0
Wednesday 23 Jan 2013 22:50

مقبوضہ کشمیر میں کالے قوانین اور بھارتی فوج کو میسر قانونی تحفظ کا خاتمہ لازمی ہے،حمیدہ نعیم

مقبوضہ کشمیر میں کالے قوانین اور بھارتی فوج کو میسر قانونی تحفظ کا خاتمہ لازمی ہے،حمیدہ نعیم
اسلام ٹائمز۔ کشمیر سنٹر فار سوشل اینڈ ڈیولپمنٹ اسٹڈیز کی چیئرپرسن پروفیسر حمیدہ نعیم نے کہا ہے کہ کشمیر میں بھارتی فوج اور نیم فوجی دستوں کو دستیاب قانونی تحفظ کے باعث شہری آبادی خصوصاً خواتین عدم تحفظ کا شکار ہیں اور ان کالے قوانین کے سہارے فوج کو شہری آبادی کیخلاف کسی بھی طرح کے گناہ کے ارتکاب پر کوئی بھی مواخذہ نہیں ہوتا ہے، پروفیسر حمیدہ نے جموں و کشمیر میں شہری آبادیوں سے مکمل فوجی انخلاء کو ہی شہری آبادی بشمول صنف نازک کے تحفظ کی ضمانت قرار دیا، 16 دسمبر کو دہلی میں پیش آئے اجتماعی عصمت ریزی کے سانحے کے بعد بھارتی حکومت کی جانب سے خواتین کے حقوق کے تحفظ کیلئے قائم جسٹس ورما کمیٹی کے سامنے اپنے دلائل پیش کرتے ہوئے سول سوسائٹی سربراہ پروفیسر حمیدہ نعیم نے اپنے تاثرات کا اظہار کیا، یہ کمیٹی بھارت کی سبھی ریاستوں کی دانشور و سماجی کارکن خواتین کی طرف سے خواتین کے حقوق کے تحفظ کے قوانین کو مزید موثر بنانے کیلئے سفارشات حاصل کررہی ہیں۔

جسٹس ورما کمیٹی کے پاس اپنے دلائل پیش کرتے ہوئے پروفیسر حمیدہ نے کہا کہ جموں و کشمیر میں گذشتہ دو دہائیوں سے خواتین کے ساتھ بڑے مظالم ہوئے ہیں اور ابھی تک عصمت ریزیوں اور اجتماعی عصمت دریوں کے 900 واقعات کو درج کیا جاچکا ہے جبکہ بہت سارے ایسے واقعات ابھی تک رپورٹ بھی نہیں ہوسکے ہیں، انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں عملاً فوج حکومتی نظام چلا رہی ہے اور یہاں یونیفائڈ کمانڈ کے تحت ہی حکومت کام کررہی ہے اور ایسے میں شہری امور پر فوج کی اجارہ داری ہے جس نے ’’قومی سیکورٹی‘‘ کے نام پر قانونی تحفظ حاصل کیا ہے اور افسپا، این ایس اے، پی ایس اے، ڈی اے اے جیسے قوانین کی آڑ میں ہر طرح کے جنگی جرم کو دبایا جاتا ہے اور ان جرائم میں ملوث اہلکاروں کا کوئی قانونی مواخذہ نہیں ہوتا، سول سوسائٹی چیئرپرسن نے اس صورتحال پر قابو پانے کیلئے 5 نکاتی سفارشات پیش کیں جن میں شہری آبادیوں سے مکمل فوجی انخلاء، افسپا اور این ایس اے کا خاتمہ، کشمیری عوام خصوصاً خواتین کو ہراساں کئے جانے کا خاتمہ، میڈیا کو کشمیر سے متعلق غلط طرح سے خبریں شائع و نشر کرنے پر پابندی اور جرائم میں ملوث سبھی افراد اور اہلکاروں کیخلاف چارہ جوئی شامل ہیں۔
خبر کا کوڈ : 233812
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش