0
Sunday 14 Jul 2013 19:40

پاراچنار، حق مانگنے کی سنگین سزا

پاراچنار، حق مانگنے کی سنگین سزا
رپورٹ: ایس این حسینی

بالشخیل کی زمین پر آج نہیں عرصہ پانچ سال سے پاڑہ چمکنی قبائل نے قبضہ جما کر ناجائز آبادکاری شروع کر دی ہے۔ جس کے خلاف 2010ء میں تحریک حسینی کے سرپرست اعلٰی سابق سینیٹر علامہ عابد حسینی نے بھرپور احتجاجی تحریک کا اعلان کیا۔ ماہ اپریل اور مئی 2010ء کے پورے دو مہینے انہوں نے سمیر کے مقام پر اپنے ہزاروں ساتھیوں کے ساتھ ڈھیرے ڈال کر مقامی انتظامیہ سے شدید احتجاج کیا۔ اپنے احتجاج کے دوران انہوں نے یہ دھمکی بھی دے رکھی تھی کہ بالش خیل کی اراضی پر ناجائز تعمیرات (مکانات) کو مسمار نہ کیا گیا تو ہم خود جاکر جارح قبائل سے اپنی اراضی آزاد کروائیں گے، اور اگر اس سلسلے میں نوبت جنگ تک پہنچ گئی تو تمام تر ذمہ داری انتظامیہ پر عائد ہوگی۔

حکومت نے عمائدین کا سہارا لے کر احتجاج کرنے والوں سے مہلت طلب کی۔ اس سلسلے میں حکومت نے تعمیر شدہ ناجائز مکانات کو مسمار کرنے کے احکامات بھی صادر کئے، نیز یہ وعدہ بھی کیا کہ چند دنوں کے اندر اندر بالش خیل کی زمین پر ناجائز تعمیر ہونے والے تمام مکانات کو مسمار کر دیا جائے گا۔ پی اے کرم نے اپنے فیصلے پر باقاعدہ عمل درآمد شروع کرکے پانچ چھ مکانات کو فی الفور مسمار کر دیا اور مرحلہ وار کام جاری رکھنے کا اپنا بھرپور عزم ظاہر کر دیا۔
 
لیکن ہماری بدقسمتی ہی سمجھ لیجئے کہ اس دوران اپنوں میں سے ہی کچھ افراد نے پولیٹکل ایجنٹ کے ساتھ ملاقات کرکے انہیں متنبہ کیا کہ معدودے چند افراد کے ہاتھوں میں زمام اقتدار نہ دیں۔ اگر یونہی معمولی اور بے وقعت لوگوں کے دباو میں آکر اپنے انتظامی فیصلوں کو تبدیل کرنا شروع کر دیا تو ایجنسی کا کنٹرول نہ تمہارے ہاتھ میں رہے گا نہ ہمارے ہاتھ میں۔ لہذا ایسی صوتحال میں امن و امان کا ذمہ ہم نہیں لے سکتے۔ پی اے کو یہاں تک متنبہ کیا گیا کہ اگر ایسا ہوا تو یہ شخص (علامہ عابد حسینی) ہمیشہ کے لئے تیرے علاوہ ہمارے سر پر بھی سوار ہو جائے گا۔ یوں پی اے کرم نے اپنے فیصلے پر مزید عمل درآمد روک دیا۔ ادھر علامہ عابد حسینی جنہوں نے اپنا احتجاج ختم کر دیا تھا۔ انہوں نے دوبارہ احتجاج شروع کرنے کی کال دی تو اس دوران اہلیان بالشخیل نے علامہ عابد حسینی سے گزارش کی کہ ہماری تقدیر کے فیصلے کی مکمل ذمہ داری کچھ اور افراد نے لے لی ہے بشرطیکہ تم خاموشی اختیار کرو۔
 
علامہ عابد حسینی نے جواب میں کہا کہ ہمیں تو مسئلے کے حل سے سروکار ہے، جو بھی بیڑا اٹھائے گا، ہم اس کا ساتھ بھی دینے کو تیار ہیں۔ لیکن اسکے بعد چار پانچ سال کا عرصہ گزر گیا لیکن کوئی حل نہیں نکلا، آباد کاری رکی نہیں بلکہ مزید بڑھتی گئی، حکومت سے مایوس ہوکر بالآخر اہلیان بالش خیل اور ابراہیم زئی نے دوبارہ بیڑا اٹھایا، اور جن جن لوگوں نے انکے ساتھ وعدے کئے تھے انکے پاس جا کر اپنے مسئلہ کا حل طلب کیا، انہوں نے اپنی بساط کے مطابق کوشش کی، لیکن جب کوئی نتیجہ نہ نکلا تو اہلیان بالش خیل و ابراہیم زئی نے خود ہی قدم اٹھانے کی دھمکی دی، کہ اب بھی ہمارے مسئلے پر غور نہ کیا گیا تو ہم خود ہی راست اقدام اٹھانے پر مجبور ہونگے۔ 

اہلیان بالش خیل کے مطابق مذکورہ مسئلے کا ذمہ لینے والے افراد کے دروازوں پر جب ہم نے بار بار دستک دی، تو بالآخر انہی لوگوں نے کہا کہ تم ٹل پاراچنار مین روڈ بلاک کرکے دھرنا شروع کر دو، لیکن جیسے ہی ہم نے دھرنا شروع کر دیا تو ہمیں حکم دینے والوں کے ہی تیور بدل گئے۔ ہمیں کہا گیا کہ حکومت کے ساتھ مذاکرات کرو، ہمارا چونکہ سابقہ تجربہ تھا۔ مذاکرات میں ہمارے چار پانچ سال ضائع ہوچکے تھے۔ ہم نے مذاکرات سے انکار کر دیا تو ہمیں دھمکیاں دیکر ہمارے درمیان پھوٹ ڈالی گئی۔ یوں ایک طرف ہمارا دھرنا ناکام کر دیا گیا، جبکہ دوسری جانب حکومت نے ہمارے برحق مطالبات کو نظر انداز کرتے ہوئے ہم پر پچاس لاکھ کا جرمانہ عائد کرنے کے علاوہ پچاس افراد کی گرفتاری کے احکامات بھی جاری کر دیئے۔ جس کا مطلب یہی ہے کہ پاکستان میں اہل تشیع کو اپنا جائز مطالبہ کرنے کا بھی کوئی حق نہیں۔
خبر کا کوڈ : 282984
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش