0
Monday 9 Sep 2013 00:28
شام پر حملہ جہان اسلام پر حملہ ہوگا

مکتب تشیع کے 313 جوان دہشتگردی کا خاتمہ کرسکتے ہیں، ایم ڈبلیو ایم

دہشتگردوں کا قبلہ امریکہ اور اسرائیل ہے
مکتب تشیع کے 313 جوان دہشتگردی کا خاتمہ کرسکتے ہیں، ایم ڈبلیو ایم
رپورٹ: این ایچ نقوی

قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی کی پچیسویں برسی کے سلسلہ میں مجلس وحدت مسلمین پاکستان کا دفاع پاکستان کنونشن اسلام آباد میں منعقد ہوا۔ کنونشن سے علامہ امین شہیدی، علامہ حسن ظفر نقوی، رکن بلوچستان اسمبلی سید رضا رضوی، مرکزی صدر آئی ایس او اطہر عمران، علامہ ظہیرالحسن نقوی، حیدر علی مرزا، آغا مرتضٰی پویا، معروف ذاکر اہل بیت ریاض شاہ رتو وال، علامہ عبدالخالق اسدی، علامہ مختار امامی، علامہ مقصود ڈومکی و ملک بھر سے آئے ہوئے دیگر مقررین نے بھی خطاب کیا، جبکہ ملک کے نامور نوحہ اور قصیدہ خوانوں نے شہداء کو خراج عقیدت پیش کیا۔ کنونش کے ابتدائی سیشن سے ایم ڈبلیو ایم پنجاب کے سیکرٹری جنرل علامہ عبدالخالق اسدی، علامہ شبیر بخاری، علامہ عبدالحسین الحسینی، شجاع رضوی، ذاکر شوکت رضا، شاعر آل محمد زوار بسمل، علامہ اصغر عسکری اور دیگر نے خطاب کیا۔

ڈپٹی سیکرٹری جنرل ایم ڈبلیو علامہ حسن ظفر نقوی کا دفاع وطن کنونشن سے خطاب میں کہنا تھا کہ آج سے چودہ سو سال قبل کربلا میں جو مورچہ شہداء نے ہمارے سپرد کیا تھا، شام سے لیکر پاکستان تک ہم اسی مورچے پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ ہم باطل کو نیست و نابود کرنے تک میدان میں رہیں گے۔ دہشت گردوں کی دھمکیوں پر پھانسی روک کر ان کے سامنے ہتھیار ڈالنے والے سیاستدانوں کو شرم آنی چاہیے۔ ہمارے سیاستدان دہشت گردوں سے ساز باز رکھتے ہیں یا پھر ان کے ایجنٹ ہیں۔ ٹارگٹ کلنگ کیسے ختم ہوسکتی ہے، جب ٹارگٹ کلرز کے سرپرست پارلیمان میں موجود ہوں۔ کیا وجہ ہے کہ وزیرستان میں دہشت گردوں پر ڈرون برسائے جاتے ہیں اور پاراچنار کے لوگوں کے خلاف انہی دہشت گردوں کو منظم کیا جاتا ہے۔

علامہ حسن ظفر نقوی کا کہنا تھا کہ پاک وطن ہمارا ہے، کسی وڈیرے، جرنیل، سرمایہ دار یا دہشتگرد کی جاگیر نہیں، ہم نے خون کے نذرانے دے کر یہ وطن عزیز حاصل کیا ہے۔ ملت تشیع ملک کے ایک ایک انچ کا تحفظ کرے گی۔ ملک کا سپہ سالار کہہ رہا ہے کہ ملک کو اندرونی دشمن سے خطرہ ہے، لیکن حکمران دہشتگردوں سے مذاکرات کی باتیں کر رہے ہیں۔ شام سے تابوتوں میں واپسی کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ حسن نصراللہ نے اعلان کیا ہے کہ دنیا کے دہشتگردوں آؤ شام میں، تاکہ تمہارا قلع قمع کرنے کے لئے تمہیں دھونڈنا نہ پڑے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ غلام رضا نقوی کا کیس سپریم کورٹ میں چلایا جائے۔ لیکن جب کسی قاضی کی جانبداری مشکوک ہو جائے تو اسے ہٹا دیا جاتا ہے۔ سپریم کورٹ کے بعض جج ہمارے لئے مشکوک ہیں۔ ہمارا خون بہتا رہا اور یہ خاموش رہے۔

علامہ مختار امامی کا کہنا تھا کہ شیعہ قوم کو دیوار سے لگانے کے لئے مسلسل کوششیں جاری ہیں۔ ہمارے ڈاکٹرز، انجینئرز، وکلاء، علماء اور سب سے بڑھ کر ہمارے قائد علامہ عارف حسین الحسینی کو شہید کیا گیا۔ اس کے باوجود یہ قوم اپنے مقصد پر ڈٹی رہی۔ تمام تر شکنجوں کے باوجود ملت جعفریہ پہاڑوں پر نہیں چڑھی، بلکہ میدان میں موجود ہے۔ ہمارے محبوب قائد نے قوم کو لائحہ عمل دیا۔ بحرین، لبنان، مصر کے بعد شام میں تباہی پھیلانے والے استعماری طاقتیں سن لیں، اب تشیع ان کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کے خاتمہ کا ڈرامہ رچایا جا رہا ہے۔ ہم اسے حقیقی تب تصور کریں گے، جب شیعہ قتل عام کراچی میں بند کیا جائے گا۔

حیدر علی مرزا کا کہنا تھا کہ تکفیری سن لیں ہم پاکستان کے بانیوں میں سے ہیں، پاک وطن کے دشمنوں کے وجود کو قطعاً برداشت نہیں کرسکتے۔ جو پاکستان کے نظریات پر یقین نہیں رکھتے، ان سے مذاکرات کیونکر ہوسکتے ہیں۔ نواز شریف سن لے، جو اے پی سی ملت تشیع کے بغیر منعقد کی جائے، وہ بے نتیجہ ہی رہے گی۔ علی (ع) کے دیوانوں کو خوفزدہ کرنے کے لئے گھناؤنی کارروائیاں سرانجام دینے والے جان لیں کہ شیعہ کو مٹانے والے خود مٹ جایا کرتے ہیں۔ غلام رضا نقوی پندرہ سال سے کس جرم میں قید ہیں۔ انہیں عدالتیں انصاف فراہم کیوں نہیں کرتیں۔ غلام رضا نقوی کا قصور صرف یہ ہے کہ انہوں نے پاکستان کی سرزمین پر شیعہ قوم کے حقوق کی بات کی۔ عدالتیں غیر جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے غلام رضا نقوی کو فوری انصاف کی فراہمی یقینی بنائیں، ورنہ ملت جعفریہ احتجاجی تحریک شروع کر دے گی۔

معروف ذاکر اہل بیت (ع) ریاض حسین شاہ رتووال نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مذہب شیعہ نے ہمیشہ شر سے بیزاری اور خیر کا درس دیا۔ چودہ سو سال سے قوم شیعہ مظلومانہ زندگی گزار رہی ہے، لیکن ارباب اختیار آج تک یہ فیصلہ نہ کرسکے کہ حق پر کون ہے اور باطل پر کون۔ ملک کی ایجنسیاں مرنے اور مارنے والے میں تمیز سے قاصر ہیں۔ جب کوئی ادارہ اپنی ذمہ داری بطریق احسن ادا نہ کرسکے تو اسے ختم کر دینا چاہیے۔ یہ وطن بے تحاشہ قربانیاں دے کر حاصل کیا گیا اور مذہب شیعہ نے پاکستان بنانے میں مثالی کردار ادا کیا۔ ہم ہی نے پاکستان بنایا تھا اور ہم ہی اسے بچائیں گے۔ کیا رسول (ص) کی رسالت کا اقرار کرنے والا کافر ہے۔ چودہ سو سال سے شیعہ قتل حسین (ع) کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ آج شام میں پر حملہ امریکہ کر رہا ہے اور پیسہ سعودی عرب فراہم کر رہا ہے۔ کیا آل سعود قرآن کی خلاف ورزی نہیں کر رہے، جس میں کہا گیا کہ یہود و نصاریٰ تمہارے دوست نہیں ہوسکتے۔ عالم اسلام کی چھپن ریاستوں کو اسلام کی بقا کے لئے مل بیٹھنا ہوگا۔

امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے مرکزی صدر اطہر عمران طاہر نے کہا کہ شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی پاکستان میں وحدت کے حقیقی علمبردار اور داعی تھے، جس کی واضح مثال اُن کا چار سالہ مختصر دور قیادت ہے۔ شہید قائد آئی ایس او پاکستان کے نوجوانوں کو بیٹوں کی حیثیت دیتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ شہید قائد پاکستان میں وحدت کی عظیم مثال تھے۔ دفاع پاکستان کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے اطہر عمران کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ایک مخصوص ٹولے کو دہشتگردی اور فرقہ واریت پھیلانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ پاکستان میں منعقد ہونے والی آل پارٹیز کانفرنسز اُس وقت تک بے نتیجہ رہیں گی جب تک پاکستان میں ظلم کا نشانہ بننے والی ملت جعفریہ کے تحفظات کو دور نہیں کیا جاتا۔

دفاع وطن کنونشن میں متفقہ طور پر قراردارتیں منظور کی گئیں جن کی حاضرین نے نعرہ تکبیر بلند کرتے ہوئے تائید کی۔ منظور کی گئی گئیں قراردادوں کے مطابق، شیعیان پاکستان کا اسلام آباد میں منعقدہ عظیم الشان وفاع وطن کنونشن کے شرکاء عہد کرتے ہیں کہ تمام تر قربانیوں اور دہشت گردی کے باجود ملک عزیز پاکستان کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کی اپنی جان و مال سے حفاظت کریں گے، اس لیے کہ پاکستان بنایا تھا اور پاکستان کو بچائیں گے۔

ملک دشمن اسلام دشمن قوتوں کے چہروں سے اب نقاب اتر چکی ہے، اسلام کا لبادہ اوڑھ کر اسلام کی اصل اساس اور سنہری اصولوں کو پامال کرنے والے چند مٹھی بھر دہشت گردوں کے چہرے بے نقاب ہوچکے ہیں اور اب پوری قوم ان مٹھی بھر دہشت گردوں کے عزائم سے آگاہ ہوچکی ہے، وقت ہے کہ ان دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے لیے ملکر جدوجہد کریں۔ ملک سے دہشت گردی کے ناسور کے خاتمے کے لیے قوم اب سیاسی جماعتوں سے مایوس ہوچکی ہے، آل پارٹیز کانفرنس بھی فقط نشستن، خوردن اور برخاستن ثابت ہوگی، اگر حکمران جماعت دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مخلص ہے تو مصلحت پسندی کو بالائے طاق رکھ کر مٹھی بھر گروہ دہشتگرد کے خلاف جرات مندانہ عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان دہشت گردی کے خاتمے کے لیے قومی حکمت عملی کے لیے عملی کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔

علامہ امین شہیدی کا کہنا تھا کہ سلفی برانڈ آف اسلام کو اسلام کے لبادے میں لپیٹ کر پاکستان کے اندر بے گناہوں کو قتل کیا جا رہا ہے۔ آل سعود اسی وجہ سے آج گالی اور نفرت کا نشان بن چکے ہیں۔ شام میں رسوائی امریکہ و اسرائیل کا مقدر بنے گی۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکریٹری جنرل علامہ ناصر عباس جعفری نے کہا ہے کہ دہشتگرد امریکہ اور اسرائیل کے ایجنٹ ہیں، جو اسلام کو بدنام کرنا چاہتے ہیں، شام کا جرم اسرائیل کو تسلیم نہ کرنا، امریکہ کے آگے سر نہ جھکانہ اور فلسطین کی مزاحمتی تحریک کی حمایت کرنا ہے، شام میں امریکہ اور اسرائیل کے ہاتھوں عرب استعمال ہو رہے ہیں، پاکستان سے اگر دہشت گردی کے ناسور اور امریکی نفوذ کو ختم کرنا ہے تو آل سعود کا راستہ روکنا ہوگا، پاکستانی حکمران وطن سے دہشت گردی کا خاتمہ چاہتے ہیں تو وہ تمام مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر مٹھی بھر دہشت گرد گروہ کے خلاف جرات مندانہ اقدام کرنا ہوگا، دہشت گردوں سے مذاکرات نہیں ان سے آہنی ہاتھ نمٹا جائے، آل پارٹیز کانفرنس میں حکمرانوں نے اگر دہشت گردوں کا سر کچلنے کا فیصلہ نہیں کیا تو اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ وہ دہشتگردوں کے سرپرست اور امریکہ کے ایجنٹ ہیں۔ مجلس وحدت مسلمین ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے تمام محب وطن قوتوں کے ساتھ چلنے کے لیے تیار ہیں، اگر حکمران اجازت دیں تو وطن کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کے لیے مجلس وحدت مسلمین کے 313 جوان پاک فورسز کے شانہ بشانہ دہشتگردی کے خاتمے کے لیے حاضر ہیں۔

علامہ ناصر عباس جعفری کا کہنا تھا کہ پاکستان میں دہشتگردی کا سب سے زیادہ شکار ملت جعفریہ ہے، لیکن آل پارٹیز کانفرنس میں ہمیں نظر انداز کرکے دہشت گردی کے خلاف کوئی واضح حکمت عملی تشکیل نہیں دی جاسکتی، انہوں نے کہا کہ سنی و شیعہ ملک کے دو بازو اور آنکھیں ہیں، یہ دو بازو ملکر اتحاد و وحدت سے ملک کا دفاع کرسکتے ہیں، انہوں نے اہلسنت کے تمام مکاتب فکر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ برادران اہلسنت کی بصیرت کو سلام پیش کرتے ہیں اور ان کے مشکور ہیں کہ چند مٹھی بھر دہشت گردوں نے اسلام اور اہلسنت برادران کا لبادہ اوڑھ کر اسلام کو بدنام کرنے کی مذموم کوشش کی، لیکن اہلسنت برادران نے ان کو اپنی صفوں میں داخل نہیں ہونے دیا، یہ دہشتگرد نہ تو دیوبندی ہیں نہ اہلحدیث اور نہ ہی ان کا تعلق بریلوی مکتب فکر سے ہے ان کا قبلہ امریکہ اور اسرائیل ہے، اگر یہ دیوبندی ہوتے تو جماعت اسلامی کے سابق امیر مرحوم قاضی حسین احمد پر حملہ نہ کرتے اور حسن جان کو شہید نہ کرتے، اگر یہ بریلوی ہوتے تو سرفراز نعیمی کو شہید نہ کرتے، اولیاءاللہ کے مزارات اور مقدس مقامات کی بے حرمتی نہ کرتے، اگر یہ مسلمان ہوتے تو مساجد اور امام بارگاہوں میں نمازیوں کو خون میں نہ نہلاتے، اب ان دہشتگردوں کے چہروں سے نقاب اتر گئی ہے، اب وقت آگیا ہے کہ تمام مکاتب فکر کے مسلمان متحد ہو کر آل سعود کے خلاف منظم آواز بلند کریں۔
خبر کا کوڈ : 299962
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش