0
Thursday 29 Sep 2011 08:44

امریکی دھمکیوں کیخلاف قومی حکمت عملی کیلئے آل پارٹیز کانفرنس آج ہو گی، سول اور فوجی قیادت کے اجلاس میں ایجنڈے کی منظوری

امریکی دھمکیوں کیخلاف قومی حکمت عملی کیلئے آل پارٹیز کانفرنس آج ہو گی، سول اور فوجی قیادت کے اجلاس میں ایجنڈے کی منظوری
اسلام آباد:اسلام ٹائمز۔ امریکہ کی الزام تراشیوں اور دھمکیوں کے خلاف پوری قوم ایک ہو گئی ہے، امریکہ کو متفقہ جواب دینے کے لئے تمام نظریں آج وزیراعظم کی زیر صدارت ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس پر لگ گئی ہیں جس میں وزیر خارجہ اور فوجی حکام حساس نوعیت کے معاملات پر شرکاء کو بریفنگ دیں گے۔ وزیراعظم گیلانی کی طرف سے بلائی جانے والی کل جماعتی کانفرنس میں نواز شریف، چوہدری شجاعت حسین، اسفند یار ولی خان، مولانا فضل الرحمن، عمران خان، سید منور حسن، حیدر عباس رضوی، آفتاب شیرپاو اور میر ظفر اللہ جمالی سمیت 65 سے زیادہ سیاسی رہنما شرکت کریں گے۔ سیاسی قائدین کا کہنا ہے کہ سیاسی وابستگی سے بالاتر ہو کر قومی دفاع، سلامتی و خود مختاری کے بارے میں متفقہ قومی پالیسی سامنے آنی چاہئے۔
بعض سیاسی رہنماوں کا خیال ہے کہ آل پارٹیز کانفرنس امریکہ سے تعلقات پر از سر نو غور کرنے کا سنہری موقع ہے۔ ریاستی اداروں پر بے بنیاد امریکی الزامات اور دھمکیوں کے بعد قومی سیاسی قیادت کی طرف سے مضبوط پیغام سامنے آنا چاہئے۔ عوامی حلقے بھی ملک کو درپیش بیرونی چیلنجز کے پیش نظر سیاسی قیادت کے ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہونے کو اچھی پیش رفت قرار دے رہے ہیں۔ ان کا یہ ماننا ہے کہ بیرونی دھمکیوں اور دباو سے بچنے کا واحد حل خود انحصاری ہے۔ وزیر خارجہ حنا ربانی کھر اور عسکری و انٹیلی جنس حکام وزیراعظم ہاؤس میں ہونے والی قومی کانفرنس کے شرکا کو سیکیورٹی کی صورت حال پر بریفنگ دیں گے۔ کانفرنس کے اختتام پر ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا جائے گا جس میں قومی سلامتی کو درپیش کسی بھی بیرونی خطرے سے متحد ہو کر نمٹنے کا عزم ظاہر کیا جائے گا۔ 
دیگر ذرائع کے مطابق امریکا کی جانب سے دھمکی آمیز بیانات سے پیدا ہونیوالی کشیدہ صورتحال پر غور کرنے اور ملکی سلامتی کو درپیش چیلنج سے نمٹنے کیلئے قومی حکمت عملی وضع کرنے کیلئے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی جانب سے بلائی گئی کل جماعتی کانفرنس آج جمعرات کو دو بجے بعد نماز ظہر وزیراعظم ہاؤس اسلام آباد میں منعقد ہو گی۔ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل خالد شمیم وائیں، چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا کانفرنس کے شرکاء کو ملکی سلامتی سے متعلق بریفنگ دینگے۔ وزیراعظم ہاؤس کے ترجمان نے بتایا کہ کانفرنس میں تقریباً 55 سے زائد سیاسی روایتی جماعتوں کے قائدین شرکت کریں گے اور انہوں نے شرکت کی تصدیق کر دی ہے۔ وفاقی کابینہ کے اہم ممبران احمد مختار، رحمن ملک، ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان بھی موجود ہوں گے۔ 
جن سیاسی و دینی رہنماؤں نے شرکت کی تصدیق کر دی ہے ان میں میاں نواز شریف، چوہدری شجاعت حسین، اسفند یار ولی، مولانا فضل الرحمن، مولاناسمیع الحق، سید منور حسن، حیدر عباس رضوی، حاجی خدا بخش راجڑ، منیر خان اورکزئی، میر ظفر اللہ جمالی، محمود خان اچکزئی، شیخ رشید احمد، سینیٹر سلیم سیف اللہ، میر حاصل بزنجو، سینیٹر شاہد حسن بگٹی، رسول بخش پلیجو، آغا حامد علی موسوی، علامہ ساجد علی نقوی، ڈاکٹر طاہر القادری، صاحبزادہ فضل کریم، غلام مرتضیٰ جتوئی، آفتاب خان شیرپاؤ، عمران خان، اختر مینگل،حاجی حنیف طیب، صاحبزادہ ابولخیرمحمد زبیر، ڈاکٹر پال، ڈاکٹر شیریں مزاری، امیر حسین گیلانی، میر اسرار اللہ زہری، پیر فضل حق، عبدالقدیر خاموش، علامہ طاہر اشرفی، سردار عتیق احمد خان، چوہدری نثار علی خان، مولانا عبدالغفور حیدری شامل ہیں۔
 واضح رہے کہ 18 مئی 2009ء کو سوات اور مالاکنڈ میں آپریشن سے قبل بلائی گئی اے پی سی کے بعد یہ دوسری اے پی سی ہے جو حکومت کی جانب سے بلائی گئی ہے، تاکہ امریکا کی جانب سے دھمکیوں کے جواب میں پوری قوم کی جانب سے متفقہ موقف سامنے آئے اور پاکستان کی خودمختاری آزادی اور سلامتی کے بارے میں غیر متزلزل اور جرات مندانہ اور دو ٹوک موقف اپنایا جا سکے۔ تاہم حکومت کو اپوزیشن پارٹیوں کی جانب سے ڈورن حملوں سے متعلق پارلیمنٹ کی قرارداد پر عملدرآمد نہ کرنے اور ایبٹ آباد سانحہ اور سندھ کے سابق سینئر وزیر ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے امریکا سے متعلق انکشافات پر حکومت کو تنقید کا سامنا کرنا پڑیگا۔ 
ذرائع کا کہنا ہے کہ حقانی نیٹ ورک سے مبینہ پاکستانی رابطے اے پی سی کا اہم موضوع ہو گا، جس پر ملک کی بعض ”ترقی پسند“ جماعتیں حکومت کو سخت گیر موقف اپنانے پر زور دے رہی ہیں، ان میں سے بعض جماعتوں نے حکومت کو پیغامات بھجوائے ہیں کہ پاکستان کو خطرات سے نکالنے کیلئے حقانی نیٹ ورک سے ہر قسم کے رابطے ختم کر دیئے جائیں، جبکہ قومی قیادت کا ایک موثر حلقہ اس امر کا حامی ہے کہ پاکستان دوست افغان گروپوں سے رابطے قومی مفاد میں ہیں، انہیں جاری رہنا چاہئے، تاکہ افغانستان میں پاکستان کے حامی افغان گروپ موثر سیاسی کردار ادا کرسکیں۔ 
ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ سیاسی جماعتوں کے درمیان امریکا کے ساتھ تعلقات پر کسی اتفاق رائے کے بہت کم امکانات ہیں، مذہبی جماعتیں امریکا کے ساتھ ہر قسم کے تعلقات ختم کرنے پر زور دے رہی ہیں۔ تاہم آل پارٹیز کانفرنس کے ذریعے امریکا کی قیادت کو پیغام دیا جائیگا کہ مسائل کو بردباری اور تحمل کے ساتھ حل کیا جائے۔ کیونکہ کوئی بھی جارحانہ روش خطے کی سلامتی کو خطرے میں ڈال دے گی۔ 
دریں اثناء آن لائن کے مطابق آل پارٹیز کانفرنس کے موقع پر کسی بھی ناخوشگوار واقعہ سے نمٹنے کیلئے وفاقی دارالحکومت میں سکیورٹی کو ہائی الرٹ کر دیا گیا ہے، وزارت داخلہ کے ذمہ دار ذرائع کے مطابق اسلام آباد میں اور ضلعی انتظامیہ کو احکامات جاری کئے گئے ہیں۔ وفاقی دارالحکومت کے تمام داخلی اور خارجی راستوں پر سکیورٹی مزید سخت کی جائے اور مشتبہ افراد اور گاڑیوں پر کڑی نظر رکھی جائے۔ اسلام آباد پولیس کو یہ بھی ہدایت کی گئی ہے کہ کانفرنس کے دوران وفاقی دارالحکومت کے ریڈ زون میں کسی بھی غیر متعلقہ شخص کی نقل و حرکت پر پوری نظر رکھی جائے جبکہ اسلام آباد کی اہم عمارات پر بھی اضافی نفری تعینات کی جائے۔
ادھر قومی اور عسکری قیادت نے درپیش صورتحال میں آل پارٹیز کانفرنس کیلئے قومی ایجنڈے کی منظوری دے دی ہے۔ بدھ کی شب ایوان صدر میں صدر اور وزیراعظم کی زیرصدارت اعلٰی سطح کا مشاورتی اجلاس ہوا، آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی، سیکرٹری خارجہ سلمان بشیر اور متعلقہ سینئر سول اور فوجی حکام اجلاس میں موجود تھے۔ پاک امریکا تعلقات کے مختلف پہلوؤں پر غور کیا گیا، اجلاس میں قومی اور عسکری قیادت نے آل پارٹیز کانفرنس کے انعقاد کے وزیراعظم کے فیصلے کی بھرپور حمایت کی اور امید ظاہر کی کہ اے پی سی کے ذریعے ملک میں قومی امور پر اتفاق رائے کو فروغ ملے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مشاورتی اجلاس میں یہ طے کیا گیا کہ داخلی خودمختاری کی حفاظت کی جائیگی پاکستان کو عدم استحکام کا شکار نہیں ہونے دیا جائیگا اور قومی معاملوں میں حکومت کی مفاہمت اور اتفاق رائے کی پالیسی جاری رہے گی۔ سیاسی قیادت سے مشاورت کے بعد پارلیمنٹ کو بھی اعتماد میں لیا جائیگا۔
خبر کا کوڈ : 102329
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش