0
Sunday 18 Apr 2010 11:11

اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای کا تہران میں ترک اسلحہ کانفرنس کے شرکاء کے نام پیغام

اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای کا تہران میں ترک اسلحہ کانفرنس کے شرکاء کے نام پیغام
قائد انقلاب اسلامی ایران حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے تہران میں ایٹمی ہتھیاروں کے خاتمہ کے سلسلے میں منعقد ہونے والی عالمی کانفرنس کے نام پیغام ارسال کیا ہے پیغام کا متن حسب ذیل ہے:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
آپ معزز مہمانوں کو اس اجتماع میں شرکت کرنے پر خوش آمدید کہتا ہوں اور فخر و خوشی کی بات ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران آج ایٹمی ہتھیاروں کے خاتمہ کے سلسلے میں بین الاقوامی اجلاس کا میزبان ہے۔ امید ہے کہ یہ بہترین موقع جو فراہم ہوا ہے اس میں آپ باہمی صلاح و مشورے کے ساتھ عالم بشریت کے لئے بہترین اور یادگار نتائج پر مبنی تجاویز کو پیش کریں گے۔
ایٹم شناسی اور جوہری ٹیکنالوجی انسان کی سب سے بڑی کاوش اور اس کی اہم تخلیقات میں شامل ہے جسے قوموں کی خدمت، فلاح و بہبود اور ترقی و پیشرفت میں صرف ہونا چاہیے۔ ایٹمی ٹیکنالوجی کا دامن بہت وسیع ہے، اس کے ذریعہ طبی، صنعتی اور انرجی کی ضروریات کو پورا کیا جا سکتا ہے جو بڑی اہمیت کی حامل ہیں۔لہذا اس بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ اقتصادی میدان میں جوہری ٹیکنالوجی کو ایک بہت بڑا اور ممتاز مقام حاصل ہے۔ وقت کے گذرنے اور طبی، صنعتی اور انرجی کے شعبوں میں ضروریات میں اضافہ کے پیش نظر اس کی اہمیت دوچنداں ہو جائے گی اور اسی مقدار میں جوہری ٹیکنالوجی کے حصول میں بھی اضافہ ہو جائے گا۔ لہذا مشرق وسطی کی قومیں جو دیگر قوموں کی طرح امن و صلح اور پیشرفت کی آرزومند ہیں انھیں یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس ٹیکنالوجی کے ذریعہ اپنی آئندہ آنے والی نسلوں کے اقتصادی مقام کی ضمانت فراہم کریں اور اسلامی جمہوریہ ایران کے پرامن ایٹمی پروگرام کی مخالفت کا ایک مقصد یہی ہے تاکہ علاقائی قومیں اپنے اس قدرتی حق کے حصول پر اپنی توجہ مرکوز نہ کر پائیں۔
سب سے حیرت انگیز اور عجیب بات یہ ہے کہ دنیا کا ایٹمی مجرم جھوٹے پروپیگنڈے کے ذریعہ خود کو ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کا مدعی قرار دے رہا ہے جبکہ اس نے عملی طور پر اس سلسلے میں کوئی سنجیدہ قدم نہیں اٹھایا اور نہ ہی اٹھائے گا۔ اگر ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے بارے میں امریکی دعوی جھوٹا نہ ہوتا تو کیا اسرائیلی حکومت بین الاقوامی قوانین بالخصوص این پی ٹی معاہدے کو نظر انداز کر کے مقبوضہ فلسطین کو ایٹمی ہتھیاروں کے انبار اور سٹور میں تبدیل کر سکتی تھی؟۔
ایٹم کا نام جس طرح انسان کی علمی و سائنسی پیشرفت کا مظہر ہے اسی طرح انسان کی ایٹمی کاوش اور اس کا غلط استعمال تاریخ کے بدترین اور افسوسناک واقعہ کی یاد بھی دلاتا ہے۔ اگرچہ بہت سے ممالک نے ایٹمی ہتھیار بنانے اور انھیں جمع کرنے کا اقدام کیا ہے، جو فی نفسہ مجرمانہ اقدام کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے اور جس سے عالمی امن کو زبردست خطرات لاحق ہیں لیکن صرف امریکی حکومت ہی ایک ایسی حکومت ہے جس نے ایٹمی جرم کا ارتکاب کیا ہے جس میں اس نے ہیروشیما اور ناگاساکی میں جاپان کے مظلوم عوام پر ایٹم بم سے حملہ کر کے انھیں اپنی بربریت کا نشانہ بنایا۔
امریکی حکومت کی جانب سے ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی حملے کے وقت سے ہی ایٹمی ہتھیاروں کے خاتمے کی ضرورت عالمی برادری کے پیش نظر رہی ہے جسکی بنا پر وسیع پیمانے پر انسانی قتل عام ہوا اور امریکی ایٹمی حملے نے دنیا کو زبردست خطرے سے روبرو کر دیا۔ ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال سے نہ صرف وسیع پیمانے پر خرابی اورجانی نقصان ہوا، بلکہ اس کے استعمال میں فوجی، غیر فوجی، چھوٹے، بڑے، مرد و عورت کا فرق ختم ہو گیا اور اس کے انسانیت سوز اثرات نے سیاسی اور جغرافیائی سرحدوں کو تباہ و برباد کر دیا، یہاں تک کہ بعد والی نسلوں پر بھی اس کے تباہ کن اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ لہذا اس قسم کے ہتھیاروں کا استعمال اور انکے استعمال کی دھمکی انسانی حقوق اور انسان دوستی کے تمام بین الاقوامی قوانین کی واضح خلاف ورزی اور جنگی جرائم کا واضح نمونہ ہے اور سیکیورٹی اور فوجی اعتبار سے بھی بعض طاقتوں کا ان ہتھیاروں سے مسلح ہونا انسانی حقوق کی آشکارا خلاف ورزی ہے۔
واضح رہے کہ ایٹمی جنگ میں کامیابی ممکن نہیں، ایسی جنگ عقل و انسانیت کے بالکل خلاف ہے لیکن اخلاقی، عقلی، انسانی اور حتی فوجی امور کے پیش نظر چند انگشت شمار حکومتوں نے ایٹمی ہتھیاروں کو ختم کرنے کے بین الاقوامی مطالبے کو نظر انداز کیا ہوا ہے اور اپنے تحفظ و سیکیورٹی کے خام خیال میں پوری دنیا کیلئے خطرہ بنی ہوئی ہیں۔
ایٹمی ہتھیاروں کی نگہداشت، ذخیرہ اور ان کی تخریبی طاقت میں اضافہ پر یہ حکومتیں مصر ہیں جسکا مقصد رعب و دبدبہ، اجتماعی قتل عام اور جھوٹی سلامتی و تحفظ پر مبنی خام خیالی ہے۔ اس سے عام تباہی کو روکا نہیں جا سکتا اور نہ ہی ایسا ممکن ہے، اسی خام خیالی کی وجہ سے دنیا میں ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اس غیر عاقلانہ رقابت میں بیشمار انسانی اور اقتصادی وسائل صرف کئے گئے ہیں۔ بڑی طاقتوں میں سے ہر ایک ایسی خیالی و تصوری طاقت کی حامل ہے جسکے نتیجے میں وہ اپنے رقیبوں اور کرہ ارض کی موجودات کو اپنے سمیت، دس ہزار بار نابود کر سکتی ہے۔ لہذا تحفظ کے اس تصور کو رقیب کی نابودی یا دیوانگی سے تعبیر کیا جائے تو بہتر ہو گا۔
بعض ایٹمی طاقتیں حالیہ برسوں میں دوسری ایٹمی طاقتوں کے مقابلے میں اپنی ایٹمی پالیسی میں بہت آگے نکل گئي ہیں۔ انھوں نے ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے کو نظر انداز کر کے اپنے ایٹمی ہتھیاروں کو جدید بنانے کا کام شروع کر دیا جو ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ ایٹمی عدم پھیلاؤ معاہدے کی سب سے زیادہ خلاف ورزی وہ طاقتیں کر رہی ہیں جو ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کی شق نمبر 6 کو نقض کر کے ایٹمی ہتھیاروں کو فروغ دینے میں دوسروں پر سبقت لے رہی ہیں جس میں امریکہ اور بعض طاقتوں کی طرف سے اسرائیل کو ایٹمی ہتھیاروں کی فراہمی اور اس کے ایٹمی ہتھیاروں کی حمایت شامل ہے۔ انھوں نے ایٹمی ہتھیاروں کو فروغ دے کر ایٹمی معاہدے کی شق 1 کی بھی خلاف ورزی کا ارتکاب کیا ہے جسکی وجہ سے مشرق وسطی کو زبردست خطرات لاحق ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر ایٹمی قوانین کی خلاف ورزی میں امریکی حکومت سب سے آگے ہے۔
ایٹمی ہتھیاروں کے ترک اور عدم پھیلاؤ پر مبنی کانفرنس کے شرکاء کیلئے ضروری ہے کہ وہ دنیا میں ایٹمی ہتھیاروں کے خطرات کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لیں اور انکے خطرات سے نمٹنے کے لئے اپنی تجاویز پیش کریں اور دنیا کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کرنے کیلئے ٹھوس اقدامات عمل میں لائيں اور دنیا میں امن و صلح و ثبات قائم کرنے کیلئے اہم قدم اٹھائیں۔
ہمارا عقیدہ ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں کے علاوہ عام تباہی پھیلانے والے کیمیاوی اور جراثیمی ہتھیار بھی عالم بشریت کیلئے زبردست خطرہ ہیں۔ ایرانی قوم خود کیمیاوی ہتھیاروں کا نشانہ بنی ہے اور وہ دوسروں کی نسبت اس قسم کے ہتھیاروں کے ذخیرے اور پیداوار کے خطرے کو زیادہ محسوس کرتی ہے اور ان ہتھیاروں سے عالم انسانیت کو نجات دلانے کے لئے وہ اپنے تمام وسائل کو کام میں لانے کے لئے تیار ہے۔
ہم ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کو حرام اور دنیا کو ان ہتھیاروں سے محفوظ بنانے کیلئے سب کی کوشش کو لازمی سمجھتے ہیں۔
سید علی خامنہ ای
17 اپریل 2010۔
1 جمادی الاول 1431۔


خبر کا کوڈ : 23901
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش