0
Saturday 11 Jan 2014 20:48

شہدائے علمدارروڈ کی پہلی برسی، دہشتگرد اب بھی آزاد!

شہدائے علمدارروڈ کی پہلی برسی، دہشتگرد اب بھی آزاد!

رپورٹ: این ایچ حیدری

گذشتہ روز کوئٹہ میں بہشت زینب (ہزارہ قبرستان) میں عام دنوں سے کہیں زیادہ لوگوں کا ہجوم اکھٹا ہوا۔ وہاں آنے والے زیادہ تر وہ لوگ تھے، جنہوں نے گذشتہ سال 10 جنوری کو علمدار روڈ پر ہونے والے دھماکوں میں اپنے پیاروں کو کھو دیا تھا۔ دو بم دھماکوں میں کم از کم اکیاسی افراد شہید اور ایک سو ستر افراد زخمی ہوئے تھے۔ ان میں سے اکثریت کا تعلق شیعہ ہزارہ قوم سے تھا، جو اس علاقے میں بڑی تعداد میں آباد ہیں۔ بمشکل ایک مہینے کے بعد کوئٹہ میں سولہ فروری کو ایک اور تباہ کن حملہ کیا گیا، اس مرتبہ نشانہ ہزارہ ٹاؤن تھا۔ جس کے نتیجے میں اسی پیمانے پر ہلاکتیں ہوئی تھیں۔ بلوچستان میں فرقہ وارانہ دہشت گردی میں بےہنگم طور پر شیعہ ہزارہ قوم کو نشانہ بنایا گیا ہے، اس لیے کہ دیگر شیعیوں کے مقابلے میں انہیں ان کی مخصوص شکل و صورت کی وجہ سے آسانی سے شناخت کیا جا سکتا ہے۔ خاص طور پر ایران کی زیارتوں کے لیے سفر کرنے والے زائرین کا بچنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اسی طرح کا حملہ کوئٹہ سے کچھ دوری پر پچھلے ہفتے کیا گیا تھا، یہ ڈسٹرکٹ صوبے میں فرقہ وارانہ حملوں سے بہت زیادہ متاثر ہوا ہے۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ برائے مطالعہ امن (پی آئی پی ایس) کی ایک رپورٹ کے مطابق کہا گیا ہے کہ گذشتہ سال تینتیس فرقہ وارانہ حملے بلوچستان میں کیے گئے، جن میں سے بائیس کوئٹہ ڈسٹرکٹ میں ہوئے اور ان میں شہید ہونے والوں کی اکثریت کا تعلق شیعہ ہزارہ قوم سے تھا۔

صوبے کے اس حصے میں زیادہ تر فرقہ وارانہ حملوں کے بارے میں لشکرِ جھنگوی اور اس سے منسلک گروہوں جیسے کہ جیش الاسلام نے دعویٰ کیا کہ یہ ان کی جانب سے کیے گئے تھے۔ اگرچہ سب جانتے ہیں کہ ان گروہوں کے ٹھکانے کوئٹہ کے اندر، مستونگ ڈسٹرکٹ سمیت سپلنجی اور کابو کے حصوں اور اس کے بعد مچھ اور قلات میں موجود ہیں لیکن پولیس سمیت دیگر قانون نافذ کرنے والے مختلف بہانے بناکر فرار کا راستہ ڈھونڈ نکالتے ہیں۔ عام عوام میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ اگر حکومت سمیت ریاستی ادارے چاہے تو بلوچستان میں مُٹھی بھر مذہبی انتہا پسند دہشتگردوں کیخلاف کاروائی کرنا کوئی مشکل کام نہیں لیکن چونکہ پاکستان کی ریاست اب بھی ان لشکروں کو بلوچستان میں‌ اپنی مفادات کے تحفظ کیلئے استعمال کرنا چاہتی ہے، لہذا اسی لئے انکے خلاف فیصلہ کن کاروائی کرنے سے گریزاں ہے۔ بلوچستان کی نئی مخلوط حکومت کا حال بھی کچھ اس سے مختلف نہیں۔ ڈاکٹر مالک صاحب اپنی کرسی کو بچانے کی خاطر ان دہشتگردوں کیخلاف کاروائی کی بجائے، مذاکرات کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ قانون نافذ کرنے والے اداروں میں ان سے ہمدری رکھنے والے عناصر بھی موجود ہیں۔ اب تک دو سابق پولیس اہلکار لشکرجھنگوی کے ساتھ سازباز کرنے پر مقدمے کا سامنا کر رہے ہیں۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فرقہ واریت سکیورٹی سیٹ اپ میں بھی اپنی جگہ بنا چکی ہے۔ ان سنگین اعداد و شمار کے باوجود بھی پچھلے چند مہینوں میں کچھ بہتری پیدا ہوئی تھی، لیکن دہشتگردوں نے زائرین کی بس پر حملہ کرکے اس تاثر کو غلط ثابت کردیا۔

ایک رپورٹ کے مطابق پولیس نے فرقہ پرست گروہوں کے خلاف خاص طور پر 2013ء کی ابتداء میں دو بڑے حملوں کے بعد کچھ کارروائی کی تھی۔ بلوچستان پولیس کے رپورٹ کے مطابق تقریباً چھ ماہ پہلے لشکرِ جھنگوی کے دہشت گردوں کے ساتھ دو اہم مقابلے ہوئے تھے۔ جن میں سے ایک خروٹ آباد اور دوسرا ایسٹرن بائی پاس کے نزدیک ہوا تھا۔ ان میں مختلف اوسط درجے سے لے کر اعلیٰ سطح کے دہشت گرد (جن میں ایک سابق کانسٹیبل بھی شامل تھا) مارے گئے تھے۔ جس سے ان تنظیموں کو بڑا نقصان اُٹھانا پڑا ہے لیکن گذشتہ تمام تر کاروائیاں عوام کو وقتی تسلی دینے کیلئے کی گئی تھی۔ دہشتگردی کے آثار اب بھی کوئٹہ شہر میں موجود ہے، جسکا ثبوت یہ ہے کہ سانحہ دس جنوری کے بعد علمدارروڈ اور ہزارہ ٹاؤن میں‌ لگائی گئی ایف سی چیک پوسٹیں‌ اب بھی موجود ہیں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ان چیک پوسٹوں کو ختم کرنے کا رسک بھی نہیں لے پا رہے۔ بلوچستان میں فرقہ پرست گروہ ملک کے دیگر حصوں کے دہشت گردوں کے ساتھ اپنے گٹھ جوڑ کو مضبوط بنا رہے ہیں، جس سے انہیں پناہ حاصل کرنے اور خود کو دوبارہ منظم کرنے کے مواقع حاصل ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر لشکرِ جھنگوی بلوچستان ونگ کے رہنما عثمان کرد، جو 2008ء کے دوران جیل سے فرار ہوگئے تھے۔ ان کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ کراچی میں ہیں۔ انسٹیٹیوٹ برائے مطالعہ امن کی رپورٹ کے مطابق پچھلے تین سالوں کے دوران اس گروہ نے مختلف دھڑوں کو کراچی اور کوئٹہ میں فعال کیا گیا ہے۔

دہشت گرد گروہوں کے خلاف بلاامتیاز کارروائی کی ضرورت ہے، لیکن انتظامیہ دہشت گردوں کے پراکسی استعمال کی وجہ سے اس طرح کی سوچ سے دور رہتی ہے۔ بلوچستان کے معاملے میں لشکرجھنگوی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کے حکومت کے حمایتی دہشت گرد گروپ بلوچ مسلح دفاع تنظیم سے روابط ہیں۔ یہ ان ڈیتھ اسکواڈ میں سے ایک ہے جس پر بلوچ قوم پرستوں کے اغواء اور ہلاکتوں کے الزام عائد کیے جاتے ہیں۔ اس حوالے سے سکیورٹی تجزیہ نگار محمد عامر رانا کہتے ہیں کہ ریاستی سطح پر وضاحت کی ضرورت ہے، ابہام سے دہشت گردوں کے لیے گنجائش پیدا ہو جاتی ہے۔ جب تک ریاست دہشتگرد گروہوں کے خلاف کارروائی نہیں کرے گی، اس وقت تک دوسروں کے لیے جگہ بنتی رہے گی۔ بہت سے لوگ یقین رکھتے ہیں کہ دہشت گردوں کے ساتھ ریاست نے جو دو رُخی پالیسی اپنا رکھی ہے، اس کی وجہ سے اس نہ ختم ہونے والے عفریت کے لیے ہموار زمین میسر آرہی ہے۔

خبر کا کوڈ : 340115
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش