0
Wednesday 10 Feb 2016 08:30

مشرف دور کے منصوبوں کو اقتصادی راہداری سے جوڑ کر جھوٹے دعوے کئے جارہے ہیں، اختر مینگل

مشرف دور کے منصوبوں کو اقتصادی راہداری سے جوڑ کر جھوٹے دعوے کئے جارہے ہیں، اختر مینگل
اسلام ٹائمز۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر جان مینگل نے کہا ہے کہ بلوچستان کے وسائل کو لوٹنے کے طریقہ کار میں تبدیلی آگئی ہے۔ طرز فکر اب بھی وہی ہے۔ گوادر کاشغر اقتصادی راہداری میں بلوچستان کو اب تک کچھ حاصل نہیں ہوا۔ مہاجرین کی موجودگی میں ہونیوالی مردم شماری ہمارے لئے کسی صورت بھی قابل قبول نہیں۔ اداروں کی نجکاری مسائل کا حل نہیں، نقصانات کے ازالے کیلئے موثر پالیسیاں مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ صاحب اقتدار کے دعوے اپوزیشن میں کچھ اور حکومت میں کچھ اور ہوتے ہیں۔ گوادر کاشغر اقتصادی راہداری سے متعلق ہمارے تحفظات تاحال برقرار ہیں۔ اس منصوبہ میں اب تک بلوچستان کو کچھ حاصل نہیں ہو رہا، ہم سمجھتے ہیں کہ بلوچستان کے وسائل کی لوٹ کھسوٹ کا طریقہ کار بدل گیا ہے۔ سوچ اب بھی ہوئی ہے۔ جس روٹ کا افتتاح کیا جا رہا ہے یہ مشرف دور میں ہی واضح کر دیا گیا تھا اور اس پر کام بھی شروع تھا تاہم مذکورہ ٹھیکیدار آدھے میں ہی کام چھوڑ کر فرار ہوگیا تھا۔ حکمران ان منصوبوں کو کس طرح گوادر کاشغر اقتصادی راہداری سے جوڑ رہی ہے۔ 46 بلین جو اس منصوبے کی مد میں حاصل کئے گئے ہیں اس کے حوالے سے بتایا جائے کہ اس کی سرمایہ کاری بلوچستان کے کس حصہ میں کی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اورنج ٹرین اور توانائی کے منصوبے بلوچستان میں نہیں لگ رہے۔ اس رقم سے اب تک صرف گوادر کو ایک انٹرنیشنل ایئرپورٹ دیا جارہا ہے، جو حکمرانوں کی اپنی ضرورت ہے۔ ہم نے آل پارٹیز کانفرنس میں تمام جماعتوں کے سامنے اس حوالے سے اپنے تحفظات رکھ دیئے تھے اور تمام جماعتوں نے اس پر اتفاق کا اظہار کرتے ہوئے اس لائحہ عمل پر دستخط کئے کہ گوادر کاشغر اقتصادی راہداری میں بلوچستان کو اس کے حقوق دیئے جائیں۔

سردار اختر جان مینگل کا مزید کہنا تھا کہ آئین سازی کرتے ہوئے ایک قانون مرتب کیا جائے۔ اب ان تمام جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس ضمن میں اپنا موقف واضع طور پر حکمرانوں کے سامنے رکھیں۔ آئندہ ہونیوالی مردم شماری سے ہمیں تو طرح طرح کے خدشات ہیں۔ پہلے تو ہمیں یہ بتایا جائے کہ بلوچستان کے ان بلوچ علاقوں میں مردم شماری کیسے کی جائے گی، جہاں عام انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ہو پا رہا تھا۔ جو نہایت ایک آسان کام ہے، جہاں ووٹر خود پولنگ اسٹیشن تک آتے ہیں۔ مگر یہاں عملے کو گھر گھر جانا ہوگا اور تمام معلومات اکٹھی کرنی ہوگی۔ یہاں پر تو صوبائی دارالحکومت میں پولیو ٹیموں کو تحفظ حاصل نہیں اور ان پر حملے کئے جاتے ہیں۔ ایسے میں مردم شماری کرنے والے عملے کو کس طرح سکیورٹی فراہم کی جائے گی۔ جبکہ دوسری جانب یہاں پر لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین آباد ہیں، ان میں سے بہت سے مہاجرین نے شناختی کارڈ بھی بنوالئے ہیں۔ تو ایسا کونسا طریقہ کار اپنایا جائے گا جس سے ان افغان مہاجرین کو مردم شماری سے نکالا جاسکے گا۔؟ تاہم ہم یہ واضح کردینا چاہتے ہیں کہ اس قسم کی مردم شماری کو ہم کسی صور ت قبول نہیں کریں گے۔ جس میں مہاجرین کی موجودگی کا عنصر پایا جاتا ہو۔ انہوں نے پی آئی اے کی نجکاری کے حوالے سے کہا کہ کسی بھی ادارے کی نجکاری مسائل کا حل نہیں ہوتی۔ یہاں صرف ایک ہی ادارہ نہیں جو نقصان میں جارہا ہے دیگر اداروں کو بھی نقصان کا سامنا ہے۔ اگر نقصان کے ازالے کی یہ روش اپنائی گئی تو تمام اداروں کی ہی نجکاری کر دی جائے۔ لہٰذا میں سمجھتا ہوں کہ اس طرح کے فیصلوں کے دور س نتائج برآمد نہیں ہوسکتے۔
خبر کا کوڈ : 519645
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش