اسلام ٹائمز۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان جنگ بندی کے اعلان پر دھڑے بندی کا شکار ہو گئی ہے، پاکستان میں اس وقت کئی سنیئر کمانڈرز مذاکرات کیلئے کارروائیاں روکنے کا کہہ رہے ہیں تو ایک دھڑا حملے روکنے کے لئے تیار نہیں۔ ذرائع کے مطابق القاعدہ سے منسلک طالبان دھڑے نے جنوبی وزیرستان کے قریب ڈیرہ اسماعیل خان کے ایک پولیس تھانے پر ہونے والے حملے کی ذمہ داری اس وقت قبول کی جب دیگر کمانڈرز امن مذاکرات اور جنوبی وزیرستان میں جنگ بندی کے اعلانات کر رہے تھے۔ ذرائع کے مطابق اس سال اب تک دہشت گردی کے واقعات میں 800 ہلاکتیں ہوئی ہیں جو گزشتہ برس 1360 تھیں، جس سے توقع کی جا رہی ہے کہ امن مذاکرات کا امکان بڑھے گا۔
اس سے قبل وزیر داخلہ رحمن ملک نے تصدیق کی ہے کہ حکام طالبان کے ساتھ رابطے میں ہیں اور دونوں اطراف سے پیغامات کا تبادلہ ہو رہا ہے، تاہم دوستی کا ہاتھ بڑھانے کیلئے انہیں اپنے ہتھیار ڈالنا ہوں گے۔ رحمن ملک کے ان کمالات سے حکیم اللہ محسود کے قریبی کمانڈرز کے بیانات کو تقویت ملتی ہے۔ جنوبی وزیرستان کے ایک طالبان کمانڈر نے ایک برطانوی اخبار کو بتایا کہ خیرسگالی کے اعلان کے طور پر ہم اپنی سرگرمیاں روک رہے ہیں، تاہم طالبان ترجمان اس کے مخالف بیان دیتے نظر آئے ہیں، بیانات کے ان تضادات سے ثابت ہوتا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان مختلف گروپس کا مجموعہ ہے جن میں سے ہر ایک کا اپنا رہنما اور حامی ہے۔