اسلام ٹائمز۔ جماعت اسلامی کے رہنما اور ٹی ٹی پی کی مذاکراتی کمیٹی کے ایک رکن پروفیسر محمد ابراہیم کا کہنا ہے کہ طالبان نے کچھ ہائی پروفائل شخصیات کو خیر سگالی کے طور پر رہا کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ جماعت اسلامی کے کارکنوں کے تربیتی سیشن کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے پروفیسر ابراہیم نے علی موسٰی گیلانی، شہباز تاثیر اور اسلامیہ کالج یونیورسٹی پشاور کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر پروفیسر اجمل خان کی رہائی کو مسترد نہیں کیا۔ انہوں نے حکومت اور کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان کے جاری مذاکرات پر پیپلزپارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ اور عوامی نیشنل پارٹی کے مؤقف کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ یہ سیاسی جماعتیں اس عمل کو کامیابی سے ہمکنار ہوتا نہیں دیکھنا چاہتی ہیں، تاکہ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے لیے راہ ہموار ہو سکے۔ جماعت اسلامی کے رہنما نے کہا کہ ’’محبّ وطن جماعتیں‘‘ مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دیں گی۔ پروفیسر ابراہیم نے کہا کہ حکومت اور طالبان شوریٰ دونوں ہی مذاکرات کو جاری رکھنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ قبائلی علاقوں میں امن قائم تھا، لیکن امریکا میں نائن الیون کے حملوں کے بعد سابق صدر ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے صورتحال تبدیل ہوگئی۔ انہوں نے جنرل مشرف کو ملک میں غیر یقینی صورتحال اور سیکورٹی کے مسئلے کا ذمہ دار ٹھہرایا۔انہوں نے کہا کہ یہ صورتحال طوالت اس لیے اختیار کرتی گئی کہ سابق صدر آصف زرداری نے اپنے پیشرو کی پالیسیوں کو جاری رکھا۔ پروفیسر ابراہیم نے کہا کہ طاقت کے استعمال سے امن قائم نہیں کیا جا سکتا۔ پروفیسر ابراہیم نے کہا کہ اگر حکمران طبقہ آئین کی پاسداری کے لیے تیار ہے تو جماعت اسلامی طالبان کو آئین کو قبول کرنے پر آمادہ کرنے کے لیے تیار ہے۔ اگر آئین کی حقیقی روح کا نفاذ کردیا جائے تو ٹی وی چینلز پر ان کے خیال میں فحاشی کو روکا جاسکتا ہے۔