0
Wednesday 5 Oct 2011 03:13

ہزارہ قبیلہ کی نسل کشی پر حکومتی، اتحادی ارکان سمیت اپوزیشن کا صوبائی حکومت اور رحمان ملک کے فوری استعفی کا مطالبہ

ہزارہ قبیلہ کی نسل کشی پر حکومتی، اتحادی ارکان سمیت اپوزیشن کا صوبائی حکومت اور رحمان ملک کے فوری استعفی کا مطالبہ
اسلام آباد:اسلام ٹائمز۔ وفاقی وزیر فنی و پیشہ وارانہ تعلیم ریاض حسین پیرزادہ نے عوامی تحفظ کے لیے آئینی ذمہ داری کی ادائیگی میں ناکامی پر وفاقی حکومت سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر دیا۔ انہوں نے بلوچستان اور سندھ میں گورنر راج لگانے کا مطالبہ بھی کیا۔ یہ مطالبہ انہوں نے منگل کو قومی اسمبلی میں کوئٹہ میں دہشت گردی کے واقعہ پر بیان دیتے ہوئے کیا۔ پی پی کے ناصر علی شاہ نے ہزارہ کمیونٹی کی ٹارگٹ کلنگ کے خلاف احتجاجاً ایوان کی کارروائی کا بائیکاٹ کر دیا۔ گزشتہ روز قومی اسمبلی میں نکتہ اعتراض پر پی پی پی کی رکن فرخ ناز اصفہانی نے کہا کہ ایک بار پھر ہزارہ کمیونٹی کو نشانہ بنایا گیا۔ حکومت کہاں ہے ایم کیو ایم کے رہنما وسیم اختر نے کہا کہ امن کے قیام کی ذمہ داری صوبائی حکومت پر عائد ہوتی ہے اس سے قبل بھی ہزارہ کے لوگوں کو قتل کیا گیا، حکومت نے حفاظتی اقدامات نہیں کیے۔ پی پی کے رکن ناصر علی شاہ نے کہا کہ ایک بار پھر معصوم لوگوں کو نشانہ بنایا گیا، واقعہ میں سبزی فروش مارے گئے، گروپس واقعات کی ذمہ داری قبول کر لیتے ہیں کوئی نوٹس نہیں لیتا، فون کے ذریعے ان واقعات قبول کرنے کے بارے میں آگاہ کیا جاتا ہے، ان کا سراغ لگایا جائے، تین سالوں سے چیخ رہے ہیں، لوگوں کی جانیں ضائع ہو رہی ہیں۔ انہوں نے بلوچستان میں گورنر راج کے نفاذ کا مطالبہ کیا اور کہا کہ جب تک بلوچستان میں گورنر راج نہیں لگایا جاتا وہ پارلیمنٹ ہاوس کے باہر احتجاج کرتے رہیں گے۔ ناصر علی شاہ کے اس اعلان کے بعد انہوں نے ایوان کی کارروائی کا بائیکاٹ کر دیا۔
مسلم لیگ ( ن ) کے رہنما سردار ایاز صادق نے کہا کہ حکومتی رٹ قائم نہیں ہے، وفاقی و بلوچستان دونوں حکومتیں نااہل ہیں۔ وزیر داخلہ رحمان ملک کے روایتی بیانات نہیں سنیں گے۔ ان کا کوئی حلقہ ہوتا تو ان کو عوام کے جان و مال کا احساس ہوتا، رحمان ملک مستعفی ہوں۔ منتخب ہو کر آئیں، حکومت کی نااہلی کی وجہ سے مسائل بڑھ رہے ہیں، وقت کم ہے نااہل لوگوں کو ہٹایا جائے۔ عوامی نیشنل پارٹی کی رہنما بشری گوہر نے کہا کہ کیا لوگوں کے لیے ہم فاتحہ ہی کرتے رہے اور مجرم دندناتے پھرتے رہیں۔ انہوں نے وزیر اعلی بلوچستان اور وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک سے مستعفی ہو نے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ اس بارے میں رولنگ جاری کی جائے۔ اب ایک دو حکومتی لوگوں کے استعفے آنے چاہئیں۔ مسلم لیگ (ق) کے چیف اور وفاقی وزیر ریاض حسین پیرزادہ نے کہا کہ ملک میں تمام ادارے ناکام ہوگئے ہیں، قاتل جیلوں سے نکل آتے ہیں، دہشت گردی کے خلاف نعرہ لگایا جاتا ہے، مگر دہشت گردوں کا ساتھ دیا جا رہا تھا، امریکا کو بھول کر بجلی کو رو رہے ہیں، وزیر ہونے کی وجہ سے زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتا، مجھ پر قدغن ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر خون بہنا نہیں رک سکتا تو بلوچستان میں گورنر راج لگایا جائے اور حکومت کو فارغ کیا جائے، انہوں نے کہا کہ میں استعفی دے کر بھی کچھ نہیں کرسکتا۔ کرسی کے ساتھ بھی بے بس ہوں، اس ایوان میں اپنے جذبات کا اظہار کر سکتا ہوں۔ سندھ بلوچستان میں گورنر راج لگایا جائے، اگر مرکزی حکومت نہیں چل سکتی تو مستعفی ہو۔
بلوچستان سے پی پی کے رکن عثمان خان ایڈووکیٹ نے کہاکہ بلوچستان کابینہ میں ایسے ارکان موجود ہیں جو قتل، چوری اور اغوا برائے تاوان کے مجرمان کے سرپرست ہیں جن ارکان پر 20 سے 25 لوگوں کے قتل کا الزام ہے۔ ان کو ہی موثر وزارتیں دی گئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خضدار میں سیاسی کارکنوں کے قتل کا منصوبہ بنایا گیا، قاتل ایف سی کے کمانڈنٹ اور سرکاری ریسٹ ہاؤس میں پناہ لیے ہوئے ہیں، پنجاب لشکر جھنگوی کی آماجگاہ ہے جہاں لوگوں کو تربیت دی جاتی ہے۔ نواز شریف بھی بلوچستان کے حالات کا نوٹس لیں، انہوں نے بھی بلوچستان میں گورنر راج لگانے اور انتخابات کا مطالبہ کیا اور کہا کہ جب تک قوم پرستوں کو جمہوری عمل میں نہیں لایاجائے گا، حالات ٹھیک نہیں ہوں گے۔ وفاقی ایجنسیاں بلوچستان کی خرابی میں بلواسطہ و بلاواسطہ طورپر ملوث ہیں۔
پی پی کے رکن ندیم افضل گوندل نے کہا کہ عوام کو تحفظ نہیں دے سکتا تو اسمبلیوں کی کوئی اہمیت نہیں، اندھے گونگے بہرے اور بے ضمیر ہیں۔ سیاستدان نہیں ہر دور میں اشرافیہ کی حکومت ہوتی ہے، کالعدم تنظیموں کو کھلی چھٹی دے دی گئی، ہمیں مجبور نہ کیا جائے کہ کسی دوسرے ملک کی طرف دیکھیں، وزیراعظم اور وزیر داخلہ کو ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کے بارے میں رپورٹ میں جواب دینا ہو گا، بلوچستان حکومت کٹھ پتلی ہے۔
مسلم لیگ(ق) کے رکن سردار اویس لغاری نے کہا کہ صرف کراچی کوئٹہ میں حالات خراب نہیں بلکہ تمام علاقوں میں حالات مخدوش ہیں، ضلع بارکھان میں اغواء کاروں نے پناہ گاہیں بنا رکھی ہیں، بلوچستان کے وزراء اور ایم پی ایز اُن کو تحفظ دے رہے ہیں، کور کمانڈر بلوچستان کو خط لکھ چکے ہیں، جمعیت علماء اسلام (ف) کی اقلیتی رکن آسیہ ناصر نے کہا کہ گھر میں آگ لگی ہوئی ہے، امریکی دھمکیوں کو چھوڑ کر داخلی حالات پر بحث کرنے پر مجبور ہیں، حکومت عوام کی حفاظت میں ناکام ہو گئی ہے، توجہ نہ دی گئی تو ملک کو نہیں بچا سکیں گے، عوام گھروں سے باہر نکل آئی ہے۔
سابق وزیر مذہبی امور علامہ حامد سعید کاظمی نے کہا کہ کسی مسلک کے افراد کو ٹارگٹ بنا کر قتل کرنا لمحہ فکریہ ہے، مزارات، مساجد میں بم دھماکے ہوئے، پاکستان میں جتنے دہشت گردوں کے سروں کی قیمت مقرر ہوئی ہے کسی کا صوفیاء کے پیروکاروں سے تعلق نہیں ہے، ملک میں شیعہ سنی کا مسئلہ نہیں ہے، فرقہ وارانہ جنگ ہوتی تو گلی کوچوں میں آپس میں لڑرہے ہوتے، انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے فروغ اور دہشت گردوں کی پشت پناہی میں خفیہ قوتیں بھی ملوث ہیں، امریکہ دہشت گردوں کی سرپرستی کر رہا ہے، مسلح گروپوں کو کہاں سے وسائل مل رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ فرقہ واریت پھیلانے کی کوششوں میں اگر حکومتی ایجنسیاں ملوث ہیں تو انہیں بھی لگام ڈالی جائے۔ بلوچستان سے جے یو آئی( نظریاتی ) کے رکن مولوی عصمت اللہ نے کہا کہ مسئلے کی وجوہات اسباب کو دیکھنا ہو گا، جان بوجھ کر فرقہ واریت کا مسئلہ پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، انہوں نے کہا کہ اسلامی نظام کے نفاذ سے مسائل سے نجات حاصل ہوجائے گی، دین سے بغاوت کو ترک کرنا ہو گا، امیر مقام نے بھی کوئٹہ کے واقعہ کی مذمت کی۔
خبر کا کوڈ : 103816
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش