0
Tuesday 7 May 2024 12:51

9 مئی کرنے اور کروانے والوں کو آئین کے مطابق سزا دینا ہوگی، ڈی جی آئی ایس پی آر

9 مئی کرنے اور کروانے والوں کو آئین کے مطابق سزا دینا ہوگی، ڈی جی آئی ایس پی آر
اسلام ٹائمز۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ 9 مئی کو عوام اور فوج میں نفرت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی، 9 مئی کرنے اور کروانے والوں کو آئین کے مطابق سزا دینا ہوگی۔ ان خیالات کا اظہار ڈی جی آئی ایس پی آر نے راولپنڈی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ ایک سوال کے جواب پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ پہلی بات تو یہ کہ 9 مئی صرف افواج پاکستان کا مقدمہ نہیں ہے، یہ پورے پاکستان کے عوام کا مقدمہ ہے۔ اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کسی بھی ملک میں اس کی فوج پر حملہ کرایا، اس کی فوج کے شہداء کی علامات کی تضحیک کی تھی، اس کے بانی کے گھر کو جلایا تھا، وہاں پر فوج اور عوام کے درمیان نفرت پیدا کی گئی، اور وہ لوگ جو یہ کر رہے ہیں، یہ کروا رہے ہیں، ان کو کیفر کردار تک نہ پہنچایا جائے تو کسی بھی ملک میں ایسا ہو وہاں کے نظام انصاف پر سوال اٹھتا ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں اور اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اگر پاکستان کے نظام انصاف پر یقین قائم رکھنا ہے اور جزا اور سزا کا وہ نظام جس پر اللہ تعالیٰ کی یہ کائنات، یہ قدرت اور یہ نظام چلتا ہے، اگر اس پر یقین قائم رکھنا ہے تو 9 مئی کے ملزمان، اس کو کرنے والے اور اس کو کرانے والے، آئین اور قانون کے مطابق انہیں سزا دینی پڑے گی۔ میجر جنرل احمد شریف چوہدری نے 9 مئی سے متعلق بیانیہ بنائے جانے کے حوالے سے کہا کہ 9 مئی کوئی ڈھکی چھپی چیز نہیں ہے، اس کے ناقابل تردید شواہد عوام کے پاس بھی ہیں، افواج کے پاس ہی نہیں، ہم سب کے پاس ہیں، ہم نے اپنی آنکھوں سے ان واقعات کو ہوتے دیکھا، ہم سب سے دیکھا کہ کس طریقے سے لوگوں کی ذہن سازی کی گئی، ان کو افواج کے خلاف، اس کی قیادت کے خلاف، ایجنسیوں اور اداروں کے خلاف جھوٹ اور پروپیگنڈے سے ان کے ذہن بنائے گئے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے دیکھا کہ کچھ سیاسی رہنماؤں نے چن چن کر اہداف دیئے کہ ادھر حملہ کرو، ادھر حملہ کرو، ہم نے دیکھا کہ چند گھنٹوں میں پورے ملک میں صرف فوجی تنصیبات پر حملے کرائے گئے اور ان واقعات کو آپ نے بھی دیکھا، کیمرے کی آنکھ نے فلم بند بھی کیا اور جب یہ شواہد اور یہ ساری چیزیں لوگوں کے سامنے آئیں تو آپ نے عوام کا غصہ اور ردعمل بھی دیکھا، آپ نے یہ بھی دیکھا کہ کس طرح سے عوام اس انتشاری ٹولے سے پیچھے ہٹی، تو جب یہ کھل کر سامنے آگیا تو وہ دوسرا فریب، دوسرا جھوٹا پروپیگنڈا شروع کیا گیا کہ یہ فالس فلیگ آپریشن تھا، یہ تو پتہ ہی نہیں کہ یہ کیا ہوا، کون، کیسے کرگیا۔

اس موقع پر انہوں نے ایک انگریزی مقولے کا حوالہ دیا اور کہا ایسے ہی لوگوں کے لیے کہا گیا ہے کہ "آپ سب لوگوں کو کچھ وقت کے لیے بیوقوف بنا سکتے ہیں، کچھ لوگوں کو ہمیشہ بیوقوف بنا سکتے ہیں، لیکن آپ سب لوگوں کو ہمیشہ کے لیے بیوقوف نہیں بنا سکتے" تو یہ جھوٹ اور یہ فریب میرے بھائی نہیں چل سکتا، یہ جو میں نے آپ کو بتایا، جو آپ نے دیکھا، یہ آپ لوگوں کے سامنے ہے، اگر آپ اجازت دیں تو میں آپ کو اس کی چھوٹی سی جھلک دکھاتا ہوں، تاکہ آپ کی یاد داشت تازہ ہو کہ 9 مئی کا دن کیا تھا۔ اس موقع پر ڈی جی آئی ایس پی آر کی جانب سے 9 مئی 2023ء کو پیش آئے توڑ پھوڑ واقعات سے متعلق کچھ مناظر بھی نشر کیے گئے اور کچھ پی ٹی آئی رہنماؤں کے بیانات بھی نشر کیے گئے۔ انہوں نے کہا یہ مناظر دیکھ کر انسان خون کے آنسو روتا ہے کہ کس طرح معصوم بچوں کو ذہنی طور پر ورغلایا گیا، کس طرح ان میں زہر ڈالا گیا، کس طرح اپنے مذموم سیاسی مقاصد کے لیے اپنے ملک کی فوج، اپنے ہی شہیدوں اور اپنی ہی املاک کو آگ لگائی۔

انہوں نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ کیا یہ دنیا میں پہلی بار ہوا ہے، شاید لیکن اس سے کم درجے کے واقعات سیاسی بلوائی ساری دنیا میں کرتے آئے ہیں، دنیا کے دیگر ممالک کیا کرتے ہیں، نظر دوڑائیں تو آپ کو ماضی قریب میں بھی اس کی مثال ملتی ہے، اگست 2011ء میں لندن فسادات ہوئے، بلوائیوں نے سیاسی اور نجی املاک کو نقصان پہنچایا، اس کے بعد وہاں کا، کرمنل کورٹ سسٹم اور قانون نافذ کرنے والے ادارے حرکت میں آئے، دن رات عدالتیں لگیں، جو بلوائی اور انتشاری تھے، جو ان کے پیچھے کروانے والے تھے، انہیں سخت سے سخت سزائیں دلوائی گئیں، اگر ان فسادات میں 18 سال سے کم عمر بچے ملوث تھے، انہیں بھی نہیں چھوڑا گیا، انہیں بھی سزائیں دلوائی گئیں۔

انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ 2021ء میں واشنگٹن ڈی سی امریکا میں سیاسی بلوائی کیپیٹل ہل کی عمارت میں گھسے، وہاں عمارت کو نقصان پہنچایا، توڑ پھوڑ کی تو وہاں پر کوئی جوڈیشل کمیشن یا چینلز پر بحث و مباحثے نہیں شروع ہوئے، کرمنل کورٹ سسٹم آیا، لوگوں کی شناخت کی گئی اور ان کو بھی جو وہاں موجود تھے یا موجود نہیں، لیکن ان واقعات کے محرکات میں شامل تھے، سخت سزائیں دی گئیں، یہ آپ کے سامنے ہے۔ میجر جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ اس سے آگے بڑھیں، 9 مئی کے بعد 27 جون 2023ء پیرس کے مضافات میں بلوے اور ہنگامے ہوئے، وہاں کا عدالتی نطام سرعت کے ساتھ حرکت میں آیا اور سخت سزائیں دیں، یہ میں نے آپ کو چند مثالیں ماضی قریب کی دیں، جن کی مثالیں ہماری اشرافیہ دیتے ہوئے تھکتی نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان ممالک نے ایسا کیوں کیا، اس لیے تاکہ اس طرح کا واقعہ دوبارہ نہ ہو، تاکہ ملک میں مخصوص سیاسی مقاصد رکھنے والے انتشاری گروہ اور ٹولے ہیں، انہیں یہ موقع نہ ملے کہ وہ ریاست پر اپنی مرضی سے جب چاہیں چڑھائی کر دیں، وہاں پر کسی نے کسی کی فوج پر تو حملہ نہیں کیا تھا، وہاں پر کسی نے اپنے محسن، اپنے بانی کے گھر کو تو نہیں جلایا تھا، وہاں کسی نے شہیدوں کے مجسموں اور نشانیوں کو تو آگ نہیں لگائی تھی، وہاں تو اس سے بہت کم ہوا تھا، تو سوال یہ بنتا ہے کہ آج ہم کیوں کسی وجہ سے ایک حربہ، دوسرا تاریخی حربہ اور 9 مئی کرنے اور کرانے والوں کے مکافات عمل کو پیچھے کیوں دھکیل رہے ہیں۔

ان کہنا تھا کہ یہ سوال بنتا ہے کہ کیا ہم خدانخواستہ کسی اور 9 مئی کے سانحے کا انتظار کر رہے ہیں، کہا جاتا ہے کہ جوڈیشل کمیشن بنا دیا جائے، میرا سوال یہ ہے کہ جوڈیشل کمیشن تو اس چیز پر بنتا ہے، جس کے بارے میں ابہام ہو، یہ واقعات تو آپ کے سامنے ہیں، بالکل واضح ہے، یہ بھی واضح ہے کہ کس طرح سے ورغلایا گیا، کیسے ذہن سازی کی گئی، کیسے اہداف دکھائے گئے، کیسے نکالا گیا، اس میں بھی کنفیوژن پیدا کرنے کے لیے کہا جائے کہ جوڈیشل کمیشن بنا دیں، تاکہ پتہ چلے کہ واقعہ ہوا ہے کہ نہیں ہوا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ہم تیار ہیں، بنا دیں جوڈیشل کمیشن، لیکن اگر جوڈیشل کمیشن بنانا ہے تو پھر ایک جوڈیشل کمیشن اس پورے واقعہ کی تہہ تک جائے۔

وہ جوڈیشل کمیشن اس بات کا بھی احاطہ کرے کہ 2014ء کے دھرنے کے مقاصد کیا تھے، وہ اس بات کا بھی احاطہ کرے کہ پارلیمنٹ، پی ٹی وی، پر حملہ کیسے ہوا، کیسے کرایا گیا، کس طرح لوگوں کو یہ ہمت دی گئی کہ آپ ریاست کے خلاف کھڑے ہوں، پاسپورٹ جلائیں، سول نافرمانی کریں، بجلی کے بل جلائیں، کس طرح 2016ء میں خیبر پخپتونخوا کے سرکاری وسائل سے دارالخلافہ پر وھاوا بولیں، 2022ء میں دوبارہ دھاوا بولیں۔ میجر جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ وہ جوڈیشل کمیشن یہ بھی دیکھے کہ کیسے آئی ایم ایف کو خطوط لکھے گئے، باہر فرمز کے ذریعے لابنگ کی گئی کہ پاکستان کو دیوالیہ ہونے دیا جائے، اس کو قرضہ نہ دیا جائے، کہاں سے فنڈنگ آرہی تھی، کہاں جا رہی تھی، اس بات کا بھی احاطہ کیا جائے، اس کا بھی دیکھا جائے کہ وہ کون لوگ تھے، جو سوشل میڈیا پر اداروں کے خلاف نفرت پھیلا رہے تھے، کیونکہ اگر ہم نے ان چیزوں کا احاطہ نہیں کیا اور کیونکہ ہم نے ان چیزوں کا احاطہ نہیں کیا تو 9 مئی ہونا تھا۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ اگر ایک مخصوص سیاسی ٹولہ وقت گزرنے کے ساتھ بغیر کسی سزا کے یہ سارے کام کرتا رہے گا تو ایک دن وہ اپنی فوج پر ہی چڑھ دوڑے گا، آپ کے سامنے ہی ہوا، جب وہ جھوٹ بولے اور جھوٹ بولتا ہی رہے اور آپ اس کے سامنے سچ نہ بولیں تو پھر ہو ہر طرح کا فریب اور پروپیگنڈا کرے گا۔ 9 مئی کی اصل حقیقت یہ ہے کہ وہ سیاسی ٹولہ شہ پڑتے پڑتے یہاں تک پہنچا کہ وہ اپنی ہی فوج پر، اپنے ہی اداروں پر حملہ آور ہوگیا۔ ترجمان نے کہا کہ 9 مئی کی اصل حقیقت یہ ہے کہ وہ سیاسی ٹولہ شہ پڑتے پڑتے یہاں تک پہنچا کہ وہ اپنی ہی فوج پر، اپنے ہی اداروں پر حملہ آور ہوگیا اور پھر پاکستان کی جو غیرت مند، باشعور عوام ہے، وہ 9 مئی کو کھڑی ہوگئی، وہ ایسے کہ انہوں نے اپنے آپ کو اس انتشاری ٹولے سے پیچھے کرلیا، انہوں نے کہا کہ میں اس کا حصہ نہیں بنوں گا، میں اس کو انکار کرتا ہوں، میں اس عمل کی نفی، اس کی مذمت کرتا ہوں، اس نے اس عمل سے کراہت کی اور جب انہوں نے عوامی ردعمل دیکھا تو دوسرا جھوٹ اور پراپیگنڈا کیا کہ ہم تو خود مظلوم ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس بات کی اجازت نہیں دی جاسکتی کے عوام کو اتنا بیوقوف سمجھا جائے، جھوٹ پر جھوٹ اور فریب پر فریب، اس لیے میں نے شروع میں یہ کہا تھا کہ 9 مئی کا مقدمہ پاک فوج کا مقدمہ نہیں، یہ عوام پاکستان کا مقدمہ ہے، یہ ہم سب کا مقدمہ ہے، 9 مئی کو کرنے اور کروانے والوں کو آئین کے مطابق سزا نہ دی گئی تو اس ملک میں کسی کی جان، مال آبرو محفوظ نہیں ہوگی، ہمیں اپنے سزا و جزا کے نظام پر یقین قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم 9 مئی کے ملزمان کو قانون کے مطابق سزا دیں اور جلد سے جلد دیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ سوشل میڈیا اور میڈیا میں اداروں پر کچھ مخصوص سیاسی حلقے ایسے ہیں، جو تواتر کے ساتھ فوج اور دیگر اداروں پر الزام لگاتے رہتے ہیں، ان الزامات کے جواب میں جب ثبوت مانگا جاتا ہے تو ثبوت دینے کے بجائے مزید الزام تراشی شروع کر دیتے ہیں، اگر ادارہ بھی جواب میں الزام تراشی شروع کر دے تو ہم ایک سائیکل میں پھنس جائیں گے، ہم حقائق پر یقین رکھتے ہیں اور ہمیں یہ یقین ہے کہ جو سچائی ہوتی ہے، وہ جھوٹ پر ہمیشہ غالب آئے گی۔

میجر جنرل ارشد شریف نے کہا کہ اگر آئین کی بات کرتے ہیں تو آرٹیکل 19 بلاشبہ آزادی اظہار رائے کا تحفظ یقینی بناتا ہے، لیکن یہی آرٹیکل بڑے واضح طور پر یہ کہتا ہے کہ آزادی اظہار رائے کے پیچھے چھپ کے پاکستان کی سالمیت، سکیورٹی اور دفاع پر وار نہیں کیا جاسکتا، یہ آرٹیکل کہتا ہے کہ آزادی رائے کے پیچھے چھپ کر دوست ممالک کے ساتھ روابط کو نقصان نہیں پہنچایا جاسکتا، یہ آرٹیکل کہتا ہے کہ آزادی رائے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ قوم کی اخلاقیات تباہ کر دیں، آپ پبلک آرڈر اور امن و عامہ تباہ کر دیں، آپ اعلیٰ عدلیہ کے وقار کے منافی بات کریں، آئین اور قانون پاکستان بڑا واضح ہے کہ وہ ریاست پاکستان اور افواج پاکستان کے خلاف پراپیگنڈے کی اجازت نہیں دیتا۔

انہوں نے بتایا کہ آئین تو مقدم ہے، اس سے بڑھ کر ہمارا دین تو کیا دین اس بات کی اجازت دیتا ہے؟ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اے مومنوں اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو خوب تحقیق کرلیا کرو، الحمد اللہ ہم سب مسلمان ہیں اور اللہ کا حکم واضح ہے، ہم نے آئین کی پاسداری کا حلف اٹھایا ہے، ہم اس بات کی اجازت نہین دے سکتے کہ آزادی اظہار رائے کے پیچھے چھپ کر ملکی سالمیت کو داؤ پر لگا دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ جو مقننہ ہے، جس کا حق ہے قانون سازی کا کہ یہ جو جھوٹ کا بازار گرم ہے، اس کے اوپر قانون سازی کی جائے، ہم امید کرتے ہیں کہ موجودہ قوانین ہیں اور جو نئے بننے ہیں، اس پر سختی سے عمل درآمد کروایا جائے، اگر اس کے خلاف ایکشن نہیں لیا گیا تو یہ اس معاشرے کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دے گا، کچھ عرصے سے معاشرے میں استحکام آرہا ہے، عدم اعتماد ختم ہو رہا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ باشعور عوام کو سمجھ آرہا ہے کہ کون کیا کیوں کر رہا ہے، کیسے پراپیگنڈے کیے ہیں اور اب وہ کھل کر سامنے آرہے ہیں، جھوٹ اور فریب کو شکست ہوگی۔

ایک سوال کے جواب پر ان کا کہنا تھا کہ جھوٹ کا ایک مسئلہ ہوتا ہے کہ ایک کو چھپانے کے لیے 10 جھوٹ بولنے پڑتے ہیں تو یہ جو بیانیہ بنایا جا رہا ہے کہ 8 فروری نے 9 مئی کو ختم کر دیا تو 8 فروری کو ٹرن آؤٹ 47 فیصد تھا۔ تقریباً ساڑھے 6 کروڑ لوگوں نے ووٹ دیا، اس میں سے یہ مخصوص سیاسی پارٹی، اس کے لیڈرز جو یہ بات کرتے ہیں تو اس پارٹی کو 1.8 کروڑ ووٹ پڑے، جو کہ کل کا بنتا ہے 31 فیصد تو 70 فیصد جو ووٹ پڑا، وہ اس بیانیے کو نہیں پڑا اور اگر اسے آبادی کے تناسب سے دیکھوں تو کل آبادی کا یہ ساڑھے 7 فیصد بنتا ہے، اگر ہم یہ سوچیں کہ جس نے اس کو ووٹ ڈالا اس نے کہا کہ 9 مئی بالکل ٹھیک ہوا تھا اور بالکل فوج پر حملہ ہونا چاہیئے تھا اور بالکل شہیدوں کی تضحیک ہونی چاہیئے تھی تو ہمیں یقین ہے کہ ایسا نہیں ہے، ہمیں یقین ہے کہ عوام ہمارے ساتھ کھڑی ہے، یہ ایک جھوٹ ہے کہ جس نے اس کا ساتھ دیا، وہ فوج کے مخالف ہے، کیا وہ ووٹ فوج کے خلاف تھا؟ ایبسولیوٹلی ناٹ۔ ترجمان نے کہا کہ جھوٹ پر کچھ نہیں چل سکتا، جھوٹے بیانے بنتے رہیں گے، ہم حق اور سچ کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔

پی ٹی آئی کے ساتھ ڈیل ہونے کے سوال پر انہوں نے جواب دیا کہ پاک فوج قومی فوج ہے، اس میں تمام قومیت کے لوگ ہیں، اس کی کسی قسم کی سیاسی سوچ نہیں ہوتی، حکومت وقت سیاسی پارٹی بناتی ہیں تو ہر حکومت کے ساتھ فوج کا غیر سیاسی مگر آئینی تعلق ہوتا ہے، کیونکہ ہم کسی خاص سیاسی سوچ کا پرچار نہیں کرتے، اسی طرح ہم خاص سیاسی سوچ کو لے کر آگے نہیں بڑھتے، اس لیے ہمارے لیے تمام جماعتیں قابل احترام ہیں۔ تاہم اگر کوئی سیاسی ٹولہ اپنی فوج پر حملہ آور ہو، عوام اور فوج کے درمیان نفرت پیدا کرے، اسی فوج کے شہیدوں کی تضحیک کرے اور اسی قوم کی فوج کے بارے میں دھمکیاں دے تو اس سے کوئی بات چیت نہیں ہوگی، ایسے انتشاری ٹولے کے لیے ایک ہی راستہ ہے کہ وہ معافی مانگے قوم سے اور وعدہ کرے کہ وہ نفرت کی سیاست کو چھوڑ کر تعمیری سیاست کرے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ بات چیت سیاسی پارٹیوں کو زیب دیتی ہے، اس میں فوج یا اداروں کے لیے مناسب نہیں بات کرنا، ایسا انتشاری ٹولہ جو آپ کے سامنے سب کر رہا ہے اور کرواتا آرہا ہے، اس کے ساتھ بات چیت نہیں ہوسکتی، ہم نہیں کرسکتے۔ انتخابات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ 8 فروری کے انتخابات میں آرمی کا کردار اتنا تھا، جتنا الیکشن کمیشن نے مینڈیٹ کے ذریعے دیا تھا اور وہ تھا سیکیور ماحول پیدا کرنا اور یہ فوج نے دینی تھی، آرمی نے یہ سیکیور ماحول فراہم کیا، یہی ہمارا مینڈیٹ تھا، اس سے زیادہ ہمارا سیاسی عمل میں دخل نہیں تھا، افسوس کی بات ہے کہ سوشل میڈیا پر تواتر سے زہریلا پراپیگنڈہ بنایا جاتا ہے، جھوٹ بولا جاتا ہے، اسی تواتر میں الیکشن میں فوج کی سیاسی مداخلت کی بغیر ثبوت کے جھوٹے بیانیے کو آگے بڑھایا گیا، مذموم سیاسی مقاصد کے لیے کچھ میڈیا اور سوشل میڈیا نے اس کو چلایا، ہم ان سے ایک ہی سوال کرتے ہین کہ اگر کوئی ثبوت ہے تو جو متعلقہ آئینی ادارے ہیں، وہ ان کے سامنے رکھا جائے۔

ترجمان نے کہا کہ اس طرح کی بات چیت اس کی قیمت سب دے رہے ہیں، کیونکہ جو اصل مسائل ہیں پاکستان کے، ان کے بجائے سارے تبصرے ان بے بنیاد الزامات پر مرکوز ہو جاتے ہیں۔ فوج کے فلاح و بہبود کے اداروں کے ٹیکس دینے کے حوالے سے سوال پر میجر جنرل ارشد شریف نے کہا کہ جو ہمارے افسران، ہمارا جوان، ہمارے شہداء ہیں، جو ہمارے غازی ہیں، وہ اس قوم کا اثاثہ ہیں، ان کی فلاح و بہبود کے لیے پاک فوج میں مربوط نطام موجود ہے اور یہ ادارے اس سسٹم کا حصہ ہیں، جو ان کی فلاح کے لیے کام کر رہے ہیں، یہ جتی جدید افواج ہوتی ہے، ان میں جو ان کے شہداء ہوتے ہیں، ان کے ریٹارڈ ہوتے ہیں، ان کے لیے ایسے ادارہ ہوتے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ باہر ممالک میں ایسے اداروں کی ستائش ہوتی ہے اور یہاں پر جس ماحول میں ہمارا میڈیا اور سوشل میڈیا جاچکا ہے، اس کے اندر اس میں پراپیگنڈہ اور جھوٹ گڑھا جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 2022-23ء میں براہ راست پاکستان آرمی نے 100 ارب روپے ٹیکس اور ڈیوٹی کی مد میں جمع کروایا، ان فلاحی اداروں کے 260 ارب روپے ٹیکسز کی مد میں جمع کروائے، یہ کل ملا کر 360 ارب روپے ہوگئے، یہ جو 260 ان اداروں نے جمع کروایا، اس میں 223 فوجی فاؤنڈیشن نے جمع کروایا ہے، ڈی ایچ اے جن پر بڑا سوال ہوتا ہے، انہوں نے بھی 23 ارب روپے جمع کروائے، این ایل سی نے ساڑھے 3 ارب روپے جمع کروائے، آرمی ویلفیئر ٹرسٹ نے تقریباً 3 ارب جمع کروائے، یہ حقیقت ہے، یہ جو فلاحی ادارے ہیں، ان میں سرکاری خزانے سے ایک روپیہ بھی خرچ نہیں ہوا، لیکن یہ سرکار کو کئی سو ارب روپے جمع کروا رہے ہیں، جو یہ سروس فراہم کر رہے ہیں، اس کی قیمت آپ نہیں لگا سکتے، چاہے وہ سکیورٹی کی شکل میں ہو یا چاہے وہ یونیورسٹی، ہسپتال ہوں، یا چاہے میڈیکل کیمپ ہوں، انسانیت کے لیے یہ لوگ تو جانوروں کے لیے بھی کیمپ لگاتی ہے۔

کیا آپ اس کی قیمت لگا سکتے ہیں؟ کیا جو شہداء ہیں، جو جنگ میں زخمی ہوگئے ہیں، ان کی فلاح و بہبود پر جو پیسہ لگتا ہے، اگر وہ ادارے نہ کریں تو کیا یہ ریاست پاکستان اور آپ کی اور میری ذمہ داری نہیں ہے؟ جو این ایل سی انٹر کنیکٹویٹی دے رہی ہے، جو ارب ڈالرز کی ٹریڈ حاصل ہو رہی ہے، اس کی قیمت آپ لگا سکتے ہیں۔؟ انہوں نے کہا کہ ایف ڈبلیو جب دور دراز علاقوں میں جاکر روڈ، ٹنلز بناتے ہیں، اس کی قیمت لگا سکتے ہیں؟ جو زراعت میں معدنیات میں پاک فوج کام کر رہی ہے، اس کی قیمت لگا سکتے ہیں؟ تو اس پراپیگنڈہ کو سمجھنے کی ضرورت ہے، ان اداروں میں سویلین بھائی بڑی تعداد میں کام کر رہے ہیں، فوجی فاؤنڈیشن میں بڑی تعداد شہریوں کی ہے، حاضر سروس تو ان داروں میں آٹے میں نمک کے برابر ہیں، جو لوگ تنقید کرتے ہیں تو وہ انہی ڈی ایچ اے میں رہنا پسند کریں گے، انہی کے کالجز میں پڑھانا پسند کریں، ہمیں سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ کہنے کی عادت بنانی پڑے گی۔

ایس آئی ایف سی سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ اس میں اور معیشت کے دوسرے شعبوں میں فوج کا کردار حکومت کی منشا کے مطابق سہولت کاری کا ہے، وہ اس لیے کہ حکومت چاہتی ہے کہ جو فوج کی انتظامی ٹیکنیکل صلاحیت ہے، اسے اگر وہ پاکستان کی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے استعمال کرسکیں تو اس منشا کے مطابق ہمارا کردار اس میں سہولت کاری اور رابطہ کاری کا ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ہمارا مقصد متعلقہ اداروں کی مدد کرنا ہے، ناکہ ان کی جگہ لینا، بالکل ہمارا نہ یہ کردار ہے، نہ مقصد ہے، یہ کوئی صرف پاکستان میں نہیں ہے، دنیا پھر میں افواج کی صلاحیت کو معیشت کی بہتری کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، کیا یہ ملک میں پہلی بار ہوا، نہیں، ملک میں ایسا پہلے بھی ہوتا رہا ہے، فرق صرف یہ ہے کہ ہم اس طرح کے زہریلے میڈیا ماحول میں رہ رہے ہیں، جہاں جھوٹ اور پروپیگنڈا اتنا بڑھ گیا ہے کہ اس کے بارے میں طرح طرح کی باتیں کی جاتی ہیں کہ فوج قبضہ کرنا چاہتی ہے، حکومت میں اپنا کردار بڑھانا چاہتی ہے، ایسا بالکل نہیں ہے۔

میجر جنرل احمد شریف چوہدری نے سوال کیا کہ اگر فوج ملک کی معیشت میں کوئی کردار ادا کرسکتی ہے اور حکومت ایسا چاہتی ہے تو وہ کیوں کردار ادا نہ کرے، عام فہم زبان میں کہوں کہ اگر آپ کے گھر میں آگ لگی ہو اور میں بجھانے آؤں تو آپ مجھ سے یہ تو نہیں کہیں گے کہ آگ بجھانے کیوں آیا ہوں، ہاں ایسا وہ ضرور کہے گا، جس نے آگ لگائی ہو، وہ کہے گا کہ آگ بجھانے کیوں آئے، میں نے آگ لگائی تھی، اس وقت سوال ہم، تم کا نہیں، اس وقت سوال پاکستان کا ہے، ہم فوجی ہونے سے پہلے پاکستانی ہیں اور یہ ہی ہمارا اس میں کردار ہے۔ کور کمانڈر منگلا کی برطرفی سے متعلق چلنے والی خبروں کے حوالے سے سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ پاک فوج میں خود احتسابی کا ایک سخت، کڑا اور شفاف خود کار عمل ہے، جو ہر وقت جاری رہتا ہے، آپ ابھی ایک خاص سوال کر رہے ہیں، کیونکہ وہ ایک سینیئر افسر تھے، اس فوج میں ہر وقت یہ خودکار خود احتسابی کا نظام ہر وقت چلتا رہتا ہے۔

اس وقت بھی چل رہا ہے، کوئی قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی، کسی قسم کی کوئی کرپشن ہو، بیڈ ملٹری ڈسپلن آرڈر ہو تو احتساب کا نظام ایکشن میں آتا ہے اور اس میں کسی قسم کی کوئی تفریق نہیں کی جاتی، بلکہ اگر سینیئر رینک ہو تو یہ احتساب کا نظام ہو تو مزید سخت کارروائی کرتا ہے، کیونکہ یہ توقع کی جاتی ہے کہ جو لوگ سینیئر ہیں، ان کو زیادہ سمجھ، زیادہ ذمے داری کا مظاہرہ کرنا چاہیئے، جونیئر افسران کو آپ کچھ رعایت دے سکتے ہیں، لیکن سینیئر افسران کو نہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں نے آپ سے کہا کہ ہم سمجھنے سے قاصر ہیں کہ 9 مئی میں کرنے والے اور کرانے والے تھے، کیوں ان کا احتساب نہیں ہو رہا، فوج نے تو اپنا احتساب کا عمل بڑی تیزی سے مکمل کرلیا، ہمیں اپنے احتساب کے نظام پر فخر ہے، یہ سسٹم الزامات پر نہیں، حقائق پر کام کرتا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کے خطوط سے متعلق سوال کے جواب پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ یہ معاملہ اعلیٰ عدلیہ میں زیر سماعت ہے، اس پر میں بات نہیں کرسکتا، تاہم اس سے ہٹ کر میں کہہ چکا ہوں، دوبارہ کہوں گا کہ بغیر ثبوت کے الزامات لگانا مناسب نہیں ہے اور ہم ہمیشہ یہ درخواست کرتے ہیں کہ افواج پاکستان کو سیاسی معاملات میں الجھانے سے کسی کو فائدہ حاصل نہیں ہوگا۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں امریکا کو فوجی اڈے دیئے جانے سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ پاکستان میں کسی کو کوئی اڈے دیئے گئے ہیں، نہ دیے جا رہے ہیں۔ سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید کے خلاف ہاؤسنگ سوسائیٹی کے حوالے سے شروع کی گئی انکوائری کے حوالے سے سوال پر میجر جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ سپریم کورٹ کے احکامات میں وزارت دفاع کی ہدایت کے مطابق سینیئر لیول پر ایک 2 اسٹار جنرل اس کی انکوائری کر رہے ہیں۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ الزامات ایک طرف ہوتے ہیں، کیس کے حقائق تک پہنچنا ہے، اس کے محرکات تک پہنچنا ہے، حقائق سامنے لایا جائے گا اور کی روشنی میں ہی سفارشات مرتب ہوں گی۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ سے متعلق سوال کے جواب میں کہا کہ پاکستان نے کبھی بھی اس ٹریڈ کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیں کیا، طورخم، چمن یا اور کسی کراسنگ پوائنٹ پر کبھی کوئی بندش ہوتی ہے تو اس کی کوئی سکیورٹی سے متلعق وجہ ہوتی ہے، یا مقامی کشیدگی ہوتی ہے، پاکستان ٹریڈ کو کبھی سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیں کرتا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان تجارت کے حق میں ہے، لیکن غیر قانونی تجارت کے حق میں نہیں ہے، اگر اس تجارت کی آڑ میں اسمگلنگ ہو، منشیات اور اسلحہ منگوایا جا رہا ہو، غیر قانونی تارکین وطن وہاں سے آرہے ہوں، دہشت گرد اس کے اندر آرہے ہوں، اس کی قطعاً کوئی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ جو غیر قانونی سرگرمیاں ہیں، ان کے سائے تلے ہی جرائم اور دہشت گردی پلتی ہے، اس لیے غیر قانونی اسمگلنگ، غیر قانونی سرگرمیوں کے لیے اس کے استعمال کی اجازت نہیں دے گا۔

پاک سعودی عرب تعلقات اور ایک سیاسی جماعت کی جانب سے سعودی عرب پر حکومت تبدیلی کے الزامات کے حوالے پوچھے گئے ایک سوال پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ سعودی عرب کے ساتھ پاکستان کے بہت اچھے اور برادرانہ تعلقات ہیں، سعودی عرب اس وقت ملک میں جو سرکایہ کاری کر رہا ہے، اس میں سرمایہ کاری کرنے میں جو دلچسپی لے رہا ہے، اس حوالے سے آپ نے وزیراعظم پاکستان، دفتر خارجہ کو متعدد بار شکریہ کرتے ہوئے سنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ آپ نے جو سوال کیا، یہ بہت افسوس کی بات ہے، پاکستان کا آئین بھی اس بات کی قطعی اجازت نہیں دیتا کہ آپ آزادی اظہار رائے کے پیچھے چھپ کر دوستانہ ممالک کے ساتھ تعلقات کو خراب کریں، یہ بالکل غلط ہے، اس کے پس منظر کو سمجھیں تو یہ وہ مذموم سیاسی سوچ ہے، جس کا میں ذکر کر رہا ہوں کہ ہم نہیں تو کچھ بھی نہیں، یہ وہ ہی سوچ ہے، جو نہیں چاہتی کہ پاکستان معاشی طور پر اپنے پاؤں پر کھڑا ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ کیا ان لوگوں نے آئی ایم ایف کو لکھا نہیں کہ پاکستان کی امداد کو مشروط کیا جائے، وہ نہ دی جائے، تاکہ پاکستان دیوالیہ ہو جائے، کیا انہوں نے آئی ایم ایف بلڈنگ کے سامنے مظاہرے نہیں کیے، کیا امریکا میں لابنگ فرم رکھ کر امریکا کی سیاست پر اثر انداز ہونے کی کوشش نہیں کی کہ پاکستان پر پابندیاں لگائی جائیں۔ میجر جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ جب وہ سعودی عرب جیسے ملک جس کے ساتھ ایک مذہبی اور جذباتی لگاؤ ہے، اس طرح کی بات چیت کریں تو اس سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے لیے کوئی حد نہیں رہی، اس لیے وہ چاہتے ہیں کہ یہ ملک معاشی طور پر ہر لحاظ سے نیچے جائے، اس کے لیے کچھ کہنے کو، کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں، جو انتہائی افسوسناک ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو ختم کرنے اور اپنے شہریوں کو ہر قیمت پر تحفظ فراہم کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھے گا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ افواج پاکستان کی اولین ترجیح ملک میں امن و امان قائم کرنا ہے اور اس کے لیے ہم دہشت گردوں، ان کے سرپرستوں اور سہولت کاروں کی سرکوبی کے لیے ہر ممکن حد تک جائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاک فوج، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور عوام دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکی افراد کو واپس بھیجنے کا فیصلہ وسیع تر ملکی مفاد میں کیا گیا، اب تک 5 لاکھ 63 ہزار 639 غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندے اپنے ملک واپس جا چکے ہیں، تاہم لاکھوں افغان شہری اب بھی پاکستان میں رہ رہے ہیں۔

میجرجنرل احمد شریف نے کہا کہ غیر قانونی افغان باشندوں کی وطن واپسی کا فیصلہ پاکستان کے وسیع تر مفاد میں حکومت پاکستان کی طرف سے کیا گیا، کیونکہ جہاں ایک طرف معشیت پر مسلسل بوجھ پڑ رہا تھا، وہاں ملک میں امن و امان کی صورتحال بھی خراب ہو رہی تھی۔ انہوں نے کہا کہ علاوہ ازیں، دنیا کے کسی بھی ملک میں غیر قانونی تارکین وطن کو دوسرے ملک میں نقل و حرکت کی کھلی اجازت نہیں دی جاتی۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ گذشتہ چند ماہ سے بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں دہشت گرد اور ان کے سہولت کار امن و امان کی صورتحال خراب کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خطے میں قیام امن کے لیے پاکستان کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، خطے میں قیام امن کے لیے پاکستان کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ پاک فوج اور قانون نافذ کرنے والے ادارے دہشت گردوں کے مذموم ارادوں کی راہ میں آہنی دیوار بنے ہوئے ہیں اور قربانیوں کی ایک داستان رقم کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جنوری 2024ء میں مچھ ایف سی کیمپ پر بی ایل اے کے دہشت گردوں نے حملہ کیا، جسے سکیورٹی فورسز نے کمال بہادری سے ناکام بنایا، اس حملے میں 2 پولیس اہلکاروں سمیت قوم کے 4 بہادر سپوتوں نے جام شہادت نوش کیا، جبکہ 24 دہشت گرد جہنم واصل ہوئے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ 16 مارچ 2024ء کو شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں نے چیک پوسٹ پر حملہ کیا، اس کے نتیجے میں لیفٹیننٹ کرنل کاشف اور کپٹین احمد سمیت 7 جوانوں نے جام شہادت نوش کیا، جبکہ 6 دہشت گرد جہنم واصل ہوئے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے جواب میں افغانستان کے اندر سرحدی علاقوں میں کارروائی کرتے ہوئے دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کو نشانہ بنایا، جس میں 8 دہشتگردوں کو ٹھکانے لگایا گیا، جو پاکستان میں دہشتگردی کی متعدد وارداتوں میں ملوث تھے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ دہشت گردی کی ناکام کارروائیاں اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ سکیورٹی فورسز دشمن کے عزائم کو ناکام بنا رہی ہیں، اس کی ایک اور مثال 20 مارچ 2024ء کو گوادر پورٹ اتھارٹی کالونی پر 8 دہشت گردوں کا حملہ ہے، جسے پاک فوج کے جوانوں نے جواں مردی سے ناکام بنایا اور آٹھوں دہشتگردوں کو جہنم واصل کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک اندوہناک واقعہ 26 مارچ 2024ء کو خیبرپختونخوا کے علاقے بشام میں پیش آیا، جہاں داسو ڈیم پر کام کرنے والی چینی انجینئرز کی گاڑی کو خودکش بم حملہ آور نے نشانہ بنایا، اس کے نتیجے میں 5 چینی باشندے اور ایک پاکستانی لقمہ اجل بن گئے، اس خودکش حملے کی کڑیاں بھی سرحد پار سے جا ملتی ہیں، اس حملے کی منصوبہ بندی افغانستان میں کی گئی، دہشتگرد، سہولت کاروں کا کنٹرول بھی افغانستان سے کیا جا رہا تھا۔ ترجمان نے کہا کہ خودکش بمبار بھی افغان شہری تھا، افواج پاکستان دہشتگردی کے اس گھناؤنے فعل کی شدید مذمت کرتی ہے اور ان کے ذمہ داروں کے انصاف کے کٹھرے میں لانے کے لیے ہر ضروری اقدامات کیے جا رہے ہیں، اسی طرح 25 مارچ 2024ء کو تربت میں ہونے والے دہشتگردانہ حملے کے دوران بھی پاک فوج کے جوان نے جام شہادت نوش کیا، جبکہ 4 دہشتگرد جہنم واصل کیے گئے۔

ان کا کہنا تھا کہ 16 اور 17 اپریل 2024ء کو افغانستان سے متصل شمالی وزیرستان کے سرحدی علاقے غلام خان میں دہشتگردی کے غرض سے دراندازی کرنے پر 7 دہشتگردوں کو جہنم واصل کیا گیا، جن میں سے ایک کی شناخت ملک الدین مصباح کے نام سے ہوئی، جو افغانستان کے صوبے پتیکا کا رہائشی تھا، اسی طرح 23 اپریل کو بلوچستان کے علاقے ضلع پشین میں بھی سکیورٹی فورسز کے انٹیلیجنس بیسڈ آپریشنز کے دوران 3 دہشتگردوں کو جہنم واصل جبکہ ایک کو زخمی حالت میں گرفتار کرلیا گیا۔ ترجمان نے مزید بتایا کہ اس گرفتار دہشتگرد کا نام حبیب اللہ ولد خان محمد تھا جو کہ افغانستان کے علاقے اسپن بولدک کا رہائشی تھا، افغان دہشتگرد نے اپنے بیان میں پاکستان میں دہشتگردانہ کارروائیوں کا اعتراف بھی کیا، جیسا کہ آپ ویڈیو میں دیکھ بھی سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں دہشت گردی کی اس تازہ لہر کی بڑی وجہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کو پڑوسی ملک افغانستان سے ملنے والی اس طرح کی سہولیات اور اس کے علاوہ جدید اسلحہ کی فراہمی بھی ہے، آرمی چیف کئی بار واضح طور پر یہ کہہ چکے ہیں کہ پاکستان میں دہشتگردوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے، پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات میں افغان شہریوں کا ملوث ہونا علاقائی امن و استحکام کو متاثر کرنا اور عبوری افغان حکومت کی دوحہ امن معاہدے سے انحراف ہے۔ ترجمان نے بتایا کہ پاکستان کی سکیورٹی فورسز دہشتگردوں کے نیٹ ورک کو ختم کرنے اور اپنے شہریوں کی تحفظ کے لیے کوئی کسر نہیں اٹھا رکھے گی، اس ضمن میں رواں سال دہشتگردوں کی محفوظ پناگاہوں کو نشانہ بناتے ہوئے پاکستان نے ایران کے سرحدی علاقے سیستان اور بلوچستان میں انٹیلیجنس بیسڈ آپریشن مرگ بر سرمچار کرتے ہوئے متعدد دہشتگردوں کو جہنم واصل کیا، ہمیں امید ہے کہ مثبت سمت میں کوششیں خطے میں قیام امن کے لیے بارآور ثابت ہوں گی اور ماضی میں ان کوششوں کی راہ میں جو رکاوٹیں کھڑی کی گئی ہیں، اب ان سے اجتناب کیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ اب ہم کاؤنٹر ٹیررازم کی مد میں سال 2024ء میں ہونے والے آپریشن کا جائزہ لیتے ہیں، سال 2024ء میں مجموعی طور پر دہشتگردوں کے سہولت کاروں کے خلاف 13 ہزار 135 چھوٹے بڑے انٹیلیجنس بیسڈ آپریشنز کیے، اس دوران 245 دہشتگردوں کو واصل جہنم، 396 کو گرفتار کیا گیا، دہشتگردی کے ناسور سے نمٹنے کے لیے روزانہ کی بنیاد پر سو سے زائد آپریشنز افواج پاکستان، پولیس، انٹیلیجنس ایجنسی اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے انجام دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آپریشنز کے دوران 19 ہائی ویلیو ٹارگٹ یعنی انتہائی مطلوب دہشتگردوں کی ہلاکتیں اور گرفتاریاں بھی عمل میں لائیں گئیں، رواں سال ان آپریشنز کے دوران 2 افسر اور 60 جوانوں نے جام شہادت نوش کیا، پوری قوم ان بہادر سپوتوں اور ان کی لواحقین کو خراج تحسین پیش کرتی ہے، جنہوں نے اپنی قیمتی جانیں ملک کی امن و سلامتی اور آپ کے مستقبل پر قربان کر دیں۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ حال ہی میں کور کمانڈر کانفرنس کے اعلامیے میں آرمی چیف نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ پاکستان کی مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو دہشتگردی کے خلاف پوری قوم کی حمایت حاصل ہے، مسلح افواج پاکستان سے دہشتگردی کے خاتمے کے لیے پر عزم ہے، دہشتگردی کے خلاف ہماری یہ جنگ آخری دہشتگردی کے خاتمے تک جاری رہے گی۔ انہوں نے بتایا کہ آج عوام اور افواج پاکستان کی لازوال قربانیوں کی بدولت ملک تیزی کے ساتھ امن کے راستے پر گامزن ہے، پاکستان کے وہ علاقے جہاں شہریوں کا جانا دشوار تھا، آج وہاں امن بحال ہوچکا ہے، یہ سب کچھ عوام، افواج کی لازوال قربانیوں کے مرہون منت ہی ہوسکا ہے، خودکش دھماکے اور اس کے نتیجے میں ہونے والی شہادتیں دہشت گردوں کے ناپاک ارادوں کی عکاسی ہے اور واضح ہے کہ ان دہشتگردوں کا ریاست پاکستان، خوشحال پاکستان اور دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔

ترجمان کے مطابق اس کے ساتھ ویسٹرن بارڈر مینجمنٹ ریجیم کے تحت جو کام جاری ہیں، وہ پایہ تکمیل کو پہنچنے والی ہیں، بارڈر مینجمنٹ کے تحت پاک افغان سرحد پر 98 فیصد سے زائد کام مکمل کر لیا گیا ہے، جبکہ پاک ایران بارڈر پر 91 فیصد سے زیادہ کام مکمل ہوچکا ہے، پاک افغان بارڈر پر دہشتگردوں کی روک تھام کے لیے 753 قلعے مکمل کیے جاچکے ہیں، جبکہ پاک ایران بارڈر پر 89 قلعے مکمل کیے جاچکے ہیں اور باقیوں پر کام تیزی سے جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ مشرقی سرحد پر اگر ہم لائن آف کنٹرول کی صورتحال پر بات کریں تو آپ سب کے علم میں ہے کہ ہمیں بھارت کی جانب سے لگاتار خطرات ہیں، بھارت ہمیشہ کی طرح اندورنی انتشار سے توجہ ہٹانے کے لیے جو منصوبہ بندی کر رہا ہے، پاکستان کی سول اور عسکری قیادت اس سے بخوبی آگاہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ رواں سال بھی متعدد مرتبہ سیز فائر کی خلاف ورزی کی گئی، آزاد کشمیر میں نہتے شہریوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا ہے اور دیتے رہیں گے، اپنی سالمیت اور خود مختاری کے دفاع کے لیے ہر وقت تیار ہیں۔
خبر کا کوڈ : 1133410
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش