1
0
Wednesday 8 Jan 2014 07:44

پشاور جیل میں مسجد کی امامت پر طالبان اور لشکر اسلام کا رن

پشاور جیل میں مسجد کی امامت پر طالبان اور لشکر اسلام کا رن
رپورٹ: ایس این حسینی

گذشتہ دنوں پشاور سنٹرل جیل میں لشکر اسلام اور طالبان کے حامی دہشتگرد قیدیوں کے مابین زبردست لڑائی ہوئی، جس میں متعدد قیدی زخمی ہوگئے۔ تاہم جیل انتظامیہ کی مداخلت پر لڑائی پر قابو پالیا گیا۔
جیل سے موصول شدہ اطلاعات کے مطابق لشکر اسلام اور طالبان کے حامیوں کے درمیان یہ لڑائی مسجد کی امامت پر ہوئی۔ جیل میں ڈیوٹی پر مامور ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اسلام ٹائمز کو بتایا کہ چند دن قبل جیل کی بیرک کے پیش امام کی رہائی عمل میں آچکی تھی جس کا تعلق تحریک طالبان سے تھا۔ جس کیوجہ سے مسجد میں امام کی مذکورہ آسامی خالی ہوگئی تھی۔ لہذا ٹی ٹی پی تو اسے اپنا ورثہ سمجھ رہی تھی اور وہ چاہتی تھی کہ دوسرا پیش امام بھی انہی کے گروہ سے ہو، جبکہ اس سیٹ کی اہمیت سے لشکر اسلام کے حامی بھی غافل نہیں تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ جیل میں قیدیوں کی برین واشنگ اور انہیں اپنا حامی بنانے کے لئے امامت ہی سب سے بڑا سرمایہ ہے۔ یوں وہ اپنا بندہ لانے پر مصر تھے اور کوئی بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہ تھا۔

گذشتہ دن تنازعے نے شدت اختیار کرلی اور نوبت لڑائی تک جاپہنچی، لڑائی میں دونوں جانب سے چاقووں اور اینٹوں کا آزادانہ استعمال ہوا۔ بتایا گیا کہ چاقو کھانے کے چمچوں سے تیار کئے گئے تھے، جنہیں لڑائی سے قبل بھی روزمرہ کے استعمال میں لایا جاتا تھا، جبکہ اینٹوں کی تو جیل میں کوئی کمی تھی ہی نہیں۔ لہذا دونوں گروہوں نے اس حوالے سے کافی فیاضی دکھائی۔ لڑائی میں فریقین کے متعدد افراد زخمی ہوئے۔ جیل قوانین کے مطابق جیل کے اندر پیش امام کا تعین جیل انتظامیہ خود ہی کرتی ہے، تاہم پشاور جیل میں یا شاید ملک بھر کی تمام جیلوں میں موجود مساجد کے پیش اماموں کا تعین کالعدم تنظیمیں بقلم خود ہی کرتی ہیں، تاکہ دیگر عام قیدیوں کی برین واشنگ کراکر اپنی تنظیموں کی طرف راغب کراسکیں۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ حکومت جیل میں دو آدمیوں کا گروپ بھی قبول نہیں کرتی، جبکہ پشاور جیل کے اندر ٹی ٹی پی اور لشکر اسلام سمیت ہر دہشتگرد تنظیم کی اپنی اپنی اعلٰی اختیاراتی شوریٰ موجود ہے۔ متعلقہ شوریٰ جیل کے اندر تمام سیاسی و مذھبی معاملات میں اپنے حامیوں بلکہ جیل کے دوسرے قیدیوں کے لئے بھی فیصلے کرتی ہیں۔ شاید یہی سبب ہوگا جو ڈیرہ اسماعیل خان اور بنوں سنٹرل جیل سے ہزاروں خطرناک دہشتگرد بسلامت فرار ہونے میں کامیاب ہونے کے ساتھ ساتھ متعدد شیعہ قیدیوں کو قتل کرنے میں بھی کامیاب ہوگئے۔

مذکورہ اہلکار کے مطابق جیل کے اندر کسی بھی بیرک میں گیس کی سہولت نہیں ہے، لہذا عام قیدی اپنا کھانا کوئلے پر پکاتے ہیں، صرف طالبان ہیں جو اس قید سے آزاد ہیں اور ان کی چکیوں میں باقاعدہ گیس کی سہولت موجود ہے۔ گھاٹ نمبر چار، جہاں مولوی صوفی محمد اور دوسرے طالبان قیدی ہیں، میں قیدیوں کے لئے باقاعدہ گیس کے علاوہ ہر طرح کی سہولیات موجود ہیں۔ جیل اہلکار کے مطابق پشاور جیل میں ہماری نہیں، عملاً طالبان ہی کی عملداری ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ہم باہر آسکتے ہیں اور وہ اندر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اندر قیدیوں کے لئے کوئی مشکل نہیں بلکہ مشکل ہمارے لئے ہوتی ہے، دہشتگرد تنظیموں سے تعلق رکھنے والوں کے ساتھ ہم عام طور پر کچھ کہنے سے حتی الوسع کتراتے ہیں کیونکہ انکا رویہ نہایت ہی جارحانہ اور تحکمانہ ہوتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 338711
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

United Kingdom
Eye Opening article
ہماری پیشکش