0
Saturday 6 Oct 2012 00:02

روس پاکستان کیلئے دروازے کھلے رکھنا چاہتا ہے، امریکی اخبار

روس پاکستان کیلئے دروازے کھلے رکھنا چاہتا ہے، امریکی اخبار
اسلام ٹائمز۔ روسی صدر ولادی میر پیوٹن کی جانب سے اپنے پاکستان کے طے شدہ دورے کی آخری لمحے منسوخی پر اسلام آباد کی ناراضگی کم کرنے کے لیے روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف اسلام آباد آمد سے ظاہر ہوتا ہے کہ روس پاکستان کے لیے دروازے کھلے رکھنا چاہتا ہے۔ یہ بات ایک امریکی اخبار ’’کرسچن سائنس مانیٹر‘‘ نے روسی صدر ولادی میر پیوٹن کے دورہ اسلام آباد کی اچانک منسوخی اور روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف کے حالیہ دورہ پاکستان کے حوالے سے اپنی ایک خصوصی رپورٹ میں کہی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2014ء میں افغانستان سے نیٹو کے مجوزہ انخلاء سے قبل روس کی جانب سے پاکستان کے ساتھ مضبوط تعلقات کی امیدوں کے حوالے سے کریملن تذبذب کا شکار نظر آرہا ہے کیونکہ گزشتہ ہفتے صدر ولادی میر پیوٹن نے اچانک اپنا اسلام آباد کا طے شدہ دورہ منسوخ کر دیا تھا جو کہ کسی سوویت یا روسی سربراہ مملکت کا پاکستان کا پہلا دورہ ہوتا اور اس سے یہ مضبوط پیغام ملتا کہ اس سے روس کی خارجہ پالیسی میں کسی قسم کی تبدیلی کا مضبوط اشارہ ملتا جو کہ اس سے قبل خطے میں بھارت کو علاقے میں اپنا اول نمبر کا شراکت دار قرار دیتا رہا ہے۔

رپورٹ کے مطابق کریملن کا کہنا ہے کہ صدر پیوٹن کا دورہ باضابطہ طور پر مصدقہ نہیں تھا اور روسی صدر کی رواں ہفتے مصروفیت اس قدر زیادہ تھی کہ اس میں دو روزہ دورے کی کوئی گنجائش نہیں تھی اس دورے میں صدر پیوٹن کی افغانستان کے حوالے سے علاقائی سربراہ کانفرنس میں شرکت اور صدر زرداری کے ساتھ تجارت، تکنیکی معاملات اور فوجی تعاون کے حوالے سے بات چیت بھی شامل تھی تاہم رپورٹ کے مطابق پیوٹن نے اپنے وزیر خارجہ سرگئی لاروف کو اسلام آباد بھجوا کر پاکستانی رہنماؤں کو مطمئن کرنے اور مستقبل میں تعلقات کی گرمجوشی کے لیے دروازے کھلے رکھنے کا پیغام دیا ہے۔

مبصرین کا خیال ہے کہ روس پاکستان کے ساتھ تعلقات بڑھانے کا خواہاں ہے اور محض دوسال بعد افغانستان سے نیٹو انخلاء کے بعد ابھرتی ہوئی صورتحال کے حوالے سے پاکستان کو ایک ناگزیر کھلاڑی خیال کرتا ہے۔ دوسری جانب روسیوں کو خدشہ ہے کہ 1990ء کی دہائی کے شورش زدہ دور کا اعادہ نہ ہو جائے جب سابق سوویت وسطی ایشیا بھر میں منشیات کی نقل وحمل اور افغانستان میں موجود اسلامی تحریکوں کی جنگجوؤں کی آمدورفت کا طوفان امڈ آیا تھا جس نے ازبکستان، تاجکستان اور کرغزستان کے معاشروں میں ہل چل مچا دی تھی۔

ماسکو کے ایک سرکردہ خارجہ پالیسی کے جریدے کے ایڈیٹر فیوڈور لوکیانوف کا کہنا ہے کہ یہ دیکھا جانا ابھی باقی ہے کہ کیا ہونا ہے۔ یقیناً ماسکو میں بہت سارے لوگ اس کو اس تناظر میں دیکھتے ہیں جو کچھ 1989ء میں افغانستان سے روسی انخلاء کے بعد دیکھنے میں آیا اور اس کے نتیجے میں تباہی کی جو لہر دیکھنے میں آئی اس کو کوئی بھی دوبارہ دیکھنا نہیں چاہتا۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان ایک اہم فریق ہو گا اور چاہیے کہ روس پاکستان کے لیے اپنے چینل کھلے رکھے تاکہ کم از کم یہ تو پتہ چلے کہ پاکستان کا ردعمل کیا ہو گا اور وہ کیا کرینگے۔

امریکی اخبار نے رشین اکیڈمی آف ملٹری سائنسز کے صدر اور افغانستان کے سابق صدر نجیب اللہ کے مشیر محمود گریوف کے حوالے سے کہا ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ سوویت رشیا کے بعد روسی حکومت نے باغیوں تک سے بھی روابط رکھے اور نجیب اللہ کو نہتا چھوڑ دیا تھا، تاہم اس کا کہنا تھا کہ امریکی افغانستان سے انخلاء کی باتیں کر رہے ہیں درحقیقت وہ جائیں گے نہیں اور وہی کچھ کرینگے جو انہوں نے عراق میں کیا اپنی کچھ فورسز چھوڑ جائینگے، سنٹرل ایشیاء میں اپنے اڈے برقرار رکھیں گے اور پاکستان میں بھی اپنی موجودگی قائم رکھیں گے۔

بحرحال امریکی اپنی موجودگی قائم رکھیں گے، محمود گریوف کا کہنا تھا کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا، طالبان ہلاکتیں جاری رکھیں گے اور افغانستان سے منشیات کی سمگل ہوتی رہے گی اور بہت سارے مسائل موجود رہیں گے۔ امریکی اخبار کے مطابق صدر پیوٹن کا مجوزہ دورہ پاکستان روس کے پاس پاکستان کے ساتھ باضابطہ طور پر روابط بڑھانے کا ایک بہترین موقع ہو سکتا تھا، وہ یہاں افغانستان کے حوالے سے روس، تاجکستان، افغانستان اور پاکستان کے رہنماؤں چار فریقی سربراہ کانفرنس میں بھی شریک ہوئے تاہم ابھی تک یہ سوال موجود ہے کہ پیوٹن نے اپنے دورہ کیوں منسوخ کیا۔

اخبار کے مطابق روسی ماہرین بھی یہ کہنے سے قاصر ہیں کہ آخر پیوٹن نے اپنا یہ دورہ کیوں منسوخ کیا جس کی وجہ سے ماسکو کے ٹائم ٹیبل کو شدید دھچکا لگا بلکہ پاکستانی میڈیا میں بھی چہ میگوئیاں ہوتی رہیں اور اس سے عوام کے جذبات مجروح ہوئے۔ امریکی اخبار نے اپنی رپورٹ میں ماسکو کے روزنامے کومرسینٹ کے خارجہ امور کے کالم نگار سرگئی سڑوکان کے حوالے سے کہا ہے کہ ایک ممکنہ وضاحت تو یہ ہے کہ صدر پیوٹن کھل کر بات کرنے والے شخص ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے طریقہ سے رولز کا تعین کرتے ہیں اور چیزوں کو اپنے انداز سے سرانجام دیتے ہیں۔

سڑوکان کا کہنا ہے کہ ابھی تک کریملن کی جانب سے کوئی واضح بیان سامنے نہیں آیا کہ اگر مستقبل میں وہ پاکستان کا دورہ کرینگے تو وہ کب یہ دورہ کرینگے اس لیے یہ کہنا مشکل ہے کہ یہاں پر کیا سوچ چل رہی ہے، تاہم حقیقت یہ ہے کہ وزیر خارجہ سرگئی لاروف پاکستان گئے ہیں تاکہ پاکستانی قیادت کو باور کرا سکیں کہ ماسکو میں مضبوط جذبات موجود ہیں اگر ہم نے اب پاکستان کے ساتھ مضبوط تعلقات قائم کرنے کا موقع ضائع کر دیا تو بعد میں ہمیں بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ اس طرح بعض مبصرین کا خیال ہے کہ اس راز کی تہہ میں پائپ لائن پالیٹیکس کار فرما ہے۔

روس کی سرکاری اور طاقتور گیس کمپنی گیزپرام ایرانی روسی اور وسطی ایشیائی گیس کو جنوبی ایشیاء کی پرکشش منڈیوں میں ان دو مجوزہ منصوبوں کے ذریعے برآمد کرنے میں دلچسپی لے رہی ہے جن میں سے یہ پہلا ایران پاکستان اور بھارت پائپ لائن منصوبہ ہے جس میں گیزپرام دلچسپی لے رہا ہے اور اس کو بظاہر پاکستان نے امریکی اعتراضات کی وجہ سے زیر التواء رکھا ہے اور دوسرا منصوبہ تاجکستان، افغانستان، پاکستان اور بھارت پائپ لائن منصوبہ ہے جن میں بھی ماہرین کے مطابق گیزپرام ہی دلچسپی لے رہا ہے اور شاید ماسکو اور اسلام آباد کے مابین یہ غیر طے شدہ معاملہ ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ افغانستان سے امریکی اور نیٹو انخلاء کے بعد ممکنہ بدترین حالات سے نمٹنے کے لیے کوئی علاقائی فارمولا وضع کرنے کے لیے وقت ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے اور ماسکو کو خدشہ ہے کہ اسلام پسند بنیاد پرست پھیل جائیں گے، منشیات کی نقل وحمل بڑھ جائے گی اور روس کو بچے کچے ٹکڑے سنبھالنے ہونگے اور روسی مبصرین کا خیال ہے کہ پاکستان کی متحرک شراکت داری کے بغیر استحکام کی امید نہیں رکھی جا سکتی اور ہمیں پاکستان کے ساتھ سنجیدہ بات چیت کو آگے بڑھانے کی اشد ضرورت ہے۔
خبر کا کوڈ : 201176
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش