0
Wednesday 24 Oct 2012 04:23

سپریم کورٹ کا حکومت سندھ اور پولیس کی رپورٹ پر اظہار عدم اطمینان

سپریم کورٹ کا حکومت سندھ اور پولیس کی رپورٹ پر اظہار عدم اطمینان
اسلام ٹائمز۔ کراچی امن و امان کیس کی سماعت، سپریم کورٹ کا حکومت سندھ اور پولیس کی رپورٹ پر اظہار عدم اطمینان کا اظہار 80 فیصد پولیس افسران نان پروفیشنل ہیں، چیف سیکریٹری داخلہ کہتے ہیں رواں سال 90 پولیس اہلکار شہید ہوئے، کیا کوئی بڑا افسر بھی شہید ہوا، عدالت کا استفسار، عدالت نے ریمارکس دیئے کہ آئی جی سندھ کو ڈر لگتا ہے تو عہدہ چھوڑ دیں۔ کراچی امن و امان کیس کی سپریم کورٹ رجسٹری میں سماعت ہوئی، جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں 5 رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی، دیگر ارکان میں جسٹس خلجی عارف حسین، جسٹس سرمد جلال عثمانی، جسٹس امیر ہانی مسلم اور جسٹس گلزار احمد شامل ہیں، چیف جسٹس پاکستان کی ہدایت پر ایڈیشنل چیف سیکرٹری وسیم احمد، ایڈیشنل آئی جی کراچی، سندھ رینجرز کے نمائندے بھی عدالت میں پیش ہوئے۔

دوران سماعت ایڈووکیٹ جنرل سندھ عبدالفتح ملک نے ٹارگٹ کلنگ اور جرائم کی روک تھام سے متعلق رپورٹ عدالت میں پیش کی، رپورٹ میں کہا گیا کہ ملک بھر سے جرائم پیشہ عناصر نے کراچی میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ شہر میں جرائم پیشہ افراد کی تعداد 20 لاکھ ہے۔ جسے عدالت نے عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے مسترد کر دیا۔ جسٹس انور ظہیر جمالی نے حکومت سندھ اور پولیس کی رپورٹ پر اظہار عدم اطمینان کرتے ہوئے کہا کہ اگر رپورٹ جامع ہوتی تو دوبارہ سماعت کی ضرورت نہ ہوتی، 13 ماہ بہت ہوتے ہیں، ہر کسی کو خوش کرنے کی کوشش نہ کریں، شہرمیں قتل و غارت گری بڑھ گئی ہے، ہر صوبے اور علاقے کی صورت حال ایک سی نہیں، ہر جگہ علیحدہ قانون بن سکتے ہیں۔

عدالت نے استفسار کیا کہ لائسنس شدہ اسلحہ رکھنے سے متعلق قانون سازی کیوں نہیں کی گئی، نادرا میں اگر تمام لائسنس کا ڈیٹا درج ہو جاتا تو پتا چلتا کس کے پاس 20 ، 20 لائسنس ہیں۔ ایڈوکیٹ جنرل سندھ عبدالفتح ملک نے کہا کہ کوشش کر رہے ہیں جلد قانون سازی کریں گے۔ اِس پر جسٹس امیر ہانی نے کہا کہ جب قانون سازی کرنا چاہیں تو آدھے گھنٹے میں سب کام ہو جاتا ہے، ایڈوکیٹ جنرل کا کہنا تھا کہ کچھ دوستوں کو اعتراض ہے، صرف سندھ میں ایسا قانون کیوں بنایا جائے جو پورے ملک میں نہیں۔

ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا پورے ملک سے دہشت گرد سیلاب کی طرح کراچی آ رہے ہیں۔ جس پر عدالت نے پوچھا کہ دہشت گردوں کے سیلاب کو روکنے کی ذمہ داری کس کی ہے؟ ایڈووکیٹ جنرل سندھ کی رپورٹ کے مطابق کراچی میں رواں سال 1900 افراد قتل کئے جا چکے ہیں۔ بینچ نے اس پر ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آئی جی سندھ 4 روز تک اکیلے شہر کا دورہ کریں۔ جسٹس خلجی عارف نے آئی جی سندھ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بچوں کا گھر سے نکلنا مشکل ہوگیا ہے عام آدمی کو کیا تحفظ حاصل ہے، جرائم پیشہ افراد کو روکنا حکومت کی ذمے داری ہے۔

آئی جی سندھ بغیر اسکواڈ کے گاڑی لے کرنکلیں اور روز شہر کا چکر لگائیں، ڈر لگتا ہے تو آئی جی کا عہدہ چھوڑ دیں، جس گھر کا کمانے والا چلا جائے اس کے دکھ کا سوچیں، کسی پولیس والے کو اسکواڈ کی ضرورت نہیں، عام لوگوں کو تحفظ دیا جائے، افسران کے ساتھ اسکواڈ سڑکوں پر عام لوگوں کو گالیاں دیتا ہے۔ جسٹس سرمد جلال نے ریمارکس میں کہا کہ عدالتی فیصلے پر عمل کیا جاتا تو دوبارہ سماعت کی ضرورت نہ ہوتی، اگر آئی جی سندھ کو ڈر لگتا ہے تو وہ اپنا عہدہ چھوڑ دیں۔ انہوں نے کہا کہ افسران کو اسکواڈ کی ضرورت ہے تو شہریوں کو بھی اسکواڈ کی ضرورت ہے۔

بینچ کا کہنا تھا کہ بلاول ہاوس کے باہر پچاس فٹ اونچی دیوار کھڑی کرکے سڑک کو بند کر دیا گیا، مزید کتنی سیکیورٹی درکار ہے۔ جسٹس سرمد جلال عثمانی نے استفسار کیا کس قانون کے تحت کراچی میں دبئی نمبر پلیٹ کی گاڑیاں موجود ہیں۔ شہر میں اے ایف آر نمبر پلیٹ کی بے شمار گاڑیاں گھوم رہی ہیں۔ انہیں کوئی نہیں پکڑتا، سب کو نوٹس جاری کیے جائیں، ایڈیشنل چیف سیکریٹری نے عدالت کو بتایا کہ رواں سال نوے پولیس اہلکار شہید ہوئے، جس پر بینچ نے ریمارکس میں کہا کہ شہید ہونے والوں کی اکثریت نچلے درجے کے پولیس اہلکاروں کی ہے جو ایمانداری سے ڈیوٹی دیتے ہوئے شہید ہوئے۔ اس موقع پر جسٹس امیرہانی مسلم نے استفسار کیا کہ کیا کوئی بڑا پولیس افسر بھی ڈیوٹی کے دوران شہید ہوا۔

سندھ میں اسلحہ سے متعلق ایڈیشنل سیکریٹری نے بتایا کہ نادرا کے ساتھ مل کر اسلحہ لائسنس رجسٹرڈ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دوران سماعت جسٹس گلزار نے ریمارکس دیے پولیس عوام کی حفاظت کے لیے ہوتی ہے۔ لیکن پولیس افسران کی تمام توجہ ذاتی سیکیورٹی پر ہے۔ پولیس افسران اسکواڈ نہ رکھیں، خوف ہے تو نوکری چھوڑ دیں۔ ایڈیشنل چیف سیکرٹری وسیم احمد کا کہنا تھا کہ روزانہ 20 افراد غیر قانونی اسلحہ سمیت پکڑے جاتے ہیں لیکن پکڑے جانے والے عدالتوں سے ضمانت پر رہا ہو جاتے ہیں۔ بنچ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا یہ قابل ضمانت جرم ہے۔ آپ نئی قانون سازی کریں عدالتوں پر الزام نہ لگائیں۔ ایڈیشنل چیف سیکرٹری نے بتایا کہ اس سال 90 پولیس افسر شہید ہوئے۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ اس کا مطلب آپ کی نااہلی اور غفلت ہے۔ غریب پولیس والے ہی مارے جا رہے ہیں۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ کوئی بڑا افسر شہید نہیں ہوا اے ایس آئی اور انسپکٹر کی سطح کے افسر شہید ہو رہے ہیں۔ عدالت عظمی کا کہنا تھا کہ 80 فیصد پولیس افسران نان پروفیشنل ہیں۔ عدالت نے چیف سیکریٹری سندھ کی عدم موجودگی پر برہمی کا اظہار کیا۔ عدالت نے ڈی جی رینجرز سندھ اور چیف سیکریٹری سندھ کو عدالت میں طلب کرتے ہوئے سماعت آج تک ملتوی کر دی ہے۔
خبر کا کوڈ : 206140
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش