0
Friday 22 Nov 2013 12:44

افغان امریکا معاہدہ، پاکستان کے خلاف مشترکہ کارروائی کا معاملہ خارج

افغان امریکا معاہدہ، پاکستان کے خلاف مشترکہ کارروائی کا معاملہ خارج
اسلام ٹائمز۔ امریکا اور افغانستان کے درمیان ایک دوطرفہ سیکیورٹی کے معاہدے میں افغانستان کا یہ مطالبہ تسلیم نہیں کیا گیا کہ دیگر ملکوں خصوصاً پاکستان کی فوجی جارحیت کے خلاف مشترکہ فوجی کارروائی کی جائے۔ افغان وزارت خارجہ کی سرکاری ویب سائٹ پر شایع کیے گئے معاہدے کے ایک ڈرافٹ میں صرف یہ کہا گیا ہے کہ امریکا کو کسی بیرونی جارحیت پر ”گہری تشویش“ ہوگی اور 2014ء کے بعد وہ افغانستان کے خلاف فوجی خطرات یا قوت کے استعمال کی سختی سے مذمت کرے گا۔ امریکا کا منصوبہ ہے کہ وہ اپنی فوج کا بڑا حصہ 2014ء تک افغانستان سے نکال لے گا۔ دوطرفہ معاہدے کے تحت آٹھ ہزار سے بارہ ہزار امریکی فوجی 2024ء تک افغانستان میں موجود رہیں گے۔ وہ انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں اورباغیوں کی تلاش کے عمل میں حصہ لیں گے، اور افغانستان کی دفاعی افواج کو تربیت بھی دیں گے۔ جب سیکیورٹی معاہدے پر مذاکرات شروع ہوئے تو صدر حامد کرزئی نے ایک مکمل دفاعی معاہدے کا مطالبہ کیا، جس کے تحت امریکا دیگر اقوام خصوصاً پاکستان کی جارحیت کا عسکری انداز میں جواب دینے کا پابند ہو۔

اگرچہ ڈرافٹ میں کہا گیا ہے کہ دونوں ممالک ”بیرونی جارحیت پر مشترکہ ردّعمل کے اظہار کے حوالے سے مشورہ کرنے پر رضامند ہیں۔“ یہ افغان مطالبہ شامل نہیں ہے۔

بدھ کی رات امریکی وزیرِ خارجہ جان ایف کیری نے واشنگٹن میں اعلان کیا تھا کہ امریکا اور افغانستان سیکیورٹی کی شراکت داری کے ایک معاہدے تک پہنچ گئے ہیں، جو امریکی افواج کو 2014ء کے بعد افغانستان میں قیام کی اجازت دیتا ہے۔ لیکن انہوں نے اس کی تفصیلات ظاہر کرنے سے انکار کردیا۔ جان کیری نے واشنگٹن میں ایک نیوز بریفنگ کے دوران بتایا کہ ”جیسا کہ ہم آج رات بات کررہے ہیں، اور ہم اس معاہدے کے مندرجات پر متفق ہیں، جو ایک لویا جرگہ میں پیش کیا جائے گا، اور یہ ان کے اختیار میں ہے۔ لہٰذا میں سمجھتا ہوں کہ اس کی تمام یا کسی تفصیلات پر تبصرہ کرنا میرے لیے مناسب نہیں ہوگا۔ یہ افغان عوام پر منحصر ہے۔“
خبر کا کوڈ : 323467
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش