0
Tuesday 7 Jan 2014 20:57

لائف لائن خطرے میں؟

لائف لائن خطرے میں؟
تحریر: عمران خان 

پاکستان کی لائف لائن قرار دیا جانیوالا پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ ایک بار پھر شکوک و شبہات کا شکار ہوتا نظر آرہا ہے۔ معاہدے کی دستاویزات کے مطابق پاکستان اس پراجیکٹ کو دسمبر 2014ء تک مکمل کرکے اس کو فعال کرے گا۔ لیکن ایرانی نائب وزیر برائے پٹرولیم علی ماجدی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ایران پاکستان کو گیس پائپ لائن کی مد میں کوئی پیسہ نہیں دے گا اور معاہدے کی رو سے ایران اس بات کا پابند نہیں کہ پاکستان میں پائپ لائن تعمیر کرنے کے لئے سرمایہ فراہم کرے۔ لہذا ایران صدر احمدی نژاد کے دور میں 500ملین ڈالر فراہم کرنے کے وعدے کو پورا نہیں کرے گا۔ اس بیان کے ساتھ علی ماجدی نے یہ بھی کہا ہے کہ پاکستان کا یہ موقف حقائق کے منافی ہے کہ ایران پر عائد پابندیاں پاکستان میں اس پائپ لائن کی تعمیر میں رکاوٹ ہیں۔ اگر پاکستان نے دسمبر 2014ء تک منصوبے کو عملی شکل نہ دی تو ایران پاکستان سے روزانہ کی بنیاد معاہدہ میں درج جرمانہ لینے کا حقدار ہوگا۔ ایک ایسا منصوبہ جس سے پورے پاکستان کے عوام، صنعتکاروں، تاجروں کی امیدیں وابستہ ہیں۔ اس کے حوالے سے برادر اسلامی ملک کے ایک ذمہ دار کا یہ بیان انتہائی تشویش ناک ہے۔ 

منصوبے میں تاخیر کی کیا وجوہات ہیں۔ پاکستان کن بیرونی دوستوں کی خواہشات کے زیر اثر اس منصوبے سے غفلت برتنے پر مجبور ہوا۔ بیوروکریسی لائف لائن کا درجہ پانے والے اس اہم ترین منصوبے سے کتنا کمیشن بنانا چاہتی ہے۔ کن کمپنیوں کو پائپ لائن کی تعمیر کا کنٹریکٹ نہیں دیا گیا۔ ایران نے 500ملین ڈالر کی فراہمی کا وعدہ بھی کن شرائط پر کیا تھا۔ کیا ایران کی جانب سے پانچ ملین ڈالر فراہمی کا وعدہ اس معاہدے کا حصہ ہے، گیس بلوں میں خالصتاً اس منصوبے کی تعمیر کے لیے جو رقم صارفین نے ادا کی اس کا کیا مصرف ہے۔ پاکستان اب کیا موقف اختیار کرتا ہے۔ کیا اب یہ معاہدہ منسوخ ہوچکا ہے یا اس پر عملدرآمد کی کوئی امید باقی ہے۔ یہ سوالات ہر ذی شعور پاکستانی کے ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ بجلی کی پیداوار میں پاکستان کا 80فیصد انحصار تیل و گیس پر ہے، ان دونوں کی پاکستان میں قلت ہے۔ 

اگر تیل و گیس دونوں کو بجلی کی پیداواری مد میں استعمال نہ کیا جائے تو بھی ملک میں تیل و گیس اس تناسب سے موجود نہیں کہ صنعتی و گھریلو سیکٹر کی ضروریات مکمل طور پر پوری کی جاسکیں۔ چنانچہ تیل و گیس کی اس طلب کو پورا کرنے کے لیے سالانہ تقریباً 13 سے 14بلین ڈالر کا تیل امپورٹ کرنا پڑتا ہے۔ جس سے گردشی قرضے میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس صورتحال پر قابو پانے کے لیے کوئی واضح حکمت عملی اختیار نہ کی گئی تو آنے والے چند سالوں میں نہ صرف بجلی کا شارٹ فال دوگنا ہوچکا ہوگا بلکہ تیل کی خریداری پر بھی 40 سے 45بلین ڈالر صرف ہونگے، جبکہ مہنگے تیل کے ذریعے حاصل ہونے والی بجلی اس قدر مہنگی ہوگی کہ اس سے کوئی خاطر خواہ فائدہ اٹھانا ممکن نہیں رہے گا۔ توانائی کے اس بحران اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل وطن عزیز کو پتھر کے دور میں دھکیلنے کے لیے کافی ہیں۔ 

سیاسی حکومتوں اور بیوروکریسی کی ترجیحات چاہیے کچھ بھی ہوں لیکن حقیقت یہی ہے کہ توانائی کے ذرائع کے حصول کو اولین ترجیح بنانا ضروری ہے۔ پانی سے بجلی پیدا کرنے کے وسیع مواقع ہونے کے باوجود کوئی طویل المدتی پالیسی مرتب نہیں کی گئی۔ جس سے فائدہ اٹھا کر بھارت آبی ذخائر پر اپنا کنٹرول بڑھاتا جا رہا ہے۔ شاید مقتدر قوتیں امن کی آشا کی تکمیل بھارت سے دریاؤں کی بجائے پائپ لائنوں کے ذریعے پانی وصول کرکے کرنا چاہتے ہیں۔ کشمیر میں دریاؤں پر بھارتی ڈیموں کی تعمیر کے حوالے سے عالمی عدالت کا انصاف بھی منظر عام پر آچکا ہے کہ جس میں کہا گیا ہے کہ بھارت ڈیم بنا سکتا ہے لیکن پاکستان کو حصے کا آدھا پانی دینا ہوگا۔ پہلے سے کئے گئے معاہدوں میں اور اس فیصلے میں کون کونسی باریکیاں ہیں جو سراسر بھارت کے مفاد میں ہیں یہ الگ بحث ہے۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں موجود ایک مخصوص لابی ملک میں ڈیموں کی تعمیر پر ہمیشہ ہی تحفظات کا اظہار کرتی نظر آئی ہے۔ 

عالمی عدالت کا انصاف اپنی جگہ لیکن پنجاب کے وزیراعظم جو اتفاق سے پاکستان کے وزیراعظم ہیں ان کی پالیسیوں میں صوبائی حقوق کی تقسیم کا یہ عالم ہے کہ صوبہ خیبر پختونخوا جو کہ بجلی کی زیادہ پیداوار دیتا ہے، اس کو ضرورت کے مطابق قلیل بجلی میسر نہیں، جس کے باعث ہر گھنٹے بعد گھنٹہ لوڈشیڈنگ کی آنکھ مچولی جاری رہتی ہے جبکہ وفاق اور پنجاب کے وہ علاقے جو وزیراعظم کے منظور نظر ہیں، باقاعدہ لوڈشیڈنگ سے مستثنٰی قرار پائے ہیں۔ ویسے بھی قومی مسائل کے حل کی امید ان حکمرانوں سے کیا کرنی جو اپنے سرکاری پاسپورٹس کے ہر صفحے پر دیگر ملکوں کے لانگ ٹرم ویزے سجا کر ہر رات کو اس ملک میں اپنی آخری رات سمجھتے ہیں۔ انہی حکمرانوں کی کرپشن اور لوٹ مار کی دولت سے فقط ڈھائی فیصد ہی واپس لے لیا جائے تو پاک ایران گیس پائپ لائن سمیت توانائی کے کئی منصوبے مکمل کئے جاسکتے ہیں۔ جس سے ملک میں اندھیرا اجالا ڈرامہ کی سیریز کے خاتمے میں مدد مل سکتی ہے۔ ایک طرف ملک کو توانائی کے شدید ترین بحران کا سامنا ہے۔ دوسری جانب اس بحران سے نمٹنے کی کوئی منصوبہ بندی بھی موجود نہیں۔ 

پاک ایران گیس پائپ لائن پراجیکٹ، جو کہ گیس کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ایک ریلیف کی حد تک کارآمد ہے، اس سے بھی فقط اس لیے غفلت برتنا کہ ہمارے کلاس فیلو یا گلاس فیلو دوستوں کی ناراضگی کا اندیشہ ہے۔ کیا اہل اقتدار کی حب الوطنی اور عوام دوستی پر ایک سوالیہ نشان نہیں؟ ایرانی وزیر علی ماجدی کے بیان کے چند دنوں بعد بجائے کسی تسلی دلاسہ کے ہمارے وزیر توانائی نے آنے والے وقت میں شدید لوڈشیڈنگ کی نوید سنائی ہے؟ ایران کی جانب سے آنے والے بیان کے محرکات پر غور کئے بناء کچھ دانشور قوم کو یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ایران اس منصوبے سے پیچھے ہٹنا چاہتا ہے، اسی لیے وہ پانچ سو ملین ڈالر بھی ادا نہیں کر رہا اور اگلے سال کے اختتام پر یومیہ ایک ملین بھی وصول کرنا چاہتا ہے، جبکہ دوسرے کی جانب اٹھنے والی ایک انگلی باقی تین انگلیوں کو ہماری جانب موڑ دیتی ہے۔ 

عوام اور ملک کے مستقبل کے لیے اس منصوبے کی تکمیل لائف لائن کا درجہ رکھتی ہے جبکہ ایران کے لیے محض اس کی معیشت میں خوشگوار اضافے سے زیادہ کچھ نہیں۔ پاکستان کے سوا ہر پڑوسی ملک ایران سے گیس کی ترسیل کی مد میں پائپ لائن کے ذریعے جڑنا چاہتا ہے اور جڑ رہا ہے۔ ان ممالک نے اپنی انرجی کی ضروریات کو دوسروں کی خوشنودی سے وابستہ نہیں کیا۔ شام کے مسئلہ پر ایران اور ترکی ایک دوسرے کی انتہائی مخالفت میں کھڑے ہیں لیکن اس مخالفت نے اس پائپ لائن پر کوئی اثرات مرتب نہیں کئے جو کہ ایرانی گیس ترکی اور آرمینیا کو منتقل کر رہی ہے۔ اسی طرح 2014ء میں ایران پائپ لائن کے ذریعے عراق کو بھی گیس کی فراہمی شروع کر دے گا۔ جبکہ 2015ء تک ایک اور پائپ لائن، جس پر انتہائی تیزی سے کام جاری ہے، کے ذریعے ایرانی گیس کی بصرہ کو سپلائی شروع ہو جائے گی۔ 

قابل ذکر امر یہ ہے کہ ایران نے انتہائی سخت پابندیوں کے دور میں نہ صرف پاکستانی سرحد تک گیس پائپ لائن کی تعمیر مکمل کی بلکہ پاکستان کو بطور مدد 500ملین ڈالر کی فراہمی کی بھی حامی بھری۔ واضح رہے کہ یہ رقم پاک ایران گیس معاہدے کا باقاعدہ حصہ نہیں تھی۔ لیکن اس کے باوجود پاکستان کی جانب سے گیس پائپ لائن کی تعمیر شروع کرنا تو درکنار، کمپنیوں کے چناؤ کے حوالے سے بھی کوئی حتمی فیصلہ سامنے نہ آسکا۔ دوبلین ڈالر کے کل پراجیکٹ میں کمپریسر تقریباً 305ملین، پائپ 747.4ملین، تعمیراتی اخراجات 443.2ملین، سروے و دیگر تقریباً 116.5 ملین اور متفرق 243 ملین کا تخمینہ تھا۔ منصوبے کا مہنگا ترین آئٹم پائپ کی خریداری میں ہی بیورو کریسی کی کمیشن مافیا متحرک ہوگئی۔ 42 قطر کے 775000 میٹر طویل پائپ خریدنے کے لیے صرف ایک کمپنی کو موزوں قرار دیا گیا۔ 

کچھ اعلٰی عہدیداروں نے ایک تیر سے کئی شکار کھیلنے کا فیصلہ کرتے ہوئے کمپنی کو تخمینہ سے زیادہ رقم کی ڈیمانڈ پیش کرنے کا مشورہ دیا۔ جس کے بعد کمپنی نے مطلوبہ پائپ کے لیے اپنی ڈیمانڈ 1.2بلین ڈالرز پیش کی۔ منصوبے پر عملدرآمد میں حکومتی اور افسر شاہی کی بدنیتی کا اندازہ یہاں سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ایران نے جہاں منصوبے کے لیے 500 ملین ڈالر سرمایہ فراہم کرنے کا اعلان کیا، وہاں پائپ کی فراہمی اور تعمیر کے لیے اپنی ایک کمپنی کو بھی پیش کیا مگر افسوس کہ یہ کمپنی جو کہ مقررہ بجٹ اور درکار وقت کے اندر پائپ لائن تعمیر کرنے کی اہلیت رکھتی تھی، وہ سرگرم کمیشن مافیا کے معیار پر پوری نہ اتر سکی اور نتیجے میں اہم ترین منصوبہ غفلت کا شکار ہوتا چلا گیا۔ 

جب بھی عوام یا ایران نے پائپ لائن کی تعمیر کی بات کی، سرکاری سطح پر ہمیشہ ہی فنڈز کی کمیابی کا رونا سامنے آیا۔ یہ الگ بات ہے کہ وزارت خارجہ اور ماہرین کے سرمایہ کاری کے حوالے سے طے شدہ سارے بیرونی دورے نادیدہ ہاتھوں نے عین وقت پر ملتوی کروا دیئے، حالانکہ 2 بلین میں سے 500 ملین ایران کی جانب سے دینے کا وعدہ کیا گیا۔ تقریباً اتنی ہی رقم گیس صارفین نے اپنے بلوں کے ذریعے تعمیراتی ٹیکس کی مد میں ادا کی۔ دوسرے لفظوں میں حکومت کے پاس منصوبے کے لیے آدھی رقم موجود تھی مگر باقی آدھی سرمایہ کاری کے لیے پاکستان کسی کو رضامند نہ کرسکا، یہ بھی یقیناً کامیاب خارجہ پالیسی کی عکاسی ہے۔ 

پاکستان کے لیے لائف لائن کا درجہ پانے والے اس منصوبے پر جب بھی کوئی پیشرفت ہوئی سعودی عرب اور امریکہ کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا گیا، مگر جب بھی اس کے متبادل کوئی راہ تلاش کرنے کی کوشش کی گئی، پاکستان کے یہ نام نہاد دوست اس توانائی بحران سے لاتعلق نظر آئے۔ امریکہ نے منصوبے کی مخالفت کی مگر سول جوہری توانائی کے معاہدے بھارت سے کئے۔ سعودی عرب جس نے مخصوص نظریات کے پرچار کے لیے ان گنت فنڈز مخصوص مدارس کو فراہم کئے لیکن پاکستان کو توانائی بحران سے نکالنے کے لیے ارزاں نرخ پر تیل فراہم کرنے کی حامی نہیں بھری۔ دوسری طرف پاکستان میں بھارت نواز لابی بھی اس منصوبے کی راہ میں روڑے اٹکانے میں پیش پیش رہی۔ 

بھارتی حکومت کی دیرینہ خواہش ہے کہ پاکستان توانائی ذرائع کے حصول کے لیے اس کا دست نگر رہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاک ایران گیس منصوبے میں پہلے انڈیا شامل تھا مگر بعد ازاں اس نے شمولیت سے انکار کر دیا۔ پھر ترکمانستان، افغانستان، پاکستان گیس پائپ لائن کی تجویز سامنے آئی تو انڈیا نے اس میں شمولیت اختیار کی۔ لیکن قوی امید یہی ہے کہ اس منصوبے سے بھی بھارت عین وقت پر پیچھے ہٹ جائے گا۔ اسی طرح جب پاکستان نے قطر سے ایل این جی حاصل کرنے کی کوشش کی تو بھارت نے اس میں یہ پیش کش کی کہ پاکستان براہ راست قطر سے ایل این جی حاصل کرنے کی بجائے بھارت کے ذریعے حاصل کرے، اس طرح پاکستان کو کمپریسر پاور سٹیشن قائم نہیں کرنے پڑیں گے۔ بھارت کا یہ کردار واضح کرتا ہے کہ وہ ان تمام منصوبوں کا مخالف ہے جس میں توانائی کا حصول پاکستان سے ہو کر گزرتا ہو۔ چنانچہ اس میں کوئی ابہام نہیں کہ توانائی کے بحران کا مسئلہ پاکستان کو مکمل طور پر اپنے بل بوتے حل کرنا ہوگا۔ 

ملک کے اندر جو مخصوص طبقہ ایرانی گیس کے نرخ کو متنازعہ بنانے کی کوشش کر رہا ہے وہ چند پہلوؤں کو قطعی طور پر نظر انداز کر رہا ہے۔ اول یہ کہ ایرانی گیس اور ترکمانستان سے حاصل ہونے والی ممکنہ گیس کے نرخوں میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہے، دونوں ہی تقریباً ایک ڈالر ہے، جبکہ قطری ایل این جی قطر سے حاصل کرنے کی صورت میں 17 سے 18 ڈالر جبکہ انڈیا سے حاصل کرنے کی صورت میں کم از کم 22 ڈالر کے حساب سے ملے گی۔ پائپ لائن کے ذریعے حاصل ہونے والی گیس کو پاور اسٹیشن میں استعمال کرنے سے تیل کے خرچ میں نمایاں کمی ہوگی۔ بتدریج ہونے والی کمی گردشی قرضے کے حجم میں کمی کا باعث بنے گی۔ لیکن ان امور کو قطعی طور پر نظر انداز کر کے گیس کے نرخوں پر جس طرح واویلا کیا گیا، اس سے یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کی گئی کہ جیسے ایران نے پاکستان کے لیے گیس کے نرخ اضافی مقرر کئے، جبکہ حقیقت اس کے برعکس تھی۔ 

جب معاہدے سے سرکاری سطح پر مجرمانہ غفلت برتی گئی تو اس کا ردعمل کسی نہ کسی صورت میں آنا متوقع تھا جو کہ ایرانی نائب وزیر پٹرولیم علی ماجدی کے بیان کی صورت میں آیا۔ اب عوامی سطح پر ایک مخصوص تاثر قائم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ایران اس منصوبے سے پیچھے ہٹنا چاہتا ہے، لہذا اس نے یہ بیان دیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں بھی اپنا محاسبہ کرتے ہوئے ملک میں توانائی کے سنگین ترین بحران کو درک کرنا چاہیے اور برادر ہمسایہ ملک کے تحفظات دور کرتے ہوئے پائپ لائن کی تعمیر کا آغاز کرنا چاہیے۔ پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ حقیقی طور پر پاکستان کے لیے لائف لائن کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس وقت پاکستان کی یہ لائف لائن خطرے سے دوچار ہے۔ اس خطرے کو دور کرنے کے لیے دانشمندی، حب الوطنی، عوام دوستی اور مخلصی کی ضرورت ہے۔
مصنف : عمران خان خان
خبر کا کوڈ : 337569
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش