1
2
Monday 17 Aug 2015 20:30

طالبان سے مذاکرات کی مخالفت کیوں؟(1)

طالبان سے مذاکرات کی مخالفت کیوں؟(1)
تحریر: عرفان علی

افغان حکومت اور طالبان کے مابین پاکستان کے ذریعے مذاکرات، اس تحریر کا اصل موضوع ہے۔ ملا عمر کی موت کی خبر کے بعد فی الحال یہ عمل معطل ہے, لیکن امریکا کی خواہش پر یہ عمل دوبارہ ضرور شروع کئے جانے کا امکان ہے۔ اس لئے اس موضوع پر اپنا زاویہ نظر بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ مذاکراتی عمل کے بارے میں پہلے آپ فروری 2015ء میں دنیا بھر میں نشر ہونے والی خبروں پر غور فرمائیں۔ 18 اور 19 فروری 2015ء کی درمیانی شب میں نے ان خبروں کی بنیاد پر ایک تجزیاتی رپورٹ میں لکھا تھا کہ: ’’جمعرات کے روز تین مختلف غیر ملکی ذرائع ابلاغ کی جانب سے طالبان کے امریکا سے مذاکرات کی مختلف خبروں نے دنیا میں تہلکہ مچا دیا۔ اصل میں تہلکہ پہلی خبر نے مچایا اور اس کے بعد دو دیگر خبروں میں فریقین کی جانب سے ڈیمیج کنٹرول کی پالیسی اختیار کی گئی۔ خبر یہ تھی کہ طیب آغا کی قیادت میں افغان طالبان کا ایک وفد قطر کے دارالحکومت دوحہ میں موجود ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلے یہ خبر فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے نمائندے نے دی تھی، لیکن دنیا بھر میں اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا گیا تھا۔ امریکی این بی سی نیوز کے مطابق طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے تصدیق کی ہے کہ ان کا وفد قطر میں ہے، لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ وہ قطر کس ایجنڈا کو لے کر گیا ہے۔ چند گھنٹوں کے بعد الجزیرہ چینل جس کا ہیڈ کوارٹر قطر ہی میں ہے، نے وائٹ ہاؤس کی خاتون ترجمان برناڈت میھان کی جانب سے تردید کی خبر دی۔ انہوں نے کہا کہ افغان مفاہمت کی پالیسی کی حمایت تو کرتے ہیں، لیکن امریکا خود مذاکرات نہیں کر رہا۔ تیسری خبر رائٹر نیوز ایجنسی نے کابل اور اسلام آباد کی ڈیٹ لائن سے دی کہ ایک فوجی افسر جو چیف آف آرمی اسٹاف کے قریب ہے، انہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ رواں ہفتے میں جنرل راحیل شریف نے افغان صدر اشرف غنی کو بتایا کہ طالبان مارچ تک مذاکرات کے لئے آمادہ ہیں۔ البتہ افغان صدر نے بیجنگ میں مذاکرات کی خواہش ظاہر کی ہے۔

پاکستانی ذرائع ابلاغ میں ان خبروں سے ملتی جلتی لیکن تھوڑی مختلف خبر آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ کا بیان ہے جو افغان مفاہمتی عمل کے بارے میں جاری کیا گیا تھا۔ انہوں نے افغان حکومت اور افغان طالبان کے درمیان امن مذاکرات کے حوالے سے ذرائع ابلاغ کے بعض حصوں میں شائع شدہ خبروں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغان حکومت اور افغان طالبان کے درمیان افغانستان میں پائیدار امن اور استحکام کی غرض سے مصالحتی عمل کا معاملہ افغانستان سے متعلقہ ہر اجلاس میں زیر غور لایا جاتا ہے۔ ترجمان نے کہا کہ پاکستان نے ہمیشہ ایسے عمل کی حمایت کی ہے۔ ان کے بیان کی بنیاد ریاست پاکستان کی افغان پالیسی پر مبنی تھی کہ اٖفغانیوں کی قیادت میں کئے جانے والے ان کے اپنے شفاف مفاہمتی عمل کو جسے وہ own کریں ہم تسلیم کریں گے۔ انہوں نے واضح کیا کہ مفاہمت کے لئے مذاکرات کی کامیابی کا انحصار فریقین پر منحصر ہے۔ پاکستان کے مشہور نیوز چینل نے ان کے بیان میں ایک اور خبر کا حوالہ بھی دیا کہ افغان طالبان آج مذاکرات کے پہلے مرحلے کا آغاز کریں گے۔ رائٹر کی خبر کا لب لباب یہ تھا کہ پاکستان کے اعلٰی عہدیداران بشمول عسکری افسران نے اس ادارے کو بتایا کہ طالبان نے پاکستان آرمی کے توسط سے امن مذاکرات کے اشارے دیئے ہیں۔ کہا گیا ہے کہ چین، افغانستان، پاکستان سہ طرفہ سفارتی روابط میں اضافے کی وجہ سے یہ پیش رفت ہو رہی ہے۔ ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ وہ غیر ملکی افواج کے مکمل انخلاء تک مذاکرات کے حق میں نہیں ہیں۔

راقم الحروف ماضی میں بھی طالبان و امریکا کے مابین رابطوں، ملاقاتوں اور قربتوں کے بارے میں تحلیل و تجزیہ پیش کرچکا ہے۔ طیب آغا جو ملا عمر کے قریبی معتمد ہیں، انہوں نے افغان صدر حامد کرزئی سے امریکی جنگ کے فوری بعد رابطہ استوار کر لیا تھا۔ امریکی و جرمنی انٹیلی جنس اداروں اور سفارتی حکام سے خفیہ ملاقاتوں کی تفصیلات ذرائع ابلاغ میں شائع ہوتی رہیں اور احمد رشید بھی اپنی کتابوں میں انہیں شایع کرچکے ہیں۔ سعودی عرب، قطر اور ترکی کے توسط سے بھی طالبان نے امریکی جنگ کے دوران امریکی حکام سے روابط قائم رکھے ہوئے تھے اور ان کے کئی کمانڈرز پانچ تا دس ہزار ڈٖالرز ماہانہ پر بک چکے تھے۔ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل (ر) درانی بھی ان تعلقات کے بارے میں ایک نیوز چینل کے ٹاک شو میں تفصیلات بیان کرچکے۔ قطر ہی نے طالبان کو دوحہ میں دفتر کھول کر دیا جبکہ ترکی میں بھی ایک دفتر کھولا گیا تھا۔ ترکی اور قطر دونوں ہی افغانستان جنگ میں امریکا کے اتحادی تھے اور اس کی مدد کر رہے تھے۔ پوری دنیا کو معلوم ہے کہ نیٹو ایساف فورسز میں کون کون سے عرب مسلم ممالک شامل رہے۔ افغانستان کو جہنم بنانے کے بعد پاکستان کو دہشت گردوں کی جنت اور پاکستانیوں کے لئے جہنم بنانے والے ان دہشت گردوں کے بارے میں تو سبھی کو معلوم ہے کہ یہ کس کے پے رول پر ہیں، لیکن پاکستان کے عام شہری کے ذہن میں اٹھنے والے اس سوال کا کیا جواب ہے کہ ہزاروں بے گناہ انسانوں کے قاتل، اپنے مخالفین کو امریکا اور اس کے ایجنٹوں کا مخبر اور ایجنٹ قرار دے کر قتل عام کرنے والے طالبان کو پاکستانی حکومت مذاکرات کی سہولت کیوں دینا چاہتی ہے۔ طالبان اور امریکا افغانستان میں اپنا فکسڈ میچ کھیل چکے۔ اب کیا پاکستان کے حکام ماضی کی غلطیوں کو دہرانے کی ایک اور غلطی کریں گے۔؟

اس تجزیاتی رپورٹ کے بعد بات کرتے ہیں 7 جولائی 2015ء کے مذاکرات کی جو پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد سے قریب مری کے مقام پر منعقد ہوئے۔ ’’مری امن عمل‘‘ کے عنوان سے شناخت کئے جانے والے اس مرحلے میں افغان حکومت اور طالبان کی جانب سے نامزد کردہ نمائندگان کے علاوہ پاکستان، امریکا اور چین کے نمائندوں نے بھی شرکت کی۔ طالبان اور افغان حکومت کے نمائندگان نے اعتماد سازی کے لئے مذاکرات جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔ خبریں یہ بھی تھیں کہ اگلا راؤنڈ چین کے شہر ارومچی میں 30 جولائی کو ہوگا لیکن 29 جولائی کو یہ خبر آئی کہ جمعہ 31 جولائی کو مری ہی میں اگلا راؤنڈ منعقد ہوگا جبکہ ملا عمر کی ہلاکت کی خبر کے بعد پاکستانی دفتر خارجہ نے مذاکرات کے دوسرے راؤنڈ کو موخر کرنے کا اعلان کیا ہے۔ افغان حکومت کی جانب سے قومی مفاہمت کی غرض سے ستمبر 2010ء میں ایک ادارہ ’’شوریٰ عالی صلح‘‘ قائم کیا گیا تھا، جس کے بانی سربراہ برہان الدین ربانی تھے۔ اس ادارے کی اسلامی حکمت سورۃ الحجرات کی آیت نمبر 10 بیان کی گئی، جس کا اردو مفہوم ہے کہ مومنین آپس میں بھائی ہیں، پس تم اپنے بھائیوں میں صلح کرو۔ اسی شوریٰ عالی صلح کے ایگزیکیٹیو بورڈ کے سینیئر رکن حاجی عزیز اللہ دین محمد نے 9 جولائی 2015ء کو مری امن عمل کے بارے میں بریفنگ دی۔ افغان وفد نے انہی کی قیادت میں پاکستان کا دورہ کیا تھا اور دیگر اراکین میں حکمت خلیل کرزئی، محمد عاصم، محمد ناطقی، اسداللہ ساداتی اور فرہاد اللہ فرہاد شامل تھے۔ ان سبھی نے افغان صحافیوں کو ماضی میں ہونے والی کوششوں اور مری امن عمل کی تفصیلات بتائیں۔ انہوں نے کہا کہ امن قائم کرنے کے لئے بڑی قربانیاں پیش کی ہیں۔ برہان الدین ربانی سمیت ان کے کئی مرکزی رہنماؤں اور صوبائی رہنماؤں کو شہید کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ یہ ادارہ سابق افغان صدر حامد کرزئی نے بنایا تھا۔

طالبان سے مذاکرات کی طویل تاریخ ہے، جو مختلف اوقات میں مختلف شخصیات نے بیان کی تھیں۔ افغان امور پر پاکستان کے احمد رشید دنیا بھر میں شہرت کے حامل ہیں، انہوں نے اور دیگر صحافیوں نے افغان طالبان کے امریکی و یورپی حکومتوں سے براہ راست مذاکرات اور افغان صدر حامد کرزئی سے مذاکرات، سعودی حکومت کی میزبانی میں مذاکرات وغیرہ کے بارے میں بعض تفصیلات بیان کیں۔ افغان شوریٰ عالی صلح کے حاجی عزیز اللہ دین محمد نے بھی بالواسطہ مذاکرات کی تصدیق کی۔ مذاکرات کار حاجی عزیز اللہ نے پریس بریفنگ میں بتایا کہ اوسلو (ناروے)، قطر اور دبئی میں جو ملاقاتیں یا اجلاس ہوئے، وہ اس امن عمل کا پرائمری مرحلہ تھا۔ یہ نکتہ بھی فراموش نہیں کیا جانا چاہئے کہ طالبان کے سابق رہنما ارسلان رحمانی بھی اس شوریٰ کے رکن تھے اور انہیں بھی شہید کیا گیا۔ اس شوریٰ کے اہم اراکین میں پیر سید احمد گیلانی، عبد الرسول سیاف اور صبغت اللہ مجددی ہیں۔ برہان الدین ربانی شہید کا بیٹا صلاح الدین ربانی اس اہم ادارے کا سربراہ ہے۔ افغان وفد کی قیادت کرنے والے حاجی عزیز اللہ نے مری امن عمل میں چار نکات کو اہم کامیابی قرار دیا ہے۔
(1) سارے شرکاء نے اس مثبت عزم کے ساتھ شرکت کی کہ افغان مسئلے کو پرامن طریقے سے حل کریں۔
(2) سبھی نے اتفاق کیا کہ ان ایڈہاک ملاقاتوں کو وسیع سمجھوتوں کے عمل میں تبدیل کریں کہ جس کے ذریعے فریقین افغانستان کی سلامتی اور پائیدار امن کو یقینی بنانے کے لئے خلوص سے آگے بڑ ھیں۔
(3) فریقین مزید اعتماد سازی کے لئے ضروری اقدامات پر متفق ہوئے مطالبات اور شکایات کی فہرست تیار کرنے پر بھی اتفاق پایا گیا۔ یہ ایشوز اگلے مراحل میں مزید واضح ہوتے جائیں گے۔
(4) اگلے اجلاس کی ایک حتمی تاریخ و مقام اور واضح ایجنڈا پر اتفاق کہ جہاں قتل عام اور بے قصور عوام کے خون بہانے کے سلسلے کو ختم کرنے کے لئے میکنزم طے کرنے کے لئے تفصیلی ڈسکشن ہوگی۔

سب سے اہم بات فیض اللہ ذکی نے بتائی کہ افغان صدر اشرف غنی طالبان سے مذاکرات میں بعض ریڈ لائن بیان کرچکے ہیں، اور یہ افغانستان کے آئین کا باب اول اور دوم ہے۔ باب اول میں ریاست کی اتھارٹی اسلام کو قرار دیا گیا ہے اور باب دوم میں افغان شہریوں کے حقوق اور فرائض کا تذکرہ ہے۔ ان کے مطابق یہ موضوعات مذاکرات سے خارج ہیں اور آئین میں دیگر ترامیم کے مطالبات پر تعمیری مذاکرات ہوسکتے ہیں۔ محمد ناطقی نے بتایا کہ ماضی کی نسبت اب کے مذاکرات میں فرق یہ ہے کہ افغان حکومت اور طالبان کی لیڈرشپ کاؤنسل (شوریٰ) کے اراکین کے مابین رسمی اور براہ راست مذاکرات ہو رہے ہیں۔ انجینیئر محد عاصم نے کہا کہ طالبان وفد ملا اختر محمد منصور کی اجازت سے لیڈرشپ کاؤنسل کی نمائندگی کر رہا تھا۔ افغان وفد کے اراکین نے پاکستان کا شکریہ ادا کیا کہ اس نے سہولت کار کا کردار ادا کیا۔
(جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 480416
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
ایک اور معلوماتی تحریر، شکریہ
ہماری پیشکش