0
Thursday 2 Feb 2012 13:15

توہین عدالت، وزیراعظم پر فرد جرم لگانے کا فیصلہ، 13 فروری کو طلب

توہین عدالت، وزیراعظم پر فرد جرم لگانے کا فیصلہ، 13 فروری کو طلب
اسلام ٹائمز۔ سپریم کورٹ نے ایک بار پھر وزیراعظم کو طلب کر لیا ہے۔ وزیراعظم پر تیرہ فروری کو توہین عدالت کیس میں فرد جرم عائد کی جائے گی۔ وزیراعظم کے وکیل اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ فیصلے کے خلاف اپیل کا راستہ کھلا ہے۔ سپریم کورٹ کے سات رکنی لارجر بینچ نے جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں این آر او توہین عدالت کا مختصر فیصلہ سناتے ہوئے وزیراعظم کو تیرہ فروری کو طلب کر لیا۔ جسٹس ناصرالملک کا کہنا تھا کہ سوئس مقدمات ختم ہونے سے متعلق تمام نکات این آر او نظرثانی کیس میں مسترد کردیئے گئے تھے۔ اب کیا قانونی رکاوٹ ہے کہ عدالتی فیصلے پر عمل نہیں کیا جا رہا۔ 

اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ حکومت کو نہیں معلوم تھا کہ سوئس مقدمات کا معاملہ بھی اس کے دائرہ کار میں آئے گا۔ اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ آپ وزیراعظم کو نیچا دکھانا چاہتے ہیں تو آپ کی مرضی۔ جسٹس ناصر الملک نے کہا ہم وزیراعظم کو نیچا نہیں دکھانا چاہتے۔ اعتزاز احسن نے کہا ایسا ہے تو توہین عدالت کا نوٹس واپس لیا جائے۔ جسٹس سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ ہم کتنے مہینے بیٹھے آپ کو سنتے رہیں۔ اعتزاز احسن نے کہا آپ توہین عدالت کی کارروائی کے بجائے فیصلے پر عمل کروانے کے لیے بازو مروڑ رہے ہیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سوال کیا کہ اگر وزیراعظم کے خلاف توہین عدالت کا نوٹس واپس لے لیا جائے تو کیا خط لکھ دیا جائے گا۔ اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ عملدرآمد کروانا آپ کا کام نہیں ہے جس پر جسٹس سعید کھوسہ نے کہا ٹھیک ہے، ہمیں آپ کا جواب مل گیا۔ 

جسٹس سرمد جلال عثمانی نے ریمارکس دیئے کہ وزیراعظم کہتے ہیں انہیں قانون کا علم نہیں تو پھر میڈیا والوں کے بارے میں کیا کہیں جتنے اینکر بیٹھے ہیں انہیں قانون کا کچھ علم نہیں۔ سماعت کے دوران جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ایک موقع پر کہا کہ کیا حکومت یہ چاہتی ہے کہ سوئٹزرلینڈ میں بےعزتی نہ ہو پاکستان میں بےشک بےعزت ہوتے رہیں، جبکہ اعتزاز احسن کا کہنا ہے کہ عدالت کی بہت عزت ہے،عدالت بھی کہیں بے عزت نہ ہو۔ اعتزاز احسن نے اپنے دلائل میں کہا خط نہ لکھنے پر وزیر قانون، لا ڈویژن اور اٹارنی جنرل نے ایک ہی رائے دی، جس پر وزیراعظم نےعمل کیا۔ جسٹس ناصر الملک نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ایسی کوئی ہدایت نہیں دی گئی کہ عملدرآمد کے بجائے لا ڈویژن سے رائے لی جائے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ اگر وزیراعظم قانونی رائے پر مشکل میں تھے تو سپریم کورٹ سے رجوع کرنا چاہیے تھا۔ جسٹس ناصر الملک کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے صدر کے استثنٰی کو بنیاد کیسے بنا لیا۔
 
اعتزاز احسن نے کہا وہ صدر کے استثنٰی کا مقدمہ نہیں لائے، جس پر جسٹس ناصر المک نے کہا آپ کا یہ ہی مقدمہ ہے۔ وزیراعظم نے خود اعتراف کیا کہ صدر کو استثنٰی حاصل ہے۔ اس لیے انہوں نے خط نہیں لکھا۔ اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ وزارت قانون کی رائے اگر غلط بھی تھی تو وزیراعظم پر توہین عدالت کا اطلاق نہیں ہوتا اور انہیں توہین عدالت میں سزا نہیں دی جا سکتی۔ توہین عدالت کیس میں وزیراعظم کے وکیل اعتزاز احسن کا کہنا ہے کہ عدالت کو چاہیے کہ ایسے جرنیلوں کے خلاف بھی توہین عدالت کا نوٹس لے جو ججز اور ان کے بچوں کو بھی قید کر دیتے ہیں۔ صرف سویلین وزیراعظم ہی توہین عدالت میں مرتکب کیوں ہوتے ہیں۔ کیس میں اپیل دائر کرنے کا حق ہے۔ سزا کے بعد بھی وزیراعظم اپنے عہدے پر رہ سکتے ہیں۔
 
اعتزاز احسن نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ صورتحال کا فائدہ کوئی تیسرا فریق نہ اٹھالے۔ عدالت عظمٰی کے فیصلے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ چار منتخب وزرائے اعظم پر توہین عدالت کے الزام عائد ہو چکے ہیں۔ موجودہ معاملہ میں اپیل کا آپشن موجود ہے اور وہ اپنے موکل کو اس کے استعمال کا مشورہ دیں گے۔ بیرسٹر اعتزاز احسن نے کہا کہ سوئس حکام کو اس وقت خط لکھنا بے سود ہے اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے پاس اس حوالے سے مناسب جواز تھا۔ اعتزاز احسن کا مزید کہنا تھا کہ وہ چاہتے تھے کہ معاملہ درگزر کی بنیاد پر آگے بڑھے۔ پاکستان کے آئین کے مطابق وزیراعظم اپنے عہدے پر برقرار رہ سکتے ہیں۔ وزیراعظم فرد جرم کے بعد بھی اپنے عہدے پر رہ سکتے ہیں۔ وزیراعظم کو ہٹانے کے لیے آئین میں طریقے موجود ہیں۔ 

دیگر ذرائع کے مطابق سپریم کورٹ نے توہین عدالت کیس میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی پر فرد جرم عائد کرنے کے لیے 13 فروری کو کمرہ عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔ اس سے قبل سپریم کورٹ کے سامنے  وزیراعظم کے وکیل نے اپنے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ عدالت حکم دے گی تو سوئس حکام کو خط لکھ دیا جائے گا۔ جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں سات رکنی بنچ این آر او عملدرآمد کیس میں توہین عدالت پر وزیراعظم کو جاری کئے گئے اظہار وجوہ کے نوٹس کی سماعت کر رہا ہے۔ بیرسٹر اعتزاز احسن نے سوئس حکام کو خط نہ لکھنے کے حوالے سے وزیراعظم کی نیک نیتی پر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم نے قواعد کے مطابق قانونی امور پر رائے اور ایڈوائس لی، چار قانونی ماہرین نے وزیراعظم کو خط نہ لکھنے کی ایڈاوائس دی، جس پر جسٹس ناصر الملک نے کہا کہ ایک جانب رائے اور دوسری جانب واضح عدالتی احکامات ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اٹارنی جنرل انور منصور کے علاوہ سیکریٹری قانون نے بھی سمری سے اختلاف کیا تھا، دونوں نے اس معاملے پر اپنے منصب سے استعفٰی دیا۔ 

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل اور سیکریٹری مستعفی ہوتے رہے کیا وزیراعظم کو اس کا علم نہیں تھا۔؟ اعتزاز احسن نے کہا کہ وزیراعظم کو علم تھا تاہم عدالت مجھے بھی تحمل سے سنے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ آپ کا مؤقف یہ سمجھ آ رہا ہے کہ خط لکھ دیں گے لیکن ابھی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ خط لکھنے سے متعلق عدالتی حکم میں کوئی کنفیوژن نہیں ہے، جس پر اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ ان کے مؤکل کیلئے کنفیوژن ہے، ریکارڈ میں وزیراعظم حکم عدولی کے مرتکب نہیں ہوئے، ایسا خط نہ لکھا جائے جس سے ہمیں سوئس عدالتوں میں شرمندگی ہو۔ 

جسٹس سرمد جلال عثمانی نے استفسار کیا کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ ہم اپنوں کے سامنے شرمندہ ہوتے رہیں، اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ خط نہ لکھنے میں بھی نیک نیتی ہے، جیسے جیسے مقدمہ آگے چلے گا اگر عدالت حکم دے گی تو سوئس حکام کو خط لکھ دیا جائے گا۔ عدالت کا کہنا تھا کہ اور کتنی بار خط لکھنے کا حکم دیں، اعتزاز احسن نے کہا کہ دنیا میں سپریم کورٹ کی بہت عزت ہے، عدالت کے ہر حکم پر عمل کیا جائے گا۔ عدالت نے وزیراعظم کے وکیل کو ہدایت کی کہ آج دلائل مکمل کریں جس پر اعتزاز کا کہنا تھا کہ کوشش کروں گا لیکن یقین نہیں دلا سکتا۔ 
خبر کا کوڈ : 134953
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش