0
Sunday 15 Sep 2013 09:47

سوات اور مالاکنڈ ڈویژن سے فوج کی واپسی کی باضابطہ منظوری دی جاچکی ہے، پرویز خٹک

سوات اور مالاکنڈ ڈویژن سے فوج کی واپسی کی باضابطہ منظوری دی جاچکی ہے، پرویز خٹک
اسلام ٹائمز۔ وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے کہا کہ مالاکنڈ ڈویژن سے فوج کی مرحلہ وار واپسی کا عمل اگلے مہینے سے شروع ہوجائے گا۔ صوبہ خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت نے سوات اور ملاکنڈ ڈویژن سے فوج کی بتدریج واپسی کی اصولی طورپر منظوری دیدی ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی اگلے مہینے سے ضلع شانگلہ اور بونیر سے فوج کے دستوں کے انخلا کا عمل شروع کیا جائے گا جبکہ اسکے بعد سوات، اپر دیر، لوئر دیر اور دیگر علاقوں سے بھی فوج کی واپسی کا سلسلہ شروع ہوگا۔ یہ بات وزیراعلی خیبر پختونخوا پرویز خٹک نے ہفتے کے روز نوشہرہ میں صحافیوں کے ساتھ خصوصی بات چیت کے دوران بتائی۔

انہوں نے مزید کہا کہ مالاکنڈ ڈویژن سے فوج کی مرحلہ وار واپسی کا عمل اگلے مہینے سے شروع ہوجائے گا جبکہ پہلے مرحلے میں بونیر اور شانگلہ کے اضلاع سے فوجی دستے واپس بلائے جائیں گے۔ پرویز خٹک کے مطابق مالاکنڈ ڈویژن میں عسکریت پسندی کے خلاف طویل جنگ میں فوج کے جوانوں، افسروں، پولیس اور ایف سی سمیت ہر طبقے کے لوگوں نے بے پناہ قربانیاں دیں جسکی وجہ سے آج وہاں امن قائم ہے اور فوجی اپنی بیرکوں میں واپس جارہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کے منشور کا حصہ ہے کہ عسکریت پسندی اور دہشت گردی کا حل مذاکرات کے ذریعے نکالا جائے اور اس سلسلے میں دوسروں کی بجائے اپنے ملک اور قوم کے مفادات کا خیال رکھا جانا چاہیے۔ 2009ء کے فوجی آپریشن کے بعد سے علاقے میں سیاحوں کو واپس لانے کے لئے کئی میلے اور کھیلوں کے مقابلے منعقد کیے گئے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ اتحادی جماعتوں کے تعاون سے صوبے میں آل پارٹیز کانفرنس بلا رہے ہیں تاکہ صوبے میں تمام دینی اور سیاسی جماعتوں کو امن و امان کے قیام اور مذاکرات کے حوالے سے اعتماد میں لیا جاسکے۔ 

خیال رہے کہ 2007ء میں سوات اور مالاکنڈ ڈویژن کے دیگر اضلاع میں جب تحریک طالبان پاکستان کے کمانڈر مولانا فضل اللہ کے ساتھیوں کی کاروائیاں عروج پر پہنچ گئی تھیں توعلاقے کو فوج کے حوالے کیا گیا۔ اس دوران تین فوجی آپریشن کئے گئے تاہم 2009ء میں ہونے والی فوجی کاروائی سب سے موثر ثابت ہوئی جس کے بعد علاقے سے طالبان کا مکمل خاتمہ کیا گیا اور پورے ڈویژن میں حکومتی عملداری بحال ہوگئی۔ 

سوات اور مالاکنڈ ڈویژن میں تین سالہ کشیدگی کے دوران کوئی پچیس لاکھ کے قریب افراد بے گھر ہونے پر مجبور ہوئے اور اس دوران سینکڑوں سیاسی کارکنوں، صحافیوں اور سرکاری ملازمین نے امن کے قیام کے لیے مختلف نوعیت کی قربانیاں دیں۔
خبر کا کوڈ : 301881
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش