3
0
Sunday 2 Mar 2014 23:06

اسکردو، غیر قانونی طور پر تقرر ہونیوالے اساتذہ کے انٹرویو کیخلاف دھرنے کی روداد (1)

اسکردو، غیر قانونی طور پر تقرر ہونیوالے اساتذہ کے انٹرویو کیخلاف دھرنے کی روداد (1)
رپورٹ: شبیر ابوذر کھرمنگ

محکمہ تعلیم گلگت بلتستان میں جاری تحقیقات نے اس وقت نئی کروٹ بدلی جب بیوروکریسی اور صوبائی حکومت کے درمیان ٹیسٹ انٹرویو کی بنیاد پر شدید سرد جنگ کے بعد کمانڈر ایف سی این اے حافظ مسرور احمد نے وزیراعلٰی اور چیف سیکرٹری کے درمیان مصالحت کروائی۔ چیف سیکرٹری کا موقف تھا کہ غیرقانونی بھرتیوں سے ٹیسٹ اور انٹرویو کے بعد فارغ کیا جائے گا جبکہ وزیراعلٰی اپنی چار سالہ کمائی کو آن واحد میں لٹتے دیکھ کر انگشت بدنداں تھے کہ کس طریقے سے ٹیسٹ انٹرویو کی بلا سر سے ٹل جائے اور لاکھوں روپوں کے عوض بھرتی ہونے والے اساتذہ مستقل ہوں۔ ذرائع کے مطابق کمانڈر نے درمیانہ راستہ نکالتے ہوئے ٹیسٹ کو حذف کر کے انٹرویو رکھنے پر دونوں کو آمادہ کر لیا۔ وزیراعلٰی کا موقف تو ریاستی رٹ کو چیلنج کرنے کے مترادف تھا لیکن چیف سیکرٹری نے بھی غیرقانونی تقرریوں سے ٹیسٹ لے کر قانونی بنانے کی غیرقانونی بدعت ایجاد کی تھی، کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کوڈ جس میں حکومت پاکستان کے سروسز رولز موجود ہیں کے مطابق کسی بھی سرکاری اسامی کی بھرتی کے لیے پوسٹ سینکشن کرنا، مشتہر کرنا، اہلیت کی بنیاد پر ٹیسٹ انٹرویو کے بعد تقرر کرنا ضروری ہے لیکن سیاسی دباو کے پیش نظر غیرقانونی کام کو قانونی کرنے کے لیے انہوں نے ایک بہتر طریقہ تو اپنایا لیکن وہ نتیجے تک نہ پہنچ سکا۔

یہاں پر ایف سی این کا کمانڈر کا کردار سمجھ سے بالاتر ہے  اور خودِ ایک غیرقانونی عمل ہے۔ پاکستان آرمی کے آفیسر کو یہ کام کس نے سونپا کہ کرپشن مافیا کے مہروں کے تحفظ کے لیے میدان میں کود پڑے۔ یہ جاننے کی کوشش کی تو ذرائع سے معلوم ہوا کہ اس سلسلے میں مسلم لیگ نون کے وہ افراد جو محکمہ تعلیم کی کرپشن کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے میں مصروف ہیں، وہ کرپشن مافیا سے بھاری بھر کم سفری اخراجات لے کر وزیراعظم پاکستان کی قدم بوسی کے لئے حاضر ہوئے اور رسمی آداب بجا لانے کے بعد حلال مشاکِل سے اپنا مدعا بیان کیا اور ان پر واضح کر دیا کہ اگر ان تمام اساتذہ کو نکال دیا جائے تو آئندہ الیکشن میں مسلم لیگ کو منہ کی کھانی پڑے گی۔ لہِذا قوم کی اور ریاست کے وسیع تر مفاد کی خاطر ضروری ہے کہ ان غیرقانونی طور پر تقرر ہونے والے اساتذہ سے نرمی برتی جائے۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم کے سکیورٹی انچارج کو کہ جو آرمی آفیسر ہے، نے ایف سی این اے کمانڈر کو اپنا کردار ادا کرنے کے لیے کہا۔ اسکردو میں گندم سبڈی کے خاتمے کے خلاف منعقدہ تقریب سے ایک معروف قوم پرست رہنما نے ایف سی این اے کمانڈر کے اس عمل کو افسوسناک اور کرپشن مافیا کی قوت بازو اور دولت کا معجزہ قرار دیا تھا۔ بلتستان میں کرپشن مافیا کے امیر نے بھی اپنی نجی محفلوں میں بڑے فخر کے ساتھ دعوے کیے ہیں کہ ایف سی این کمانڈر سے بھی ان کے مراسم ہیں اور انکے اشارے کے منتظر ہیں۔ اس بات میں کتنی صداقت ہے اس کا اندازہ لگانا فی الحال مشکل ہے۔

آرمی کی مداخلت کے بعد وزیراعلٰی اور صوبائی کابینہ نے اساتذہ کی اسناد، اور عمر کی تصدیق اور بنیادی علمیت اور اہلیت کو جانچنے کے لئے زبانی انٹرویو لینے کی منظوری دے دی۔ مذکورہ صوبائی اجلاس میں ایف سی این اے کمانڈر بھی بحیثیت مبصر موجود تھے۔  جس کی روشنی میں چیف سیکرٹری نے مارچ کے پہلے ہفتے میں انٹریو کا شیڈول جاری کر دیا۔ دوسری طرف دنیا کی عقل و خرد اور علم و فکر کو مات دینے والے بلتستان کے اساتذہ تھے کہ کسی صورت انٹرویو دینے پر آمادہ نہیں تھے۔ اساتذہ ہی نہیں بلکہ صوبائی وزیر شیخ نثار سرباز نے اسمبلی کے کوریڈور سے یہ تاریخی اعلان بھی کر دیا کہ غیرقانونی بھرتیوں کے خلاف تحقیقات اور انکوائری کو روکنے کے لیے خون کا آخری قطرہ تک بہا دیں گے، یوں کرپشن مافیا اور اساتذہ کے ساتھ ساتھ وزیر موصوف کی رگوں میں بھی خون جوش مار رہا تھا۔ بلتستان کے اساتذہ کی اسناد اور عمر کی تصدیق کے بعد اگلا مرحلہ انٹرویو  کا تھا لیکن قوم کے معماروں نے 28 فروری سے ہی انٹرویو کے خلاف احتجاج اور دھرنوں کا سلسلہ شروع کیا اور پہلے روز 62 برگیڈ آفس کے سامنے دھرنا دیا۔ غیر قانونی اساتذہ کا کئی گھنٹوں پاکستان آرمی کے 62 برگیڈ آفس کے سامنے دھرنا ناقابل فہم ہے۔ ان کا یہ عمل شاید آرمی پر دباو ڈالنے کے لیے تھا، لیکن انہوں نے بھی مذاکرات اور مفاہمت کے نام چند مذہبی شخصیات کو آفس میں چائے پلانے اور مختصر گپ شپ کے بعد ساری کہانی سنا دی اور دھرنا ختم کرا دیا۔ دھرنے کے شرکاء نے اپنا رخ حمید گڑھ چوک پر کمشز آفس کی طرف کر دیا اور دھرنا دیا، جس میں خواتین اساتذہ نے بھی حصہ لیا۔ خواتین رات بھر دھرنے میں بیٹھی رہیں اور یہ بلتستان کا پہلا اور انوکھا واقعہ تھا کہ بلتستان کی روایات کے برخلاف رات بھر خواتین سڑکوں پہ رہیں۔ اس سے قبل شام میں روضہ حضرت زینب (س) پر حملے کے خلاف جب اسکردو میں خواتین نے علمدار روڈ کو مردوں کی آمد و رفت کے لیے بند کرنے کے بعد ریلی نکالی تو جمعے کے خطبوں میں اسے غیر اسلامی فعل قرار دیا گیا اور شدید مذمت کی گئی، لیکن یہاں پر ایسا کچھ نہیں ہوا۔

دو روز احتجاج کا سلسلہ جاری رہا۔ دھرنے میں کرپشن مافیا کی دیگیں جاری رہیں، کھانے پینے کے تمام لوازمات فراہم تھے۔ غیرقانونی طور پر تقرر ہونے والے اساتذہ جو انٹرویو کے خلاف دھرنا دیئے بیٹھے ہیں وہاں شیعہ علماء کونسل گلگت بلتستان کے صدر سید محمد عباس رضوی، ایس یو سی بلتستان کے صدر فدا حسن عبادی، شیعہ علماء کونسل کے رہنما سید باقر الحسینی اور جعفریہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے صدر سید مبشر نے بھی خطاب کیا۔ مقررین نے اپنے خطاب میں انٹرویو اور غیرقانونی تقرریوں کے خلاف تحقیقات کو ظلم عظیم قرار دیا۔ دھرنے میں شرکاء نے مختلف نعرے بھی بلند کیے جن کا یہاں ذکر ان شعار کی تضحیک کے پیش نظر مناسب نہیں، البتہ دھرنے میں وقتاً فوقتاً ترانہ شہادت بھی گونجتا رہا۔ دھرنے کے سبب اسکردو میں تمام دفاتر کا نظام اور معمول کی زندگی ٹھپ ہو کر رہ گئی۔ دوسری طرف ان اساتذہ کے انٹرویو کے لئے تین صوبائی سیکرٹریز جن میں ہوم سیکرٹری، سیکرٹری تعلیم اور سیکرٹری سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن شامل تھے اسکردو پہنچ گئے۔ (جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 357205
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
Nice....Great Article....Waiting for another part....
Pakistan
kufar tota khuda khuda kr k
Pakistan
boht acha likha ha
ہماری پیشکش