0
Tuesday 24 Feb 2015 10:33

گوادر کاشغر روٹ کی تبدیلی کسی صورت قبول نہیں، بلوچستان اسمبلی

گوادر کاشغر روٹ کی تبدیلی کسی صورت قبول نہیں، بلوچستان اسمبلی
اسلام ٹائمز۔ بلوچستان اسمبلی میں کاشغر تا گوادر اقتصادی راہداری میں تبدیلی پر اپوزیشن اور حکومتی ارکان نے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک بار پھر وفاقی حکومت بلوچستان کے عوام کے ساتھ زیادتی کرکے روٹس کو تبدیل کردیا ہے۔ جس کی وجہ سے یہاں کی عوام میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور سینئر صوبائی وزیر سردار ثناءاللہ زہری نے عوام کو یقین دلایا کہ وزیراعظم نواز شریف نے دو ٹوک الفاظ میں یقین دلایا ہے کہ روٹ کو تبدیل نہیں کیا جائے گا۔ اسمبلی اجلاس کے دوران اپوزیشن لیڈر مولانا عبدالواسع نے پوائنٹ آف آرڈر پر کہا کہ ہم نے گوادر کاشغر اقتصادی راہداری روٹ میں مجوزہ تبدیلی کے حوالے سے قرارداد جمع کرائی ہے لیکن اس قرارداد کو اہمیت نہیں دی گئی۔ یہ انتہائی اہم نوعیت کا مسئلہ ہے۔ بلیو پاسپورٹ کے مقابلے میں گوادر کاشغر روٹس میں تبدیلی سے متعلق قرارداد لازمی تھی۔ لوگوں میں شدید تشویش پائی جاتی ہے۔ وزیراعلٰی اور کابینہ کے ارکان وفاق سے رابطہ کریں اور اس گھمبیر مسئلے کو حل کرائیں۔ ایسا نہ ہو کہ پانی سر سے گزر جائیں اور ہم ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔ سینئر صوبائی وزیر سردار ثناء اللہ زہری نے کہا کہ پچھلے دنوں وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے دورہ کوئٹہ کے موقع پر میں نے اپوزیشن ارکان کی وزیراعظم سے ملاقات کروائی۔ وزیراعظم نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ پرانا روٹ تبدیل نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی ایسا کوئی ارادہ ہے۔ یہ محض لوگوں نے ایک شوشہ چھوڑا ہے۔ مولانا عبدالواسع نے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ وزیراعظم نے یقین دہانی کرائی لیکن ہمارے ساتھ ہر وقت وعدے تو کئے جاتے ہیں لیکن بعد میں اس سے روگردانی کی جاتی ہے۔ جب تک روٹ کا باقاعدہ افتتاح نہیں ہوگا، اس وقت تک ہمیں تسلی نہیں ہوگی کیونکہ وزیراعظم نے پنجاب اور کراچی کے درمیان موٹروے کا افتتاح کیا ہے۔ بعد میں یہ بہانہ کریں گے کہ ہم نے تو موٹروے اور تجارتی زون بنا دیئے پیسے خرچ ہوگئے۔ لہذٰا مزید تبدیلی نہیں ہوگی۔

جعفر خان مندوخیل نے کہا کہ گوادر کاشغر روٹ کے حوالے سے اب تک ابہام ہے۔ فوجی آپریشن کے بعد ہمارے ہاں جس مسئلے پر زیادہ بحث ہورہی ہے، وہ گوادر کاشغر اقتصادی روٹ ہے۔ ہماری معلومات کے مطابق جب تک موٹروے کا ایم 4 سیکشن نہیں بنے گا، اس وقت تک یہ ابہام رہے گا۔ ایسا نہ ہو کہ موٹروے وہ گوادر رتھوڈیرو، لاہور، ایبٹ آباد روٹ پر بنادے اور کہا جائے کہ اگر کوئی ہائی وے استعمال کرنا چاہتا ہے تو وہ خضدار، مستونگ، کوئٹہ، ژوب ہائی وے کو استعمال کریں مگر ایک بات واضح ہے کہ جہاں موٹروے بنے گا وہاں لوگ ہائی وے استعمال نہیں کریں گے۔ اگر روٹ تبدیل ہوا تو ہمیں شدید نقصان ہوگا۔ مولانا عبدالواسع نے کہا کہ گوادر، خضدار، مستونگ، کوئٹہ، ژوب، ڈیرہ اسماعیل خان روٹ کا سروے ہوا ہے اور اس میں 12 سو سے زائد کلو میٹر کا فاصلہ کم ہورہا ہے۔ ڈاکٹر حامد اچکزئی نے کہا کہ گوادر کاشغر اقتصادی روٹ سے یہاں کے پشتون بلوچ اقوام کو بہت فائدہ ہوگا۔ گوادر کے حوالے سے چین کے الگ اور ہمارے الگ مفادات ہیں۔ گوادر میں بریفنگ کے دوران میں نے وزیراعظم نواز شریف کو راحیل شریف کی موجودگی میں کہا کہ بریفنگ میں جو نقشہ دیا گیا وہ صحیح نہیں۔ بلکہ یہ روٹ خضدار ، مستونگ ، کوئٹہ ، ژوب تا ڈیرہ اسماعیل خان تک ہے۔ اگر یہ روٹ تبدیل کیا گیا تو عوام کو مایوسی ہوگی۔ اس روٹ کے ساتھ ساتھ ریلوے لائن بھی بچھائی جائے گی۔ جنرل مشرف نے ریلوے لائن کو بچھانے کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن اب تک ان کو عملی جامع نہیں پہنایا گیا۔

محمود خان اچکزئی نے نواز شریف کے ساتھ اس مسئلے کو اٹھایا ہے اور تجویز دی ہے کہ تمام پارٹیوں کے سربراہوں کو بلا کر متفقہ حل نکالا جائے۔ وزیراعظم نواز شریف نے اس حوالے سے تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لینے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ حمل کلمتی نے کہاکہ جب یہ روٹ گوادر سے رتوڈیرو، ایبٹ آباد، پشاور تک جائے گی تو اس کا فاصلہ 3 ہزار 2 سو کلومیٹر بنتا ہے۔ اگر یہ روٹ گوادر، تربت، خضدار، کوئٹہ، ژوب، ڈیرہ اسماعیل خان تک بنے گی۔ تو اس کا فاصلہ 12 سو کلو میٹر کم ہو جائے گا اس سے مکران ڈویژن کو بھی فائدہ ہوگا۔ اجلاس کے دوران راحیلہ درانی نے بتایا کہ 26 فروری تک موبائل سم کی تصدیق کی آخری تاریخ دیدی گئی ہے۔ کمپنیوں کے پاس 2003ء کے شناختی کارڈ کا ریکارڈ موجود نہیں۔ جس کی وجہ سے تصدیق کے عمل میں لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو لاکھوں سم بند ہو جائیں گے اور 48 فیصد لوگوں کو مشکل پیش آئے گی۔ نادرا کو چاہیئے کہ وہ موبائل کمپنیوں کو شناختی کارڈ کے حوالے سے مکمل ڈیٹا فراہم کریں۔ محمد خان لہڑی نے کہا کہ میرے حلقے میں پانی کا بحران ہے بارش اور بجلی نہ ہونے کی وجہ سے زمینداروں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ ڈھائی لاکھ ایکڑ گندم کی کاشت تباہ ہونے کا خدشہ ہے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ سندھ حکومت سے پانی کی فراہمی کے لئے بات کریں۔
خبر کا کوڈ : 442586
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش