0
Saturday 23 Nov 2013 23:12

صوبہ بلوچستان کا مفلوج تعلیمی نظام

صوبہ بلوچستان کا مفلوج تعلیمی نظام

رقبے کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے اور پسماندگی کے لحاظ سے سرِفہرست صوبہ بلوچستان میں تقریباً 23 لاکھ افراد علم کی روشنی سے محروم ہیں۔ غربت، بدامنی، معاشی اور معاشرتی مشکلات اور متعلقہ حلقوں کی مجرمانہ خاموشی اس اہم مسئلے کی اہم وجوہ ہیں اور یوں معصوم بچے تعلیم کی نعمت سے دور ہیں۔ بلوچستان میں سیکرٹری تعلیم غلام علی بلوچ کے مطابق صوبے میں چھتیس لاکھ بچوں میں سے صرف تیرہ لاکھ ہی اسکول جا رہے ہیں اور یہ تمام صوبوں کے مقابلے میں کم ترین شرح ہے جبکہ بلوچستان صحت، نکاسی آب، صاف پانی کی فراہمی اور خواندگی جیسے دس اہم عوامل میں بھی تمام صوبوں سے پیچھے ہے۔ وزیراعلٰی بلوچستان ڈاکٹر مالک بلوچ نے اعتراف کیا ہے کہ بلوچستان کے بچوں کی اکثریت ان کے پیدائشی حق، تعلیم سے دور ہے۔ ہم ان بچوں کو دوبارہ اسکول بھیجیں گے۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے مطابق حکومت معیاری تعلیم کی فراہمی کیلئے پرعزم ہے اور اس کیلئے حکومت نے مناسب فنڈ رکھے ہیں جبکہ بند اسکولوں کو کھولنے اور نئے اسکول قائم کرنے کا کام صوبے کے طول و عرض میں کیا جا رہا ہے۔

وزیراعلٰی بلوچستان نے کہا ہے کہ اگر ہم ان بچوں کو اسکول بھیجنے میں ناکام ہو گئے تو یہ تباہ کن ہو گا۔ معروف ماہرِ تعلیم نعمت اللہ خان کا اس بارے میں کہنا ہے کہ صوبے کے پسماندہ علاقوں میں والدین اپنے بچوں کو اسکول نہ ہونے کی صورت میں مدرسوں کو داخل کرانے پر ترجیح دیتے ہیں۔ مدارس کھانا دیتے ہیں اور رہائش فراہم کرتے ہیں جبکہ عام اسکول یہ سہولت نہیں دیتے۔ اب غریب ترین علاقے کے بچے یا تو روزانہ کی اجرت پر کوئی کام کرتے ہیں یا پھر مدرسوں کا رخ کرتے ہیں۔ صوبائی محکمہ صنعت کی رپورٹ کے مطابق سابق آمر اور صدر پرویز مشرف کے دور میں صوبے میں تین ہزار مدارس رجسٹر کئے گئے تھے جبکہ غیر رجسٹرڈ مدارس کی تعداد دس ہزار سے بھی زائد ہے۔ سال 1978ء میں نور محمد تراکئی کے سرخ انقلاب کے بعد افغان جنگ نے بلوچستان میں عموماً اور خاص طور پر پشتون علاقے کے سماجی تانے بانے کو شدید متاثر کیا تھا۔ کئی علاقوں میں اب بھی لوگ تعلیم کو غیر اسلامی تصور کرتے ہیں۔ دوسری جانب بلوچ اکثریتی آبادی میں دیگر علاقوں سے تعلیمی خدمات دینے والے اساتذہ جان کے خطرے اور دھمکیوں کے پیشِ نظر وہاں سے نقل مکانی کرچکے ہیں۔

بلوچ آبادی میں بڑھتی ہوئی بدامنی سے ان علاقوں میں اساتذہ کی شدید قلت پیدا ہو گئی ہے۔ غریب والدین کیلئے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا کہ وہ اپنے بچوں کو مدارس میں بھیجیں۔ پشین سے تعلق رکھنے والے حاجی محمد یار کا کہنا ہے کہ حکومتی اسکول بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔ مدرسہ میرے بچوں کو اسلامی تعلیم اور تمام سہولیات فراہم کرتا ہے۔ حکومتی اسکولوں میں کوئی سہولت نہیں۔ ایک نجی ٹی وی چینل میں کام کرنے والے محمود خان نے بتایا کہ قلیل ذرائع آمدن کے باوجود بھی میں نے اپنے بچے کو پرائیوٹ اسکول میں بھجوایا ہے۔ صوبے میں پرائمری اور مڈل اسکولوں کی تعداد 12600 ہے جبکہ اساتذہ کی تعداد 56000 ہے تاہم سیکرٹری تعلیم نے اعتراف کیا کہ ان میں سے 2000 اسکول غیرسرگرم ہیں اور جو اساتذہ اپنی خدمات انجام نہیں دے رہے، ان کی تعداد 3000 سے زائد ہے۔ وزیراعلٰی بلوچستان نے کہا ہے کہ میں نے غیر حاضر اساتذہ کیخلاف سخت کاروائیوں کی ہدایات دی ہیں۔ تاہم دیگر آزاد ذرائع غیر حاضر استادوں کی تعداد کہیں ذیادہ بتاتے ہیں۔ بلوچستان میں آل گورنمنٹ ٹیچر تنظیم کے سربراہ نے کہا ہے کہ صوبے میں سرکاری گھوسٹ ٹیچرز کی تعداد پانچ ہزار سے بھی ذیادہ ہے جبکہ گھوسٹ اسکولوں کی تعداد 6000 سے بھی بڑھکر ہے۔

اس کے علاوہ صوبے میں جعلی ڈگریوں پر بھرتی ہونے والے اساتذہ کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے اعتراف کیا ہے کہ صرف کوئٹہ شہر میں ہی 700 ٹیچرز جعلی ڈگریوں پر بھرتی ہوئے ہیں اور کام کر رہے ہیں۔ ٹیچر تنخواہ لے رہے لیکن ڈیوٹیاں نہیں دے رہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ صوبے میں 95 فیصد اسکول صرف ایک کمرے اور ایک ٹیچر پر مشتمل ہیں جبکہ صرف پانچ فیصد اسکولوں میں ایک سے زائد کمرے اور مناسب سہولیات موجود ہیں۔ اسکولوں کی سب سے ذیادہ تعداد پشین اور جعفرآباد میں ہے، جبکہ شیرانی میں اسکول سب سے کم ہیں۔ دوسری جانب صوبائی وزیر مالیات کے مطابق سرکاری اسکولوں میں استاتذہ پر نظر رکھنے کا کوئی نظام نہیں جبکہ حکومتی اساتذہ کی تنخواہ بہت ذیادہ ہے۔ ہر ماہ حکومت صوبے بھر کے سرکاری ٹیچرز کو دو ارب روپے کی تنخواہیں دیتی ہے۔ ہر حکومت اس پسماندہ ترین صوبے میں تعلیم کی بہتری کا دعویٰ کرتی آئی ہے، تاہم زمینی حقائق اس کے برخلاف ہیں اور تعلیم کے مسئلے کو حل کئے بغیر بلوچستان کے مسائل حل نہیں کئے جا سکتے۔

خبر کا کوڈ : 323818
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش