0
Wednesday 19 Nov 2014 21:20

پردہ ترقی میں حائل نہیں، عورت کی عصمت و وقار کا محافظ ہے، مولانا اسرار الحق قاسمی

پردہ ترقی میں حائل نہیں، عورت کی عصمت و وقار کا محافظ ہے، مولانا اسرار الحق قاسمی
اسلام ٹائمز۔ گزشتہ سوموار کو بھارت کی سماج وادی پارٹی کے ریاست یو پی ہیڈ کوارٹر میں خاتون کارکنوں کے جلسے کے دوران ملائم سنگھ کے اُس بیان پر، جس میں انھوں نے کہا تھا کہ پردہ ایک بری روایت ہے اور اسے ختم ہونا چاہیے اور یہ کہ عورتوں کی ترقی میں پردہ سسٹم ہی حائل ہے، شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے معروف عالم دین اور کشن گنج سے ممبر پارلیمنٹ مولانا اسرار الحق قاسمی نے کہا کہ ملائم سنگھ یادو کا بیان سراسر غیر مناسب اور ملک میں ایک قسم کی بے چینی پھیلانے والا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملائم سنگھ یادو لوک سبھا الیکشن سے پہلے سے ہی عورتوں کے بارے میں لگاتار ایسے بیانات دے رہے ہیں، جو ان کی عجیب و غریب ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ملائم سنگھ یادو کبھی عورتوں کی عصمت دری میں عورتوں کو ہی مجرم ٹھہراتے ہیں اور کبھی کہتے ہیں کہ عورتوں کو پردہ نہیں کرنا چاہیے، پردہ کرنے سے ان کی ترقی کا راستہ بند ہوجائے گا۔ مولانا قاسمی نے کہا کہ ملائم سنگھ یادو شاید اس قسم کے بیانات سے عوامی ہمدردی بٹورنا چاہتے ہیں، مگرحقیقت یہ ہے کہ ان کے ایسے ہی بیانات کی وجہ سے نہ صرف ان کی ذاتی شبیہ بگڑ رہی ہے، بلکہ ان کی پارٹی کی مقبولیت کا گراف بھی لگاتار گرتا جارہا ہے۔ مولانا قاسمی نے کہا کہ یہ تصور کرنا کہ پردہ کی وجہ سے خواتین ترقی نہیں کر پا رہی ہیں ایک مضحکہ خیز تصور ہے، خواتین کی پسماندگی کے پیچھے دراصل وہ مرد اَساس سیاسی نظام کام کر رہا ہے، جس کی نمائندگی ملائم سنگھ یادو جیسے بڑے سیاسی لیڈران کرتے ہیں۔

مولانا اسرار الحق قاسمی نے کہا کہ اگر عورتوں کو ان کے جائز حقوق دیے جائیں اور انھیں تعلیم حاصل کرنے کے مواقع فراہم کیے جائیں، تو وہ اپنے وقار اور عزت و عصمت کے تحفظ کے ساتھ بڑی سے بڑی کامیابی حاصل کرسکتی ہیں اور ایسا ہندوستان کی ہزارہا سالہ تاریخ میں ہوتا رہا ہے۔ انھوں نے ملائم سنگھ یادو کے بیان کے اس حصے پر بطورِ خاص تنقید کی جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ماضی میں سیتا، دروپدی اور ساوتری نے جب پردہ نہیں کیا اور نقاب نہیں اوڑھا، تو اب پردہ کیوں کیا جائے؟ مولانا قاسمی نے کہا کہ ایک غلط خیال اور تصور کو تقویت پہنچانے کے لیے مذہبی شخصیات کا سہارا لینا قابل مذمت ہے، انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ سیتا، دروپدی اور ساوتری پردہ نہیں کرتی تھیں، تو کیا سارے ہندوستان کی عورتوں کو، جن میں متعدد مذاہب کو ماننے والی عورتیں شامل ہیں، ملائم سنگھ یادو اس بات پر مجبور کریں گے کہ وہ پردہ نہ کریں؟ اور کیا وہ ان سب کو جیل بھجوائیں گے؟ مولانا قاسمی نے کہا کہ ایک قومی سطح کی اور ملک کے سب سے بڑے صوبے میں حکمراں پارٹی کے سربراہ کی جانب سے مسلسل اس طرح کے غیر محتاط بیانات کا آنا حیرتناک بھی ہے، قابلِ مذمت بھی اور اس پر ان کا مؤاخذہ بھی ہونا چاہیے۔ کم از کم انھیں عوام کے سامنے ضرور جواب دہ بنایا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اسی قسم کے سیاسی لیڈران ہیں، جن کی زبان کی بے لگامی عوام کے درمیان ایک دوسرے کے تئیں بدگمانیاں پیدا کرتی ہیں۔ انھوں نے سماج وادی پارٹی کے سربراہ سے مطالبہ کیا کہ اگر وہ عورتوں کو ترقی دلوانا چاہتے ہیں، تو اپنے زیر حکومت صوبے میں ان کی عزت و عصمت کے تحفظ کے لیے نظام کو درست کرنے اور انھیں تعلیم کے شعبوں میں لانے کی جانب توجہ دیں، اپنی کوتاہی اور ناکامی کو چھپانے کے لیے کبھی عورتوں کی ذات کو اور کبھی پردے کو موردِ الزام ٹھہرانا ان کے لیے قطعی فائدہ مند ثابت نہیں ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 420409
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش