0
Friday 4 Jul 2014 14:19

سونامی ہو یا انقلاب، بلوچستان کسی کی ترجیحات میں شامل نہیں، سردار اختر جان مینگل

سونامی ہو یا انقلاب، بلوچستان کسی کی ترجیحات میں شامل نہیں، سردار اختر جان مینگل
اسلام ٹائمز۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر جان مینگل نے کہا ہے کہ ماضی میں بھی تحفظ پاکستان جیسے انسداد دہشت گردی کے کالے قوانین بنائے گئے۔ پھر قوانین بنانے والے خود انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں پیش ہوتے رہے۔ اب بھی پاکستان کے تحفظ میں جان ہلکان کئے جانے والے جن پارلیمنٹرینز نے اس بل کی منظوری دی ہے کہیں وہ خود اس کا شکار نہ ہو جائیں۔ تحفظ پاکستان جیسے قانون کی منظوری کے بعد عدالتوں کو تالے لگا دینے چاہیئے۔ بلوچستان کے مالک کو ’’حادثاتی‘‘ طور پر ارسلان افتخار کو بلوچستان انویسٹمنٹ بورڈ میں وائس چیئرمین تعینات کرنے کا اختیار ملا ہے۔ اگر انہوں نے کوئی فیصلہ کیا ہے تو میرے خیال میں اس پر تنقید بلاجواز اور غیر ضروری ہے۔ سردار اختر جان مینگل نے کہا کہ سونامی ہو یا انقلاب بلوچستان کسی کی ترجیحات میں شامل نہیں۔ بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالی، ماورائے آئین و قانون گرفتاریوں، گمشدگیوں و تشدد زدہ لاشوں کے ملنے کے واقعات پر سونامی تو درکنار ایک آدھ بوند بھی ہم نے نہیں دیکھی۔ جو بلوچستان میں لگی آگ کو بجھا سکتی۔ انہوں نے کہا کہ ماڈل ٹاؤن میں پیش آنے والا واقعہ افسوس ناک ہے۔ ہم اس کی مذمت کرتے ہیں لیکن اس طرح کے بلوچستان میں تو بہت واقعات ہوئے۔ کیا بلوچستان میں کسی بلوچ ماں کی گود نہیں اجاڑی گئی۔ کسی بہن کے بھائی کو نہیں مارا۔ کسی بلوچ خاتون کو بیوہ اور بچوں کو یتیم نہیں کیا گیا۔ کینڈا سے آ کر انقلاب برپا کرنے والے انقلابی نے بلوچستان میں ظلم جبر اور استبداد پر کبھی لب کشائی کیوں نہیں کی۔ یا اس وقت انقلاب برپا کرنے کا خیال کیوں نہیں آیا۔ انہوں نے کہا کہ آج پارلیمنٹ میں بیٹھی جن قوتوں نے تحفظ پاکستان نامی کالے قانون کی منظوری دی ہے۔ مستقبل قریب میں کہیں خود یہ اس کا شکار نہ ہو جائیں کیونکہ ماضی جب نواز شریف نے انسداد دہشت گردی کا قانون بنایا تو آنے والے جرنیل نے انہی انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں نواز شریف کو لاکھڑا کیا۔ اس لئے خدشہ ہے پاکستان کے تحفظ کیلئے جان ہلکان کرنے والے خود مستقبل میں غیر محفوظ ہونگے۔ جب عدالتیں موجود ہیں اور قوانین بھی ہیں تو پھر سڑک کے بیچ یا چوراہے پر بندوق تھامے سکیورٹی اہلکار کو فیصلہ کرنے اور اس پر عملدرآمد کے اختیارات دینے کا کیا مطلب ہے، پھر تو بہتر ہوگا عدالتوں کو تالے لگا دیئے جائیں کیونکہ اب ان کے وجود کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔

ایک سوال کے جواب میں سردار اختر مینگل نے کہا کہ بلوچستان کا معاشرہ سیکولر ہے۔ جس میں مذہبی جنونیت تنگ نظری، انتہاء پسندی اور تعصب پسندی کی کوئی گنجائش نہیں لیکن بلوچستان میں قوم دوستی اور وطن پرستی کی طویل سیاسی جدوجہد و قومی شعور سے خوفزدہ قوتوں نے مذہبی جنونیت و انتہاء پسندی کے بیج بونا شروع کردیئے جو بلوچ قوم دوستی و وطن پرستی سے بلوچ قوم کو دور رکھتے ہوئے جہالت کے گھپ اندھیروں میں دھکیلنا چاہتی ہیں۔ جن کی خواہش ہے کہ بلوچ مدارس تک محدود رہیں، تعلیم شعور اور عقل کی جانب نہ بڑھیں۔ یہ سب ان کی کارستانیوں کا نتیجہ ہے۔ انکا راستہ روکنے کیلئے بلوچ قوم کو اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ ضد، انا اور گھمنڈ کو چھوڑ قومی یکجہتی کو پروان چڑھانے کیلئے آگے آنا ہوگا۔ ارسلان افتخار چوہدری کی بلوچستان انویسٹمنٹ بورڈ میں تعیناتی سے متعلق سردار اختر جان مینگل نے کہا کہ بلوچستان کے مالک کو ’’حادثاتی‘‘ طور پر اختیار ملا ہے اور اگر انہوں نے کوئی فیصلہ کیا ہے۔ تو میرے خیال میں اس پر تنقید بلاجواز اور غیر ضروری ہے۔
خبر کا کوڈ : 397168
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش