0
Wednesday 28 May 2014 22:49

بوکوحرام کے تکفیری دہشت گرد، پورے افریقہ کیلئے خطرے کی گھنٹی

بوکوحرام کے تکفیری دہشت گرد، پورے افریقہ کیلئے خطرے کی گھنٹی
اسلام ٹائمز [مانیٹرنگ ڈیسک] – نائجیریا کے شہر بورنو سے 276 طالبات کا اغواء وہ حادثہ تھا جس نے دنیا والوں کو "بوکوحرام" نامی تکفیری دہشت گرد گروہ کے نام سے آشنا کروایا۔ اس افسوسناک واقعے کے بعد اس تکفیری دہشت گرد گروہ کے سرکردہ ابوبکر شیکاو نے اپنا ایک ویڈیو پیغام نشر کیا جس میں کہا گیا تھا:
"میں نے آپ کی بیٹیوں کو اغواء کیا ہے۔ انسانوں کی خرید و فروش کا بازار موجود ہے۔ خدا کہ رہا ہے کہ میں ان کو بیچ ڈالوں۔ خدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ انہیں بیچ ڈالوں"۔

دوسری طرف اس ویڈیو میں ان طالبات جن کی عمر 16 سے 18 سال کے درمیان بتائی جاتی ہے کو اغواء کرنے کی وجہ بھی اسی طرح عجیب و غریب انداز میں بیان کی گئی ہے۔ ابوبکر شیکاو جمہوریت، مغربی طرز تعلیم اور لڑکیوں کے حصول تعلیم کو شدید تنقید کا نشانہ بنانے کے بعد یہ کہتا ہوا نظر آتا ہے:
"ہم نے ان طالبات کو اس لئے اغواء کیا ہے کہ وہ مغربی طرز تعلیم کے تحت حصول علم میں مشغول تھیں"۔
اس تکفیری دہشت گروہ کا نام بھی اسی موقف کی عکاسی کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ بوکوحرام (Boko Haram) جو "حوسہ" زبان کا لفظ ہے کے معنا یہ ہیں کہ "مغربی طرز تعلیم حرام ہے"۔ یہ گروہ 2002ء میں محمد یوسف نامی شخص کی جانب سے مایدوگوری کے علاقے میں تشکیل دیا گیا تھا۔

محمد یوسف ایک انتہائی بااثر اور پڑھا لکھا شخص تھا۔ اس نے نائجیرا میں حقیقی اسلامی حکومت کے قیام کی تحریک چلا رکھی تھی۔ وہ درحقیقت ایک سلفی تکفیری تھا جو "ابن تیمیہ" کے نظریات و افکار سے شدیدا متاثر نظر آتا تھا۔ یاد رہے ابن تیمیہ اسلامی دنیا میں سلفی – تکفیری نظریات کا بانی تصور کیا جاتا ہے۔ محمد یوسف جمہوریت، مغربی طرز تعلیم اور حصول علم کا شدید مخالف تھا۔ وہ اس حد تک متحجر تھا کہ زمین کے گول ہونے کا بھی انکار کرتا تھا۔

2009ء میں محمد یوسف کے مارے جانے کے بعد ابوبکر شیکاو نامی شخص نے اس گروہ کی سربراہی اپنے ہاتھ میں لے۔ وہ بھی ایک پڑھا لکھا شخص ہے جس نے ایک عالم دین کی زیر نگرانی علم حاصل کیا ہے۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اس نے اسلامی تعلیمات کے حصول کیلئے بورنو اسٹیٹ میں واقع کالج آف اسلامک اینڈ لاء اسٹڈیز میں داخلہ لے لیا۔ اسی وجہ سے اسے "دار التوحید" کا نام بھی دیا جاتا ہے جس کے معنا یہ ہیں کہ وہ خداوند کی وحدانیت کے بارے میں اسپشلسٹ ہے۔ ابوبکر شیکاو کو حوسہ، فولانی، کنوری اور عربی جیسی زبانوں پر مکمل عبور حاصل ہے لیکن وہ انگلش سے بالکل بے بہرہ ہے۔ اس کی سرکردگی میں چلنے والا گروہ بوکوحرام ہر ایسی چیز کی نفی کرتا ہے جو کسی نہ کسی طرح مغربی معاشرے سے جڑی ہوئی ہو۔ وہ اپنے گروہ کے افراد سے براہ راست بات نہیں کرتا بلکہ بعض مخصوص بااعتماد اور راز دار افراد کے ذریعے گروہ کے باقی افراد سے رابطے میں رہتا ہے۔

بوکوحرام کی سرگرمیوں کا مرکز نائجیریا کا شمال مشرقی علاقہ ہے۔ یہ علاقہ معاشی اعتبار سے انتہائی پسماندہ اور ملک کے دیگر حصوں کی نسبت اس خطے میں سب سے کم شرح خواندگی پائی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ابوبکر شیکاو عوام کی بڑی تعداد کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب رہا ہے۔ نائجیریا کا دارالحکومت ابوجا ہے۔ ابوجا حکومت کے اکثر عہدیدار کرپٹ ہیں۔ لہذا بوکوحرام کے سربراہ ابوبکر شیکاو نے عوام کو وعدہ دے رکھا ہے کہ وہ اسلامی شریعت کے نفاذ کے ذریعے ایک بہتر نظام حکومت کو ملک میں رائج کرے گا جس سے موجودہ کرپشن کا بھی خاتمہ ہو جائے گا۔ اسی طرح ابوبکر شیکاو کی طرف سے مفت اسلحہ کی فراہمی اور لوٹ مار کی کھلی چھٹی کی وجہ سے بھی بدمعاش ذہنیت رکھنے والے افراد کی اکثریت اس سے جا ملی ہے۔ لہذا بوکوحرام کے دونوں سربراہان کی تکفیری سلفی سوچ کے مدنظر اس گروہ کو صرف دہشت گرد گروہ قرار دینا حقیقت کے منافی ہے بلکہ اس کے حقیقی اہداف کو جاننے کیلئے ضروری ہے کہ اسے ایک سلفی تکفیری دہشت گرد گروہ کے طور پر دیکھا جائے۔

سلفی – تکفیری مکتب فکر کا تاریخی جائزہ:
مکتب سلفی گری کی بنیادیں تاریخ میں پہلی بار جنگ صفین کے دوران پڑیں جب خشک مقدس اور متحجر مذہبی افراد کا ایک گروہ امام علی علیہ السلام کے لشکر سے جدا ہو گیا۔ یہ گروہ بعد میں "خوارج" کے نام سے مشہور ہوا۔ خوارج انتہائی درجہ کے متعصب اور کوتاہ فکر افراد تھے۔ امام علی علیہ السلام کی شہادت میں بھی یہی گروہ ملوث تھا۔ اسی طرح تاریخ کے ایک مرحلے میں "احمد ابن حنبل" نے سلفی مکتب فکر کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لی۔ البتہ احمد ابن حنبل انتہائی متقی اور دیندار شخص تھے لیکن اس کے باوجود وہ ظواہر کو بہت زیادہ اہمیت دیتے تھے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ فتوا صرف نص کے ذریعے ہی دیا جا سکتا ہے اور وہ اجتہاد کے سخت مخالف تھے۔

7 اور 8 صدی ہجری میں شام کی سرزمین میں "احمد ابن تیمیہ" نے سلفی مکتب فکر کی سربراہی سنبھال لی۔ احمد ابن تیمیہ سلفی مکتب فکر کے ایک اہم اور بنیادی تھنک ٹینک کے طور پر جانا جاتا ہے۔ معروف محقق اور عالم دین آیت اللہ جعفر سبحانی احمد ابن تیمیہ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ وہ اپنے دل میں اہلبیت اطہار علیھم السلام کے ساتھ دشمنی کو چھپائے ہوا تھا۔ یعنی دل میں اہلبیت اطہار علیھم السلام سے دشمنی رکھتا تھا لیکن اسے ظاہر نہیں کرتا تھا۔ جب حجاز میں آل سعود خاندان برسراقتدار آیا تو اس وقت سلفی مکتب فکر کی باگ ڈور محمد ابن عبدالوہاب کے ہاتھ میں تھی۔ محمد ابن عبدالوہاب سعودی عرب میں آل شیخ سلسلے کا بانی ہے۔

اس وقت تکفیریوں کا شمار سلفی گروہوں میں سب سے زیادہ شدت پسند اور متعصب گروہوں میں سے ہوتا ہے۔ تکفیری گروہ بڑے بڑے دینی مدارس کے مالک ہیں جو زیادہ تر افغانستان اور پاکستان میں واقع ہیں۔ سلفی تکفیری گروہوں کی فعالیت اور سرگرمیوں کا مرکز غریب افراد کے گرد گھومتا ہے۔ غریب اور پسماندہ افراد انتہائی سادہ زندگی اور سوچ ہونے کے ناطے بہت آسانی سے ان گروہوں کے فریب میں آ جاتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں جس جگہ بھی تعلیم اور ترقی پائی جاتی ہے وہاں سلفی تکفیری گروہوں کا اثرورسوخ بہت کم نظر آتا ہے۔

تکفیریوں کی تین مراحل پر مشتمل آئیڈیالوجی:
سلفی تکفیری گروہوں کے طرز عمل کا بغور جائزہ لینے کیلئے اہم ترین نکتہ ان کی تین مراحل پر مشتمل آئیڈیالوجی پر توجہ کرنا ہے۔ تکفیری سلفی گروہ پہلے مرحلے پر ایک امارت اسلامی کے قیام کیلئے کوشاں نظر آتے ہیں۔ اسی ہدف کے تحت تکفیری سلفی گروہوں نے پہلے افغانستان پر قبضہ جمانا چاہا لیکن اس میں بری طرح ناکامی کا شکار ہو گئے۔ اس کے بعد ان سلفی گروہوں نے شام کا رخ کیا لیکن وہاں بھی حزب اللہ لبنان کے مقابلے میں انہیں عبرت ناک شکست سے دوچار ہونا پڑا۔

سلفی تکفیری گروہوں کی آئیڈیالوجی کا دوسرا مرحلہ خلافت اسلامی کی تشکیل پر مشتمل ہے۔ اس مرحلے میں بنیادی ہدف تمام اسلامی ممالک کو اپنے قبضے میں لے کر خلافت اسلامی کا احیاء کرنا ہے۔ اسی طرح سلفی تکفیری گروہوں کی آئیڈیالوجی کا تیسرا مرحلہ پوری دنیا پر ایک اسلامی عالمی حکومت کا قیام ہے۔

چونکہ تکفیری سلفی گروہ مشرق وسطی میں ایک امارت اسلامی کے قیام کی نسبت مایوسی کا شکار ہو چکے ہیں لہذا اب ایسا دکھائی دیتا ہے کہ انہوں نے اس مقصد کیلئے اپنی فعالیت اور سرگرمیوں کے مرکز کو براعظم افریقہ میں منتقل کر دیا ہے۔ سلفی تکفیری گروہوں کی جانب سے اپنے اہداف کے تحقق کیلئے براعظم افریقہ کا انتخاب زیادہ غیرمعقول نظر نہیں آتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کالے براعظم میں دو ایسی خصوصیات پائی جاتی ہیں جن کی وجہ سے سلفی تکفیری گروہوں کے منہ کی رال ٹپکنے لگی ہے۔ پہلی یہ کہ براعظم افریقہ کا خطہ ایک انتہائی غریب اور پسماندہ خطہ ہے۔ لہذا سلفی مکتب فکر کے افراد اپنی سازہ زیستی کے ذریعے بڑے پیمانے پر افراد کو اپنی جانب جذب کر سکتے ہیں۔ دوسری خصوصیت یہ کہ براعظم افریقہ میں کوئی بھی ملک حقیقی تشخص نہیں رکھتا اور وہاں پر بنائی گئی تمام جغرافیائی حدود عالمی استعماری قوتوں کی ساختہ و پرداختہ ہیں۔ لہذا اس کا منطقی نتیجہ یہ ہے کسی بھی افریقی ملک میں رہنے والے عوام کے اندر وہ قومی جوش و جذبہ نہیں پایا جاتا جو ایک آزاد اور خودمختار قوم اور ملک کی بقاء کیلئے بنیادی اور اہم عنصر تصور کیا جاتا ہے۔

ان سب کے علاوہ براعظم افریقہ میں کوئی ایسا بڑا مذہبی گروہ بھی نہیں جو سلفی تکفیری گروہوں کی سرگرمیوں میں رکاوٹ ثابت ہو سکے یا ان کیلئے ایک بڑا حریف جانا جاتا ہو۔ لہذا افریقہ کا خطہ اس وقت سلفی تکفیری گروہوں کیلئے ایک آئیڈیل سرزمین تصور کی جاتی ہے جہاں یہ گروہ غریب اور پسماندہ طبقات سے انسانی قوت کو اکٹھا کر کے اپنی آئیڈیالوجی کے پہلے مرحلے کے طور پر امارت اسلامی کی تشکیل کیلئے موثر اقدامات انجام دے سکتے ہیں۔ لہذا نائجیریا میں شدت پسند گروہ بوکوحرام کی کاروائیاں ایک طے شدہ منصوبہ بندی کا حصہ ہیں۔ یہ ایک الگ بات ہے کہ وہ اپنے اہداف و مقاصد میں کس حد تک کامیاب ہو سکتے ہیں۔ دوسری طرف براعظم افریقہ میں تکفیری دہشت گردی کا فروغ اس خطے میں استکباری قوتوں کی دوبارہ واپسی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔ مغربی استعماری طاقتیں تکفیری شدت پسند عناصر کے دہشت گردانہ اقدامات کو بہانہ بنا کر براعظم افریقہ کو اپنے جارحانہ اقدامات کا نشانہ بنا سکتے ہیں۔ عالمی استعماری قوتوں کی نظریں ایک عرصے سے افریقہ میں موجود تیل اور معدنیات کے عظیم ذخائر پر لگی ہوئی ہیں۔
خبر کا کوڈ : 387272
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش