور یہی یمن کے مظلوم بچوں، خواتین، بزرگوں کے جوانوں کے ناحق خون میں ان کے تخت ڈوب جائیں گے، اس خطہ میں ظلم نابود ہو جائے گا اور مظلوم طبقات کی کامیابی ہوگی۔ میں سمجھتا ہوں کہ یمن کا مسئلہ اپنے آخری مراحل میں پہنچ چکا ہے۔ ہماری خواہش یہی ہے کہ یہ مسئلہ اپنے کسی منطقی انجام کی طرف ضرور جائے، اس کا کوئی پرامن حل نکلے، جنگ کوئی حل نہیں ہے۔ ابھی بھی ہمیں ان دروازوں کو کھولنے کی ضرورت ہے، عالمی دنیا اور خاص طور پر عالم اسلم کو یمنیوں کے زخموں پر مرحم رکھنے کی ضرورت ہے اور استعماری طاقتوں اور سعودیوں کو اس ظلم کی سزا بھی ضرور ملنی چاہیئے۔
خبر کا کوڈ : 976256
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش