0
Wednesday 7 Mar 2012 23:08

سانحہ کوہستان کو چھوٹا واقعہ نہ سمجھا جائے، اسکے اثرات دور تک جائینگے، علامہ مظاہر موسوی

سانحہ کوہستان کو چھوٹا واقعہ نہ سمجھا جائے، اسکے اثرات دور تک جائینگے، علامہ مظاہر موسوی
اسلام ٹائمز۔ سانحہ کوہستان کے حوالے سے انجمن امامیہ سکردو بلتستان کے سابق صدر اور موجودہ سینئر نائب صدر علامہ سید مظاہر حسین موسوی نے میڈیا کو خصوصی بریفنگ کے دوران کہا وقارِ انسانی، مقام و عظمتِ انسانی اسی پر بس ہے کہ وہ مسجودِ ملائک ہے اور تعلیماتِ اسلامی میں انسان بلا تخفیف مذہب و مکتب اشرف المخلوقات ہے۔ اس حوالے سے ہر انسان کو من حیث الانسان اور خلیفۃ اللہ فی الارض اسے اپنی مرضی کے مطابق جینے کا حق ہے۔ وعظ ارشاد، ہدایت، اپنی جگہ پر مسلم ہے، لیکن ایک طرف وما علینا الا البلاغ یعنی ابلاغِ دین کا حق ہے تو دوسری طرف ایک مکتب دوسروں پر اپنا مکتب ٹھونس نہیں سکتا۔ لا اکراہٰ فی الدین کے مطابق دنیا میں ہر انسان اپنی مرضی کے مطابق چلنے کا اختیار رکھتا ہے۔ 

لیکن صیہونیت کی گھناؤنی سازشوں سے آج اسلامی دنیا میں جو صوتحالِ پیدا ہو رہی ہے وہ سب پر عیاں ہے، ایک طرف عالمِ اسلام میں ڈیڑھ دو سال میں جو تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں یہ مسلمانوں کی بیداری کا نتیجہ ہے اور اس بیداری کی بنیاد عالمِ اسلام میں جمہوریہ اسلامی کا وہ انقلاب ہے، جس نے یہودیت، صیہونیت، مسیحیت اور اسلام کے خدوخال کو واضح کر دیا ہے اور دنیا سمجھ چکی ہے کہ اگر حقیقی اسلام ہے تو وہ نظامِ ولایتِ فقیہ میں مضمر ہے، یا کم از کم صالح حکمران اور صالح کی قیادت ہو۔ آج عالمِ کفر پریشان ہے اس پریشانی اور خفت کو مٹانے کیلئے وہ کبھی افغانستان پر حملہ کر رہا ہے، کبھی عراق پر حملہ کر رہا ہے، کبھی یمن پر اور کبھی شام کو اپنا ٹارگٹ بنائے ہوئے ہے اور مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کیلئے مسلمانوں کے ایسے گروپس تشکیل دئیے ہیں کہ وہ گروپس اسلام کے نام پر اسلام کو توڑنے، اسلام کے نام پر اتحاد بین المسلمین کی پشت میں چھرا گھوپنے کیلئے کچھ نادان لوگوں کو خرید کر دہشتگردی، قتل و غارت، ناامنی اور انارکی پھیلانے میں مصروف ہیں۔
 
انکا کہنا تھا کہ میں سانحہ کوہستان کو اسی سلسلے کی ہی ایک کڑی سمجھتا ہوں۔ سانحہ کوہستان ایک پیغام ہے یہودیت کا کہ ہم اس طریقہ سے اسلام کے مکاتب کو آپس میں لڑا سکتے ہیں۔ بے گناہ، بے خطا مسافروں کو فقط اس لئے قتل کرنا کہ اس کا ہمارے مکتب سے تعلق نہیں، یہ کسی دین، فرقے، آئین میں جائز نہیں ہے۔ لیکن کچھ افراد کو خرید کر اسلام سے دور کر کے کچھ ملاؤں کو خرید کر کوشش کی جاری ہے کہ یہ فتنہ اور فساد برپا کریں۔ لازمی سے بات ہے کہ اس کے اقتصادی خدوخال دیکھیں، آپ اس کے سیاسی خدوخال دیکھیں، آپ اس کو اس تناظر میں دیکھیں کہ جس تناظر میں حزب اللہ نے اسرائیل کے ساتھ کئی سال جنگ لڑی تو یہ تمام چیزیں، تمام کڑیاں واضح ہو جائیں گی۔
 
پاکستان کے حوالے سے اس چیز کو مدِنظر رکھا جائے کہ پاکستان، ہندوستان اور چین، ایران سے تیل و گیس لانا چاہتا ہے اور امریکہ دیکھ رہا ہے تیل جو جائے اسی راستے سے جاتا ہے۔ تو اسی راستے کو ناامن کر کے دنیا کے سامنے پیش کریں اور پاکستان کی حکومت کو اس چیز سے باز رکھا جائے اور پاکستان امریکہ کے اس پیغام کو وصول کریں کہ ہم لوگوں کی سلامتی کو سوالیہ نشان بنا رہے ہیں، تو یہ گیس پائپ لائن یہاں سے گزر رہی ہے، جس سے پاکستان نے بھی کمانا ہے، پاکستان کے مفاد میں ہے جو پاکستان کی ترقی کے اعتبار سے پاکستان کی تعمیر کے اعتبار سے پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے سبوتاژ کرنے کی یہ ایک سازش ہے، اس میں پاکستان کی اقتصاد، پاکستان میں ملکر کے بیٹھے ہوئے مسلمانوں سب کو امریکہ نے ایک ہی حادثہ میں ٹارگٹ کیا ہے۔ 

حکومتِ پاکستان، مکتبِ اسلام، اہلسنت، اہل تشیع کیلئے ضروری ہے کہ اس چیز کو سمجھیں۔ یہ کچھ افراد پر حملہ نہیں بلکہ پاکستان کے وجود پر حملہ ہے۔ اس سے پاکستان کا وجود سبوتاژ ہو سکتا ہے، یہ ایک خطرے کی بہت بڑی گھنٹی ہے۔ لیکن حیف یہ ہے کہ رحمان ملک جیسا جھوٹے وعدے کرنیوالا، جعلی ڈگری یافتہ ڈاکٹر، اس مسئلے کو حل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا، وہ بھی صلاحیت نہیں رکھتے جو رحمن ملک کی ایما پر تمام مسائل کا حل سمجھتے ہیں۔ یہ رحمن ملک پنجاب میں بھی تھا، کراچی میں بھی تھا اور کوئٹہ میں بھی تھا اور مسلسل جھوٹے وعدے کرتا رہا ہے۔ رحمن ملک پر اعتبار کرنے والے مجھے نہیں معلوم کہ یہ کس خیالی جنت میں اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ یہ ان کے بس کی بات نہیں ہے۔
 
یہاں پر میں پاکستان کی عوام سے گزارش کرؤں گا کہ اس حوالے سے سوچیں اور مسلمان متحد ہو کر ان مسائل کو حل کریں۔ دوسری طرف یہ علاقہ جو امن کا گہوارہ ہے اس حساس علاقے کو کمزور کرنے کی کوشش کی جاری ہے۔ اگر یہ علاقہ کمزور ہوا تو پاکستان کو بھی کمزور ہونا ہے۔ یہ بات ہر کوئی یاد رکھے، خدانخواستہ اگر گلگت بلتستان ٹوٹا تو پھر بلوچستان کے پاکستان سے ٹونے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔ اس کے اثرات پاکستان کے ٹوٹنے پر منتج ہو نگے۔ ہماری خاموشی، امن پسندی کو اگر کوئی کمزوری سمجھتا ہے تو یہ اُس کی بھول ہے۔ ہم طاقتور ہیں، ہم نے گلگت بلتستان کو 1948ء میں ڈوگروں سے آزاد کروایا، ہم نے اس کی حفاظت کی ہے، ہم نے خود سے قائداعظم کے سامنے ایک مسلم ملک کی حیثیت سے اپنے آپ کو پیش کیا اور پاکستان سے ملحق ہوئے ہیں۔ 

چونسٹھ سال گزرنے کے باوجود بھی ہمیں اپنے حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔ ہمیں وہ حیثیت نہیں دی گئی جو ہمیں ملنی چاہیے تھی، آج اگر گلگت بلتستان صوبہ ہے تو جعلی صوبہ ہے، یہاں کی اسمبلی جعلی ہے، یہاں کی وزارت جعلی ہے، یہاں کا سیٹ اپ جعلی ہے، یہ ہماری حیثیت سے کھیلنے کی بات ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہم ان تمام چیزوں کو برداشت کر رہے ہیں اور ہم ساتھ ساتھ چل رہے ہیں، فقط اور فقط مملکت خداداد پاکستان کی محبت میں وگرنہ ہم خود بھی جی سکتے ہیں۔ ہم خود بھی زندگی بسر کر سکتے ہیں۔ 
اگر دنیا میں کئی ایسی ریاستیں ہیں جن کی آبادی اور اُن کا رقبہ گلگت بلتستان کا عشر عشیر بھی نہیں ہے اور دنیا میں ایک حیثیت رکھتی ہیں تو ہمیں بھی اس چیز کی طرف جانے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ اس کو شیعہ مکتب سوچے، اس کو عالمِ اسلام سوچے، اس کو پاکستان سوچے اور اس واقعے کو ایک چھوٹا سا واقعہ نہ سمجھیں، اس کے اثرات آپ دیکھیں گے کہ بہت  دور تک جائینگے۔ اگر اس پر فوری طور پر ایکشن نہ لیا گیا اور پھر اس جیسے یا اس سانحہ پر حکومت نے ایکشن نہ لیا تو پھر،
تمہاری داستان تک بھی نہ ہو گی دستانوں میں
خبر کا کوڈ : 143804
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش