0
Friday 6 Apr 2012 00:22

میمو تحقیقاتی کمیشن، جنرل پاشا سے تند و تیز سوالات

میمو تحقیقاتی کمیشن، جنرل پاشا سے تند و تیز سوالات
میمو تحقیقاتی کمیشن میں سابق آئی ایس آئی چیف لیفٹینٹ جنرل ریٹائرڈ احمد شجاع پاشا سے سوال کیا گیا کہ کیا صدر اور وزیراعظم کے سامنے سابق سفیر حسین حقانی نے الزامات تسلیم کیے، جس پر جنرل ریٹائرڈ پاشا نے یہ کہہ کر جواب دینے سے گریز کیا کہ معاملہ قومی سلامتی کا ہے۔ اس پر میمو کمیشن کا کہنا تھا کہ یہ کمیشن سپریم کورٹ کی ہدایت پر بنایا گیا ہے، جو پوچھا جارہا ہے اس کا جواب دیں۔ احمد شجاع پاشا نے میمو کمیشن کو بتایا ہے کہ میمو کا معاملہ صدر آصف زرداری کے علم میں بھی لایا گیا، صدر کو بتایا گیا کہ حسین حقانی ہی تمام حقیقت بتا سکتے ہیں، ایبٹ آباد آپریشن کے بعد فوج کی طرف سے بغاوت کا کوئی منصوبہ زیر غور نہیں تھا۔

میمو کمیشن کا اجلاس جسٹس فائز عیسیٰ کی زیرصدارت منعقد ہوا، اس موقع پر اٹارنی جنرل مولوی انوار الحق بھی موجود تھے۔ سابق آئی ایس آئی چیف احمد شجاع پاشا نے اپنا بیان قلم بند کرایا اور کہا کہ منصور اعجاز کے آرٹیکل کا پہلا پیرا پاکستان کی سکیورٹی کے بہت خلاف تھا، اس پر فوجی قیادت سے مشاورت کے بعد مزید تفصیل اکھٹا کرنے کا فیصلہ ہوا، بائیس اکتوبر 2011ء کو لندن میں منصور اعجاز سے چار گھنٹوں کی ملاقات ہوئی، اس نے حسین حقانی سے بلیک بیری رابطوں کی تفصیل بتائی اور 35 پیغامات بھی دکھائے۔
 
احمد شجاع پاشا نے بتایا کہ انہوں نے واپس آکر آرمی چیف کو تفصیل بتائی، صدر سے ملاقات اگلے ماہ اٹھارہ نومبر کو ہوئی، اس میں میمو کے بارے میں بتایا اور کہا کہ معاملہ قومی سلامتی سے متعلق ہے، حسین حقانی ہی میمو کے الزامات کے بارے میں درست بتا سکتے ہیں، جنرل پاشا پر نواز شریف کے وکیل مصطفےٰ رمدے، دیگر درخواست گزاروں کے وکیل صلاح الدین مینگل نے جرح کی، اس میں احمد شجاع پاشا نے بتایا کہ صدر، وزیراعظم، آرمی چیف اور انکی ملاقات ہوئی، اس میں حقانی کو بھی بلایا گیا۔

احمد شجاع پاشا نے کہا کہ انہوں نے پھر یہ معاملہ فوجی اور سیاسی قیادت پر چھوڑ دیا، ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ انکی اطلاع کے مطابق حسین حقانی، ایوان صدر میں مقیم رہے، بعد میں میمو کمیشن کی کارروائی میں نصف گھنٹے کا وقفہ کردیا گیا، اس سے پہلے کمیشن نے ریمارکس میں کہا کہ جنرل پاشا ایک غیر جانبدار شخص ہیں، وہ کسی ایک فریق کی طرف نہیں ہیں۔ وقفہ کے بعد زاہد بخاری نے احمد شجاع پاشا پر جرح کی، سابق آئی ایس آئی چیف نے کہا کہ انہوں نے سپریم کورٹ میں جو بیان حلفی جمع کرایا وہ اسکی لفظ بہ لفظ تصدیق کرتے ہیں، منصور اعجاز سے ملنے کیلئے آرمی چیف سے تحریری اجازت نہیں لی تھی، منصور اعجاز کے مضامین پڑھ کر لگتا ہے کہ وہ پاکستان، اسکی فوج اور انٹیلی جنس کے بارے میں تنقیدی رویہ رکھتے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ وہ احمد شجاع پاشا پر جرح نہیں کریں گے، بعد میں کمیشن نے کچھ سوالات کئے تو احمد شجاع پاشا نے کہا کہ وہ منصور اعجاز کی طرح حسین حقانی سے ملے نہ ہی حقانی نے انہیں فون سیٹ دکھایا، کمیشن نے کہا کہ یہ عجیب بات ہے کہ آپ امریکی شہری سے تو ملے لیکن اپنے سفیر سے نہیں ملے، جس پر جنرل پاشا کے چہرے پر پسینہ آگیا۔ احمد شجاع پاشا نے کہا کہ حقانی کے فون سیٹ کے معاملہ کو سیاسی و عسکری قیادت پر چھوڑ دیا تھا۔
 
ان کا کہنا تھا کہ منصور اعجاز نے فوج کی طرف سے بغاوت کی جو بات کی وہ درست نہیں، ایسا منصوبہ ہوتا تو آئی ایس آئی کو اسکا ضرور علم ہوتا، فوج اور سویلین حکومت میں اختلافات کا غلط تاثر پیدا کیا گیا، عام آدمی بلیک بیری کا ڈیٹا ٹمپر نہیں کرسکتا، ٹمپرنگ ہو تو آئی ایس آئی اسکو معلوم کرسکتی ہے، آئی ایس آئی کا سیکشن ایس، اسکا آپریشنل ونگ ہے، جبکہ ادارے کے کل آٹھ ونگ ہیں۔ حسین حقانی کے وکیل کے استفسار پر پاشا نے کہا کہ وہ آرمی چیف سے تحریری اجازت لیکر منصور اعجاز سے ملاقات کے لئے نہیں گئے تھے۔
خبر کا کوڈ : 150728
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش