0
Wednesday 8 Oct 2014 08:37

آزاد کشمیر، زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں بحالیِ نو سست روی کا شکار

آزاد کشمیر، زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں بحالیِ نو سست روی کا شکار
اسلام ٹائمز۔ پاکستان کے شمالی علاقہ جات اور کشمیر میں آنے والے تباہ کن زلزلے کے نو سال بعد بھی بحالی نو سست روی کا شکار ہے اور تعمیر نو کرنے والے حکام اب تک دو تہائی سے بھی کم علاقے میں دوبارہ سے تعمیرات کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ خیال رہے کہ اس زلزلے نے صوبہ خیبر پختونخوا کے پانچ اضلاع میں پڑے پیمانے پر تباہی مچاہی تھی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں بحالیِ نو کے کام میں گذشتہ دو برسوں میں سست روی کے باعث صرف پانچ فیصد ایک عمارتیں ہیں جن کی اسرِ نو تعمیر ہوئی ہے۔ آٹھ اکتوبر سن 2005ء کو آنے والے اس تباہ کن زلزلے سے متاثرہ علاقوں مانسہرہ، بٹگرام، کوہستان، ایبٹ آباد اور شانگلہ کے متاثرین آج اس زلزلے کی نویں برسی منا رہے ہیں۔ تاریخ کے اس بدترین زلزلے میں حکام نے لگ بھگ 23 ہزار افراد کے ہلاک، جبکہ اس سے کہیں زیادہ کے زخمی ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔

نو سال قبل آٹھ کتوبر کی صبح سات اعشاریہ چھ شدت کے اس زلزلے نے ملک کے شمالی علاقوں اور آزاد کشمیر کو نشانہ بنایا تھا جس سے تین لاکھ 95 ہزار نو سات مکانات مکمل طور پر تباہ ہو گئے تھے۔یہی نہیں بلکہ صوبے کے ان اضلاع میں تقریباً ایک اعشاریہ پانچ ملین افراد ایسے بھی تھے جو نقل مکانی کرکے ملک کے دیگر شہروں میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے تھے۔ ایک مقامی رہائشی نے بتایا کہ ضلع بالاکوٹ میں زلزلے میں بچ جانے والے افراد زندگی کے معمول پر آنے کے بعد اب بھی صحت اور دیگر سہولیات کے بغیر زندگی بسر کر رہے ہیں۔

ایک پڑے پیمانے پر مالی نقصان کے علاوہ تقریباً چھ ہزار آٹھ ہزار سو چھیاسی اسکولز، کالجز، ہسپتال اور پانی کے ڈیم ہیں جو صوبے کے این پانچوں اضلاع میں تباہ ہوگئے تھے۔ لیکن نو سال گزرنے کے بعد بھی زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں بحالیِ نو کے نگران ادارے ایرا کی انتظامیہ صرف ستر فیصد تباہ حال عمارتوں کی دوبارہ سے تعمیر کرنے میں کامیاب ہو سکی ہے۔ دو سال قبل یعنی ساتویں برسی کے موقع پر متاثرہ علاقوں میں 64 فیصد نئی تعمیرات ہوئیں تھیں۔

زلزلے سے متاثرہ علاقوں بحالی نو کے لیے کام کرنے والی انتظامیہ نے ایک تازہ بیان میں بتایا ہے کہ گزشتہ نو سالوں میں اب تک صرف 69 فیصد اسرِ نو تعمیرات ہوئی ہیں۔ گزشتہ دو سال کے دوران حکام کی جانب سے تباہ ہونے والی 6،886 کل عمارتوں میں سے صرف پانچ فیصد یعنی 4،729 کی دوبارہ سے تعمیر ہوسکی ہے۔ بدترین زلزلے میں کشمیر کے ان اضلاع میں 147 ہسپتال، رولر ہیلتھ سینٹرز اور دیگر صحت کے مراکز تباہ ہوگئے تھے، لیکن 9 سال بعد 85 فیصد تعمیرات مکمل ہوسکی ہے۔ اسی طرح ماحولیات کے شعبے میں 53 فیصد تعمیری کام مکمل ہوا ہے جس کے مطابق 338 کل تباہ حال عمارتوں میں سے ایک سو اسی کی پھر سے تعمیر ہوئی ہے۔

گورننس کے شعبے میں 77 فیصد کام مکمل ہوا ہے اور کل 479 عمارتوں میں سے 351 کی ری کنسٹرکشن ہوئی ہے۔ اگر بجلی کے شعبے کی بات کی جائے تو اب تک صرف 29 فیصد کام ایسا ہے جو نو سالوں میں مکمل ہوا ہے۔ سماجی تحفظ کے شعبے میں تو گزشتہ نو برسوں کے دوران ایک منصوبہ بھی پایا تکمیل تک نہیں پہنچا ہے۔ شعبہِ نقل حمل میں اب تک 63 فیصد بحالی کا کام مکمل ہوا ہے اور 149 تباہ حال سڑکوں اور پلوں میں سے 94 کی دوبارہ سے تعمیر کی گئی ہے۔ پانی کی فراہمی کے منصوبوں پر گزشتہ نو سال میں 99 فیصد کام مکمل ہو چکا ہے۔

پیرا کے ایک حکام نے بتایا کہ وہ اس کام کو وقت پر مکمل کرنا چاہتے تھے، لیکن اقتصادی حالات کے باعث ایسا نہ ہو سکا۔ ان کا کہنا تھا کہ 'وہ اس بات سے انکار نہیں رہے کہ ہمیں اس کام کو دو برسوں میں مکمل کرنا چاہیے تھا، لیکن حکومت کی جانب سے بحالیِ نو کے لیے فنڈز جاری نہ کرنا اس تاخیر کی ایک اہم وجہ ہے۔
خبر کا کوڈ : 413619
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش